سید محمد باقر صدر ولادت سے شہادت تک

خاندانی پس منظر

باقرصدر کا شجرہ نسب ٣١ ویں واسطے سے امام موسی کاظم سے جاملتاہے۔ سیدمحمد باقر الصدر ابن سید حیدر ابن سید اسماعیل،ابن سید صدر،ابن صالح،ابن سید محمد،ابن سید ابراہیم شرف الدین،ابن سید زین العابدین،ابن سید نور الدین،ابن سید حسین،ابن سید محمد،ابن سید حسین،ابن سید علی،ابن سید محمد ،ابن سید تاج الدین،ابن سید محمد،ابن سید عبداللہ، ابن سید احمد،ابن سید حمزہ، ابن سید سعد اللہ، ابن سید محمد ،ابن سید علی، ابن سید عبداللہ،ابن سید محمد،ابن سید طاہر،ابن سید حسین،ابن سید موسی، ابن سید ابراہیم مرتضیٰ ابن امام موسیٰ ابن جعفر ([1])

 سید محمد باقر صدر کے خاندان  کونجابت وشرافت کے سبب، اسلامی  اور دنیائے تشیع کے علمبردار،مظلوموں کی پناہ گاہ  اور علم واجتہاد کے میدان میں نمایاں مقام حاصل رہا ہے۔آپ کا تعلق ایسے علمی خاندان سے ہے جس میں علما اورمفکرین پیدا ہوئے ہیں۔جنہوں نے عراق،ایران اورلبنان میں اپنے علم اور قائدانہ صلاحیتوں سے اسلام کی گراں قدر خدمت  انجام دیں۔ اور مختلف ادوار میں القاب اور عناوین  کے ذریعے پہچانے جاتے ہیں ان میں سے بعض  القاب درج ذیل ہیں۔١۔آل ابی سبحہ،٢۔ آل حسین القطعی٣۔ آل عبداللہ          ٤۔ آل ابی الحسن٥۔ آل شرف الدین.٦۔آل صدر

خاندان صدر:

جو کہ اس خاندان کا آخری لقب ہے آپ کے جد اعلیٰ السید الصدر(صدر اول)،آیت اللہ محمد تقی شیرازی کے بعد مسند مرجعیت پر جلوہ افروز ہوئے اور عوام کی قیادت کی۔ آپ کے برادر بزرگوار سید اسماعیل الصدر نے آپ کی پرورش کی اور آپ کو علوم اسلامیہ سے مزین کیا۔

سید محمد صدر:آپ ٢١ ذی القعدہ ١١٩٣ کو لبنان کے شہر جبل عامل میں پیدا ہوئے اورآپ اپنے زمانے کے فقیہ،ادیب اور معروف شعرا میں شمار ہوتے تھے یہی وجہ ہے کہ ١٣ سال کی عمر میں ہی صاحب ریاض،علامہ میر سے اجتہاد کی اجازت ملی۔ ([2])

موسی صدر:آپ لبنان میں شیعوں کے تنظیمی رہبراور رہنما ہونے کے علاوہ مشہور تنظیم ‘امل” کے محرک،موسس اور قائد بھی تھے۔

سید عبد الحسین شرف الدین:آپ نے لبنان کے جبل عامل میں زندگی بسر کی اور آپ کی تصنیفات میں ”المراجعات”([3])”الاجتہاد والنص” اور دیگر کتابیں معروف ہیں۔

سید اسماعیل صدر:آپ باقرصدر کے جد امجدتھے۔١٢٥٨ میں اصفہان میں پیدا ہوئے،اپنے والد سید صدرالدین عاملی کی رحلت کے بعد اپنے بڑے بھائی سید محمد علی کے زیر نظر پرورش پائی اور ابتدائے جوانی میں ہی علمی اور بڑی شخصیات میں شمار ہونے لگے۔

