لفظ میرے مِرے ہونے کی گواہی دیں گے.

لفظ میرے مِرے ہونے کی گواہی دیں گے.

ڈاکٹر عنبر فاطمہ عابدی

جرات و ہمت کااستعارہ ، عزم و استقلال کا روشن ستارہ، زینبی افکار پر لبیک کہنے والی بلند اور واضح نَدا، آمنہ بنت الہدیٰ کی شہادت نے دراصل ان کے افکار کو دنیا بھر میں پہنچانے کا ذریعہ عطا کیا۔ اپنے دورکے ظالم اور سامراجی نظام حکومت کے مقابل جس طرح وہ آخری وقت تک نبرد آزما رہیں ، یقینا اس دور میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ انہوں نے اپنے فکری و انقلابی رجحانات کا اظہار جس طرح تحریر و تقریر کے ذریعے کیا ، اس پر تو فیض کے یہ اشعار صادق آتے ہیں:
ہم پرورشِ لوح و قلم کرتے رہیں گے جو دل پہ گذرتی ہے رقم کرتے رہیں گے
ہاں، تلخی ایام ابھی اور بڑھے گی ہاں اہل ستم مشق ستم کرتے رہیں گے
یقینا انہوں نے اپنے دور کے ہر سماجی نا انصافی،ظلم اور اقدار کی زبوں حالی کے حوالے سے خوب لکھا ۔ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ کوئی ادیب بہترین مقرر بھی ہو، شاعر اور مقالہ نگار بھی ہو اور افسانے اور ناول کی اصناف میں بھی بیک وقت اپنے قلم کو مسلسل رواں رکھےکہ ادب کی یہ تمام اصناف ایک دوسرے سے کافی مختلف سمتوں پر اپنے انداز تحریر اور متنوع موضوعات کی بنا پر اہمیت کی حامل بھی ہیں اور باریک بینی اور مشاہدے کی طلب گار بھی ، تاہم بنت الہدیٰ نے ان تمام ادبی اصناف کو اپنے نظریات کے اظہار کے لیے نہ صرف عمدگی سے انتخاب کیا بلکہ ساتھ ہی ساتھ ہر صنف ادب میں اپنے الفاظ کے ذریعے ایک نئی جہت عطا کی ۔ زندگی کے آخری وقت تک اپنی قوم خاص طور سے نوجوانوں کی اخلاقی ، سماجی اور مذہبی اصلاح ان کی تحریروں کا مرکزی موضوع رہا۔ اور اس کام میں انہوں نے جس طرح سے حال کو موضوع سے مربوط کیا اس ضمن میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان کی ہر تحریر دوسری سے نہ صرف مختلف ہوتی تھی بلکہ منفرد بھی تھی۔ ان کا اسلوب ہر صنف ادب میں جداگانہ حیثیت کا حامل رہا، یہی ایک ادیب کا کمال ہوتا ہے کہ وہ اپنی تحریروں کے ذریعے رائے عامہ کو ہموار کرے اور وہ اس میں کامیاب رہے ۔ گویا’’ خون دل میں ڈبولی ہیں انگلیاں میں نے‘‘ کی مصداق انہوں نے بہت کم وقت میں ایسی تحریری تحریک کا آغاز کیا جو ان کی شہادت کے بعد ختم نہیں ہوئی بلکہ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ ہر قوم اور ہر ملک کی عوام جب ان کی تحریروں سے شناسائی حاصل کرتے ہیں تو انہیں یہ اپنے لیے بھی دعوت فکر وعمل دیتی محسوس ہوتی ہیں ۔ اس حوالے سے بنت الہدیٰ کی شخصیت ، ان کے انقلابی افکار، اور زندگی کےمختلف شعبوں میں ان کی خدمات کے حوالے سے یہ مجلہ ایک خوش آئند امر ہے کہ جس کے ذریعے اردو زبان سے وابستہ افراد بھی با آسانی آمنہ بنت الہدیٰ کی زندگی اور افکار سے آگاہ ہوسکیں گے کہ یہ وہ شہیدہ ہیں جن کی حیات اور کارناموں سے واقفیت کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ زندگی ایک مقصد کو پانے کے لیے کیسے بسر کرنی چاہیے ۔ جس کی تحریر کا ایک ایک لفظ گویا اس امر کی دلیل ہے کہ:
مر بھی جاؤں تو کہاں لوگ بُھلا ہی دیں گے لفظ میرے، مِرے ہونے کی گواہی دیں گے