کربلائے وقت میں بنت الہدیٰ کا زینبی کردار
سیدہ یاسمین نقوی
سیدہ آمنہ بنت الہدیٰ ایک باعظمت اور باکردار اسلامی خاتون تھی اگر قرآن کی رو سے دیکھا جائے تو مرد کے ساتھ خواتین کو بھی زیادہ اہمیت دی گئی ہے اور اسلام میں بہت سی خواتین ایسی گزری ہیں جو نمونہ عمل قرار پائی ہیں جیسے جناب زينب سلام اللہ علیہا ، اور عصر حاضر میں ہم خواتین کی طرف نظر کریں تو خواتین میں بنت الہدیٰ ایک جامع کردار شخصیت کا نام ہے جو ہر لحاظ سے دیگر خواتین کے لئے نمونہ عمل ہے ۔
بعض صفات جن میں سیدہ آمنہ بنت الہدیٰ، سیدہ زینب (س) سے مشابہت رکھتی ہیں۔
۱۔ تبلیغِ دین
اسلام کی ابتدا پر ہم نظر کریں تو خواتین میں سے جناب زینب (س)کی نانی ام المومنین بی بی خدیجۃ الکبریٰ نے اسلام کی راہ میں مدد کی ہیں ۔آپ اسلام کی وہ پہلی خاتون ہے جس نے تبلیغ اسلام کی راہ میں اپنا سارا مال خرچ کیا اور اسی طرح جناب زینب (س) بھی مدینہ کی خواتین کو درس دیتی تھی اور حضرت زینب (س) نے واقعہ کربلا کے بعد کوفہ و شام میں اپنے خطبات کے ذریعے دین حق کی تبلیغ سر انجام دی ۔ اورعصر حاضر کی خواتین میں سے سیدہ آمنہ بنت الہدیٰ نے بھی اُمور دینی کی تبلیغ کے لئے اپنے اور دوسروں کے گھروں میں نشستوں کا انعقاد کیا اور عرب ممالک و عراقی کی خواتین کے لئے مضامین خود تحریر کیا کرتی اور مدارس میں خواتین کو درس دیتی تھی۔
۲۔ خطبات
شہادت امام حسین (ع) کے بعد سیدہ زینب (س) کے اُصولی اور منطقی خطبات نے دربار یزید میں حاضرین کو بہت متاثر کیا یہاں تک کہ خود یزید لعین بھی اہل بیت کے ساتھ نرمی سے پیش آنےپر مجبور ہوا اور سیدہ زینب (س) نے ا علی علیہ السلام کے لہجے میں کوفہ و شام میں ایسے خطبات دیئے کہ گویاامیرالمومنین علی (ع) کی زبان بول رہی ہو اور آپ کے خطبات کا اثر یہ ہوا کہ ظالم خود رو رہے تھے اور پشیمان ہوکر اپنے ہاتھوں کی اُنگلیاں چبا رہے تھے ،
اور جب سیدہ آمنہ بنت الہدیٰ کے بھائی سید باقرالصدر جو کہ عراق کے رہبر ومجتہد تھے جب اُن کو گرفتار کیا گیا تو آپ نے آواز بلند کی کہ یہ بہت بڑا ظلم ہے کہ تمہارا مرجع اورمجتہد کو گرفتار کردیا گیا ہے۔آپ حضرت علی (ع) کے روضہ کی طرف گئیں اور ظالموں کے خلاف خطبہ دیا ۔ جس کا اثر یہ ہوا کہ سید باقر الصدر کو آزاد کردیا گیا ۔
۳۔ صبر و تحمل
