شیر دل خاتون

  1. شیر دل خاتون

سیدہ فاطمہ رضوی
کارشناسی ارشد ،بنت الہدی۔ قم

جس طرح سورج کے طلوع ہونے سے پوری دنیا روشن ہوجاتی ہے، لائٹ اور بلب کے جلنے سے گھر روشن ہو جاتا ہے اور اگر کہیں پہ چاروں طرف اندھیرا ہی اندھیرا ہو تو ایک چھوٹی سی شمع بھی روشن ہو جائے تو اس کی بھی روشنی بہت ہوتی ہے۔ آج اگر امامت کا سورج پردہ غیبت میں ہے تو بہت سے علماء اور فقہاء ہیں جو اپنے علم کے ذریعہ سے نور اسلام کو دنیا میں پھیلا رہے ہیں۔ ہر دور میں کوئی نہ کوئی علمبردار موجود رہا ہے۔ یہ سلسلہ امام عصر عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی غیبت کے آغاز سے ابھی تک جاری ہے اور امام کے ظہور تک جاری رہے گا انشاءاللہ۔ ایک دور ایسا بھی رہا ہے کہ جس میں اسلامی ملک میں اسلام کے نام پر بدترین اور ظالم ترین لوگ حکومت کرتے تھے۔ جنہوں نے بنی امیہ اور بنی عباس کی طرح مسلمانوں پر بہت زیادہ ظلم و ستم ڈھائےجنہیں لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اس دوران کوئی ہلکی سی بھی آواز اگر اسلام کے نام پہ بلند ہوتی تھی تو اسے فورا دبا دیا جاتا تھا اور وہ یہ بات گوارا نہیں کرتے تھے کے علم کی روشنی سے امت بیدار ہو، اس کے اندر شعور و بیداری اور تعقل و تفکر پیدا ہو ۔ اس نہایت ہی سخت دور میں ایک گھرانہ ایسا بھی ملتا ہے جس کا ہر فرد کے حصول کی کوشش کرتا ہے۔ صرف مرد ہی نہیں بلکہ ان کی خواتین بھی ظلم و ستم کے خلاف باقاعدہ طور پر آواز بلند کرتی ہیں اور ظالم سے کسی بھی طرح کا خوف نہیں کھاتیں۔ انھیں خواتین میں سے ایک شیر دل خاتون ابھر کر سامنے آتی ہے جو اس دور تاریکی اور ظلم و ستم کو ختم کرنے کی کوشش کرتی ہے، جو اپنے بھائی کے لئے زینب وقت بن کر امت اسلام کو بیدار کرنے کا ارادہ کرتی ہے اور بغیر کسی ڈر اور خوف کے بلند ہمتی کے ساتھ اپنا کام شروع کرتی ہے، یہی سوچ کر کہ اس اندھیرے میں شمع بن کر بھی روشنی پھیلائی جا سکتی ہے۔ یہ گھرانہ کوئی اور نہیں بلکہ خاندان صدر کا گھرانہ تھا اور یہ خاتون کوئی اور نہیں بلکہ بنت الهدی صدر تھیں جو اپنی علمی اور عملی کوششوں اور کاوشوں کے ذریعہ سے لوگوں کو بیدار کرنا چاہتی تھیں۔ بنت الهدی کا اصل نام آمنہ ہے اور آپ کی پیدائش عراق کے شہر کاظمین میں ہوئی، آپ کے والد سید حیدر صدر اور والدہ آیت اللہ آل یاسین کی بیٹی تھیں اور دو بھائی سید اسماعیل اور سید محمد باقر صدر ہیں۔( حسینی حائری، زندگی و افکار شهیدصدر، تہران وزارت فرهنگ ارشاد،ص 32)
آپ 11 سال کی تھیں کہ اپنے بھائی کے ساتھ نجف میں حوزوی تعلیم کا آغاز کیا اور ساتھ ہی ساتھ تفسیر، حدیث، اور تاریخ میں اپنے بھائی آیت اللہ محمد باقر صدر سے استفادہ کرتے ہوئے درجہ اجتہاد پر فائز ہو گئیں۔ تمام مراجع کے احکام سے واقف ہونے کی بنا پر حج کے ایام میں 200 عراقی خواتین کی راہنمائی کے سلسلہ سے حج کے سفر پہ جایا کرتی تھیں۔ ان کی علمی کاوشوں میں سے مدارس الزھرا کی تاسیس ہے جنہیں عراق کے کئی شہروں میں قائم کیا گیا اور نجف و کاظمین کے مدارس کی سرپرستی بھی اپنے ذمہ لی۔ ان مدارس کی خصوصیت یہ تھی کہ ان میں درس کے ساتھ ساتھ عقائد اور دینی تعلیم کی سہولت بھی بچیوں کے لیے موجود تھی لیکن بعثی حکومت نے سنہ 1350 قمری میں مدارس کو گورنمنٹ کے نام کردیا پھر بھی آپ تین دن نجف اور تین دن کاظمین کے مدرسہ میں پڑھاتی تھیں۔ آپ بہترین شاعرہ، ادیبہ اور مصنفہ تھیں۔ آپ کے علمی مقالےالاضواء میگزین میں چھپے ہیں اور ان مقالات کے علاوہ کئی کہانیوں کی کتابیں بھی لکھی گئی ہیں اور آپ نے اپنی داستانوں کے ذریعہ سے اسلام کی برتری اور پاکی کو بیان کیا ہے۔ آپ کی کوشش یہی تھی کہ خواتین کو ان کے حقوق سے آگاہ کریں اور ان کو اس بات سے آگاہ کریں کہ اسلام ہر ظلم کو ختم کرنے کے لئے آیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اس چیز کو بھی ثابت کریں کہ بعض وہ افراد جو اپنی بیویوں یا بیٹیوں پر اسلام کے نام پر ظلم کرتے ہیں اور بد سلوکی کا مظاہرہ کرتے ہیں اس کی وجہ اور بنیاد ان کا جہل ہے۔
آپ کی چند کتابوں کے نام :
حقیقت کی تلاش، کھویا ہوا گھر، اسپتال میں ملاقات، مسلمان خاتون کی شخصیت، دو خاتون اور ایک مرد، فضیلت کامیاب ہے،اے کاش جانتے (الحسون، اعلام النساء المومنات، ص76)
ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد آیت اللہ محمد باقر صدر کی کوشش یہ تھی کہ اسی طرح عراق میں بھی انقلاب برپا ہو، لوگ بیدار ہوں اور ظلم کے خلاف آواز اٹھائیں لیکن صدام حسین کے حکم سے انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ بنت الهدی کی کوشش تھی کہ بھائی کے ساتھ رہیں لیکن بعثی حکومت مانع ہوگئی۔ پھر بھی آپ نے خاموشی اختیار نہیں کی بلکہ امیر المومنین علیہ السلام کے حرم میں گئیں اور رات ہی میں ایسی تقریر کی کہ سارے حاضرین کے رونے کی آوازیں بلند ہوگئیں۔ پھر روزانہ مسلسل ان کی تقاریر جاری رہیں جس کے نتیجہ میں صدام آپ کے بھائی محمد باقر صدر علیہ الرحمہ کو آزاد کرنے پر مجبور ہو گیا۔لیکن چند مہینے کے بعد پھر سے صدام نے محمد باقر صدر کو گرفتار کر لیا اور اس بار اسے پتہ تھا کہ یہ بہن جناب زینب سلام اللہ علیہا کی کنیزوں اور پیروکاروں میں سے ہےاور جو اسے اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہونے دیں گی لہذا اس نے آیت اللہ محمد باقر صدر کی گرفتاری کے ایک دن بعد ہی بہن کو بھی گرفتار کر لیا اور سخت شکنجے میں رکھا۔
آپ خواتین کے درمیان اکثر اس بات کو بیان کرتی تھیں کہ اسلام غریب ہے اور اسلام کے سچے دلسوز کم ہیں۔ کسی بھی حالت میں آپ نے اپنے بھائی کا ساتھ نہیں چھوڑا اور صدام کی متعدد اذیتیں برداشت کیں۔ صدام کے بھائی نے آیت اللہ محمد باقر صدر سے کہا کہ صرف چند جملے آیت اللہ خمینی اور انقلاب اسلامی کے خلاف لکھنے سے رہائی مل جائے گی لیکن انہوں نے قبول نہیں کیا اور گرفتاری کے تین دن بعد صدام کے شدید شکنجے برداشت کرنے کے بعد 22 جمادی الاول سنہ 1400 میں صدام کے حکم سے انہیں شہید کردیا گیا اور ان کی قبر مبارک نجف اشرف کے قبرستان وادی السلام خاندان صدر کے حصہ میں ہے۔(بنت الهدی در آیینه خاطرات منتشر نشده شهیدصدر، ترجمه عبد الکریم زنجانی، ماهنامه شاهد یاران، شماره18)