مغربی اقدار اور سید محمد باقرالصدر

مغربی اقدار اور سید محمد باقرالصدر

تحریر:زاہدحسین زاہدی

مقدمہ
عصرحاضرمیں مسلمانوں کے لئے سب سے بڑا چیلنج عالم اسلام پر مغربی اقدار اور نظریات کا غلبہ ہے یہ غلبہ نہ صرف عسکری میدان تک محدود رہا بلکہ اس نے عالم اسلام کے فکری اور تہذیبی حدود کو بھی پارہ پارہ کردیا ہے۔ چونکہ اب مغربی اقدار صرف اس بات پر متمرکز نہیں ہیں کہ عسکری قوت کے ذریعے سے عالم اسلام پر غلبہ حاصل کیا جائے بلکہ نت نئے علوم اور فنون اور جدید وسائل اور ذرائع کی روز بہ روز ترقی سے مسلمانوں کا ایک بہت بڑا طبقہ یا یوں کہیں کہ عامۃ الناس بے حد متاثر ہورہے ہیں۔ اسی وجہ سے مسلمانوں کے عقائد،تاریخ،فقہ اور تفسیریہاں تک ان کی چال اور چلن اوررہن سہن کے اطوار بھی کسی نہ کسی حد تک متاثرہوئے ہیں۔ یہ وہ پچیدہ معمہ ہے جو عصرحاضر میں عالم اسلام کو درپیش ہے۔آیت اللہ جعفر سبحانی اپنی کتاب” قرآن کا دائمی منشور “میں بیان کرتے ہیں کہ”دینی مسائل اور اصول مذہب بھی نئی مغربی فکرکی زد میں آگئےہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ مغرب والوں نے اپنے سارےفیصلے قوت حسی اورتجربہ پر استوار کئے اور ماوراء طبیعی مسائل سے منہ موڑ کر بعض اوقات اس کے خلاف فیصلے سنائے ۔چنانچہ جو چیز ان کے تجربات سے باہر تھی ، اسے افسانہ اور من گھڑت قرار دیا گیا۔ جب یہ طرز فکر مشرق میں پہنچا تو اس کا لازمی نتیجہ ماوراءطبیعت مسائل اور معارف الہی کے بارے میں غلط فہمیاں پھیلنا ہی تھا۔ چنانچہ کچھ لوگوں کو اس نے الحاد اور انکار کی طرف مائل کیا اور بعض کو بہت سی آیات قرآنی کی تاویل پرآمادہ کیا ۔یہاں تک کہ انبیاؑ کے معجزات، روح،فرشتےاور عالم برزخ جیسے موضوعات بھی، جو قرآنی نگاہ سے درست تھے، اب مادہ پرستی کے اصولوں پر پرکھے جانے لگے اور اسی نہج پران کی تفسیر ہونے لگی ہے۔علم طبعیات کی ترقی نے کچھ لوگوں کو اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ ان مسائل میں حدود سے تجاوز کرتے ہوئے بہت سی آیات قرآنی کی طبعیات اور ریاضی کے قوانین کے مطابق توجیہ کریں۔ گویا قرآن محض ایک طبیعیات اور کیمیا کی کتاب ہے ۔اس کا دوسرا نہ کوئی ہدف ہے نہ مقصد” (قرآن کا دائمی منشور،ج1،ص25-26)
اسی طرح شہید صدر کے حوالے سے کتاب اقتصادنا کے مقدمہ میں علامہ ذیشان حیدر جوادی لکھتے ہیں”کتاب کے پہلے حصہ میں معاشیات کے علمی پہلو کومحور بحث بنایا گیا ہے۔اس میں آدم اسمتھ،ریکارڈ،کارل مارکس سے لیکر لنین اور اسٹالین تک کے اشتراکی نظریات اورجدیدترین امریکہ کے راسمالی تصورات کا تجزیہ کیا گیا ہے۔قیمت کی بنیاد،قیمت کے اقسام،ذاتی ملکیت کے فوائد و نقائص،سرمایہ داری کی بنیادیں،اشتراکیت کے اصول، اسلام کے امتیازی نشانات سے بحث کرکے یہ واضح کیا گیا علمی اصول و قوانین کی روشنی میں بھی اشتراکیت و راسمالیت کے اصول و تعلیمات نامکمل ہیں اور اسلام ہی دنیا کا وہ واحد نظام ہے جس کے اصول اور آئین کسی دور معاشیات میں ناکام نہیں ہو سکتے ہیں۔”( اقتصادنا،ص95)
