شہیدہ بنت الہدیٰ کی شاگرد طاہرہ حائری سے گفتگو
طیبہ مرزا اسکندری
ترجمہ:مریم حسن
محترمہ طاہرہ حائری آج سے پچاس سال قبل چودہ سال کی عمر میں مدرسہ الزہرا کاظمین میں شہید بنت الہدی کی شاگرد تھی۔ انکا خاندان مذہبی اور انقلابی تھا ، انہوں نے ایران اور کاظمین میں زندگی گزاری تھی اس کے بعد مستقل طور پر ایران، ہجرت کی۔ یہ ایک عراقی انقلابی خاتون ہے جن کے پاس شہیدہ آمنہ بنت الہدی کی شہادت کی برسی پر، اپنی قابل احترام مذہبی استانی کے بارے میں کہنے کیلئے بہت خوبصورت یادوں پر مشتمل باتیں ہیں۔
میں نے اپنی ایک پرانی سہیلی کو فون کیا، جسے میں جانتی تھی جنہیں انقلاب کے آغاز میں عراق سے ملک بدر کیا گیا تھا۔ جب میں نے ان سے بنت الہدی صدر کے متعلق بات کرنے کے لیے "محترمہ طاہرہ حائری سے بات کی جو اس وقت قم میں اپنے چچا کے گھر مہمان تھیں اور جب میں نے ان سے شہیدہ بنت الہدی صدر کے بارے میں گفتگو کرنے کے حوالے سے بات کی تو انہوں نے مجھے اپنی کزن خانم فاطمہ علمی انوری کے پاس بھیج دیا جو ان کے ہاں ٹھہری ہوئی تھی۔ میں نے ان سے چند سوالات کئے۔
۱۔ آپک کی محترمہ بنت الہدی سےواقفیت کب اور کیسے ہوئی؟
جب میں 13 یا 14 سال کی تھی تو محترمہ بنت الہدی صدر ہماری مذہبی ٹیچرتھی۔ وہ بہت پرکشش شخصیت اور روشن چہرے کی مالکہ تھیں۔ میں کسی ایسی ذات کو نہیں جانتی تھی جو ان کے کردار سے محبت نہ کرتی ہو، یہاں تک وہ لوگ جو زیادہ مذہبی نہیں تھے آپ کے کردار کے دلدادہ تھے۔محترمہ بنت الہدی عموما لوگوں سے اور بالخصوص ہم لوگوں سے اس انداز میں بات کرتی تھی کہ ہر کوئی ان سے آسانی کے ساتھ ان سے بڑی انسیت پیدا کر سکتا تھا اور ان کے اخلاق او ر کردار سے سے آگاہ ہوسکتا تھا۔ان کی کلاس میں ایسے بچے بھی تھے جو نہ خود مذہبی تھے اور نہ ہی ان کے گھر والے مگر محترمہ بنت الہدی جیسی استانی سے وابستگی کے نتیجے میں جہاں انہوں نے مذہبی تعلیمات پر پابندی سے عمل شروع کیا وہی انقلابی کردار اپناتے ہوئے شہادت کے درجے بھی فائز ہوئے۔
۲۔کیا شہیدہ کی کلاسزکا بچوں پر اثر ہوتا تھا ؟
جی ہاں: جو استاد دین کے بارے میں بہترین صورت میں علم و آگاہی رکھتا ہو اورساتھ ہی ساتھ خود اہل عمل بھی ہو، اس کا اثر اپنی کلاس کے بچوں پر ضرور ہوتا ہے۔ محترمہ بنت الہدیٰ کی دینی تعلیمات پر مبنی اعلیٰ اخلاقی اقدار جیسے عجز و انکساری ، تقویٰ اور خندہ پیشانی اور لبوں پر مسکراہٹ نے ہر کسی کو ان کی طرف مائل کر دیا تھا۔
مجھے بخوبی یاد ہے، کہ میرا تعلق مذہبی گھرانے سے ہونے کے باوجود میرے ذہن میں ایسے کچھ سوالات تھے جن کے بارے میں دوسرے لوگوں سے سوال کرنے میں مجھے خوف محسوس ہوتا تھا کہ کہیں وہ میرا مذاق نہ اڑائیں۔۔ لیکن انہی سوالات کے جوابات کو میں نے ان سے دریافت کیا تو انہوں نے اپنی لبوں پر ایک پرکشش مسکراہٹ بکھیر دی ۔ مجھے اپنی استانی کا یہ رویہ دیکھ کر بالکل بھی یقین نہیں آ رہا تھا کہ انکا رد عمل ایسا ہوگا۔آپ بچوں کے سوالات کا انکے ذہن کے مطابق بہت اچھے طریقے سے مطمئن کرنے والے جوابات دیتی تھیں۔
۳۔ کیا آپ کو یاد ہے کہ آپ نے کون سا سوال پوچھا تھا؟
ہاں میرا سوال یہ تھا کہ میں ٹی وی دیکھتی تھی اور سبھی مجھے اس بات پر میری مذمت کرتے تھے اور کہتےکہ آپ پر ٹی وی اداکاروں کا اثر پڑے گا۔ جب ان سے میں نے یہ سوالات پوچھا تو انہوں نے نہ تو مجھ پر الزام لگایا اور نہ ہی کوئی خاص بات کہی۔ صرف مسکراہٹ کے ساتھ اپنی دوسری وضاحتوں اور الفاظ سے مجھے یقین دلایا کہ ٹیلی ویژن تفریح کا اچھا ذریعہ نہیں ہے۔پھر میں نے اپنے دوست سے کہا کہ ہمیں اس گمراہ کن آلے کو توڑ دینا چاہیے تاکہ نہ ہم دیکھیں اور نہ ہی دوسرے لوگ دیکھ سکیں۔ انہوں نے کبھی بھی کسی کو ڈائرکٹ امر و نہی نہیں کیا بلکہ وہ لوگوں کی رہنمائی اس انداز میں کرتی تھی کہ وہ خودبخود اسکے فوائد اور نقصانات کو سمجھ سکیں اور مناسب طریقے سے اس پرعمل پیرا ہوسکیں۔
