شہیدہ بنت الہدی کا قلمی جہاد

شہیدہ بنت الہدی کا قلمی جہاد(())(())

مہرین فاطمہ حسنین
ایم اے اسٹوڈنٹ، اردو ادب .کراچی

شہیدہ آمنہ بنت الہدی کی شخصیت ،جوہر اعلی ہے جو بیک وقت ایک مذہبی اسکالر ، خطیبہ و مربّی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہترین قلمکار بھی تھیں۔ آپ عربی ادب کی ممتاز شاعرہ اور کہانی نویس تھیں۔ عربی ادب میں شامل ، شہیدہ بنت الہدی کے تحریر کردہ فن پارے ان کی ذات کے جوہر میں پنہاں عشق حقیقی سے منعکس ہونے والے الہی رنگوں کی ایک خوب صورت نقاشی ہیں۔
شہیدہ آمنہ بنت الہدی نے سنت الہی کا اتباع کرتے ہوئے ہدایت کو صرف وعظ و نصیحت تک محدود رکھنے کے بجائے اسے اپنی تخلیقی ذہن سے کہانیوں کے پیکر میں تراش کر پیش کیا۔ یہ وہ انداز ہے جسے خدا نے قرآن مجید میں اپنایا اور بہترین قصوں کے بیان سے ایک دلچسپ انداز میں پیغام رسانی کا ہنر متعارف کروایا۔ شہیدہ بنت الہدی نے بھی اپنے زمانے اور حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے خود کو فقط مذہبی مدارس میں درس و تدریس تک محدود رکھنے کے بجائے ادب کے وسیع و عریض میدان سے استفادہ کیا اور اپنی تخلیقی صلاحیت کو بروئےکار لا کر عراقی تہذیب و تمدن اور معاشرے کی نمائندگی کرتے ہوئے وہ کہانیاں سپرد قلم کیں جو اسلامی معاشرہ سازی میں معاون ثابت ہوئیں اور بیک وقت اپنے پڑھنے والوں کے لیے بہترین متن فراہم کرنے کے ساتھ ان کی تربیت اور ہدایت کا سامان بھی بن گئیں۔
قصے کہانیاں ہوں یا شاعری ادب ہر صورت میں انسان کے جذبات اس کے احساسات اور حالات کا بہترین ترجمان قرار پایا ہے۔ دنیا کی ہر بڑی تحریک کی آبیاری کے لیے ادب کی زرخیز زمین ہی کا انتخاب کیا گیا۔ نئے نظریات کی ترسیل ہو یا شعور و آگہی کی شمع روشن کرنا مقصود ہو، پہلی چنگاری ادب ہی سے روشن کی گئی۔
لہذا اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ جہاد کا ایک بہترین اور موثر ترین میدان ہمیشہ سے ادب (لٹریچر) رہا ہے۔
شہیدہ آمنہ بنت الہدی صدر، آل صدر اور آل یاسین خاندان کی نور نظر ایک فقیہہ و عالمہ خاتون ہونے کی نسبت اس بات سے بخوبی آگاہ تھیں کہ اگر دین کے نفاذ کو یقینی بنانا ہے تو اسے مسجد و مدارس سے باہر لا کر عراق کے ہر گھر کا مکین کرنا ہوگا۔ دین کی حدود مدارس تک معین کردینا ہی سب سے بڑی غلطی ہے ۔ جبکہ دین اسلام کے نفاذ سے مراد ہی اس کا روزمرہ کی زندگی میں شامل ہوجانا ہے۔ اس فکر و مطلب کے پیش نظر شہیدہ بنت الہدی نے اپنے قلم سے استفادہ کرتے ہوئے اسے مذہبی اسکالرز کی طرح صرف دینی و فقہی مضامین لکھنے میں صَرف کرنے کی بجائے اسے اپنے تخلیقی ذہن کے سپرد کرکے، عراقی تہذیب اور اسلامی عقائد کے تانے بانے جوڑتے ہوئے کہانیوں کی ایسی فنکارانہ بنت کاری کی کہ عربی ادب میں انقلاب برپا ہوگیا۔
عراقی تہذیب میں موجود رسومات میں سے ہر اچھی رسم کی ترویج کے ساتھ نقصان دہ یا بےمعنی رسم و رواج پر تنقید، مضامین کی صورت میں کرنے کی بجائے آپ نے ان موضوعات کو اپنی کہانیوں کی سانچے میں ڈھال کر پیش کیا جسے عراقی عوام نے نہ صرف پسند کیا بلکہ کھلے دل و دماغ سے قبول بھی کیا اور پھر اسی روِش کے ساتھ آپ نے اپنی کہانیوں سے دین اسلام اور عقائد پر مبنی پیچیدہ ابحاث کا خلاصہ بہترین اور سادہ اسلوب میں بیان کرتے ہوئے عقائد کی ہر الجھی ہوئی گرہ کو اپنی کہانیوں کی مدد سے سلجھایا۔ یوں آپ نے میدانِ ادب کی شہ سوار بن کر اپنا ہدف حاصل کرلیا اور دین کو مدارس کی حد سے باہر لاکر صرف عراق ہی کے ہر گھر میں نہیں بلکہ ہر عرب گھر میں پہنچادیا کہ جہاں جہاں عربی زبان بولی اور پڑھی جاتی وہاں وہاں تک آپ کی کہانیوں اور شاعری کی گونج سنائی دینے لگی۔