اس چیلنج کو مد نظر رکھتے ہوئے شہید صدرؒ آج کا انسان اور اجتماعی مشکلات نامی کتا ب میں یوں لکھتے ہیں”دور حاضر کا وہ اہم مسئلہ جس نے انسانی فکر کو پراکندہ کردیا اور جس کا تعلق براہ راست انسانی زندگی کی گہرائیوں سے ہے اور ایک ایسے نظام کی تلاش کا ہے جو انسانیت کے لئے مفید اور اجتماعی زندگی کے لئے موزوں و مناسب ہو”اسی وجہ سے آگے چل کر فرماتے ہیں”اجتماعی زندگی کے بنیادی مسئلے کو سمجھ لینے کے بعد ہمیں یہ دیکھنا پڑیگا کہ آج کا انسان، اس مسئلے کو حل کرنے کی کتنی صلاحیت رکھتا ہے اور وہ کن شرائط و لوازم سے آراستہ ہے تاکہ صحیح طور پر یہ اندازہ ہوسکے کہ اس کے جواب میں کتنا وزن ہے۔مثال کے طور پر ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ انسانی سماج کے لئے سرمایہ دار نظام زیادہ مناسب ہے یا اشتراکی نظام؟ ” (آج کا انسان اور اجتماعی مشکلات،ص7 )
ابوالحسن ندوی اپنی کتاب “مسلم ممالک میں اسلامیت اور مغربیت کی کشمکش “میں لکھتے ہیں”میرے نزدیک یہی اس وقت مسلم ممالک کا سب سےبڑا اور حقیقی مسئلہ یہ ہے کہ مغربی تہذیب کے بارے میں یہ ممالک کیا رویہ اختیار کرتےہیں؟اور اپنے معاشرے کو موجودہ زندگی سے ہم آہنگ بنانے اور زمانے کے تقاضوں سے عہدہ برآ ہونے کے لئے کون سی راہ اختیار کرتے ہیں؟اور اس میں کس حد تک ذہانت جرائت کا ثبوت دیتے ہیں؟۔( مسلم ممالک میں اسلامیت اور مغربیت کی کشمکش،ص7 )آپ مزید اس کشمکش کو روشن کرتے ہوئے لکھتےہیں”اس وقت تقریبا تمام مسلمان ممالک ایک ذہنی کشمکش اور شاید زیادہ صحیح الفاظ میں ایک ذہنی معرکہ برپا ہے،جس کو ہم اسلامی افکار و اقدار اور مغربی اقدار و افکار کی کشمکش یا معرکہ سے تعبیر کرسکتے ہیں ،ان ملکوں کی قدیم تاریخ،مسلم اقوام کی اسلام سے گہری وابستگی اور محبت اور جس نام پر جنگ آزادی لڑی اور جیتی گئی سب کا دعوی ہے اس سرزمین پر صرف اسلامی افکار اور اقدار کا حق ہےاور یہاں صرف اس مسلک زندگی کی پیروی جائز ہے ،جس کی اسلام نے دعوت دی ہے اس کے برعکس جس طبقہ کے ہاتھ میں اس وقت اسلامی ممالک کی زمام کار ہے ،اس کی ذہنی ساخت،اس کی تعلیم و تربیت اور اس کی ذاتی و سیاسی مصالح کا تقاضا یہ ہے کہ ان ممالک میں مغربی افکار و اقدار کو فروغ دیا جائے اور ان ممالک کو مغربی ممالک کے نقش قدم پر چلایا جا ئے اور جو دینی تصورات ،قومی عادات،ضوابط حیات،قوانین و روایات اس مقصد میں مزاحم ہوں،ان میں ترمیم و تنسیخ کی جائے اور بالاختصار یہ کہ ملک و معاشرہ کو تدریجی طور پر مغربیت کے سانچے میں ڈھال لیا جائے۔ ( مسلم ممالک میں اسلامیت اور مغربیت کی کشمکش،ص11)