۴۔ شہید بنت الہدی نے کلاس روم میں مذہبی مفاہیم و تعلیمات کو پہنچانے کے لیے کونسا اقدام کیا؟
انہوں نے بہت خوبصورت مذہبی ترانوں ،خاص کر حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا اور حضرت زینب سلام اللہ علیھا کی زندگی کے دلچسپ واقعات کے ذریعے ہمیں ان کے طرز عمل کی طرف لے جانے کی کوشش کی۔ انہوں نے حجاب کے بارے میں کبھی بھی کسی سے ڈائرکٹ بات نہیں کی لیکن جب ہم خود ان مذہبی ترانوں ، اشعار اور دلچسپ واقعات کو سنتے تو خود بخود اسلامی تعلیمات کی جانب مجذوب ہوجاتے اور اان پر عمل کرنے کے لئے آگے بڑھتے تھے۔ شہیدہ بنت الہدیٰ کی گفتگو میں اس قدر گہرا اثر پایا جاتا تھا کہ وہ ہمیں کسی اور دنیا میں لے جاتی تھیں جہاں سکو ن ہی سکون پایا جاتا تھا۔ جب وہ حضرت زینب علیہا السلام کی زندگی اور ان کے کردار کے بارے میں قصے اور اشعار سناتی تو آدمی کے اندر خود بخود وہ انقلابی کیفیت پائی جاتی جو حضرت زینب علیہا السلام کے کردار کے نتیجے میں اسلامی سماج میں معرض وجود میں آئی تھی۔
۵۔ آپ کے خیال میں ایک مذہبی ٹیچر اپنے شاگردوں پر کیسے اثر انداز ہوسکتا ہے؟
میرے خیال میں جب ایک مذہبی ٹیچر اچھی شخصیت اورنیک طرز عمل کا حامل ہو تو وہ اپنی باتوں کو صحیح طریقے سے لوگوں تک پہنچا سکتا ہے اور یقیناً اس کا اثر بھی لوگوں پر بہت گہرا ہوتا ہے۔ میں خود جب بھی ان کی شخصیت اور نورانیت پر مبنی زندگی کا مطالعہ کرتی ہوں تو مجھے خدا یاد آتا تھا ۔ان کی مضبوط اور پرکشش شخصیت ہر شخص کو دین اور مذہب کی جانب جذب کرتی تھی مجھےاس بات پر بہت افسوس ہے کہ میں ان سےزیادہ مستفید نہیں ہوسکی اور جب ہم عراق سے ہجرت کے بعد ایران آئے تو مجھے ان کی شخصیت کے مزید پہلوؤں جیسے ان کاانقلابی ہونا وغیرہ کا علم ہوا، البتہ میری والدہ بھی انہیں خاندانی روابط کی وجہ سے بہت قریب سے جانتی تھیں، وہ اس بات سے بہت خوش تھیں کہ ہمارے پاس ایسی استانیاں بھی ہیں اور مجھے ہروقت ایسی پرہیزکار اور عظیم القدر استانی کی قدر کا مشورہ دیتی تھی۔
۶۔ شہیدہ بنت الہدی « میں اپنے وقت کی زینب ہوں» سے کیا مراد ہے؟
بنت الہدی الصدر کی شخصیت کے دیگر پہلوں خاص طور پر سیاسی پہلو کے بارے طاہرہ حائری نے کہا۔ بنت الہدی صدر ایک شریف خاندان اور سادات سے تعلق رکھتی تھی، آپ ایک شائستہ خاتون تھی، آپ کا ایک خاص وقار تھا۔آپ کے بڑے بھائی کاظمین میں رہتے تھے۔ لیکن آپ اپنے دوسرے بھائی سید محمد باقر الصدر کے ہمراہ نجف میں رہتی تھیں۔آپ کا خاندان نہایت مہربان اور مہمان نواز تھا ۔ آپ لوگوں کو تعلیم دینے اور ان سے روابط کے ساتھ ساتھ، سیاست کے میدان میں ان کی صحیح سمت رہنمائی کرتی۔جب سید محمد باقر کو صدام کی سرپرستی میں بعثیوں نے گرفتار کر کے جیل میں قید کر دیا تو انہوں نے اپنی تربیت یافتہ تیس دیگر انقلابی خواتین کی معیت میں حرم امیر المومنین علیہ السلام کے صحن میں گئیں اور نقاب اوڑھ کر ایک تقریر کی اور انہوں اپنی تقریر میں کہا! "میں زمانے کی زینب ہوں ان لوگوں(بعثیو ں) نے میرے بھائی کو گرفتار کیا ہے اور انہیں زندان میں ڈال دیا ہے۔ اس طرح انہوں نے صدام کی حکومت کوللکارا اور مذموم ارادوں اور منصوبوں کو بے نقاب کیا۔انفرادی اور خاندانی زندگی میں ان کی سعی اور کوشش، صبر و پائیداری اور استقامت کو خواتین نمونہ عمل قرار دے سکتی ہیں۔