 سید محمد باقر صدر کے والدسید حیدرصدر

سید حیدر، سید اسماعیل الصدر کا آخری بیٹا ہے جو ١٣٠٩ ھ کو سامرا میں پیدا ہوئے،سید حیدر نے اپنے باپ کےساتھ سامرا سے کربلا  کی طرف ہجرت کی آپ نے ابتدائی علوم اور عربی کو مختلف اساتذہ سے سیکھنےکے بعد سید حسین فشارکی اور آیت اللہ حائری یزدی کے درس میں شرکت کی۔امام شرف الدین  آپ کی سوانح حیات تحریر کرتے ہوئے فرماتے ہیں : سید حیدر  کم عمری ہی سے فقہ اور اصول میں اس مقام پر فائز تھے کہ آپ کو اسلامی تاریخ میں نمایاں شخصیت کے طور پر پہچانتے ہیں ۔[4]آپ کو اللہ نے دو بیٹے اور ایک بیٹی عطاکی ۔

١۔سید اسماعیل صدر     ٢۔ سید محمد باقر صدر ٣۔ آمنہ بنت الہدیٰ

والدہ گرامی:آپ کی والدہ شیخ عبدالحسین آل یٰسین کی صاحبزادی تھیں۔آل یٰسین عراق کی تاریخ میں ایک مانا ہوا علمی خاندان ہے۔والد شیخ عبدالحسین اپنے زمانے کے برجستہ مجتہد تھے۔آپ ایک پرہیزگار،متقی اور باعفت خاتون تھی، جنہوں نے ایسی اولاد کی تربیت کی جو اپنے زمانے کے نابغہ روزگار تھیں۔

ولادت اور محل ولادت

سید محمد باقر صدر ٢٥ ذیقعدہ ١٣٥٣ھ کاظمین(بغداد) میں پیدا ہوئے۔([5]) اور آپ  اپنے والدکی دوسری اولادتھی آپ کی عمر جب چار سال کی تھی،باپ کا سایہ اٹھ گیا اور آپ کی یتیمی کا دور آگیا۔باپ کے انتسقال کے بعد آپ کی تربیت والدہ او ر آپ کے بڑے بھائی سید اسماعیل کے زیر سایہ ہوئی ۔بچپن  سے ہی آپ کی استعداداور صلاحیت سب پرعیاں تھیں ۔ ساتھ ہی آپ کے مامو ں شیخ محمد رضا آل یاسین نے آپ پر خصوصی توجہ  کی   اور دوسرے ماموں شیخ مرتضیٰ آل یاسین نے بھی آپ کی تربیت پر بہت توجہ دیتے ہوئے آپ کی علمی،اجتماعی اور سیاسی زندگی میں  اہم کردار ادا کیا۔البتہ مالی اعتبار سے آپ کی مدد نہیں کرسکے کیونکہ وہ خود غربت میں زندگی گزارتےتھے ۔ اس طرح آپ نے فقر اور غربت میں زندگی کا آغاز کیا۔

 بچپن  اورسکول

سید محمد باقر صدر  نے پانچ سال کی عمرمیں مدرسہ جانا شروع کیا، اور ابتداسے ہی اپنی صلاحیت اور قابلیت کا لوہا منوایاآ پ اپنےہم عمر اور ہم کلاسوں کے ساتھ کلاس میں بیٹھتے  اور علم حاصل کرتے تھےمگر آپ کی ذہنی صلاحیت  کی وجہ سے ہزاروں طلبا  کے درمیان میں ایک امتیازی مقام حاصل تھا اور تمام اساتذہ کی توجہات اور نظروں کو اپنی جانب کھینچ لیا۔ آپ کی استعداد اور قابلیت کا روز بروز چرچا ہوا۔آپ کی استعداد اور صلاحیتوں کے پیش نظر عراق کی وزارت تعلیم نے آپ کو نابغہ افراد کے سکول میں بھیجنے کی پیشکش کی تاکہ بعد میں یورپ روانہ کر سکے  تاکہ سائنسی  علوم حاصل کر کے وطن واپس  آجائےلیکن آپ کی ماں اور بھائی راضی نہیں ہوئے اور آپ نے خود بھی انکار کیا۔([6])