شہید صدر اپنی کتاب اقتصادنا میں اس المیہ کو یوں بیان کرتے ہیں”جب سے عالم اسلام نے یورپ کی زندگی کا جائزہ لینا شروع کیا اور تہذیب و تمدن کے قافلے میں اسے میر کارواں کی حیثیت دے کر اپنے حقیقی پیغام اور آسمانی نظام کو نظر انداز کردیا، اسے بھی یورپ جیسی تقلیدی تقسیم کا احساس ہونےلگا اور یہ بھی سوچتا ہے کہ اقتصادی سطح پر دنیا کے ممالک دو حصوں میں بٹے ہوئے ہیں:”ترقی یافتہ اورپسماندہ”۔اور چونکہ اسلامی ممالک کا شمار پسماندہ ممالک میں ہوتاہے اس لئے یورپ کی منطق کے حساب سے اس کا فرض ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کی رہنمائی پر ایمان لا کر ان کے لئے راستہ کھول دیں تاکہ وہ اپنی روح پھونک کر سطحی ارتقا کے راستے ہموار کرلیں۔یہی وہ طرز فکر ہے جس نے عالم اسلام کو مغربی تہذیب و تمدن کی گود میں ڈال دیا اور اسے یہ باور کرا دیا کہ تو ترقی کے راستوں میں پسماندہ ہے اور تجھے اس یورپ کے افکار کو اپنانا چاہیے جس نے اقتصادی میدان میں خود کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا کردیا ہے۔وہ ممالک اسلامیہ کو ارتقا کی راہوں پر لگا کر ایک حاوی اور ہمہ گیر اقتصادی نظام دے سکتا ہے اس نےقیادت کے تجربے کیے ہیں اور ان کے پاس ان تجربات کے خطوط و نشانات محفوظ ہیں۔”( اقتصادنا،ص101 )
اسی علت سے عالم اسلام کے بہت سے مفکرین اور دانشوروں نے مغربی اقدار اور افکار کے مقابل میں مسلمانوں کو بیدار کرنیکی کوشش کی اور اس ثقافت کے سیلابی تاثر کو روکنے کے لئے مختلف ابعاد پر خامہ فرسائی کی ہے۔ انہی شخصیات میں سے ایک جس نے مغربی اقدار پر مختلف پہلووں سے خامہ فرسائی کی ہے ، شہیدباقرالصدرؒ تھے ۔ ا گرچہ اس وقت حوزہ علمیہ نجف میں بڑے بڑے علما اور فقہا موجود تھے مگر شہید صدرؒ کو جو فوقیت حاصل تھی وہ کئی پہلوؤں سے ممتاز تھی۔ ہم یہاں پر صرف اس کے تین پہلوؤں کی طرف اشارہ کریں گے :

1۔ دین مخصوص پیرائے میں:
سب سے پہلی مشکل اس وقت جو حوزات علمیہ میں رائج ہوئی تھی وہ دین کی شناخت اور حقیقت کو بیان کرنا تھا جو ایک مخصوص پیرائے میں ہوتی تھی جس کو ادا کرنے کے مخصوص الفاظ اور اصطلاحات ہوتے تھے اور انہیں رٹنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا اور طلاب کا کام انہی اصطلاحات کو صبح و شام رٹنے کے سوا اور کوئی کام نہ تھا۔ اس کے علاوہ دین کو کسی اور پیرائے اور اصطلاحات میں پیش کرنے کی کوئی خاص کوشش بھی نہیں ہوتی تھی۔ اگر کسی کی جانب سے کوئی ایسی کوشش کی جاتی تو اس پر نت نئے الزامات لگا کر خاموش کردیا جاتا تھا۔ اس لئے شہید صدر وہ عظیم مفکر تھے جس نے پوری توانائی صرف کی تاکہ دین کو ایک نئے زوایے سےپیش کریں تاکہ وہ ذہنی تبدیلی سے ہماہنگ ہو۔ اس کی واضح مثال ان کی کتاب “اقتصادنا” ہے جس میں اسلامی معیشت کے بارے میں ایک نئی جہت سے گفتگو کی اور مدلل طریقے سے اسلامی نقطہ نظر کو پیش کیا۔ آپ نے نہ صرف اسلامی معیشت پر قلم اٹھایا،بلکہ حوزہ علمیہ کے رائج نصاب کو بھی اس کی مخصوص اصطلاحات کے ساتھ نہایت خوبصورت طریقے سے تبدیل کرنے کی کوشش کی۔ اس کی واضح مثال آپ کی بہت وہ تالیفات ہیں جو فقہ، فلسفہ سیاست اور معرفت شناسی جیسے موضوعات اورعلوم میں جدید نظریات کے ساتھ پیش کی ہیں ۔جن میں سے اہم ترین فلسفتنا، اقتصادنا، دروس فی علم الاصول (مشہور بہ حلقات) اور الاسس المنطقیہ للاستقراء ہیں۔
