شہیدہ بنت الہدیؒ کی شخصیت

تربیت،تبلیغ وتحریر سے مربوط خواہران کے لیےشہیدہ بنت الہدیٰ کی شخصیت کے 7اہم پہلو

شہیدہ بنت الہدیؒ کی شخصیت

آمنہ بنت الہدی صدر عراق کی عالمہ، شاعرہ، مؤلف اور علم فقہ اور اخلاق کی معلم خواتین میں سے ایک تھی۔ بنت‌الہدی 1356 ہجری کو عراق کے شہر کاظمین میں پیدا ہوئیں۔ آپ عراق کے شیعہ مفکر محمد باقر الصدر کی بہن تھی۔ صدام حسین نے دونوں بہن بھائیوں کو شہید کر دیا تھا۔مسلمان خواتین ان کے کردار سے معاشرتی زندگی کے لیے بہت کچھ سیکھ سکتی ہیں جو موجودہ دور کی کی ضرورت بھی ہے اور اہم بھی۔

*ذیل میں شہیدہ بنت الہدی کی زندگی کے چند پہلو ہیں جو خواتین کے لیے مشعل راہ ہیں۔*

*1️⃣. عورتوں کی تربیت جو دنیاوی لحاظ سے ان کے لیے مناسب ہو.*
شہیدہ کبھی بھی عورتوں اور خاص کر ان عورتوں کو جو نئی نئی مذہبی تعلیمات میں مصروف ہوئی ہوں، مذہبی احکامات میں مصروف نہیں کرتی تھیں بلکہ آہستہ آہستہ ان کو دنیا کے معاملات کو اسلام کی روح سے سمجھنے میں مدد دیتیں۔ وہ اس کام کے لیے عمومی دعوت کا سہارا لیتیں اور جب وہ غیر مخصوص نشستوں میں بھی خواتین سے ملتیں تب بھی وہ مکمل حجاب میں ہوتی تھیں۔
کوثر الکوفی سے روایت ہے کہ میں نے ایک مرتبہ ان سے کہا ” آپ گھر کے اندر حجاب کیوں پہنتی ہیں اور خاص کر اس قدر موٹی جرابیں۔ انہوں نے جواب دیا میں عورتوں کو سکھانا چاہتی ہوں کہ درست حجاب کا یہی طریقہ ہے ۔ کوثر الکوفی کے مطابق ایک مرتبہ ایک بہن نے مجھے بتایا کہ بنت الہدی نے کبھی بھی مجھے کھلے کپڑے پہننے کو نہ کہا حتی کہ تین سال بعد جب انہوں نے دیکھا کہ اب وہ مجھے قائل کر سکتی ہیں تو انہوں نے اسلام میں حجاب سے متعلق احکامات مجھ پر واضح کیے۔

*2️⃣۔ خواتین کی توا نائیوں کی تعمیر میں دلچسپی*
شہیدہ بنت الہدی خواتین کی توانائیوں کو اجاگر کر کے ان میں زندگی کی ذمہ داریوں کو اٹھانے کا حوصلہ پیدا کرتیں۔ وہ لڑکیوں کو بہترین تعلیم کے حصول کا درس دیتیں اور مختلف شعبوں میں مہارت حاصل کرنے کی نصیحت کرتیں۔ وہ اکثر کہا کرتی تھیں کہ ہم ایک اسلامی معاشرے کی تشکیل کے لیے کام کر رہے ہیں اور اس معاشرے کو ہر طرح کی توانائی کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے ہمیں قابل بھروسہ خواتین ڈاکٹرز، خواتین انجینیرز، خواتین اساتذہ اور مذہبی کارکنوں کی ضرورت ہے۔ پس اس طرح انہوں نے اسلام کے لیے خواتین کو زندگی کے سبھی شعبوں میں تیار کرنے میں مدد دی۔

*3️⃣. اپنے فرائض سے متعلق روحانی شعور کی بیداری*
وہ چاہتی تھیں کہ جب ایک سچے مسلمان کی طرح زندگی گزارنے کی بات آئے تو عورتیں اپنی گردنوں میں پڑی ذمہ داریوں سے بخوبی آگاہ ہوجائیں۔ کوثر الکوفی کہتی ہیں، انہوں نے ہم پر ہمیشہ زور دیا کہ ہم اسلام اور مسلمانؤن کے لیے کام کرنے کے لیے اپنی زندگی میں اپنے مقاصد کا تعین کریں۔ جب ان کو گرفتار کر لیا گیا تو میں ان سے ان ملنے گئی اور انہوں نے میری سرزنش ان الفاظ میں ” تم نے مسجد جانا کیوں چھوڑ دیا ہے؟ آپ نے شیخ کے لیکچر سننا کیوں بند کر دیا ہے، تم نے اپنا اسلامی کام کیوں روک دیا ہے ؟ کیا یہ ہمارا فرض نہیں ہے تو کوثر نے جواب دیا کہ میں نے شرم کے مارے زمین کی طرف دیکھنا شور کر دیا اور اپنی قوت مجتمع کر کے کہا:
’’سیدہ کیا آپ کو باہر کے حالات کا علم نہیں ہے ، مجھے ڈر ہے کہ مجھے گرفتار کر لیا جائے گا اور مجھے خوف ہے کہ میں بعث سیکورٹی کے ہاتھ لگ جاؤں گی آپ جانتی ہیں وہ عورتوں کی عزت ہرگز نہیں کرتے۔‘‘
شہیدہ بنت الہدٰی نے اپنے الفاظ جاری رکھتے ہوئے کہا:’’یہ غلط عقائد ہیں، اسلام ہماری عظمت ہے ۔ اگر ہم اسلام کو محفوظ کریں گے تو ہم اپنی عظمت اور فخر کو محفوظ کریں گےہم سیدہ زینت سلام اللہ علیہا کی زندگی سے بہترین سبق سیکھ سکتی ہیں۔‘‘ اس بات نے کوثر پر بہت اثر کیا اور انہوں بنت الہدٰی اور ان کے بھائی کی شہادت کے بعد اہم کردار ادا کیا۔