دینی تعلیم

آپ کے بارے میں خاندان میں اختلاف ہو ا۔ ماں کی خواہش تھی آپ کو دینی تعلیم کے لیے بھیجا جائے اور طلبہ بن  اور دوسری طرف سید محمد صدر(جو وزیر اعظم تھا) آپ کو ایسی راہ کے انتخاب کی تشویق دلارہے تھے جس میں دنیا کی سہولیات اور آسانیاں ہوں،جبکہ حوزہ میں فقر وفاقہ اور غربت کے سو اکچھ نہیں تھا۔ لیکن آپ نے اس راہ کو انتخاب کیا جس میں سختی اور مشکلات تھیں۔آپ نے ١٣ سال کی عمر تک کاظمین میں اپنے بڑے بھائی کے پاس تعلیم حاصل کی اور بہت کم عرصے میں مقدماتی علوم کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ اور ٩ سال کی عمر میں ”منتد ی النشر” نامی اسکول میں داخلہ لیا۔ اور ابتدا سے ہی اس مدرسہ کے مسؤلین اور انتظامیہ کو آپ کی صلاحیتوں اور استعدا د نےحیرت زدہ کردیا۔ا ساتذہ نے شروع سے ہی آ پ کی کوشش اور فکری صلاحیتوں کو ادراک کیا تھا کہ آپ اپنے وسیع مطالعہ اور مختلف موضوعات سے آگاہی کے ذریعے مغرب کے فلسفہ پر مکمل دسترس رکھتے تھے۔([7])

شادی اور بچے

سید محمد باقر صدر نے اپنے چچا کی بیٹی فاطمہ جو موسیٰ صدر کی بہن تھی سے شادی کی، اس سے آپ کی پانچ اولاد ہوئیں، ان میں سے ایک بیٹا جعفر کے نام سے اور پانچ بیٹیاں مرام،حوراء،صباح، نبوغ اور اسماء کے نام سے ہیں۔([8])

حوزہ علمیہ نجف اورا ساتذہ

سید محمدباقر صدر نے ١٣٦٥ ہجری کوبارہ سال کی عمر میں اپنے بھائی کے ساتھ کاظمین سے نجف اشرف کی طرف ہجرت کی ۔حوز ہائے علمیہ  میں دینی طلاب تین مرحلوں میں اپنی تعلیم مکمل کرتے ہیں ۔

پہلا مرحلہ : مقدمات:             دوسرا مرحلہ :سطحیات یا متوسطہ                تیسر امرحلہ :دروس عالی یا درس خارج

آپ نے مقدماتی علوم کو نجف کی طرف ہجرت سے پہلے ہی  اپنی ذاتی کوشش ومحنت اور بڑے بھائی کی مدد سے مکمل کیا۔

آپ دس سال کی عمر میں لیکچرز دیتے تھے اوراعلیٰ مضامین اور علمی مبا حث کو درجہ اجتہاد تک پہنچنے سے پہلے کسی استاد کے بغیر  صرف مطالعہ سے سمجھ لیتے اور گہرائیوں تک پہنچ جاتے تھے۔

آپ نے گیارہ سال کی عمر میں علم منطق کا گہرا مطالعہ کر کے ایک کتاب تصنیف  کی جس میں  منطقیوں پر ایسے اعتراض  اور تنقیدیں کیں جن کا جواب کوئی اور نہیں دے سکا۔١٢ سال میں “معالم الاصول”([9])  کو اپنے بڑے بھائی اسماعیل صدر کے پاس پڑھا، اور صاحب معالم کے بعض نظریات پر بھی تنقید کی۔

آپ نے قلیل مدت میں  دروس متوسطہ  یعنی اللمعہ الدمشقیہ کو استاد شیخ محمد تقی جواہری اورفلسفہ اسلامی کو شیخ صدرا بادکوبہ ای کے پاس پڑھا اور ان سالوں میں مغربی فلسفہ پر تحقیق وتنقید بھی کی۔ اس کے علاہ علم رجال،حدیث،کلام اور درایہ پر بھی کئی سال تحقیق اور مطالعہ کیا، اپنی بے پناہ صلاحیت اور ہوش کے باوجود روزانہ سولہ گھنٹے مطالعہ وتحقیق میں مشغول رہتے تھے ۔ خود کہا کرتے تھے:” میں چند طلبہ کے برابر درس پڑھتا اور کوشش کرتا ہوں”اور دروس عالی کو ذاتی کوشش کے ساتھ  اپنے ز مانے کے دومشہور علمی شخصیات کی شاگردی اختیار کرتے ہوئے تکمیل تک پہنچایا وہ دو علمی شخصیات درج ذیل ہیں۔

