سید محمد باقر الصدرؒ کی فکری اورسیاسی فعالیتیں

سید محمد باقر الصدرؒ کی فکری اورسیاسی فعالیتیں

سید فرحان حیدر زیدی النجفی۔نجف اشرف

بیسویں صدی میں عالمِ اسلام کی بدحالی کے خلاف مختلف فکری و نظریاتی شخصیات منظرعام پر آئیں جنہوں نے اسلام کو کو عصری تقاضوں کے مطابق دنیا میں پیش کیا ۔ یہ وہ شخصیات تھیں جنہوں نے انسانیت خصوصا امت مسلمہ کی مختلف شعبوں میں بے مثل فکری و نظریاتی تربیت کے سلسلے میں بے نظیر خدمات انجام دیں اور امت مسلمہ کو رہتی دنیا تک ایسے افراد مہیا کیے جو اسلام کو اس کے صحیح فکر و نظریہ کے مطابق پیش کریں ان میں امام خمینی، رہبر انقلاب اسلامی، شہید مطہری، شہید عارف حسینی، امام موسی صدر ،سید مقاومت حسن نصراللہ جیسے شخصیات نمایاں ہیں انہی شخصیات میں سے ایک اہم شخصیت شہید محمد باقر الصدر ہیں جنہوں نے سر زمین عراق میں اپنی جدوجھد کا آغاز کیا، شھید صدر کا پیغام تمام عالم انسانیت بالخصوص امت مسلمہ کے لئے ۔
ان کے افکار اور نظریات نے اسلامی دنیا سے سیاسی اجتماعی اور نظریاتی جمود کو توڑنے میں اہم کردار ادا کیا،شہید صدر ایک ایسی علمی فکری سماجی سیاسی شخصیت تھیں جنہوں نے بلوغیت سے پہلے ہی علمی مراحل کو عبور کر کے ابتدائی جوانی میں ہی اسلامی نظریہ رکھنے والوں کی صف میں آکھڑے ہوئے، شہید صدر شیعہ مرجع تقلید اور متفکر ہیں ،آپ نے اپنی حیات طیبہ میں مختلف شعبوں میں جو ہر دکھائے۔
*فکری خدمات*
اس کے علاوہ شہید صدر نے اصول الفقہ ۔فقہ۔ فلسفہ۔ اور معرفت شناسی جیسے علوم میں جدید نظریات پیش کئے جس میں بعض مشہور نظریات یہ ہیں
*نظریہ حق الطاعۃ*
شہید صدر نے نظریہ (حق الطاعۃ) کو مشہور نظریہ ( قبح عقاب بلا بیان) کے مقابلے میں پیش کیا ہے نظریہ حق الطاعۃ کے مطابق شبہات بدوی میں یعنی ان موارد میں جہاں موجود تکلیف کا احتمال پایا جاتا ہے لیکن اس کے سلسلے میں کوئی دلیل موجود نہیں ہوں تو عقل اس سے براءت کا حکم نہیں دیتی ہے اور وہاں پر احتیاط کو لازم و ضروری سمجھتے ہیں ان کا استدلال یہ ہے کہ خداوندعالم کا حق اس کے بندوں پر محدود نہیں ہے اور صرف ان بعض مواقع میں شامل نہیں ہوتا ہے جن میں ہمیں تکلیف کا یقین ہو بلکہ وہ ان موارد کو شامل کرتا ہے جن میں ہمیں تکلیف کا احتمال بھی ہو یقین تکلیف نہ ہونے کی صورت میں بھی حکم عقل لزوم احتیاط ہے قابل ذکر ہے کہ شہید بھی دوسرے تمام اصول یوں کی طرح سے اس مورد میں براءت شرعی کو قبول کرتے تھے یعنی ان کا ماننا ہے کہ اگرچہ عقل برائت کا حکم نہیں دیتی ہے آیات و روایات احتیاط کو ضروری نہیں سمجھتی ہیں اور برائت کا حکم دیتی ہیں
*حکومت اسلامی کا وجود*
شہید صدر کی نظر میں حکومت اسلامی کا وجود سماجی ضرورت ہے اور یہ انسانی فطرت پر مبنی ہے اور وہ اس نظریہ کی بنیاد پر حکومت اسلامی کے وجود کو ضروری و لازمی سمجھتے تھے اور کہتے تھے کہ اسلامی حکومت محض ایک دینی ضرورت نہیں ہے بلکہ اس سے بڑھ کر ایک بشری و انسانی معاشرے اور تمدنی ضرورت ہے اس لئے کہ یہ حکومت اسلای، انسانی بشری استعداد کے ارتقا کا واحد راستہ ہے۔۔
*اقتصاد اسلامی پر جدیدنظریات*
شہید صدر کی شہرہ آفاق تالیف (اقتصادنا)
سید محمد باقر الصدر کا ماننا ہے کہ جو نظریہ اقتصاد اسلام نے پیش کیا ہے اس کے مطابق اقتصاد ایک مکتب ہے علم اقتصاد اسلامی نہیں مکتب اقتصاد اسلام یعنی یہ کہ اسلام نے اقتصادی زندگی کی تنظیم کے ایک عادلانہ روش اور طرز عمل پیش کیا ہے اور ہرگز اس سلسلہ میں اسلام کی جدید عملی کشف واکتشاف میں نہیں پڑتا ہے مثال کے طور پر اسلام مجاز میں ربا وسود کے عوامل و اسباب کشف کرنے کےفرق میں نہیں پڑتا ہے بلکہ اسے ممنوع قرار دیتا ہے اور مضاربہ کی بنیاد پر ایک جدید نظام کی بنیاد ڈالتا ہے شہید صدر کے مطابق جب اقتصاد اسلامی ریاستوں کے تمام اسلامی معاشرے میں نفاذ ہو جائے اس وقت عالم یا ماہر اقتصاد، اقتصادی نظریات کو کشف کر سکتا ہے اور علم اقتصادی اسلامی کی تبیین و تشریح کر سکتا ہے
