جذبہ ایثار وقربانی

آیت اللہ شہید محمد باقر الصدرؒ

وہ کیفیت جس کے مطابق ہم زندگی گزار رہے تھے اس کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ ہم ایثار اور قربانی کے احساسات سے ہٹ کر شخصی مفادات ہی سے پیوستہ ہو کر رہ گئے ہیں۔(اور اسی وجہ سے مشکلات کاشکار ہیں) اس لئے ہمیں سخت ضرورت ہے کہ شخصی مفادات سے توجہ ہٹا کر اپنے اندر جذبہء ایثار کو پروان چڑھائیں اور افراد کی مصلحتوں کے بجائے پوری قوم کے مفاد کو پیش نظر رکھیں ۔یاد رکھیے ہمیں قومی مفادات کے تحفظ کے لئے شخصی مصلحتوں کی قربانی بہرحال دینی پڑے گی۔

ہم اب تک قومی مفادات کو شخصی مصلحتوں پر قربان کرتے رہے ہیں اور ہمارا مرکز توجہ ذاتی فوائد رہے ہیں اور جب بھی قومی مفادات ذاتی مصلحتوں سے ٹکرائے ہم نے ذاتی مصلحتوں کو ہی ترجیح دی ۔
اور ہماری یہ اخلاقی پستی جس کی بنا پر ہم اپنے انفرادی مفادات ہی میں الجھ کر رہ گئے ،اس نے بیشتر صلاحیتوں اور امکانات کو متاثر کیا۔خاص طور پر جس قسم کے ماحول میں ہم اس مرکز میں زندگی گزار رہے تھے(ایک پراگندہ ماحول جس میں ہر طرف نفسا نفسی کا عالم ہو)ایسے ماحول میں جو لوگ بھی زندگی گزاریں گے ان کی نظر شخصی مفادات پر ہی رہے گی۔قومی مفادات اور عمومی مصالح کے لئے قربانی کا جذبہ ان میں باقی ہی نہیں رہے گا کیونکہ یہ لوگ اپنی صلاحیتوں اور امکانات کو انفرادی فوائد کے حصول اور اسی کے دفاع کے لئے صرف کرتے رہیں گے۔

اور جب قومی مفادات کو ذاتی مصلحتوں پر قربان کرنے کی عادت پڑجائے تو جوشخص بھی ایسے ماحول میں زندگی گزارے گا اسے بس اپنی ہی فکر ہوگی اور جو بھی کوشش کرے گا وہ اپنے ہی تحفظ کے لئے ہوگی ۔
یہی وجہ ہے کہ ہماری اسّی فیصد صلاحیتیں اندرونی مسائل میں ضائع ہوجاتی ہیں جبکہ یہ صلاحیتیں جو اندرونی انتشار کی بنا پر ضائع ہوئیں (انہیں اعلیٰ مقاصد کے لئے بخوبی استعمال کیا جاسکتا تھااور) اگر ہمارے اندر یک باعمل انسان کی خصوصیات زندہ ہوتیں تو ان صاحیتوں کو کو قومی تعمیر پر خرچ کرتے اور یہ کوشش کرتے کہ خدا کی راہ میں ایثار و قربانی کا جذبہ پیدا کر کے شخصی مصلحتوں کو قومی مفادات پر قربان کرنے کی عادت پیدا کریں ،اس جذبہ کو پروان چڑھائیں ،لوگوں کے دلوں میں اس کو راسخ کریں اور وسیع پیمانے پر اسے پھیلائیں۔
اگر ہم قومی شعور کی دولت سے مالا مال ہوتے تو دنیاوی اعداد وشمار کے لحاظ سے بھی ہم اپنی صلاحیتوں سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکتے تھے۔بجائے اس کے کہ ہم اندرونی انتشار کا شکار ہو کر اپنے قومی وجود کو خطرہ میں ڈالتے رہیں اور رفتہ رفتہ تباہی کی طرف قدم بڑھاتے رہیں ۔

ہم کب تک آپس میں دست وگریباں رہیں گے جو روز بروز ہماری بربادی کو یقینی بناتا رہے اور لمحہ بہ لمحہ ہمیں فنا کے نزدیک پہنچاتا رہے ۔کیا ہم کبھی اپنے داخلی انتشات پر غور نہیں کریں گے اور کیا کبھی ایسا نہ ہوگا کہ ہم اپنے چھوٹے چھوٹے فوائد کو قوم کے بڑے مفادات کے لئے بھول جائیں ۔

یادرکھیے! باعمل انسان کی زندگی کی بنیادی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ اسے اپنی ذاتی مصلحتوں کو قوم کے بڑے مفادات کے لیے قربان کرنے کااحساس بھی ہوتا ہے اور سلیقہ بھی۔لہٰذا ہمار لئے بھی یہ بات انتہائی ناگزیر ہے کہ ہم اپنے نفس کی تربیت کریں۔(آزمائش ص۷۵۔۷۶)