۱۔ مرحوم شیخ محمد رضا آل یاسین

٢۔ حضرت آیت اللہ سید ابوالقاسم خوئی،

ان دو شخصیات کے دروس کے ساتھ بعض دیگر اساتذہ کے دروس میں بھی حاضر ہوئے۔

١۔ آیت اللہ شیخ صدرا بادکوئی

٢۔ آیت اللہ شیخ عباس رمیثی

٣۔آیت اللہ شیخ طاہر آل راضی

٤ ۔حجۃ الاسلام والمسلمین سید عبدالکریم علیخان

٥۔حجۃ الاسلام والمسلمین سید محمد باقر شخص

٦۔حجۃ الاسلام والمسلمین سید سید اسماعیل صدر۔([10])

اجتہاد

جب آپ کے استاد شیخ آل یاسین کی رحلت ہوئی تو شیخ عباس رمیثی نے آل یاسین کے رسالہ “بلغۃ الراغبین” پر شرح وتعلیق لکھنا شروع کیا تو باقرصدر کی صلاحیت کو دیکھ کر کو آپ سے مدد طلب کی کہ  استنباط احکام میں اس کے ساتھ شریک ہو، اس بارے میں شیخ رمیثی نے باقر صدر سے کہا کہ ”یقینا تقلید تمہارے لیے حرام ہے”۔ اس طرح  آپ کے اجتہاد کی تصدیق کی۔ اگر چہ خود آپ سے یہ بات نقل کی گئی ہے کہ”جب سے بالغ ہواہوں میں نے کسی کی تقلید نہیں کی”۔ اجتہاد کی اجازت لیتے وقت آپ کی عمر سترہ سال تھی۔

تدریس:

آپ نے سطحیات کو کامیابی کے ساتھ پایہ تکمیل تک پہنچایاا ور درجہ اجتہاد پر فائز ہوگئے، آپ نے حوزہ میں موجود سنتی دروس کے ساتھ فلسفہ کو شیخ صدرا کے پاس پڑھا اور جدید یورپی فلسفہ کا بہت باریک بینی اور گہرائی کے ساتھ مطالعہ کیا۔ اور بیس سال کی عمر میں” کفایۃ الاصول”([11]) کی تدریس  کے ذریعےطلبا کی تربیت کا آغاز کیا۔بعد میں تفسیر قرآن اور فلسفہ کی تدریس بھی کی۔ مرجع بننے کے بعد آپ ائمہ  اہل بیت کی وفات کے ایام میں مختلف  موضوعات پر گفتگو کرتے تھے جو  اس وقت مدون صورت میں موجود ہے۔([12])

درس خارج

پچیس سال کی عمر میں اصول  فقہ کا درس خارج اور اٹھائیس سال کی عمرمیں فقہ کی معروف کتاب عروۃ الوثقیٰ پردرس خارج شروع کیا ،درس اصول ہر رات  مغربین کے بعدمسجد جواہری میں اور فقہ کا درس صبح 10 بجے مسجد جامع طوسی میں دیتے تھے۔([13])

اور فقہ واصول میں جدید نظریات پیش کیے اور جدید طریقہ پر سابقہ تحقیقات کی روشنی میں بیان کیا، اس درس نے آپ کوعلمی حلقے میں شہرت عطا کی اور خصوصا باصلا حیت جوانوں  کے ہاں آپ  مقبول ہوئے۔ تاریخ اجتہاد میں  بہت کم ایسے افراد ہیں جو بلوغ سے پہلے درجہ اجتہاد پر فائز ہوا ہو۔ سید باقرصدر نے ١٩٨٠ھ سے قبل یعنی فقط ١٧ سال کی عمر میں درس خارج پڑھانا شروع کیا اور ایک بڑی تعداد آپ کے حلقہ درس میں شامل ہوگئی۔

