آیت اللہ سید باقر الصدر اور ان کی بہن سیدہ بنت الہدای کا یوم شہادت

*🌿 9۔اپریل 1980*🌿

آیت اللہ سید باقر الصدر اور ان کی بہن سیدہ بنت الہدای کا یوم شہادت

👈9 اپریل سنہ 1980کو عراق کے سابق ڈکٹیٹر صدام کے کارندوں نے عظیم اسلامی فلسفی اور عالم دین آیت اللہ سید محمد باقر الصدر اور ان کی ہمشیرہ بنت الہدیٰ کو جیل میں اذیتیں دینے کے بعد شہید کردیا۔

آیت اللہ سید محمد باقر الصدر سنہ 1934 میں عراق کے شہر کاظمین میں ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئے انہوں نے ابتدائی دینی تعلیم اپنے شہر میں ہی حاصل کی اس کے بعد وہ اعلیٰ دینی تعلیم حاصل کرنے کے لئے نجف اشرف چلے گئے۔
ابھی ان کی عمر بیس سال بھی نہیں ہوئی تھی کہ وہ درجۂ اجتہاد پر فائز ہوگئے
انہوں نے صرف بائیس سال کی عمر میں اپنی پہلی کتاب *غایت الفکر فی علم الاصول الفقہ* تحریر کی۔
اس کے بعد انہوں نے دو معرکۃ الآرا کتابیں *فلسفتنا* اور *اقتصادنا* تحریر کیں جنہوں نے علمی حلقوں میں ایک تہلکہ مچادیا۔
وہ دین کو سیاست سے جدا نہیں سمجھتے تھے اور علمی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ سیاسی سرگرمیوں میں بھی بھر پور حصہ لیتے تھے اسی بنا پر بعث پارٹی والے ان کے وجود کو اپنے لیے خطرہ سمجھتے تھے۔

آیت اللہ باقر الصدر نے امام خمینی (رح) کی قیادت میں رونما ہونے والےاسلامی انقلاب کی حمایت میں اہم کردار ادا کیا جو عراق کی سابق ڈکٹیٹر حکومت کے لیے انتہائي ناگوار امر تھا۔
اس سلسلے میں آپ کا یہ قول زبان زد عام ہے:
*امام خمینی کی ذات میں اس طرح ضم ہوجاؤ جس طرح وہ اسلام میں ضم ہوگئے ہیں*

تبلیغ اسلام اور احیائے فکر اسلامی کی سرگرمیوں کی وجہ سے بعث پارٹی کے کارندوں نے انہیں اور ان کی عالمہ بہن سیدہ آمنہ بنت الہدای کو گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا اور ان پر تشدد اور ظلم و ستم کی انتہا کردی
آخر کار یہ دونوں بہن بھائی 9 اپریل, 1980ءکو عراق کی بعثی حکومت کی جیل میں تشدد اور ظلم و ستم کے باعث درجۂ شہادت پر فائز ہوئے اور صدامی فوجیوں نے دونوں کو رات کی تاریکی میں ایک گمنام مقام پر دفنا دیا

عراق میں صدام کی ڈکٹیٹر حکومت کے خاتمے کے بعد شہید آیت اللہ باقرالصدر کی قبر کا پتا چلا اور گمنامی میں دفنائے جانے والی اس عظیم ہستی کی قبر پر ان کے عقیدت مندوں کا ہجوم رہتا ہے

*شہیدآیۃ اللہ سید محمد باقر الصدر کے اہل خانہ سے ملاقات کے موقع پر قائد انقلاب اسلامی کے بیانات*