شہیدؒ نے بعثی و کمیونسٹ نظریات کی ردّ میں اپنے قلم کو ہتھیار بنایا اور آیۃ اللہ محسن الحکیم کی خواہش پر ان نظریات کا علمی مقابلہ و محاکمہ کیا اور اس مقصد کیلئے ایک بہت ہی دقیق علمی کتاب “فلسفتنا” یعنی ہمارا فلسفہ، اسلامی اقتصادیات میں “اقتصادنا” لکھ کر شائع کروائیں، جنھوں نے فلسفی دنیا میں ہلچل مچا دی اور الحادی و کمیونسٹ نظریات کے بخیے ادھیڑ دئیے۔ یوں آپ کی شہرت کا ڈنکا بیرونی دنیا میں بھی بجنے لگا اور حوزہ نجف سے الحادی نظریات کا جنازہ نکل گیا۔اور اس کے علاوہ آپ کی اصول پر لکھی کتاب “حلقات” کوعلم اصول میں ایک اعلیٰ مقام حاصل ہے، جس نے حوزہ علمیہ کے نصاب میں بہتر تبدیلی دیکھنے کو ملی ہے۔
رہبر معظم انقلاب فرماتے ہیں:”نصابی کتب میں سنجیدہ تبدیلی لانا ہوگی ،کیونکہ تبدیلی کوابتداء سے شروع کرنا ہوگا اور خود نصابی کتب پر کام کرنا چاہئےاور درس خارج کے دوران عملی موضوعات پر تبادلہ خیال کیا جانا چاہئےکچھ عنوانات ہیں – خاص طور پر اصول اور فقہ میں – جن کی حقیقت میں ضرورت نہیں ہے ، لیکن اصولوں اور فقہ میں ، انھیں پڑھایا جاتا ہے۔ہوسکتا ہے کہ ایک فقیہ ،جو بیس سالوں میں استنباط کے دوران ، ایک بار بھی معانی حروف ، یا حقیقت ومجاز کی بحث کی طرف محتاج نہ ہو اس لئے ہمیں اصول کی اتنی غیرضروری مباحث کے لئے اتنے سال کیوں رکنے کی ضرورت ہے؟اس سلسلے میں ، مرحوم شہید صدرؒ نے ایک اچھا کام کیا ہے۔انہوں نے اصول کے درس و تدریس کے بارے میں جو تجاویز پیش کی ہیں وہ بہت اچھی ہیں۔(بیانات معظم‌لہ در ۱۳ آذر ۱۳۷۴ در دیدار جمعی از نخبگان حوزوی با ایشان )
آیت اللہ صادق آملی لاریجانی بیان کرتے ہیں”حالیہ برسوں میں کچھ عظیم افراد ، اصول کو جدید طریقہ سے منظم ، ابواب سازی اور بہتر بنانے میں لگے ہیں۔اس راہ پر گامزن افراد میں سے ایک بہترین کام عظیم اسکالر شہید سید محمد باقر صدرؒ ہیں ان کاکام ، عظیم کام ہے۔حلقات میں اسباق” کے مختلف نصاب ایک تازہ ابواب کے ساتھ ایک نیا اضافہ ہےاگرچہ ان حلقوں کا مجموعہ ابتدائی اور سطح کے طلباء کے لئے لکھا گیا ہے لیکن اس کی نئی ابواب سازی اور طریقہ نگارش اور بحث کا آغاز و اختتام جس طریقہ سے ہوا ہے وہ سب تعریف کے مستحق ہیں۔ اسی طرح شہید باقر الحکیم لکھتے ہیں: “(شہید صدرؒ کی فعالیتوں کا)تیسرا حصہ ، نئے طریقوں پر عمل کرکے تحریروں کو آسان انداز میں پیش کرنا ہے چونکہ حوزات علمیہ میں معمولا کتابوں اور تحریروں کو پیچیدہ، غیر منظم اور جدید طریقے سے ناہم آہنگ پرانے طریقوں پر لکھا جاتا ہے اسی وجہ سے ان میں ایسے مباحث بھی بیان کئے جاتے ہیں جو اب متروک ہوچکے ہیں۔ اس ضمن میں ، انہوں نے ایسی کتابیں مرتب کیں جن میں قدیم کتب کی آسانی سازی کے ساتھ ایک نئے اور جدید انداز کا عنصر نمایاں ہے اور حوزہ میں پائے جانے والے فقہ اور اصولوں کے جدید نظریات کو بھی منعکس کیاگیا ہے۔ اس حوالے سے “دروس فی علم الاصول” اور “الفتاوی الجدیدہ” کا نام لیا جاسکتا ہے۔( یادواره شہید آیت ‌ا‌لله سید محمدباقر صدرتہیہ ‌کنندگان: الہہ کولائی-فاطمہ حسینی- شریعتمدار، کانون انتشارات ناصر، 1360، ص ۴۰)

