بنت الہد’ی ایک توحید پرست کردار
سیدہ گل فروا نقوی
اسسٹنٹ پروفیسرگورنمنٹ ایلیمنٹری کالج آف ایجوکیشن کراچی
اس جہان ِ فانی میں ہمیں توحید پرست اور یکتا پرست کثرت سے نظر آتے ہیں لیکن حقیقتاً ایسے افراد کم ہیں جن کا عمل ان کی توحید پرستی اور ایمان کی گواہی دیتا ہےکیونکہ صرف ایک عقیدہ توحید میں بہت سے مخفی پیغامات اور اعتقادات چھپے ہوئے ہیں مثلاً توحید کی گواہی دینے کے لیے سب سے پہلے جو کلمۂِ حق زبان سے ادا کیا جاتا ہے اس کے الفاظ ہیں؛
لا اله الا الله
الله کے سوا کوئی لائقِ عبادت و بندگی نہیں
اس کلمۂِ حق کا پہلا حصہ لا الہ ہے یعنی کوئی بندگی کے لائق نہیں گویا اللّٰہ کی وحدانیت کا اقرار کرنے سے پہلے تمام طاقتوں اور خواہشات کی نفی کی جاتی ہے اور اس کے لیے لازم ہے کہ بیرونی طاقتوں اور طاغوت کی نفی کرنے سے پہلے انسان اپنی ذاتی خواہشات اور نفس کی غلامی سے انکار کرے اس کے بعد ہی توحید پر ایمان اپنے کمال تک پہنچ سکے گا یہی کافی نہیں بلکہ انسان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی دنیاوی خواہشات پوری نہ ہونے کا خوف دل سے نکال دے بصورت دیگر اس کے دل میں خشیت اور توکل پیدا نہیں ہوگا یعنی توحید پر ایمان کے لیے لازمی شرط ہے کہ دنیا کی محبت اور خوف سے لاتعلقی اور بے نیازی کا اظہار کرے اور مذکورہ صفات کا حامل فرد ہی جرات مند اور شجاع کہلانے کا حقدار ٹھہرایا جائے گا.
اس معیار کو مدنظر رکھتے ہوئے حقیقی توحید پرست بہت کم نظر آتے ہیں لیکن جہاں صاحب ِ ایمان مرد توحید پرستی کا عملی ثبوت بن کر ہمارے سامنے آتے ہیں وہاں بہت سی خواتین کی زندگی بھی توحید پرستی کا عملی ثبوت ہےجن میں سب سے پہلی خاتون جناب ِسارہ ہیں جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زوجہ بننے سے پہلے ایمان لا چکی تھیں اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ ساتھ نمرود کی سختیاں برداشت کرتی رہیں اور ان معظمہ کے بعد جناب آسیہ ہیں جو فرعون جیسے شوہر کے سامنے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پرورش کا ذریعہ بنیں اگرچہ ایک لمبی مدت تک آپ کو اپنے ایمان کو چھپانا پڑا لیکن ایمان ظاہر ہونے کے بعد فرعون کی طرف سے ہونے والے مظالم کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور اللّٰہِ کے خوف سے فرعون کے ظلم و تشدد کے سامنے سر نہ جھکایا.
ظالموں سے دلیرانہ جنگ کرنے والی خواتین میں جناب ِ مریم، جناب ِ خدیجۃ الکبریٰ، بی بی فاطمہ سلام اللہ علیہا اور جنا بِ زینب بنت ِ علی کے تذکرے کو نہ صرف نظر انداز نہیں کیا جاسکتا بلکہ درحقیقت ان شخصیات کی زندگی ہدایت اور رہنمائی کی طلبگار خواتین کے لئے مشعل ِراہ ہے.
