شہید صدر ؒ شاگردوں کی نگاہ میں

[1]مرحوم آیت اللہ شیخ محمد علی تسخیری کی گفتگو

(آیت اللہ شیخ محمد علی تسخیری مرحوم کا شمارشہید الصدر ؒ کے برجستہ شاگردوں میں ہوتا ہے۔آپ، شہید الصدر ؒ کی اسلامی تحریک کے فعال رکن بھی رہے ہیں۔ متعدد کتابوں کے مصنف اور عالم اسلام میں اتحاد امت کے صف اول کے داعیوں میں شمار کئے جاتے تھے،ہم اردو زبان میں مرحوم کا شہید صدر کی شخصیت وافکار کے بارے میں ایک اہم انٹرویو کا ترجمہ  پیش کرنے کی سعادت حاصل کررہے ہیں)

٭آیت اللہ محمد علی تسخیری، شہید صدر ؒسے تعارف اور نجف اشرف میں ان کی کلاسوں میں شرکت کے بارے میں فرماتے ہیں:
”میں چالیس سال قبل شہید صدر ؒکی خدمت میں پہنچا اور ان کے اصول وفقہ کے دروس میں شرکت کی اور ان کی نظریہ پر دازی کی گہرائی،اخلاق،روح کی بلندی اور ایمان اور دینداری کاعاشق ہوگیا اور تقریباً ایک دورہ کامل اصول ان سے پڑھا اور عراق سے اخراج کے بعد اس دورہ کو مکمل کیا۔اسی زمانے میں تقریباً فقہ کے اکثر حصوں میں بھی شہید کی شاگردی اختیار کی اور مختلف موضوعات پر شہید کی نظریہ پردازی اور ان کی تقریروں سے متاثر ہوا،اور ان سے اقتصاد اسلامی،تفسیر قرآن،فلسفہ کے بارے میں گرانبہا معلومات حاصل کی۔ حقیقت میں انہی نظریات نے مجھے بتایا کہ اگر میرے پاس کچھ ہے تو وہ سب کچھ استادشہید مرحوم صدر کے بلند افکار کی وجہ سے ہے‘ شہید صدر ؒ عصر حاضر میں بلاسود اسلامی بینک کے اصلی نظریہ سازوں میں سے ہیں۔“

٭آیت اللہ تسخیری شہید صدر کی تفسیر موضوعی کے بارے میں فرماتے ہیں:
”مرحوم صدر ؒ اپنی تفسیر میں ایک موضوع سے مربوط آیات قرآن کو ایک ساتھ جمع کر کے ان تمام آیات سے عصر حاضر کی مشکلات اور موضوعات پر قرآنی نظریے کو کشف کرتے ہیں۔شہید کی شناختی وفکری روش اوراور تفسیر موضوعی کی طرف توجہ میں ایک گہرا ربط ہے کیونکہ شہید صدر کی نظر،جامع تھی۔جس طرح علامہ طباطبائی نے المیزان میں اس موضوعی اسلوب کو انتخاب کیا اور یہ علامہ کے جامع نظریے سے ظہور پذیر ہوئی ہے۔“

٭آیت اللہ تسخیری،شہید صدر ؒ کی طرف سے خود اور حجۃ الاسلام محمد رضا نعمانی کو کتاب”المختصر المفید کی تفسیر القرآن المجید“ لکھنے کی تجویز اور اس تفسیر کی خصوصیات کے بارے میں کہتے ہیں:
”اس زمانے میں ایک انحرافی تفسیرشام میں لکھی گئی اور ہمارے استاد مرحوم نے بندہ اور آقای نعمانی کو حکم دیا کہ ایک مختصر مگر جامع تفسیر، اہل بیت کی نگاہ سے لکھیں جو تقریبی، اجتماعی اور سیاسی خصوصیات کی حامل ہو۔ ہم نے اس تفسیر کو لکھا اور امید ہے اس سال کے آخر تک چھپ جائے۔ اس تفسیر”المختصر المفید فی تفسیر القرآن“ کی خصوصیات میں سے اس کامختصر ہونا ہے،اس طرح قرآن کے ہرصفحے کے مقابلے میں ایک صفحہ تفسیر قرآن ہے اور اس میں قرآن میں دلالت قرآن کے مختلف ابعاد کو بیان کیا گیا ہے۔اس میں مفاہیم قرآنی کے اجتماعی پہلو کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔“

