شہیدہ آمنہ بنت الہدی اور تاریخ میں عورت کاکردار

شہیدہ آمنہ بنت الہدی اور تاریخ میں عورت کاکردار

ڈاکٹر خدیجہ بتول

شہیدہ بنت الہدیٰ کی سوانح حیات
آیت اللہ حیدر صدر کو اللہ تعالیٰ نے کوایک بیٹی سے نواز جن کا نام آمنہ رکھا گیا۔انکی والدہ محترمہ آیت اللہ محمد رضاآل یاسین کی بہن تھیں۔ دو سال کی عمر میں سیدہ آمنہ والد کے سایہ سے محروم ہوگئیں۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم اپنی والدہ سے حاصل کی۔اس کے بعد نحو،منطق، فقہ واصول جیسے علوم اپنے دونوں بھائیوں سے حاصل کیے۔آپ ایک عالمہ،فاضلہ خاتون تھیں۔ وہ بیک وقت عالمہ،معلمہ،منتظمہ،ادیبہ او ر شاعرہ تھیں۔ شہیدہ بنت الہدی نجف،کاظمین اور بغداد میں موجود مدارس الزہرا کی منتظمہ اور سرپرست مقرر ہوئیں۔ وہ بطور مدرس بھی خدمات انجام دیتی رہیں۔ جب عراقی حکومت نے ان اداروں کو حکومتی سرپرستی میں لیا تو آپ نے ان اداروں کی نظارت چھوڑ دی۔دینی شعور وآگاہی کے علاوہ آپ سماجی وسیاسی شعور بھی رکھتی تھیں۔
شہیدہ بنت الہدی عراق میں خواتین کی اسلامی تحریک میں پیش پیش رہیں۔ دینی تربیت کے علاوہ خواتین کو سیاسی آگاہی دلائی۔ آپ جناب زینب کے نقش قدم پر گامزن رہیں۔ جس طرح حضرت زینب نے اپنے بھائی حسین کاساتھ دیا اور امام کی شہادت کے بعد امام کی مظلومیت اور یزید کے ظلم وستم کو اپنے خطبوں کے ذریعے دنیا کے سامنے آشکار کیا اسی طرح آمنہ بنت الہدی نے اپنے بھائی آیت اللہ باقر الصدر کا بھر پور ساتھ دیا۔صدام کے مظالم کو اپنی تقریروں اور تحریروں کے ذریعے نمایاں کرتی رہیں۔عوام میں ظالم سے نفرت اور مظلوم کی حمایت کے فلسفہ کو اجاگر کیا۔
آیت اللہ باقر الصدر ایک نابغہ روزگار شخصیت کے مالک تھے۔علم اصول،فقہ،فلسفہ ومنطق کے علاوہ اقتصاد کے ماہر تھے۔ان کی انقلابی سوچ اور فکر سے صدام کو یہ خوف لاحق ہوا کہ کہیں عوام حکومت کے خلاف بغاوت نہ کرے۔چنانچہ انہیں گرفتار کیا گیا۔اس موقع پر بنت الہدی نے اپنے بھائی کی گرفتاری کے خلاف اجتماعات کیے،تقریریں کیں اور عوام میں شعور پیدا کیا کہ ظالم حکمرانوں سے چھٹکارا حاصل کیاجائے۔علی کی شیر دل بیٹی کی طرح ااس خاتون نے دینی وسیاسی میدان میں اپنے آپ کو منوایا۔حکمران اس خاتون سے بھی خائف ہونے لگے اور آخرکار آپ کوبھی گرفتار کر لیا گیا۔
ان کا ایک جملہ مشہور ہوا کہ’’ میری حیات میری بھائی کی حیات میں ہے اور انشا اللہ تب تک میں قید حیات ہوں جب تک میرے بھائی زندہ ہیں۔‘‘
سپاہیوں نے صدام سے پوچھا کہ وہ تو ایک عورت ہے،ان سے ہمیں کیا خطرہ ہوسکتا ہے۔تب اس نے جواب دیا کہ: میں یزید کی غلطی نہیں دہراناچاہتا کہ اس نے حسین کو کو شہید کردیا ور ان کی بہن زینب کو چھوڑدیاجنہوں نے بعد میں اپنے خطبوں کے ذریعے یزیدیت کو نابود کیا۔‘‘
جب آپ کے بھائی کو گرفتار کیا گیا تب آپ نے کہا کہ: اب میرے خاموش رہنے کاوقت نہیں،مرجع وقت کو گرفتار کیاجائے اور میں خاموش بیٹھی رہوں؟ آیت اللہ کاظم حائری نے آپ سے کہا کہ ممکن ہے آپ کی فعالیتوں کی وجہ سے حکومت آپ کوشہید کردے۔سیدہ نے فرمایا کہ: میں راہ خدا میں شہادت کے لیے تیار ہوں مجھے یقین ہے میں راہ حق پر ہوں۔اور اللہ کی رضا میرے شامل حال ہے۔اس بلند ہمت خاتون کی گفتگو سے لگتا ہے کہ یہ زینب بول رہی ہے،وہی کردار،وہی اعتماد،وہی ایمان اور وہی جذبہ۔جی ہاں بنت الہدی زینبی کردار کی مالکہ تھیں ۔
بعثی حکومت نے بالآخر آپ کو گرفتار کیا اور آٹھ اپریل کو اذیتیں دے کر آپ اور آپ کے بھائی کو شہید کیا۔
معاشرہ میں عورت کاکردار
اگر تاریخ اسلام کی خواتین کی زندگی پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ حضرت خدیجہ تجارت کیاکرتی تھی اور کار رسالت میں پیغمبر کی شریک کار رہیں۔حضرت فاطمہ مدینہ میں گھر گھر جاکر حضرت علی کی حقانیت کی گواہی لیتی رہیں،حاکم وقت کے دربار میں اپنی حقانیت ثابت کی اور اپنے حق کی خاطر قیام کیا۔حضرت زینب نے اپنے بھائی امام حسین کی حقانیت اور مظلومیت کو دنیا کے سامنے اجاگر کیا اور کربلا کی شیر دل خاتون کا لقب پایا۔آمنہ بنت الہدی حضرت زینب کبری کے نقش قدم پر چلتی ہوئی درجہ شہادت پر فائز ہوئیں۔
معاشرہ میں عورت سیرت معصومین پر عمل پیرا ہوکر دین ودنیا کے امور میں متحرک رہ سکتی ہے۔ان امور کی انجام دہی کے لئے دینی اور دنیاوی علوم کاحصول الزامی ہے کیونکہ تعلیم انسان کے شعور کو جلابخشتی ہے،حق وباطل کی تمیز سکھاتی ہے، ظالم اور مظلوم کی شناخت کرواتی ہے اور سب سے بڑی بات یہ کہ اپنے نفس کی پہچان کرواتی ہے۔حضرت علی نے فرمایا: من عرف نفسہ فقد عرف ربہ۔