شاگرد:آپ نے درس وتدریس کے ذریعے اپنی بابر کت عمر میں بہت کم مدت میں جوان،پرہیزگار ،مجاہد اور بابصیرت  شاگردوں کی تربیت کی جن میں سے ہر ایک اسلامی ثقافت،علم،جہاد کے میدان کے علمبردار بنے اور اپنے استاد کے بعد ان کی علمی،فکری،اجتماعی اور سیاسی راہ پر گامزن ہوئے،یہ افرادمختلف اسلامی ممالک سے تعلق رکھتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک آج بھی عالم اسلام کی ممتاز فکری واصلاحی شخصیات میں شمار ہوتے ہیں۔بعض اہم شاگرد: سید محمد باقر الحکیم،سید محمود ہاشمی شاہرودی،سید عبد الغنی اردبیلی، سید محمد باقر مہری، سید کاظم حسینی حائری، سید محمد رضا نعمانی، سید نور الدین اشکوری،سید عبد العزیز حکیم، سید محمد علی حائری، شیخ محی الدین مازندرانی، سید حسین صدر، شہید سید عز الدین قبانچی، سید صدر الدین قبانچی، شیخ محمد باقر ناصری، شیخ عباس اخلاقی، سید محمود خطیب، شیخ محمد جعفر شمس الدین، شیخ غلام رضا عرفانیان، شیخ محمد باقر ایروانی۔

منصب مرجعیت

باقر الصدر کا کمسنی میں فقاہت اور اجتہاد کے درجہ پر پہنچناتاریخ کا حیرت انگیزواقعہ ہے جس کی بہت کم مثال ملتی ہے۔ آیت اللہ محسن حکیم کی رحلت کے بعد جب تک آیت اللہ خوئی زندہ تھے آپ نے اس منصب کو سنبھالنے سے انکار کیا لیکن ملکی حالات اور امت مسلمہ کی صورتحال کے پیش نظر اس منصب کو قبول کرنا پڑا۔ آپ کا گھر لوگوں کے لیے ایک پناہ گاہ شمار ہوتاتھا جہاں آپ   جمعہ کے دن  صبح سے رات تک اور دوسرےایام میں اذان ظہر سے قبل تک اپنے گھر کا دروازہ لوگوں کے لیے کھول دیتا اور لوگ اپنے مسائل اور مشکلات کے حل کے لیے آپ کی خدمت میں پہنچ جاتے،تعلیم یافتہ جوان، دانشور، مصنفین اور طلاب اپنے فکری اور علمی مسائل کو حل کرنے آپ کے گھر آتے اور آپ ایک مہربان باپ، بڑے بھائی،دلسوز  اور شفیق استاد کی طرح ان کی بات سنتے،پھر علمی،منطقی اور واضح جواب سے ان کی اندرونی پیاس کو بجھا دیتے،آپ تعلیم یافتہ جوانوں،دانشوروں اور طلاب کو تحریر،تحقیق،غوروفکر اور تالیف کی طرف شوق دلاتے تھے۔ کیونکہ آپ کا عقیدہ  تھا الٰہی تعلیمات کے مطابق ایک صالح  معاشرے کے قیام کے لیے جوانوں اور اہل علم کوحقائق کی  نشرواشاعت اور آگاہی کے ذریعے انجام دینا چاہیے۔

ہر بدھ کو نماز مغرب وعشا کے بعد سالار شہیدان امام حسین ؑ کی یاد میں عزاداری منعقد کرتے جس میں علما،جوانوں اور طلاب کی کثیر تعدا دشرکت کرتے تھے۔اس طرح آپ نے فلسفہ شہادت اور عاشورا کو زندہ کیا اور امام حسین کے پیغام کو  پاکیزہ زندگی اورآزادی کے  حقیقی مفہوم کو امت تک پہنچایا اور عشق الٰہی و کربلا کے  شہدا کی جانبازی کی یاد کے ذریعے  لوگوں کےدلوں میں  جذبہ وولولہ پیدا کیا۔؎

فکری وعلمی جدوجہد

صنعتی انقلاب کے بعد دنیا میں مختلف نظریات پیدا ہوئے اور ان میں سے دواہم مکتب فکر کمیونزم اور سرمایہ دارانہ نظام نے تمام عالم اسلام کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اور جدید تعلیم یافتہ طبقہ جواسی ماحول میں پروان چڑھا تھا، نے عراق کی سرزمین اور حکومت میں بھی یہ افکاراور اسلام مخالف نظریات  پھیلانا شروع کیا ایسے میں حوزہ ہائے علمیہ ان کے مقابلے  میں اسلام کو ایک  نظام کے عنوان سے پیش کرنے سے عاجز تھے، آپ نے آیت اللہ محسن حکیم کی تجویز پر کمیونزم اورمغربی فلسفہ کا مطالعہ کیا اور” فلسفتنا “لکھ دی، س کے بعد کمیونزم،سوشلزم اور سرمایہ دارانہ نظام کے رد میں اقتصادنا  اور بلا سود بینک کاری  جیسی کتابیں تحریر کیں۔