*مکتب اقتصاد اسلامی میں منطقۃ الفراغ*
شھید صدر کے نظریہ کے مطابق اسلام میں منطقۃ الفراغ موجود ہے۔یعنی بعض موارد میں حاکم کو یہ اجازت حاصل ہے کہ وہ خود قانون کو وضع کرے۔ان کا کہنا ہے کہ اسلام کا اقتصادی نظام دو حصوں پر مشتمل ہے۔ایک حصہ وہ ہے جس میں شارع مقدس نے احکام کو بطور معین وضع کیا ہے اور وہ احکام و قوانین قابل تغیر نہیں ہے۔
دوسرا حصہ وہ ہے جس میں وضع احکام یا قانون بنانا حاکم اسلامی (ولی فقیہ) کی ذمہ داری ہے۔
وہ اس حصہ دوم کو منطقۃ الفراغ کا نام دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس سے استفادہ کیا تھا۔
*توالد ذاتی معرفت و حل مشکل استقراء*
شہید صدر نے کسب معرفت کے لیے ان دو راہوں عقل و حس کے علاوہ ایک تیسری جدید اور روش کا اضافہ کیا ہے اور اس سے توالد یا پیدائش ذاتی معرفت کا نام دیا ہے۔
ان کا ماننا ہے کہ انہوں نے اس جدید نظریے کے پیش کرنے کے ساتھ ہی استقراء کے ظنی ہونے کی تاریخی مشکل کو بھی حل کردیا ہے۔ نظریہ توالد ذاتی معرفت یعنی ایک معرفت سے دوسری معرفت کا پیدا کرنا بغیر اس کے ان دونوں کے درمیان کوئی ملازمہ پایا جاتا ہو۔اس نظریے کے مطابق توالد موضوعی یعنی معرفتوں کے درمیان ملازمہ کے ذریعے سے اسے جدید معرفت کا پیدا کرنا۔معرفت عقلی کسب کرنے کا واحد منحصر راستہ نہیں ہے۔۔۔
ارسطو کی منطق کے بر خلاف عمدہ معارف روشن ذاتی کے ساتھ وجود میں آتے ہیں ۔شھید صدر اپنے اس نظریہ کو اپنی کتاب (الأسس المنطقیہ للاستقراء یا مبانی منطقی) میں پیش کیا ہے۔
سیاسی فعالیت
حزب الدعوۃ اسلامیہ کی تشکیل
1377 میں شہید صدر نے عراق کے بعض علماء کے ساتھ مل کر عراقی مسلمانوں کی سیاسی فعالیت کو منظم کرنے کی غرض سے حزب الدعوۃ اسلامیہ کی بنیاد رکھی اور پانچ سال کے بعد بعض مصلحت کی بنا پر اس سے کنارہ کشی اختیار کرلی لیکن وہ اس کے دوسرے اراکین کو اس میں کام کرنے کی تاکید کرتے رہے
جماعۃ العلماء کے ساتھ تعاون
شہید صدر نجف اشرف میں جماعۃ العلماء کے ساتھ تعاون کرتے رہے تھے جس کے ارکان میں شیخ مرتضی آل یاسین، شیخ محمد رضا مظفر، سید مہدی حکیم جیسے علماء شامل تھے، اگرچہ جوانی کے سبب آپ اس جماعت کے رکن نہ تھے مگر اس کے باوجود سنجیدگی سے ان کے ساتھ تعاون کرتے تھے اور جماعۃ العلماء کے بعض مجلہ کے شائع ہونے والے مقالات آپ خود تحریر کرتے تھے۔
انقلاب اسلامی ایران کی حمایت
شہید صدر ایران میں رہبر کبیر امام خمینی کی تحریک کی حمایت کرتے تھے اور آپ نے اپنی کتاب (الاسلام یقود الحیاۃ) اس ہی مقصد کے تحت تالیف کی تھی امام خمینی جب نجف اشرف میں تھے تو شہید صدر کا امام خمینی کے ساتھ بہت قریبی رابطہ تھا شہید صدر نے امام خمینی کے بارے میں تاریخ ساز پیغام امت مسلمہ کے گوش گزار کیا اور فرمایا : امام خمینی میں اس طرح ضم ہو جاؤ جس طرح وہ اسلام میں ضم ہوگئے
*بعث پارٹی کیلئے حرام کا فتویٰ*
جس وقت حکومت عراق نے عوام کو بعث پارٹی کارکن لازم اور ضروری سمجھا تو شہید صدر نے اس کے رد عمل میں بعث پارٹی کے ساتھ ملحق ہونے کے سلسلے میں حرام کا فتوی دیا جس کے نتیجے میں بہت سارے افراد نے اسکا بننے سے پرہیز کیا۔
شھید صدر اسلام کا ایسا نایاب گوہر تھے کہ جس نے اپنی پوری زندگی خدا اور اہل بیت ع کی خدمت کیلئے وقف کردی تھی اور اس راہ میں شھادت جیسی عظیم نعمت سے نوازے گئے خداوند کریم سے دعاء ہے کہ انکی روح کو شادو باد رکھے اور ہمیں بھی انکی راہ پر چلتے ہوئے شھادت جیسی نعمت سے بھرہ مند فرمائے ۔