شہیدہ بنت الہدی کی برسی کی مناسبت سے معروف کالم نگار خواہر سویرا بتول سے خصوصی گفتگو
سوال نمبر ۱: شہیدہ بنت الہدی کی شخصیت،افکار اور ہمارے معاشرے میں اس کے تعارف کی ضرورت کے حوالے سے مختصر اظہار خیال کریں
سویرا بتول:بسم رب الشہدا والصدیقین۔پہلے تو آپ کی میں شکرگزار ہوں کہ شہیدہ کی برسی کے حوالے سے حقیر کو اس قابل سمجھاکہ ان کےبارے میں کچھ عرائض پیش کرسکوں ۔ میرا ذاتی عقیدہ ہے کہ شہیدہ کی شخصیت اس قدر بلند ہے کہ اسے ایک نشست میں بیان کرنا ممکن نہیں۔شہیدہ کی شخصیت کے ایسے بہت سارے پہلو ہیں جو ابھی تک منظرعام پر نہیں آئے اور اس سلسلے میں مزید تحقيقی کاموں کی ضرورت ہے۔شہیدہ کے جو افکار ہیں وہ ایک زینبی خاتون کے افکار ہیں جو معاشرے میں اپنے وقت کے یزید کے سامنے ڈٹ جاتی ہیں۔شہیدہ کی پوری زندگی ایک مجاہدانہ زندگی رہی ہے جس میں قلمی جہاد کے ساتھ ساتھ دوسرے میدانوں میں آپ ہر قدم پر اپنے بھائی شہید باقر الصدر کے ہمراہ شانہ بہ شانہ نظر آتی رہیں۔میں ابھی تک حیران ہوں کہ کیسے اتنی شیر دل خاتون تمام تر باد مخالف کا سامنا تن تنہا کرتی دیکھائی دیتی ہیں بلاشبہ ایسی مثالی خواتین کی زندگی کے پہلو کو عیاں کرنا ہمارا فریضہ ہے۔
اس میں شک نہیں کہ اس وقت ہمارے سماج اور معاشرے میں شہیدہ کے افکار کو عام کرنے کی ضرورت ہے اور اس حوالے سے آپ کی کاوشیں نہ صرف قابل تحسین ہیں بلکہ انہیں ہر پلیٹ فارم پر اجاگر کرنی کی اشد ضرورت ہے۔
سوال نمبر ۲: شہیدہ بنت الہدی کی قلمی خدمات ، نیز کہانیوں اور شاعری کے تناظر میں ابلاغ دین کے سلسلے میں ہماری خواتین کے لیے کیاپیغام ہے؟
سویرا بتول:: شہیدہ بنت الہدی نے اپنے قلمی جہاد کا سلسلہ بہت کم سنی سے ہی شروع کردیاتھا۔آپ نے اپنے قلمی جہاد کے ذریعے نہ صرف علمی،اخلاقی اور اسلامی مطالب کو دوسروں تک پہنچایا بلکہ بیک وقت آٹھ کتابیں مرتب کیں۔بلاشبہ ایک خاتون کا اُس پرآشوب دور میں قلم کے ذریعے جہاد کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ آج کے دور کی نسبت اُس زمانے میں علم کی ترویج کے سلسلے میں زیادہ مشکلات درپیش تھیں۔شہیدہ نے باب العلم کی کنیز ہونے کا حق ادا کرتے ہوئے جھیل محبوس قیدیوں تک نور علم کو پہنچانے کی کوشش کی۔مسلمان بچیوں کی تعلیم کے لیے الزہرا اکیڈمی کا قیام عمل میں لایا اور حقوق نسواں پر کام کیا۔علم کے حصول کا آپ کو اس قدر شوق تھا کہ آپ نے اس وقت حوزہ علمیہ میں رائج علوم جیسے صرف،نحو،اصول فقہ،علم حدیث وغیرہ پر نہ صرف عبور حاصل کیا بلکہ عملی میدان میں بھی دینی علوم کو رواج دینے میں اہم کردار ادا کیا ۔آج کی خواتین کے لیے شہیدہ کی زندگی نمونہ عمل ہے۔مجھے یاد ہے کہ جب میں کبھی کبھار تھک کر قلم و قرطاس کو زمین پر رکھتے ہوئے کچھ دیر آرام کرنے کا خیال ذہن میں آتا ہے تو شہیدہ کی مجاہدانہ زندگی ہمیشہ مجھے جدوجہد کا احساس دلاتی ہے جس کے نتیجے میں اپنے قلمی سفر کا سلسلہ ایک نئے جوش و جذبے کے ساتھ جاری رکھنے پر آمادہ ہوجاتی ہوں۔آج کی خواتین جو ابلاغ کے شعبے سے وابستہ ہیں اگر شہیدہ کی زندگی کا مطالعہ کریں تو ان کی زندگی کے بہت سے گوشوں اور پہلووں سے آشنا ہوں گی جس کے نتیجے میں انہیں جہد مسلسل کے ساتھ عزم واستقلال کا درس ملے گا۔