اس تفسیر میں پیغمبر اکرم اور اہل بیت علیہم السلام کی روایات پر اعتماد کیا گیا ہے۔اس بارے میں آپ فرماتے ہیں:”اس اثر کا شمارزمانے کے تقاضوں کے مطابق قرآن کی تحلیلی تفسیر میں ہوتا ہے جس کی تدوین میں مشہور تفاسیر جیسے المیزان(علامہ طباطبائی) اور تفسیر فی ظلال القرآن (سید قطب) اصلی منابع میں سے ہے۔اجتہادی فہم،سیاق اور قرائن کالحاظ بھی اس تفسیر کے دوسرے منابع میں شمار ہوتا ہے۔“

٭ آپ شہید صدر کی تقریبی فکر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:”شہید صدر ؒ تمام عالم اسلام میں شریعت اسلام کے نفاذکے خواہاں تھے۔جس دن آپ نے انقلاب اسلامی کی کامیابی کی خبر سنی بہت خوش ہوئے اور امام خمینی کی خدمت میں بہت خطوط لکھے اور اس آمادگی کا اظہار کیا کہ وہ اپنی مرجعیت کو انقلاب کی خدمت میں قرار دیں۔
شہید صدر ؒ جیسی شخصیت جو وسیع علم اور انسانی عقل کی مالک تھی ا ورعالم اسلام کے مسائل ومشکلات کی طرف آپ کی توجہ تھی،یہ طبیعی ہے کہ آپ کی نظر تقریبی اوراتحاد امت کی حامل ہو۔ شہید صدر ؒہمیشہ سے ہی تقریب اور مذاہب اسلامی کے پیروکاروں کے درمیان ہم بستگی کے داعی تھے۔ فقہ مقارن کا اہتمام اور دنیائے اسلام کے مسائل اور ان کے حل کی طرف متوجہ تھے۔ شہید کا شمار، دنیائے اسلام میں ہم بستگی اور وحدت کے علم برداروں میں سے تھا۔ میں وحدت کے بارے میں شہید صدر کے نظریات کو امام خمینی اور شہید مطہری کے نظریات سے موازنہ کرتا ہوں تو ان بزرگان کے طریقہ اور افکار میں ایک ہم آہنگی موجود ہے۔امید ہے عالم اسلام از سر نومرحوم صدر کو پہچان لے اور اس اصلی وعمیق فکر قرآنی سے بہترین طریقے سے استفادہ کرے۔“

٭آیت اللہ تسخیری نے مجمع تقریب مذاہب کی طرف سے شہید صدر ؒکے افکارکے بارے میں اٹھائے گئے اقدامات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ”اس مجمع نے اس راہ میں بڑے اور گرانبہااقدام اٹھائے ہیں اور آخری سالوں میں مجمع جہانی تقریب مذاہب کے تحقیقاتی مرکز نے تقریب مذاہب کے بارے میں شہید کے نظریات کو”مجتمعنا“ کے نام سے شائع کیا ہے۔اور محققین کا ایک گروہ”اقتصادنا“ کے موضوعات اور مباحث اور ان کے تقریبی افکارپر کام کر رہا ہے۔

میرا اعتقاد ہے کہ شہید کے افکار پر کام کی بہت زیادہ گنجائش موجود ہے اور ہمیں چاہیے کہ اس عظیم الشان مرجع اور عالم اسلام کے گوہر نایاب کے پر برکت وجود سے مختلف مسائل و موضوعات خصوصاً تقریب مذاہب اسلامی کے قیام کے سلسلے میں استفادہ کریں۔“