شہدا کامقام اور بنت الہدی

شہدا کامقام اور بنت الہدی

زہرا الحسینی

عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ لوگ شہادت اور عام موت کے درمیان فرق محسوس نہیں کرتے بلکہ شہادت کو جان کا ضیاع سمجھتے ہیں۔جبکہ شہادت موت کی ایک قسم ہے ۔جس سے انسان اسی دنیا سے ناطہ توڑ کر ہمیشہ کے لئے چلا جاتا ہے۔ مگر عام موت سے مختلف بھی ہے کہ شہید سفر کے اگلے مرحلے میں داخل ہوجاتا ہے۔یہاں وہ زندہ لوگوں کی طرح اپنا سفر جاری رکھتا ہے ۔ خدا سے اس کا براہ راست رشتہ ہوتا ہے اور اسے خدا سے روزی ملتی رہتی ہے۔البتہ اس کے لئے شعور ضروری ہے۔
حدیث نبوی ہے کہ "شہید” کی سات صفات ہیں ۔
1: جب اس کے خون کا پہلا قطرہ زمین پر گرتا ہے خدا اس کے بدلے اس کے تمام گناہوں کو معاف کر دیتا ہے ۔
2: شہید کا سر زمین پر نہیں لگتا بلکہ وہ حوروں کی گود میں گرتا ہے ۔
3: اسے فورا جنت کی پوشاک پہنائی جاتی ہے۔
4: اسے جنت میں مخصوص مقام (رہائش گاہ) دی جاتی ہے ۔
5: اس کی نظروں کے سامنے جنت کے تمام پھول لائے جاتے ہیں ۔ جنہیں وہ پسند کرتا ہے اس کی رہائش گاہ کی طرف لے آتے ہیں ۔
6: اس کی روح کو جنت میں گھومنے پھرنے کی عام اجازت ہوتی ہے ۔
7: شہید کا خدا سے براہِ راست رابطہ ہوتا ہے ۔
فرمان معصوم علیہ السلام ہے: شہید پر جب تلوار ،تیر یا خنجر چلتا ہے اس پرخدا کے نور کی چادر پھیل جاتی ہے اور اسی نور میں اس قدر مخمور ہوجاتا ہے کہ اسے اپنے جسم کے کٹنے کا احساس نہیں ہوتا ہے ۔اس کی بہترین مثال حضرت یوسف علیہ السلام کے نور کا واقعہ ہے کہ ان کے نور میں مدہوش ہوکر خواتین اپنی انگلیاں کاٹ بیٹھی تھی مگر انہیں احساس تک نہ ہوا تھا ۔
جب عاشق اپنے معشوق سے عشق کرتاہے تو وہ اس کے رنگ میں ڈھل جاتا ہے پھر وہ دنیا کی رنگینیوں سے بے نیاز ہوجاتا ہے۔شہداء بھی عشق کرتے ہیں اور اس عشق کی بنیاد پر وہ اپنے گھر،اولاد،دوست،احباب، حتی کہ اپنے وجود کو بھی خدا کی خاطر لٹا دیتے ہیں ۔پھر اس کا ہر کام، گفتگو اور مقصد ،خدا کی ذات ، حق کو زندہ رکھنا اور ظلم کو خاک میں ملانا ہوتا ہے ۔۔شہید کا جب عشق کمال تک پہنچ جاتا ہے تو وہ خود کو وقت کے امام کی صدا ھل من ناصر پر لیبک کہہ کر اس کا شیدائی ہوجاتا ہے ۔ شہادت نعمات الہیہ میں ایک ایسی نعمت ہے جو انسان کو عروج پر کھڑا کردیتی ہے جس کے نتیجے میں شہید کے نفس کا خریدار خدا ہوتا ہے اور خدا اسکے خون بہا کو خود ادا کرتا ہے۔۔شہادت انسان کو سر بلند کردیتی ہے جب جام شہادت پی کر شہداء سرخرو ہوجاتے ہیں تو وہ بہت سے گمراہ انسانوں کی مدد کرتے ہیں۔ جیسے امام خمینی کا ارشاد ہے کہ: شہداء ان ستاروں کی مانند ہیں جو اندھیرے میں بھٹکتے ہوئے انسانوں کے لئے مشعل راہ ہوتے ہیں انکی رہنمائی اور ہدایت کرتے ہیں نیزان کی رہبری کرکے حقیقی معشوق تک پہنچاتے ہیں۔
اب یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ شہید کی کتنی قسم ہوتی ہیں؟؟
شہید کی قسم دو ہیں
ایک شہید وہ ہوتا ہے جو میدان جنگ میں دشمن سے مقابلہ کرکے راہ خدا میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کر دیتا ہے اور دوسرا شہید وہ ہوتا ہے جو قلم کے ساتھ دین اسلام کی تبلیغ کرکے اپنے الفاظ کے ذریعے دشمن سے مبارزہ کرتا ہے اور اپنے قلم کے ذریعے انقلاب کا جذبہ دلوں میں اجاگر کرتا ہے پھر جب یہ انقلابی الفاظ جب قوم کی رگوں میں دوڑتے ہیں تو اچانک ایک انقلاب برپا ہوجاتا ہے اورنتیجتاً دشمن اس چراغ کو بجھانے کی کوشش کرتا ہے اور پھر اس کا پاک لہو سر زمین خدا پر گراتا ہے۔
