شہیدسید باقرالصدر کی برسی کے موقع پرحوزہ علمیہ قم میں منعقدہ شہید صدر  سیمینار سے استاد حوزہ آیۃ اللہ شیخ باقر مقدسی کا خطاب۔

ہمیں چاہیے کہ پہلے شہید صدر کے افکار کو بہترین طریقے سے سمجھے پھر اسے عالمی سطح  روشناس کرائے۔

شہیدسید باقرالصدر کی برسی کے موقع پرحوزہ علمیہ قم میں منعقدہ شہید صدر  سیمینار سے استاد حوزہ آیۃ اللہ شیخ باقر مقدسی کا خطاب۔

(محرر: محمد علی شریعتی)

*آپ کا خاندانی پس منظر*
آپ کسی سرمایہ دار گھرانے سے تعلق نہیں رکھتے تھے بلکہ ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور اپ کے والد گرامی کا انتقال اس وقت ہوا تھا جب آپ تین سال کے تھے۔
ان کے انتقال کے بعد آپ کی تربیت کی ذمہ داری آپ کی والدہ ماجدہ جو کہ آیۃ اللہ سید عبد الحسین آل یاسین کی بیٹی تھی نے اٹھائی نیز آپ کے دو ماموں بھی صاحب رسالہ تھے ان بزرگوں کے زیر سایہ آپ کی تربیت ہوئی۔

*آپ کا تعلیمی سفر*
آپ نے گیارہ سال کے مختصر عرصے میں میں کالج سطح کی تعلیم مکمل کیا۔
اسکے بعد آپ کو سرکارے سطح پر یورپ تعلیم حاصل کرنے کیلیے جانے کی آفر ہوئی اور آپ کے دو ماموں بھی چاہتے تھے کہ آپ اعلی تعلیم کیلئے یورچ چلے جائیں لیکن آپ کی مادر گرامی نے اسکی مخالفت کردی۔
جب آپ سے رای لیا گیا تو آپ نےاں کی حمایت کی اور یورپ جانے سے انکار کیا۔

*حوزوی تعلیم کا آغاز*
اس کے بعد آپ نے پانچ سال کے مختصر عرصے  میں سطحیات کو مکمل کر کے دروس خارج میں شرکت کرنا شروع کیا۔
آپ  نابغہ عصر تھے اور علامہ حلی وغیرہ کی طرح انتہائی کم عمری میں درجہ اجتہاد پر فائز ہوئے۔

*تدریسی سلسلہ*
20 سال کی عمر میں کفایہ کی تدریس شروع کیا اور پچیس سال کی عمر میں حوزہ علمیہ نجف میں درس خارج دینا شروع کیا۔
جب آیۃ اللہ خوئی کے پاس کسی نے آپپ کی شکایت لگادی
تو انہوں نے فرمایا: کسی اور کے بارے یہ شکایت ہوتی تو غور کرلیتا لیکن باقر الصدر کی بات الگ ہے۔
*تصنیف و تالیف*
آپ کی خدمات کا سلسلہ تمام شعبوں میں پھیلا ہوا تھا۔
آپ تدریس کے ساتھ تصنیف کے میدان میں بھی مرد میدان تھا۔
اپنی تعلیم و تدریس ہے ساتھ ساتھ اس مختصر مدت میں تمام شرقی و غربی فلاسفروں کے افکار بھی آپ پڑھ چکے تھے اور ان سب کے جواب میں *“فلسفتنا”* تحریر فرمایا جس میں باطل افکار کو نقد کر کے “نظریہ الانتزاع” کے نام سے مادہ اور ماواراء مادہ دونوں کے بارے میں اسلامی نظریے کو پیش کیا۔
اس کے علاوہ سماجی مسائل اور ان کی حل پر مشتمل کتاب *مجتمعتنا* بھی تحریر فرمایا۔نیز  اپنی شہرہ آفاق کتاب *اقتصادنا* کے ذریعے دنیا میں نافذ دیگر اقتصادی سسٹم کو رد کر کے اسلامی اقتصادی سسٹم کو دنیا کے سامنے متعارف کرایا۔
علم اصول میں رسایل اور کفایہ کو جمع کر کے *حلقات* تالیف کیا۔
آپ کی دیگر تالیفات میں *الاسلام یقود الحیات* اور *بیع لا ربویہ* وغیرہ شامل ہے جس میں آپ نے بینک سے حاصل ہونے والے سود کے حلال ہونے کے چار طریقے بیان کیے ہیں ۔

*جہاد علمی*
آپ کی خدمات کا دائرہ کار صرف تدریس و تالیف تک محدود نہیں رہا بلکہ آپ نظام تعلیم اور حوزے میں رائج تعلیمی سسٹم میں تبدیلی کے خواہاں تھے اور حوزے کے نصاب کو دور حاضر کے ضروریات کے مطابق مرتب کرنے کے حامی تھے اس مقصد کے حصول کیلئے آپ نے *جماعت العلماء* تشکیل دیا اور *مجلہ الاضواء* کو نشر کرنا شروع کیا جسے ابتداء میں پزیرائی ملی لیکن بعد میں مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ۔
آپ ہی نے حوزے میں رائج نصاب کے ساتھ علوم انسانی کو رایج کیا اور آپ حوزے کو پوری دنیا کے مسائل کے جوابگو بنانا چاہتے تھے۔

*سیاست میں آپ کا کردار*
سیاست کے میدان میں آپ  خاموش تماشائی نہیں بنے رہے بلکہ *حزب الدعوہ*  کو *حزب بعث* کے مقابلے میں تشکیل دیا۔
اور آپ نے فتوی حزب بعث میں شرکت کو  حرام قرار دیا ۔
آپ امام علی علیہ السلام کے اس قول کا جیتا جاگتا نمونہ تھا  *اس علم کی کوئی قیمت نہیں جو زبان پر جاری ہے بلکہ وہ علم قیمتی ہے جو تمام اعضاء و جوارح سے نمایاں ہو۔

*انقلاب اسلامی ایران اور شھید صدر*
عملی طور آپ بھی عر میں انقلاب لانا چاہ رہے تھے جب امام خمینی ترکی سے تبعید ہو کر عراق آنے کا علم ہوا تو ان کے استقبال کو شرعی وظیفہ قرار دیا اور اپنے شاگردوں کو لیکر استقبال کے لیے چلے گئے
آپ امام خمینی سے بہت لگاو رکھتے تھے اوت کم از کم ہر مہینے میں اپ کی ملاقات ان سے ہوتی تھی۔
امام خمینی کے بارے میں آپ ہی نے فرمایا تھا *ذوبوا فی الخمینی کما ذاب فی الاسلام*

*ہماری ذمہ داری*
ہمیں چاہیے کہ پہلے شہید کے افکار کو بہترین طریقے سے سمجھے پھر اسے عالمی سطح  روشناس کرائے۔

*گرفتاری اور شہادت*
نو مہینے نجف میں نظر بند رکھنے کے باوجود جب آپ نے طاغوت کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکے تو  ابو سعید جنایتکار کے زریعے گرفتار کرواکے بغداد لے آئے اور آپ کے سامنے تین مطالبات رکھ دیے
1: حزب دعوہ کو ختم کیا جائے
2: حزب بعث کی مخالفت کو ترک کیا جائے
3: اسلامی جمہوریہ ایران سے تعلق ختم کیا جائے
آپ نے ان کو ماننے سے انکار کیا تو انتہائی فجیع طریقے سے آپ اور آپ کے بہن کو شہید کیا گیا۔
*الا لعنۃ اللہ علی الظالمین*