سوال نمبر ۳: بنت الہدی کے ثقافتی،سماجی وتعلیمی خدمات پرمختصر اظہار نظر کیجیے؟
سویرا بتول:شہیدہ کی تعلیمی خدمات ناقابل بیان ہیں جن کی جانب ہم نے پہلے بھی کسی حدتک اشارہ کیا ہے ۔شہیدہ کی سماجی اور معاشرتی خدمات کی بھی ایک لمبی فہرست ہے۔ایک دینی خاتون جس کے حوالے سے عموما یہ تصور کیا جاتا ہے کہ وہ معاشرے سے کٹی ہوئی مخلوق ہے، چنانچہ شہیدہ کی مجاہدانہ زندگی سے یہ تصور غلط ثابت ہوتا ہے۔شہیدہ نے عملی طور پر یہ ثابت کر دکھایا ہے کہ کس طرح ایک مذہبی خاتون معاشرے میں اپنا کرادر ادا کرسکتی ہے۔ کس طرح وہ اپنی عفت و حیا کے ساتھ ایک زینبی خاتون کے چیلنجز کو قبول کر سکتی ہے۔ہمیں شہیدہ کی سماجی اور ثقافتی کاوشوں کو عام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ آج کل ہمارے معاشرے میں عورت مارچ جیسے مغربی پروپیگنڈوں پر مشتمل نعروں اور سرگرمیوں کو ختم کرکے شہدا سے منسلک ایام کو منایا جاسکے کہ جہاں صرف شہدا کے افکار ونظریات کی بات ہو۔کتنا اچھا ہوگا کہ آپ کسی ایسے تقریب کا حصہ بنیں جہاں ایک زینبی خاتون کا ذکر ہو جو اپنے بھائی کی گرفتاری پر آہ و نالہ بلند کرنے کی بجائے سیرت زینبی کا ثبوت دیتے ہوئے دلیرانہ انداز میں شجاعت کا مظاہرہ کرتی ہیں چنانچہ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔بلاشبہ ایسا جذبہ صرف اور صرف ایک زینبی خاتون کا ہی ہوسکتا ہے ۔ چنانچہ ان باتوں کی تشہیر مہم ہے اوراس ضمن میں شہیدہ کی برسی کا دن سب سے زیادہ معاون اور مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔
سوال نمبر۴: شہیدہ بنت الہدی کی نظر میں عورت کامعاشرتی کردار کیاہوناچاہیے؟
سویرا بتول :شہیدہ کی نگاہ میں خاتون کو معاشرتی اورسماجی ترقی اور علمی میدان میں بھرپور کردار اداکرنا چاہیے۔شہیدہ خود سوشیالوجی کی طالبہ تھیں اور آپ نے اپنے مطالعے کو فقط اسی مضمون سے مربوط کتابوں کی حد تک محدود نہیں رکھا بلکہ عراقی خواتین سے متعلق مسائل کے حل کےلیے بھی کوشاں نظر آئیں ۔آپ نے خواتین کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی۔حقوق نسواں پر کام کیا اور ہمارے دور کی خواتین اور عورتوں کو یہ پیغام دیا کہ وہ کیسے اپنا کردار معاشرے میں ادا کر سکتی ہیں۔
سوال نمبر ۵: شہیدہ کی فداکاری اور جہادی زندگی کے بارے میں آپ کچھ کہنا چاہیں گی؟؟؟
سویرا بتول :ہمارے ہاں جب بھی جہاد کا نام لیا جاتا ہے تو اسے فقط مردوں تک محدود سمجھا جاتا ہے جبکہ شہیدہ بنت الہدی نے اس تصور کو غلط ثابت کر دکھایا ہے۔آپ نے جہاں قلمی جہاد کیا ہے وہی فکری اور عملی جہاد بھی کیا ہے ۔ چنانچہ آپ ہر قدم پر اپنے بھائی شہید باقر الصدر کے ہمراہ نظر آتیں ہیں۔ آپ نے نہ صرف جہاد کے تصور کوتبدیل کیا بلکہ اسی کے ساتھ عملی طور پر یہ بھی ثابت کیا کہ ایک خاتون کس طرح مجاہدانہ زندگی گزار سکتی ہے۔ خدا شاہد ہے کہ پاسبان حرم لکھتے وقت شہیدہ کی مجاہدانہ زندگی میری نگاہوں کے سامنے تھی اور اسکی فکر نے مجھے راہ امام (عج )میں قلمی اور علمی جہاد کی ترویج میں حوصلہ دینے میں میری بہت مدد کی۔
ہم آخر میں اس دعا کے ساتھ کہ پرودگار عالم ہمیں حقیقی معنوں میں شہدا ء کے نقش قدم پہ چلنے کی توفیق عنایت کرے آپ سے اجازت چاہتےہیں۔