ایسے ہی قلم سے جہاد کرنے والے بہت سے ایسے شہید مرد اور عورتیں پیدا ہوئیں ہیں کہ جنہوں نے پہلے اپنی زندگی کو علوم الہیہ سے مزین کرنے میں صرف کردیا پھر جب ان کا علم عروج پر پہنچ کر تبلیغ کرنے کا جب وقت آجاتا تھا تو پھر اپنے قلم وخطابات کے ساتھ دین خدا کا پیغام ہر مسلمان کے گھر تک پہنچاتے پھر وقت کے ظالم حکمران، ان کو شہید کردیتے ہیں۔۔
جیسے صدام ملعون کے دور میں شہید باقر الصدر کی بہن بنت الہدیٰ نے حکومت کو اپنے خطابات اور اشعار کے ساتھ حکومت کا مقابلہ کیا اور اپنے بھائی شہید باقر الصدر کے مشن اور تحریک کو زندہ رکھنے کیلئے ہر ممکن کوشش کرتی رہی شہید بنت الہدیٰ نے بچپن سے ہی حسینی درسگاہ سے یہی سبق سیکھا کہ ہمیشہ ظالم کے مقابلہ میں ڈٹے رہنا ہے۔
کیا ہوا کہ ہم عورت ہے!!
کیا ہوا کہ ہم میدان جنگ میں نہیں جاسکتی!!!
پر ہم اپنے گھر کی چار دیواری میں علم حاصل کرکے اپنے الفاظ کی مدد سے کردار زینبی کو اپناتے ہوئے دشمن کے ایوانوں کو لرزہ بر اندام کر سکتی ہیں کیونکہ دشمن چاہتا یہ ہے کہ عورتوں کو جہالت میں غرق کردے تاکہ ان کے خلاف کوئی آواز اٹھانے والا ہی نہ ہو، کیونکہ انقلابی عورتوں کی وجہ سے شہید باقر الصدر، شہید باقر النمر جیسے دانشور ہر دور میں پیدا ہوتے ہیں۔
اور جب عورت اپنے دین کو بچانے کے لیے آواز بلند کرتی ہے تو کسی دشمن کی ہمت نہیں ہوتی جو اس کو جواب دے سکے۔۔ایسے ہی بنت الہدیٰ نے اپنے گھر کی چار دیواری میں رہ کر علم حاصل کی اور اپنے کردار کے ذریعے اپنی چادر کی حفاظت کے ساتھ صدام جیسے لعین کے خلاف قیام کیا اور اپنے بھائی شہید باقر الصدر کے مشن اور انکے پیغام کو جاری رکھا جب صدام نے دیکھا کہ بنت الہدیٰ سخت پابندیوں اور تکلیفوں کے باوجود بھی اپنے پیغام کولوگوں تک پہنچا رہی ہیں تو صدام ملعون نے سید باقر الصدر کو شہید کرنے کے بعد یہی کہا کہ: میں یزید کی طرح غلطی نہیں کروں گا یزید نے حسین کوشہید کر کے زینب کو چھوڑ دیا تھا پر میں وقت کی زینب کو بھی قتل کردوں گا۔اس وجہ سے صدام نے بنت الہدیٰ کو شہید کروا دیا… 9 اپریل 1980 میں بنت الہدیٰ کو پھانسی دے دی گئی۔۔۔جبکہ صدام بھی یزید کی طرح بھول گیا تھا کہ یہ حسینی خون ہے جتنا بھی قتل کرو گے اتنا ہی مشن آگئے پھیلتا جاۓگا اور پاک لہو کبھی ضائع نہیں ہوگا کیونکہ راہ خدا میں جنہوں نے بھی اپنا پاک لہو دین پر قربان کیا آج وہی شہداء زندہ و جاوید ہیں اور جنہوں نے حق کی آواز کو دبانا چاہا آج تک ان کا نام و نشان ہی باقی نہیں رہا۔بنت الہدیٰ کی زندگی سے ہم سب خواتین کو یہی درس ملتا ہے کہ اپنے گھر میں علم حاصل کرکے اور چادر کی صورت میں اپنے حجاب کو ہتھیار بنا کر وقت کے دشمن کا مقابلہ کریں۔
خدا سے یہی دعا ہے کہ ہر اس بہن بیٹی اور ماں کو شہید بنت الہدیٰ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے جیسے شہیدہ بنت الہدیٰ نے اپنے بھائی کے پیغام کو ہر مسلمان تک پہنچانے کیلئے اٹھا یا تھا، اور انکی سیرت کو اپنے سرمشق قرار دیتے ہوئے آج کی ہر بیٹی نوجوان شہیدوں ( مدافعان حرم)کی وصیتوں اور پیغامات کو ہر مسلمان کے گھر تک پہنچائے۔۔۔اور وقت کے ہر ظالم ب حکمراں کو بتا دے کہ آج بھی زینب علیہا السلام کی درسگاہ موجود ہے جو ہمیں یہی سبق سیکھاتی ہے کہ چادر کی حفاظت کے ساتھ ساتھ بھائیوں کے پاک خون کا انتقام لینا تم سب پر فرض ہے خواہ انتقام علم کے ذریعے لیا جائے یا پھر ہتھیار کے ذریعے۔۔۔۔