تصانیف:

آپ نے کم عمری ہی میں علمی وفکری جہاد میں حصہ لینا شروع کیا اور اسلام کے فکری نظام اور تاریخ کے مختلف پیچیدہ موضوعات پر آپ نے تحریر وتقریر کے ذریعہ نہایت عالمانہ مقالے اسی وقت پیش کرنا شروع کردیئےتھے جب کہ ابھی آپ جوانی میں بھی داخل نہ ہوئے تھے۔چنانچہ آپ نے تاریخ اسلام کے ایک اہم موضوع ”فدک” پر گیارہ سال کی عمر میں تحقیقی کتاب”الفدک فی التاریخ” کے نام سے لکھی۔  آپ کی دیگر  تصانیف میں سے کچھ مندرجہ ذیل ہیں۔

١۔ فدک فی التاریخ۔(فدک تاریخ کی روشنی میں)

٢۔ غایة الفکر فی علم الاصول

٣۔ فلستنا

٤۔ اقتصادنا(ہمارے اقتصادیات)

٥۔ المعالم الجدید للاصول

٦۔ الاسس المنطقیة للاستقراء

٧۔ البنک اللاربوی فی الاسلام(بلا سودی بینک)

٨۔ المدرسة الاسلامیة

الف۔الانسان المعاصروالمشکلةالاجتماعیة(آج کا انسان اور اجتماعی مشکلات)

ب۔ماذاتعرف عن الاقتصاد الاسلامی(اسلامی اقتصاد کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟)

٩۔ دروس فی علم الصول

١٠۔ بحوث حول المهدی(انقلاب مہدی)

١١۔ بحث حول الولایة(مکتب تشیع کب اور کیسے)

١٢۔الاسلام یقود الحیاة

الف ۔لمحه فقهیه عن مشروع دستور الجمهوریة الاسلامیه فی ایران (اسلامی جمہوری کا دستوری ڈھانچہ)

ب۔صورة عن اقتصاد المجتمع الاسلامی

ج۔ خطوظ تفصیلیة عن اقتصاد المجتمع الاسلامی

د۔ خلافة الانسان وشهادة الانبیاء

ھ۔ منابع القدرة فی الدولة الاسلامیه

و۔الاسس العامة للبنک فی المجتمع الاسلامی۔

١٣۔المرجعیه الصالحه

١٤۔الفتاوی الواضحه

١٥۔تعلیق علی منهاج الصالحین للسید الحکیم(دوجلد)

١٦۔موجز احکام الحج

١٧۔ تعلیقه علی رساله بلغة الراغبین

١٨۔بحوث فی شرح العروة الوثقیٰ (چارجلد)

١٩۔محاضرات فی التفسیر الموضوعی للقرآن

٢٠۔اهل البیت تنوع ادوار ووحدة الهدف(اہل بیت کی زندگی زمانے کی نیرنگی مقاصد کی ہم آہنگی)

٢١۔نظرة عامة فی العبادات

٢٢۔رسالتنا۔(ہمارا پیام)۔([14])

ثقافتی اور اجتماعی فعالیت

آپ نے فکری اور علمی سرگرمیوں کے ساتھ ثقافتی حوالے سے بھی بہت اہم خدمات انجام دی ہیں جو اپنے زمانے میں بہت ہی اہمیت کے حامل تھیں۔ان میں جماعۃ العلما کے ساتھ تعاون، اصول دین کالج،حوزہ کی اصلاح،اسلامی اتحاد کے لیے کوشش نمایاں ہیں۔