مومنہ خواتین کے لئے لازم ہے کہ جناب ِ خدیجہ، جناب فاطمہ زہرا اور جناب ِزینب علیہم السلام کی حیات طیبات کا مطالعہ کریں اور ان کے عمل کی روشنی سے اپنی زندگی کو منور کریں اور دیکھیں کہ عورت کاحوصلہ بلندہو تو اللّٰہ کے حبیب کی نصرت و حمایت کے لیے کس طرح سب کی مخالفت اور مصائب و آلام کا سامنا کر سکتی ہےکہ ملیکۃ العرب ہونے کے باوجود شعب ِ ابیطالب میں محصوری کی بدولت فاقوں کی نوبت آجائے لیکن ایمان متزلزل نہ ہونے پائے اور ان ہی خاتون ِ پر عزم کی بیٹی جناب فاطمہ ہیں جنہوں نے اپنے شوہر اور اپنے حقوق کی جنگ تنہا لڑی پہلو زخمی ہواپسلی شکستہ ہو گئی محسن قربان ہو گئے لیکن بی بی کے صبر و حوصلے اور ثابت قدمی میں کوئی کمی نہ آئی یہی عزم و حوصلہ نسلاًمنتقل ہوتا ہوا جناب زینب سلام اللہ علیہا تک پہنچا جنہوں نے بھائی کا سر کٹتے ہوئے دیکھا لیکن ہمت و حوصلہ کے ساتھ نہ صرف بیواؤں اور یتیموں کی خبرگیری کی بلکہ وقت کے امام کے سامنے آہنی دیوار بن کر کھڑی رہیں اورفوج ِیزید کی امامت کا سلسلہ ختم کرنے کے ارادے کو خاک میں ملا دیااور ان عظیم ہستیوں کے راستے پر چلنے والی بےخوف توحید پرست اور نعرۂِ تکبیربلند کرنے والی خواتین کو عصر ِ حاضر میں دیکھنے کے مشتاق لوگ ان کی کنیز آمنہ بنت الہد’ی کو دیکھیں اور وہ لوگ بھی اس چراغ سے روشنی حاصل کریں جو زمانہ کو اپنے عمل کی دلیل بناتے ہیں اور تاریخ ِ اسلام کو چودہ سو سال پرانی بات کہہ کر نظر انداز کر دیتے ہیں وقت بدلا ہے اس لئے ظلم کے انداز ضرور بدلے ہیں لیکن نہ ظالم کی سوچ بدلی ہے اور نہ ہی ایمان کی راہ پر چلنے والوں کے عزم و استقلال میں کوئی کمی آئی ہے جسکی واضح مثال آمنہ بنت الھد’ی کی زندگی ہے جنہوں نے صدام جیسے ظالم سے بے خوف ہو کر دین کی سر بلندی اور اس کی تعلیمات کے فروغ کے لیے کام کیا اور اس کار ِ خیر کی راہ میں حائل ہونے والی کسی بھی ناگہانی آفت، حالات اور واقعات کو تاخیر یا بزدلی کا سبب بننے نہیں دیا جس کی دلیل کاظمین کے مدارس میں پہنچنے کا وہ واقعہ ہے جب بارش اور طوفان کے سبب تمام راستے خطرے کا اعلان کر رہے تھے.
یہی نہیں بلکہ آمنہ اپنی تمام طالبات اور شریکِ کار خواتین کو نصیحت کیا کرتی تھیں کہ اصل عزت و آبرو صرف دین کی آبرو ہے گویا آپ یہ بات سمجھانا چاہتی تھیں کہ حجاب واجب ہے لیکن اگر دین کو چادرِ زینب کی ضرورت پڑے تو دین کو اولیت دی جانی چاہیے. یہی وجہ ہے کہ اس دور میں جب خواتین اپنی بے حرمتی اور آبرو ریزی کے خوف سے خاموش تصویر بن گئی تھیں بنت الھد’ی نے ایک بے خوف توحید پرست خاتون ہونے کا کردار ادا کیا اور مسلمان خواتین کے لئے ایک ایسی مثال قائم کی جو جو جرأت، شجاعت، غیرت اور دینی حمیت کا مرقع ہے.
یہاں تک کہ آپ پر ایک طویل مدت تک ایسےمظالم ڈھائے گئے کہ ایک حساس دل ان کو سن کر آبدیدہ ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا لیکن آمنہ بنت الھد’ی نے اس صبر و ضبط اور ہمت و حوصلہ کے ساتھ اپنی جان اپنے رب کے سپرد کردی جس کے علاوہ کسی چیز کا خوف آمنہ کے عزائم کو متزلزل نہ کر سکالیکن اس جہان فانی سے جاتے جاتے اس دور کی خواتین کو بتا دیا کہ اعلان ِ کبریائی امتحان اور جہد مسلسل کا متقاضی ہے اور اس امتحان میں کامیابی ان ہی لوگوں کے قدم چومتی ہے جو اللہ کے علاوہ کسی بھی طاقت کو خاطر میں نہ لائے اور توحید پرستی درحقیقت آزمائش و ابتلا میں ثابت قدم رہنے کا نام ہے.