شہیدہ آمنہ بنت الہدی نے جس زمانے میں زندگی گزاری وہ صدام لعین کی حکومت کا ایک سخت ترین دور تھا کہ جب نجف اشرف سے چند کلو میٹر دور تک عمامہ پہن کر جانے کی بھی اجازت نہیں تھی۔ دین اسلام کی ترویج پر اس قدر سخت پابندی کے ساتھ ہی لوگوں کو دین سے مزید دور کرنے کے لیے انہیں دنیاوی تعلیم کے نام پر استعماری نظام کے سپرد کیا جارہا تھا۔ ان حالات میں کہ جب فقہاء نے نئی نسل کو مذہب سے دوری اور لادینیت سے بچانے کے لیے دنیاوی تعلیم اور اسکولز کو حرام قرار دے دیا تھا، عراقی معاشرے میں ایک خلا پیدا ہونے لگاکہ وہ گھرانے جو دنیاوی تعلیم حاصل کرتے وہاں مذہب کا وجود نہ تھا اور جو گھرانے مذہبی علوم حاصل کرتے وہ اب دنیاوی علوم سے محروم تھے جس کے نتیجے میں معاشی لحاظ سے مذہبی طبقہ پسماندگی کی طرف جھکنے کے ساتھ سائنسی ترقی کی طرف بڑھتی ہوئی دنیا سے بھی پیچھے ہوتا جارہا تھا۔ اس خلا کو دور کرنے کے لیے شہیدہ آمنہ بنت الہدی میدان میں آئیں اور آپ نے عراق کے مختلف شہروں میں الزہراء نام سے ایسے اسکولز شروع کیے جہاں دنیاوی علوم کے ساتھ حوزوی علوم کو بھی پڑھایا جانے لگا کہ نئی نسل دنیاوی اور دینی علوم دونوں کو ساتھ لے کر آگے بڑھے۔ اس سلسلے میں تعلیمی نصاب کی تیاری سے لے کر اساتذہ کی تربیت تک کی تمام ذمے داریاں آپ از خود ادا کرتیں۔عراقی معاشرے میں اس طرح کے اسکولز کا قیام شہیدہ بنت الہدی کا ایک بہترین تاریخی اقدام تھا مگر یہ سلسلہ زیادہ عرصہ نہ چل سکا اور جلد ہی صدام نے یہ تمام اسکولز حکومتی تحویل میں لے لیے جس کے بعد آپ نے ان تمام اسکولز سے استعفی دے دیا۔
اور پھر سے عراقی عوام کے مسائل کا مستقل حل تلاش کرتی ہوئیں آپ ادب کی پرفیض وادی میں داخل ہوگئیں اور جلد ہی باغبانی شروع کردی۔ آپ نے اس خوبصورت وادی میں اپنی شاعری اور کہانیوں کے ذریعے تفکر و تدبر سے بھرپور اسلامِ حقیقی کے وہ بیج بو دئیے کہ جن کے کھلتے ہی وادی ادب بھی الہی رنگ و بو سے معطر ہوگئی۔
ادب کی اس وسیع و عریض اور پر اثر وادی سے انہیں بے دخل کرنا صدام کے اختیار میں نہ رہا تو بالآخر اس نے اپنی اسی بے بسی کے اعتراف میں آپ کو شہید کروادیا۔
آپ کے بھائی شہید باقر الصدر کی گرفتاری کے کچھ روز بعد ہی صدام نے آپ کو بھی گرفتار کروالیا اور پھر دونوں مظلوم بہن بھائیوں پر بے رحمانہ تشدد کرکے انہیں شہید کردیا۔ یوں اس کار بد سے صدام لعین نے اپنے طور پر ان کا وجود صفحہ ہستی سے مٹادیا جبکہ حقیقت اس کے برعکس رہی کہ شہیدہ بنت الہدی آج بھی اپنی کہانیوں میں زندہ ہیں۔ کہتے ہیں کسی لکھاری کی تحریر کو پڑھنا اس سے ملاقات کرنا ہی ہے۔ ہم آج بھی شہیدہ بنت الہدی سے ان کی کہانیوں میں ملاقات کرسکتے ہیں ان کی لکھی گئی نظموں کو گنگنا کر ان سے کلام کرسکتے ہیں۔
میں جانتی ہوں میں جانتی ہوں
کہ حق کا رستہ بہت کٹھن ہے۔
وہ اپنی اس نظم میں آج بھی ہم سے مخاطب ہیں کہ حق کی سمت بڑھتے قدموں کو گرچہ دشواریوں کا سامنا لازمی ہے مگر پھر بھی یہ قدم پیچھے نہیں ہٹنے چاہئیں کہ آخر فتح حق ہی کے ساتھ ہے پھر چاہے ہم، ہمارا وجود فانی باقی نہ بھی رہے۔ حق ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ باقی رہے گا۔
میں جانتی ہوں
کہ حق کی نصرت وفا کے خوگر سپاہیوں کے لیے رہی ہے
اگرچہ تھوڑے ہوں وہ سپاہی
وفا کے راہی
میں جانتی ہوں
کہ حق ہمیشہ رہا ہے باقی
ہے جو بھی اس کے خلاف بےشک
اسے تباہی کا سامنا ہے
اسی لیے تو ہے میرا پیماں
کہ میں تو اسلام پر جیوں گی
رہِ حقیقت پہ جان دوں گی
میری رگوں میں لہو ہے جب تک
ہر ایک باطل کا ہر دغا کا
شدید انکار ہی کروں گی
میں جانتی ہوں
کہ حق کا رستہ بہت کٹھن ہے
(شاعرہ: آمنہ بنت الہدی صدر، مترجم: ثاقب اکبر)