گرفتاری اور شہادت

حزب بعث نے آپ کی فعالیت کے پیش نظر پہلی بار آپ کو ١٣٩٢ ھ میں گرفتار کیا، اور جلد رہا کیا،آپ کی گرفتاری کے ایک سال بعد ١٣٩٤ھ حزب بعث نے آپ کے پانچ شاگردوں کو پھانسی دی۔١٣٩٧ھ اربعین کے دن لوگوں نے آپ کے حکم سے حکومت کے خلاف احتجاج کیا، اس کے ایک دن بعد آپ کو دوبارہ گرفتار کر کے آپ کو نجف سے بغداد منتقل کیا گیا، اور آپ پر تشدد کیا گیا آپ کی حالت اس قدر نازک ہوئی کہ آپ سیڑھی پر نہیں چڑھ سکتے تھے مگر آپ نے ان کو لوگوں سے پوشیدہ رکھا تاکہ  دوسرے افراد خوف زدہ نہ ہوجائیں۔ آپ کو تیسری مرتبہ گرفتار کیاگیا اورلوگوں کی  احتجاج  کی وجہ سے رہا ہوگئے ۔اٹھارہ رجب کو لوگ آپ کے گھر آئے اور آپ کی بیعت کی آخر کار آپ کو گھر میں محصور کرنے کا حکم دیا اور دوسروں سے آپ کا رابطہ بھی قطع کیا،آپ کے گھر کے سامنے اور اطراف میں حکومت کے جاسوس تھے اورجو لوگوں کو آپ کے ساتھ رفت وآمد سے روکتے تھے ۔(٩) مہینے آپ محاصرے میں رہے یہاں تک کہ آپ شہید ہوگئے۔ آپ کو روز ہفتہ ظہر انیس جمادی لاول ١٤٠٠ھ کو چوتھی بار گرفتار کیا گیا اور بغداد جیل منتقل کیا آپ کی گرفتاری کے چار دن بعد یعنی منگل کی رات بعثی   حکومت کے چار افراد آدھی رات کو آپ کے چچا زاد بھائی سید محمد صادق صدر کو آپ کی تدفین پر گواہی کے لئے ساتھ لے گئے اور ان کی موجودگی میں وادی سلام میں دفن کردیا گیا۔آپ کو٤٧ سال کی عمر میں٢٤ جمادی الاول ١٤٠٠ھ مطابق ٩ اپریل ١٩٨٠ء کو اپنی ہمشیرہ آمنہ بنت الہدی کے ہمراہ شہید کیا گیا۔([15])

حوالہ جات وحواشی

۱۔ الشیخ محمد رضا النعمانی،شہید الامہ وشاہدہا،ج١،ص ٤٧۔٤٨،لموتمر العالمی للامام الشہید الصدر،قم،اشاعت،١٤٢٤١ھ

[2] ۔ ..احیا گر آیت اللہ محمد باقر صدر ش ١و٢ سال ٧٩۔٨٠ سال چہاردہم ص٣٤٣

[3]۔ اس کا اردو ترجمہ”مذہب اہل بیت ” کے نام سے ہوچکا ہے۔

[4] ۔ حائری،سید کاظم،زندگی وافکار شہید صدر،وزارت فرہنگ وارشاد اسلامی،تہران،١٣٧٥ ش

.[5]زندگی وافکار شہید صدر،صفحہ نمبر35

[6]۔ صدر شہادت،علی جعفری،مرکز پژوہش ہای صداوسیما،ص ٩ قم ، ١٣٨٤

[7]۔ محمد باقرالصدر،دراسات فی حیاتہ وفکرہ ۔۔ص٨ مکتبہ صدر عراق،۲۰۱۸

[8]۔ صدر شہادت،علی جعفری، ص ١٠

[9]۔ اصول فقہ کی معروف کتاب جو دینی مدارس کے نصاب میں شامل ہے۔

[10]۔الحائری،السید کاظم الحسینی،الشہید الصدر سمو الذات وسمو الموقف،الصفحہ،52،دارالبشیر،قم،طبع اولیٰ،1427 ھ ق

[11]۔ اصول فقہ کی بہت دقیق اور مشکل کتاب ہے جو کہ آخوند خراسانی کی تالیف ہے ..

[12]۔ کتاب”اہل بیت  کی زندگی ،مقاصد کی ہم آہنگی اور زمانے کی نیرنگی” کے نام سے چھپ چکی ہے۔

[13]۔ نعمانی، شیخ محمد رضا ،ترجمہ: مہرداد آزاد،سالہای رنج،صفحہ 68،دفتر نشرفرہنگ اسلامی،تہران،چاپ اول:1382ش

[14]۔الشہید الصدر سمو الذات وسمو الموقف،الصفحہ،86۔91

[15]۔ شہید الامہ وشاہدہا،ج2،ص202۔212