2-محور مکتب اہل بیتؑ
دوسرا نکتہ اس حوالے سے یہ ہے کہ اس وقت کے علما، دینی امور میں کسی خاص فکر اور شخصیت کے حامی ہوتے تھے ، اسی مسلک و شخصیت پر تعصب برتتے تھے اور اس شخصیت کے مسلک کے گرد پوری توانائی صرف کی جاتی تھی؛ لیکن شہید صدرؒ نے اس ذاتی مسلک کی بجائے مکتب اہل بیتؑ کو معیار بنایا، اس مکتب کی عالمگیریت اور آفاقیت پر خاص توجہ دی اور اس مکتب کے الہامی پیغامات کا سر نوجائزہ لیا۔ اسی وجہ سے شاید عالم اسلام میں وہ منفرد فقیہ ہیں جنہوں نے علمی اور عملی زوایہ سے اس مکتب کے اصولوں اور معیارات کو زندہ رکھنے کی نہ صرف کوشش کی بلکہ اپنی قیمتی جان کو بھی اس راہ میں قربان کردیا۔

3-باطل نظریات اور افکار کی ردّ:
اگرچہ گزشتہ علمائے کرام بھی حق اوردین کا اچھے طریقے سے ادراک رکھتے تھے ،لیکن باطل کی طرف سے حق اور دین کے مقابلے میں جن افکار اور نظریات کا پرچار کیا جاتا تھا ، وہ ان پر کوئی خاص توجہ نہیں دیتے تھے۔ اس کے برعکس شہید صدرؒ کی یہ خصوصیت تھی کہ انہوں نے دین کی درست افہام و تفہیم کے ساتھ عصر حاضر میں چلنے والی سیاسی،معیشتی اور ثقافتی تحریکوں پر بھی گہری نظر مرکوز کی اور دلائل کی رو سے انہیں سخت تنقید کا نشانہ بنایا ۔ اسی سلسلے میں انتہائی عمیق اور قیمتی آثار بھی منظر عام پر لے آئے۔ آپ کے ایک خاص شاگرد مرحوم آیت اللہ شاہردوی کسی انٹرویو میں فرماتے ہیں:
” ہفتے میں ایک دن ،شاید بدھ کے روز ،شہید صدر ؒ اپنے نئے نقطہ نظر سے اسلامی فلسفہ کے مخصوص موضوعات پر تبادلہ خیال کرتے تھے ۔مثال کے طور پر ، آپ مشرقی و مغرب کے آخرین متون میں ہیگل کی فلسفیانہ فکر کے جدید نظریات کا تعاقب کرتے تھے ۔ آخر میں ایک مفصل کتاب آمادہ کیا تھا جو مشہور جدلیاتی فلسفی ہیگل کے بالکل عین نظریات کا ترجمہ تھا ، جہاں مارکس کے نظریات کی اساس سے بھی اخذ کی گئیں تھی مارکس اور انگلیس، ہیگل کے شاگرد تھے۔ انہوں نے ہیگل سے جدلیاتی بحث کو لےکر تاریخی مباحث میں داخل کیا ہے ۔ جدلیاتی اور جدول بحث کی اصلیت ہیگل سے شروع ہوئی ہے اور اس نے فلسفی جہت سے لایا ہے پھر انہی دونوں سے تفسیر اور تاریخ استفادہ کیا ہے ہیگل کے نظریات مشکل ہیں (اسی وجہ )ہر ایک کو آسانی سے سمجھ نہیں آتا ہے۔ شہید صدرؒ نے ان نظریات کا استیعابی مطالعہ کر کے انہیں اس وقت ایک ضخیم کتاب کی شکل میں مدون کیا تھا۔ ہیگل کے ایک شاگرد نے اس زمانے میں اس کا فلسفہ ایک کتاب کی شکل میں نشر کیا تھا ، جو کسی حد تک قابل اعتبار بھی تھا، انھوں(شہید) نے اس کا بھی مطالعہ کیا ۔ اکثر اوقات اس پر نوٹ لکھتے تھے اور ان مطالعات کے ذریعے سے اپنے طلباء کے ذہنوں کو کھولنے کی کوشش کرتے تھے ۔” (ناگفتہ ہایی از حیات فرهنگی و سیاسی شهید صدر در گفتگو با آیت‌الله ہاشمی شاہرودی ،گزارش خبرگزاری اہل بیت(ع) منبع : ماہنامہ شاہد یاران ) اسی وجہ سے شہید صدرؒ نے نہ صرف اسلامی نظام کی حدود اور پہلووں پر گفتگو کی، بلکہ مختلف لوگوں کی جانب سے اچھالے گئے باطل افکار اور نظریات کو بھی پوری طاقت سے ردکردیا۔