آمنہ بنت الہدی اور معاشرتی شعور
سیدہ زینب عمران نقوی
اسلامک اسکالر
ہدایت بشرکے لیے ایک الہی نمائندہ ہر زمانے میں موجود رہے ہیں – پہلا انسان جس نے زمین پر قدم رکھا وہ اللہ کی طرف سے ہادی تھا یعنی اللہ نے انتظام ہدایت کو تخلیق انسان پر مقدم رکھا -انبیاء اور اوصیاء کے سلسلے سے واضح ہوتاہے کہ ہادی بنانے کا اختیار کبھی مخلوق کے حوالے نہیں کیا اور ان تمام حجت ہائے الہی کا مقصد ایک ہی تھا : "اللہ کی معرفت” جیسا کہ (سورہ علق آیت8) میں ہے: ان الی ربک الرجعی یقیناً اپنے رب کی طرف ہی پلٹنا ہے
تمام ہادیان خدا کا مقصد مخلوق کو اللہ تک پہنچانا ہےاور مخلوق کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی روح و جان میں اس الہی مقصد کے حصول کے لیے آمادگی ایجاد کرے۔ جو ایسا کرنے میں کامیاب ہو جائے تو ان کے لیے قرآن میں پروردگار اعلان کرتا ہے: فاذکرونی اذکرکم تم میرا ذکر کرو میں تمہارا ذکر کروں گا
یہ مختصر نورانی جملہ، کوزے میں سمندر کے مترادف ہے- خداوند متعال اپنے ذکر کی بقا کے لیے کسی کا محتاج نہیں۔ در اصل میں وہ چاہتا ہے جو اس کے ہو جائیں ان کا ذکر باقی رہے۔ جس نے اس نسخہ کیمیا پر عمل کیا اس نے فنا سے بقا کی طرف رخت سفر باندھ لیا۔ جسکی مثال آمنہ بنت الہدی کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ جس معاشرتی شعور اور بصیرت کے ساتھ انہوں نےاپنے مقصد حیات کو کامیابی سے پایا ہے آئندہ زمانے کی عورتوں کے لیے یقیناً مشعل راہ ہے۔ جس وقت1972ءمیں مدارس الزہراءکا الحاق عراق کی وزارت تعلیم و تربیت سے کردیا گیا تو محترمہ نے اپنے عہدہ سرپرستی مدارس سے استعفی دے کر طاغوت کے مقابلے میں خدا پر بھروسہ کیا۔ حکومت کے اصرار کے باوجود استعفی واپس نہ لیا۔ جب وجہ پوچھی گئی تو کہنے لگیں :لم یکن الهدف من وجودی فی المدرسہ الا نوال مرضاة الله و لما انتفعت الغایة من المدرسۃ بتأمیمها فما هو جدوی وجودی بعد ذلک؟
میں خوشنوی خدا حاصل کرنے کی خاطر ان مدارس میں خدمت انجام دے رہی تھی۔ اب ان مدارس کے حکومت سے الحاق ہونے (بعثی حکومت کی نظارت) کے بعد میرے یہاں رہنے کی بھلا کیا توجیہ ہو سکتی ہے؟
سبحان اللہ یہی جواب ہونا چاہیے تھا ایک مجاہدہء راہ خدا کا۔ اب یہ نہ خیال آئے کہ علی بن یقطین نے بھی توحکم امامِ وقت کے تحت طاغوت کے عہدے کو قبول کر لیا تھا اور اس دور کے شیعوں کو اس عہدے سے فائدہ بھی پہنچا تو اس خیال کو اس دلیل کے ساتھ رد کر دینا چاہیے کہ بنت الہدی کے دور کا تقاضہ یہ ہی تھا۔ اسی کو معاشرتی شعور کہتے ہیں۔ اگر وہ بعثی حکومت کے ساتھ کسی ایک کام میں بھی اتحاد کرتیں تو انکی دوسری مذہبی وسیاسی سرگرمیاں متاثر ہوتیں۔ جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ 1972ء سے 1980ء انکی شہادت تک وہ عرب اور عراقی خواتین میں نہ صرف دینی ثقافت کو اجاگر کرنے میں کوشاں رہیں بلکہ انہیں ان کی ذمہ داریوں سے بھی آگاہ کرتی رہیں۔ کوثرالکوفی جوکہ آمنہ بنت الہدی کی بہت قریبی ساتھیوں میں سےتھی بتاتی ہیں کہ جب ان کو گرفتار کر لیا گیا تو میں ان سے ملنے قیدخانے گئی تو انہوں نے میری سرزنش ان الفاظ میں کی: ” تم نے مسجد جانا کیوں چھوڑ دیا ہے؟ آپ نے شیخ کے لیکچر سننا کیوں بند کر دیا ہے، تم نے اپنا اسلامی کام کیوں روک دیا ہے ؟ کیا یہ ہمارا فرض نہیں ہے؟” تو کوثر نے جواب دیا کہ میں نے شرم کے مارے زمین کی طرف دیکھنا شروع کر دیا اور اپنی قوت مجتمع کر کے کہا: سیدہ کیا آپ کو باہر کے حالات کا علم نہیں ہے ، مجھے ڈر ہے کہ مجھے گرفتار کر لیا جائے گا اور مجھے خوف ہے کہ میں بعث سیکورٹی کے ہاتھ لگ جاؤں گی آپ جانتی ہیں وہ عورتوں کی عزت ہرگز نہیں کرتے۔
شہیدہ بنت الہدٰی نے اپنے الفاظ جاری رکھتے ہوئے کہا” یہ غلط عقائد ہیں، اسلام ہماری عظمت ہے ۔ اگر ہم اسلام کو محفوظ کریں گے تو ہم اپنی عظمت اور فخر کو محفوظ کریں گےہم سیدہ زینب سلام اللہ علیھا کی زندگی سے بہترین سبق سیکھ سکتی ہیں۔
اس بات نے کوثر پر بہت اثر کیا اور انہوں بنت الہدٰی اور ان کے بھائی کی شہادت کے بعد اہم کردار ادا کیا-
چونکہ حق کے ساتھ ہر زمانے میں باطل بھی موجود رہا ہے اور رہے گا اس لیے ہر زمانے میں ایسی ہی الہی بصیرت کی ضرورت ہے جو انسان کو اس کے مقصد تخلیق سے منحرف نہ ہونے دے۔