*4️⃣. دوروں سے مختلف مقاصد کا حصول*
وہ اپنی بہنوں کے گھر کا چکر لگاتیں اور یہ جاننے کی کوشش کرتیں کہ اگر انہیں کس چیز کی ضرورت ہوتی، مالی امداد سے لے کر ثقافتی دوروں تک ، اور ان کی صحت سے لے کر دیگر چیزوں کی دیکھ بھال تک وہ ہر چیز کا خیال کرتیں۔ ان کا ایک مقصد ایک دوسرے کی مدد اور ایک دوسرے کو مضبوط بنانا ان کے مقاصد میں سے تھا۔ وہ عورتوں کو اس بات کا یقین دلاتی تھیں وہ ان کی ذات، ان کی پریشانیوں اور ان کی خوشیوں کا حصہ ہیں۔ وہ پسی ہوئی خاندانوں سے اظہار تعزیت کرتیں خاص طور پر شہیدوں کے خاندانوں سے اور جب وہ کسی شہید کے گھر پہلی مرتبہ جاتیں تو یہ کہتیں کہ ہمیں فخر ہے کہ آپ ایک شہید کی بیوہ ہیں اور یہ ہمارے لیے نعمت ہے۔

*5️⃣. معاشرے کی بہتری کے لیے افراد کو مضبوط بنانا*
ان کا ایک اہم عمل مخصوص نیک خواتین کو چننا اور ان کو خصوصی اہمیت دینا تھا ، وہ ان کو خصوصی اسباق دیتیں اور سیمنارز منعقد کرواتیں جو اکثر اوقات ان کے اپنے گھر پر ہی منعقد ہوتے۔ وہ اکثر ان کے گھروں کے دورے کرتیں تاکہ پورے گھرپر اس کا اثر پڑے جس کی وجہ سے معاشرے میں انہیں بہترین لوگ ملے جن کے ذریعے وہ معاشرے کو تبدیل کرنے کا کام کر سکتی تھیں۔ اس طرح انہوں نے قریبا 400 ایسی نیک اور فعال طلبہ کو اکٹھا کیا جنہوں نے اپنے اپنے انداز میں معاشرے پر بہترین اثرت مرتب کیا۔ وہ ہر جگہ اپنی بہنوں کو ایمان کا پیغام پہنچاتیں اور اسی وجہ سے انہوں نے شادی نہیں کی کیونکہ انہوں نے اپنی زندگی کا ہر لمحہ اسلام کے کے لیے وقف کر رکھا تھا حالانکہ کئی عظیم اسکالرز نے انہیں شادی کی پیش کش بھی کی۔

*6️⃣. لیکچرز اور تعلیم دینا*
شہیدہ بنت الہدٰی اپنے گھر میں اسلامی سیمینارز انعقاد کرواتیں جو کہ سکولوں، یونیورسٹیوں، مختلف آرگنائزیشن میں کام کرنے والی خواتین الغرض سب کے لیے کھلی دعوت ہوتا تھا جس میں وہ مختلف حقائق اور تصورات سے پردہ اٹھاتیں خاص کر مغربی دنیا کی ملمع کاری پر جو کہ عراق کی عورتوں میں تیزی سے مقبول ہورہی تھی۔ اس طرح انہوں نے معاشرے میں نظریاتی تبدیلیاں لائیں جو کہ معاشرے میں اصلاحات کی بنیاد بنیں۔ وہ مجالس کا انعقاد بھی کرواتیں جس میں وہ مذہبی لیکچرز پیش کرتیں اور یہ لیکچرز زیادہ تر وہ اپنے بھائی شہید محمد باقر الصدر کے گھر منعقد کرواتیں جہاں پچاس سے زائد خواتین اکٹھی ہوتیں ۔ وہ ان خواتین کے سوالات کا جواب دیتیں جو کہ عموما مختلف نظریات، اسلامی عقائد اور اسلامی فقہ سے متعلق ہوتے۔

*7️⃣مسلمان خواتین کی روحوں میں امید اور رجائیت کی امید پیدا کرنا*
وہ مومنہ خواتین کی روحوں میں امید اور رجائیت کی امید اور بنیاد رکھتیں اور خاص کر ان میں جن کے گھروں کے کوئی فرد قید میں ہوتے ۔ وہ جہاد کی روح کو زندہ کرنے کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہتیں اور انہیں باہمت اور با صبر رہنے کی تلقین کرتیں۔ اس کے علاوہ وہ اللہ پاک سے قیدیوں کی رہائی اور شہیدوں کی روح کے لیے بھی دعا گو ہوتیں۔
شہیدہ بنت الہدٰی کی شخصیات عورتوں کے لیے رہنمائی اور ہدایت کا ایک ایسا سرچشمہ تھی جس سے سیراب ہوکر انہوں نے اسلام اور ایمان کو صحیح معنوں میں سمجھا۔ اللہ پاک معصومین (ع) کے صدقے انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائیں۔ آمین
http://www.taghribnews.com/vdcbs8bs9rhbg5p.kvur.htm l