حالیہ دور میں دین کی اہم ترین ضرورت ثابت قدمی اور استقلال ہے یعنی دین کو ایسے مرد و زن کی ضرورت ہے جو عصر ِ حاضر کے طاغوت سے ٹکرا سکیں لیکن اس کام کے لیے مصلحت اندیشی اور فہم و فراست کی ضرورت ہے جو جذباتیت سے دور ہو کیونکہ یہ وہ فتنہ پرور دور ہے جس کی نشاندہی خاتم الانبیاء اور ان کی آل نے کردی تھی اور ان حالات میں مومنین کی رہنمائی کے لئے احادیث ِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اوراحادیث آئمہ علیہم السلام بھی کثرت سے موجود ہیں اور عملی مظاہرے دیکھنے کے لئے تاریخ ِ کربلا و شام مشعل ِ راہ کا کام کرتی ہے صرف یہی نہیں دورِ حاضر میں عراقی مومنین کی جد وجہد، جذبۂ ایثار و قربانی، صبر و استقلال اورجرات دنیا بھر کے مومنین کو اپنی طرف متوجہ ہونے پر مجبور کردیتی ہے کیونکہ کوتاہ نظر لوگ آئمہ علیہم السلام اور اہل ِبیت کی عظیم قربانیوں کو بہت احترام سے سننے اور ان پر گریہ کرنے کے باوجود اس سے کچھ سیکھنے کو تیار نہیں اور یہ کہہ کر بات ختم کر دیتے ہیں کہ ہمارا اور آئمہ کا کوئی مقابلہ نہیں۔ وہ کہاں ہم کہاں؟ لیکن عصرِ حاضر میں ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جو آئمۂ ِ اہل ِبیت کے نقش قدم پر چلتے ہوئے قربانیاں دے کر ان کے خاص غلاموں اور کنیزوں میں شامل ہوجاتے ہیں جن میں سے ایک خاندان ِ صدر ہے جس میں آیت اللہ باقر الصدر اور آمنہ بنت الھد’ی نمایاں ہیں بالخصوص آمنہ بنت الھد’ی نے صبر و ضبط کی وہ مثال قائم کی جس کو دیکھ کرفرزندان ِ آدم بھی انگشت بدنداں نظر آتے ہیں۔ یہ وہ میدان ِ کارزار ہے جہاں بڑے بڑے سورما لڑکھڑا جاتے ہیں لیکن قید و بند کی سختیاں اورنت نئی اذیتوں کی بھرمار بھی آمنہ کے قدم نہ اکھاڑ سکی. اس دور کی ہر مومن خاتون کواس جذبہ، جرات، صبراور ثابت قدمی کی ضرورت ہے کیونکہ
پھر سر اٹھا رہے ہیں نئے دور کے یزید
دنیا کو آج پھر ہے ضرورت حسین کی
اور حسینی کردار کی اشاعت کے لئے زینبی کردار کی ضرورت بھی باقی ہے کیونکہ جہاں حسین علیہ السلام وہاں زینب سلام اللہ علیہا ۔یہی بات سمجھانے کے لیے بنت الہدی نے اپنے بھائی کا ساتھ نہ چھوڑا اور کنیز زینب سلام اللہ علیہا نے زینب ہونے کا دعویٰ نہیں کیا لیکن دشمن کو یہ کہنے پر مجبورکردیا کہ میں یزید والی غلطی نہیں دہراؤنگا اور بھائی کے ساتھ ہی بہن کا قصہ بھی تمام کر کے دم لونگا لیکن
وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے
آمنہ مومنوں کے دلوں میں آج بھی زندہ ہیں جبکہ دشمن کا نام و نشان بھی اپنے اجداد کی طرح خاک میں مل چکا ہے پس سبق لینے والوں کے لئے دو راستے سامنے ہیں ایک داستان ِعبرت بننے والے کا اور ایک توحید پرستی کی بدولت بے خوف و خطر فرعون ِ وقت سے ٹکرانے والا اب اپنے صوابدید پر ہے۔ انسان جس کے راستے پر چاہے چلےاور اپنی مطلوبہ منزل تک پہنچ جائے . واللہ اعلم بالصواب.