شہیدہ بنت الہدی، بیداری صدائے بازگشت

شہیدہ بنت الہدی، بیداری صدائے بازگشت

بتول حسین نگری .کارشناسی،مدرسہ جامعۃ المصطفیٰ۔ اصفہان

  1. وَلا تَقُولُوا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَكِنْ لا تَشْعُرُون (سورہ بقرہ، ۱۵۴)
    اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کئے جاتے ہیں ان کے بارے میں یہ نہ کہو کہ وہ مردہ ہیں بلکہ وہ تو زندہ ہیں لیکن تمھیں خبر نہیں۔
    موت زندگی کے اختتام کا نام نہیں بلکہ عالم قیامت کی لامحدود زندگی کی شروعات کا نام ہے۔ چنانچہ ہر ذی روح نے انتقال کرتےہوئے اِس دنیا سے اُس دنیا کی طرف کوچ کرناہے جہاں راحت یا تکلیف سے بھری زندگی کا انحصار ہمارے اعمال پر ہے۔ جو لوگ زندگی جیسی نعمت کو کسی عظیم مقصد کی خاطر قربان کر دیتے ہیں‘ وہ حیاتِ جاوداں پا لیتے ہیں۔ دینِ اسلام میں اللہ کی راہ میں اپنی زندگی قربان کر دینے والوں کو شہید کہا جاتا ہے یعنی وہ اپنی جان کانذرانہ پیش کر کے دراصل اس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ یہ زندگی رب العزت ہی کی امانت تھی‘ لہٰذا اسی کو یہ امانت لوٹا رہے ہیں۔
    زندگی میں آئیڈیل اورنمونے کی تلاش انسان کی فطرت کا حصہ ہے۔اسی لیے انبیا ،ائمہ کو اللہ نے انسان کے لیے نمونہ عمل بناکراس جہان ہست و بود میں بھیجا ،چنانچہ انسان ہدایت کےلئےخداوند متعال نےمردوں کے ساتھ صنف نسواں کیلئے بھی قرآن کریم میں مختلف نمونے پیش کئے۔اور اسی تناظرمیں اسلام میں بہت سی خواتین کا کردار بھی نمونہ عمل قرارپایا۔عصر حاضر کی خواتین میں آمنہ بنت الہدی ایک جامع کردار ہے۔جن پر مختلف پہلووں سے بحث اور گفتگو کی جاسکتی ہےجو دیگر خواتین کے لیے آئیڈیل بن سکتے ہیں۔
    شہیدہ بنت الہدیٰ ندای بیداری
    شہیدہ بنت الہدیٰ دور حاضر کی تاریک تاریخ کی وہ روشن چراغ ہے جس نے کبھی بھی عورت ہونے کی وجہ سے اپنے آپ کو کمزور محسوس نہیں کیا بلکہ انہوں نے اپنے مضبوط ارادے سے ایسی فعالیت سر انجام دی جو رہتی دنیا تک کے لیے خاص کر خواتین کے لیے نمونے عمل قرار پائی۔ چنانچہ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ہر دور کے فرعون و يزيد کے مقابلے میں شروع سے ہی ایک حسین رہا ہے، البتہ اگر ہم غور و فکر کریں تو ہر دور کے حسین کے ساتھ، حسینی مشن و اہداف کو بچانے اور رہتی دنیا تک پیغام حسنیت کو پہنچانے کے لیے ایک با کردار خاتون کا ہاتھ ضرور دکھائی دیتاہے۔ انہی زینبی کردار کی حامل مجاہدہ خواتین میں سے ایک شجاع، بہادر، علم و معرفت سے لبریز اور زینبی عزم و سیرت کی حامل خاتون شہیدہ بنت الہدیٰؒ ہے۔ شہیدہ بنت الہدیٰ وہ عظیم و بہادر خاتون ہے جس نے اپنی پوری زندگی کو راہ اسلام کے لیے واقف کردیا تھا ۔ بلا شبہ انہوں نے ایک فعال و متحرک زندگی گزاری ہے ان کی زندگی کا اولین ہدف اسلام کی اعلی تعلیمات کا حقیقی معنوں میں پرچار کرنا تھا ۔انکا تعلق صنف نازک سے ہونے کے باوجود انتہائی مشکل مرحلہ میں بھی مردوں سے بڑھ کر ثابت قدمی دیکھا دی اور مختلف میدانوں میں اپنی صلاحیتوں و خدمات کے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔
    بنت الہدیٰ کی ہمیشہ یہی کوشش رہتی تھی کہ وہ مخاطبین کے افکار پر کام کرے اس لئے انہوں نے اپنی فکری و ثقافتی سرگرمیوں کا آغاز بچیوں کی کلاسس سے شروع کیا ۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ وہ مختلف کلاسز و کانفرنسوں کے زریعے ہمیشہ لڑکیوں کی تربیت پر زور دیتی تھی خاص کر ان لڑکیوں پر جو سن بلوغت کو پہنچ چکی تھیں یا پہنچنے کے قریب تھیں ان کو حجاب و عبادات کی طرف ترغیب دلانے میں بہت اہتمام کرتی تھی۔
    بنت الہدیٰ ایک ایسے پرآشوب دور میں روشن چراغ کی طرح نمودار ہوئی جہاں پر عورتوں کی آواز کو دبایا جاتا تھا اور عورتوں کا اپنے حق کے لیے بولنا اپنی موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔وہ اس دور میں بہادر خاتون کے طور پر سامنے آئی اور ہمیشہ یہی کوشش کرتی رہی کہ خواتین کے اندر بھی جوش و ولولہ پیدا ہوجاے اور ان کو بھی اپنے حق کے لیے آواز اٹھانے کی جرائت پیدا ہوجائے ۔اس لیے انہوں نے عورتوں کے حق میں بولتے ہوئے ان مردوں کو اپنی تنقید کا نشانہ بنایا جو اپنی بیٹیوں و بہنوں کی قسمت کا فیصلہ ان سے مشورت کے بغیر اپنی خود غرضی کے مطابق کرنا چاہتے تھے۔اور اسی کے ساتھ خود خواتین کو اس بات کا دلاسا دیتی تھی کہ دین اسلام ظلم کو مٹانے اور ظالموں کو سزاء دینے کے لیے آیا ہے مظلوم نسل پیدا کرنے کے لیے نہیں۔
    اور انہوں نے وقت کے طاغوت کے سامنے کھڑے ہوکر اپنی اس بات کو ثابت کرکے دیکھایا کہ مظلوم ظالم کے خلاف بولنے پر آتا ہے تو اس کی پوری نسلوں کو ہلا کررکھ دیتا ہے اور ان کے چین و سکون کو بے چینی میں تبدیل کرتا ہے ۔ چنانچہ آپ کی شجاعت اور بہادری کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ آپ کا دشمن اس حد تک آپ سے خوف زدہ تھا کہ جب آپ کو شہید کرنے کے بعد یزیدوقت سے آپکی شہادت کی علت کے بارے میں پوچھا گیا تو اس نے یہی کہا کہ میں یزید کی غلطی کو دہرا نا نہیں چاہتا تھا اس لئے ان کو بھی شہید کیا۔ تاہم یزید وقت یہ بات بھول چکا تھا کہ جن کے خون میں اہلبیت علیہم السلام سے وفا کا جوہر پایا جاتا ہو اور جن کے خون میں جذبہ شہادت ہو ان کی تاریخ اور داستانوں کو دنیا کوئی بھی طاغوتی طاقت نہیں مٹا سکتی ۔
    1967 میں بنت الہدی ، الزہرا اکیڈمی کے شعبہ ہائے نجف و کاظمین کی سرپرست مقرر ہوئیں۔ اس زمانہ میں وہ نجف میں ایک اور دینی مدرسہ کی سرپرست تھیں۔ اس لئے انہوں نے ہفتہ کے ایام کو تقسیم کر رکھا تھا، آدھا ہفتہ وہ نجف میں اور آدھا کاظمین میں بسر کرتی تھیں۔ وہ مدرسہ کی چھٹی کے بعد اساتید کی تربیت میں وقت صرف کرتی تھیں اور بعد از ظہر کا وقت انہوں نے اسٹوڈنٹس کے سوالوں کے جوابات سے مخصوص کر رکھا تھا۔ 1972 ء میں عراقی حکومت کی وزارت تعلیم و تربیت کی جانب سے الزہرا اکیڈمی سے منسلک مدارس کو سرکاری تعلیمی اداروں سے الحاق پر مبنی دستور کے بعد بنت الہدی نے ان مدارس کی سر پرستی سے استعفی دے دیا اور حکومت کی طرف سے خط ملنے کے باوجود انہوں نے ان کے ساتھ تعاون سے انکار کردیا ، انہوں نے عدم تعاون پر مبنی سوال کا جواب ان الفاظ میں تحریر کیا:
    میں خوشنوی خدا حاصل کرنے کی خاطر ان مدارس میں خدمت سر انجام دے رہی تھی۔ اب ان مدارس کے حکومتی اداروں سے الحاق کے بعداور(بعثی حکومت کی نظارت کے بعد) میرے یہاں رہنے کی بھلا کیا توجیہ ہو سکتی ہے؟
    بنت الہدی ،دینی معاملات میں خواتین کے کردار کی اہمیت سےبخوبی واقف تھیں۔ لہذا انہوں نے اپنے گھر میں اور اسی طرح سے دوسرے گھروں میں امور دینی کی تبلیغ کے لئے نشستوں کا اہتمام کرتے ہوئے تبلیغ کے سلسلے کو جاری رکھا۔ وہ مجلہ الاضواء میں عراقی اور عرب لڑکیوں کے لئے مضامین تحریر کیا کرتی تھیں۔ اس مجلہ میں ان کی تحریروں کا موضوع مسلمان خواتین کے لئے دینی امور کی پابندی اور مغربی تہذیب اور ثقافت کو آئیڈیل قرار دینے سے دوری پر مبنی عنصر کا ر فرما ہوتا تھا۔
    بنت الہدی نے اپنی گفتگو کے لئے مخاطبین کا دائرہ مزید بڑھانے کے لئے تحریر کو ترجیح دی؛ عربی و اسلامی ممالک کی بہت سی خواتین آپ کی کتابوں کے مطالعہ سے اسلامی افکار تک رسائی حاصل کر سکتی تھیں۔ گھریلو مسائل، جاب کرنے والی خواتین کی دشواریاں، مزاق اڑانا، خواتین کی حیثیت کو زیر سوال لانا، خوب صورتی، میک اپ ، حجاب وغیرہ آپکی تحریرات بنیادی مضامین تھے چنانچہ اسی مقصد کے تحت اشعار بھی کہے۔ آپکے زیادہ تر اشعار دینی و مذہبی رنگ میں رنگے نظر آتے ہیں۔
    اپنی اس مختصر زندگی میں عظیم خاتون شہیدہ آمنہ بنت الہدیٰ ؒ نے صدامی دہشت گردوں کے خلاف بلا خوف و خطر عراقی غریب عوام کی بہبود اور تعلیمی لحاظ سے پسماندگی کی دوری اور شعور اسلامی کی بیداری کے لئے فعال کردار ادا کیا اور اپنی زندگی میں انجام دی جانے والی سرگرمیوں اور فعالیتوں سے تمام شعبہ ہائے زندگی کو متاثر کئے بغیر نہیں رکھا۔
    شہید باقر الصدر اور ان کی بہن شہیدہ آمنہ بنت الہدیٰ نے راہ سید الشہداء امام حسین علیہ السلام پر چلتے ہوئے جب دیکھا کہ وقت کا یذید لعین صدام اسلام حقیقی کو مٹانے کی سازشوں میں مصروف ہے اور ظلمت بڑھتی جا رہی ہے تو آپ نے اپنے جد امجد ابا عبد اللہ الحسین علیہ السلام کی سیرت پر عمل کرتے ہوئے صدام لعین کے خلاف اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر قیام کیا ۔ چنانچہ ظالم اور جابر بعثی حکومت کے خلاف مبنی اقدام کے بعد صدام کے حکم پر شہید باقر الصدر کی شہادت کے بعد 9اپریل 1980 کو سیدہ آمنہ بنت الہدیٰ کو بھی پھانسی دے دی گئ۔ لیکن یذید لعین کی طرح صدام لعین بھی یہ بات بھول چکا تھا کہ ابا عبد اللہ الحسین علیہ السلام کے خون مقدس کی طرح شہید باقر الصدر اور شہیدہ آمنہ کا خون بھی اسلام کی آبیاری اور نشو نما کا باعث بنے گا۔خواہ ایران میں آنے والا اسلامی انقلاب ہو یا لبنان میں معرض وجود میں آنے والی حزب اللہ کی مقاومت ،یا پھر ارض فلسطین میں چلنے والی اسلامی تحریک حماس کی جد وجہد یا پھر عراق میں اسلامی نشاۃ ثانیہ ،یہ سب شہید وں کے خون کی برکت اور مرہون منت ہے۔