"سب سے پہلے تو میں آپ اور ديگر خواتین خصوصا آپ کے محترم صاحبزادوں اور صاحبزادیوں کی خدمت میں خوش آمدید عرض کرتا ہوں۔ ہم، شہید آیۃ اللہ سید محمد باقر الصدر مرحوم کے وجود پر ان کی علمی، جہادی اور نظریاتی شخصیت کی وجہ سے فخر کرتے ہیں اور آپ لوگوں پر بھی فخر کرتے ہیں؛ کیونکہ آپ نے گذ شتہ دو عشروں سے زیادہ کے عرصے میں بہت زیادہ مشکلات اور مصائب کا سامنا کیا ہے، بہت زیادہ سختیاں اٹھائی ہیں لیکن صبر سے کام لیا ہے۔ آپ کا تعلق عظیم خاندان سے ہے، صبر، کرم اور عظمت آپ کے خاندان کی خصوصی صفات ہیں۔
آیۃ اللہ صدر کی شہادت کے بعد آپ نے ان کٹھن حالات میں نجف میں زندگی گزاری؛ اس کے بعد آپ کی ان بچیوں کے شوہر شہید ہوئے اور آپ میں سے ہر کوئی کسی نہ کسی مصیبت میں گرفتار ہوا لیکن آپ لوگوں نے ان سب کو برداشت کیا۔ حقیقت میں آپ کا صبر ہم لوگوں کے لیے بہت زیادہ قابل قدر ہے۔ آپ کو بتاؤں کہ میں ہمیشہ دور سے آپ لوگوں کے لیے دعا کرتا رہا ہوں اور میں جانتا ہوں کہ آپ لوگوں نے کیا مشکلات اور سختیاں برداشت کی ہیں۔ خداوند متعال اس عزیز شہید یعنی شہید سید محمد باقرالصدر مرحوم ، آپ کے دامادوں اور شہید صدر کے بیٹوں رضوان اللہ تعالی علیھم کے درجات کو بلند فرمائے۔
ان خواتین نے بھی اس خوف اور گھٹن کے ماحول میں صبر کیا اور ان کی جوانی کے ایام میں ان کے شوہروں کو شہید کر دیا گیا اور ان کے بچے باقی رہ گئے، خدا کے نزدیک ان کی بہت قدر و منزلت ہے۔
آپ نے جو صبر کیا ہے وہ خدا کے نزدیک بہت گرانقدر ہے۔ خداوند متعال اپنے اجر سے دنیا اور آخرت میں آپ کو نوازے گا ان شاء اللہ ۔

میں 1957ء میں عراق گیا اور وہیں میں نے جناب شہید محمد باقر الصدر کو دیکھا۔ اس وقت وہ کافی جوان تھے، تقریبا پچیس سال کے تھے۔ اس وقت بھی وہ اپنے فضل و کرم کے لیے مشہور تھے۔ اس وقت میں نوجوان تھا اور میری عمر تقریبا اٹھارہ سال تھی۔
الحمد للہ آپ کے خاندان کے تمام افراد بہت زیادہ استعداد اور صلاحیت کے مالک تھے جیسے مرحوم جناب رضا، جناب موسی۔

اسلامی انقلاب کے اوائل میں جب آیۃ اللہ صدر کی شہادت کی خبر ہم تک پہنچی تو بڑا صدمہ ہوا۔ اسلامی نظام اور اسلامی معاشرے کے لیے شہید صدر حقیقت میں ایک فکری ستون تھے۔ اسلامی انقلاب سے پہلے ہی ہم ان کی کتابوں اور بڑی ہی عظیم و گرانقدر سرگرمیوں سے واقف تھے۔ پھر جب اسلامی انقلاب کامیاب ہوا تو انہوں نے بہت اچھے پیغامات بھیجے۔ شہید صدر سے بہت زیادہ امیدیں وابستہ تھیں۔
خدا لعنت کرے صدام پر، الحمد للہ کے ان لوگوں (صدام اور اس کے بھیڑیوں ) کی بیخ کنی ہو گئي۔
شہید صدر حقیقی معنی میں نابغۂ روزگار شخصیت کے مالک تھے۔ اسلامی اور فکری مسائل، فقہ و اصول اور دیگر علوم میں ماہرین کی تعداد بہت زیادہ ہے، لیکن نابغۂ روزگار شخصیات بہت کم ہیں۔ شہید صدر ان افراد میں سے تھے جو حقیقت میں نابغۂ روزگار ہیں۔ ان کا ذہن اور ان کے افکار، دوسروں کی فکری رسائي سے بہت آگے تھے۔ بحمد اللہ انہوں نے بہت اچھے تلامذہ کی تربیت بھی کی۔

آیۃ اللہ شہید سید محمد باقرالصدر کے اہل خانہ سے ملاقات میں رہبر انقلاب اسلامی کی تقریر سے اقتباس(29/5/2004)
🍁 *ابقا پاکستان* 🍁