جناب زینب (س) کی صفت صبر کو دیکھا جائے تو آپ نےبھائی حضرت امام حسن (ع) سے صبر و تحمل ااور دین کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کرنے کا سبق حاصل کیا اور راہ حق کے دفاع اور دین کی ترویج کا عملی درس اُنہی سے سیکھا۔ اسی وجہ سے واقعہ کربلا میں اوّل سے آخر تک صبر و تحمل سے کام لیا۔اسی طرح سیدہ آمنہ بنت الہدیٰ نے بہی بہت سی سختیاں برداشت کر کے صبر سے کام لیا جس کے نتیجہ میں سید باقرالصدر اور سیدہ آمنہ بنت الہدیٰ دونوں بہن بھائی کو شہید کردیا گیا اور دونوں قرآن مجید کی اس آیت کے مصداق بنے :انّ اللہَ مَعَ الصَّابِرین بتحقیق خدا صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
۴۔ قید و بند
جناب زینب (س) کو واقعہ کربلا کے بعد قیدی بنا کر کوفہ و شام لے جایاگیا اور سیدہ آمنہ بنت الہدیٰ کو بھی قیدی بنا کر لے جایا گیا بس فرق یہ تھا کہ زینب (س) کو اپنے بھائی کی شہادت کے بعد اور سیدہ آمنہ بنت الہدیٰ کو بھائی کے ساتھ گرفتار کر کے قیدی بنایا گیا ۔
۵۔ بھائی سے محبت
جناب زینب (س) کو اپنے بھائی حضرت امام حسین (ع) سے بہت زیادہ محبت تھی یہی وجہ ہے کہ زینب کبری کا زیادہ وقت مولا حسین کے ساتھ گزرتی اور یہی طریقہ سیدہ آمنہ بنت الہدیٰ نے بھی اپنے بھائی سید باقرالصدر کے ساتھ اپنایا اور ہ بھی اپنے بھائی سے بہت محبت کرتی تھی۔ جب بعثی کارندے سید باقرالصدر کو گرفتار کر کے لے جا رہے تھے تو اس وقت سیدہ آمنہ بنت الہدیٰ نے اپنے بھائی سے کہا کہ: میں واپس نہیں جاوں گی، تادم آخر آپ کے ساتھ ساتھ رہوں گی جیسے زینب (س) اپنے بھائی حسین (ع) کے ساتھ رہی تھی۔
۶۔ قیام
جناب زینب (س) بنت علی علیہ السلام اپنے بھائی مولا حسین علیہ السلام کے ساتھ اپنے وطن مدینہ کو چھوڑکربلا کی طرف چلیں اورمولا حسین (ع)کے قیام میں شریک رہی۔اسی طرح سیدہ آمنہ بنت الہدیٰ بھی قیام میں شانہ بہ شانہ اپنے بھائی کے ساتھ رہیں یعنی جب بھی دین اسلام کی بات ہوتی اور اُس کی بقا کے لئے میدان میں اُترنا پڑے تو ہر مسلمان مرد اور عورت پر یکساں طور یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ قیام کرتے ہوئے میدان وارد ہوجائے ، چنانچہ اس اسلوب کار کو شہیدہ آمنہ بنت الہدی نے بہت اچھی طرح نبھایا اور انکا یہ عمل تمام مومنہ خواتین کیلئے بھی نمونہ عمل ہے۔ اور اس ضمن میں جس طرح معاشرے کو مرد ہیروز کی ضرورت ہے اسی طرح خواتین کی بھی ضرورت ہے اگر مرد ہیرو بنتے ہیں تو اس جذبے کی تربیت میں ایک خاتون ضرور شامل ہوتی ہے اس لئے ضروری ہے کہ ہم اپنی بیٹیوں کی تربیت بھی ایسی کریں تاکہ وہ بھی اسلامی ہیروز بنانے میں کامیاب ہوں یہی وجہ ہے کہ ہماری خواتین کے مد نظر بنت الہدیٰ کا کردار ہونا چاہئے کہ ہردور میں ہمارا سماج اور معاشرہ شہیدہ بنت الہدیٰ جیسی خواتین کے کردار سے خالی نہ ہو۔