اکیسویں صدی کے کربلا میں ایک اور بہن بھائی

اکیسویں صدی کے کربلا میں ایک اور بہن بھائی

بشری علوی

چاندنی رات تھی۔ آسمان ستاروں سے سجا ہوا تھا۔ گرمیوں کا موسم تھا۔ کھلے آسمان کے نیچے گھر کے صحن میں ہم دونوں بہن بھائی "فرج زہرا اور محمد مہدی ” بیٹھ کر اپنے دادا جان کے آنے کا انتظار کر رہے تھے۔ اور ساتھ ہی ساتھ باتیں بھی کر رہے تھے ۔
فرج! آج چاند کتنا خوبصورت لگ رہا ہے۔ جی بھائی جان ! ڈگمگاتے ستاروں اور چاند کی خوبصورتی نے آسمان کو بہت ہی دلکش بنایا ہوا ہے۔
اتنے میں دادا جان آگئے ۔ السلام علیکم میرے بچو! وعلیکم السلام دادا جان ۔ دادا جان دیکھئے آج آسمان کتنا پیارا لگ رہا ہے۔ جی بلکل بچو۔جس طرح آپ دونوں کو خوبصورت لگ رہا ہے، ویسے ہی آپ دونوں آسمان والوں کیلئے چمکدار ستاروں کی مانند خوبصورت لگ رہے ہیں۔ "کیا سچ میں دادا جان؟ فرج نے کہا؛
جی ہاں میری بیٹی۔ ویسے یہ بتائے آج آپ دونوں میں لڑائی نہیں ہوئی خیر تو ہے؟ آہ! دادا جان ہمیشہ لڑائی مہدی بھائی ہی شروع کرتے ہیں ۔ دادا جان یہ تو سارا قصور میرا ہی نکالتی ہے۔ ارے اب بس بس اب دونوں نے لڑائی شروع نہیں کردینی ۔
ٹھیک ہے دادا جان۔۔۔۔۔۔۔چلے آج میں آپ دونوں کو ایک ایسے بھائی ، بہن کی کہانی سناتا ہوں جو ایک دوسرے سے بہت محبت کرتے تھے اور ان دونوں نے ہمیشہ ہر میدان میں ایک دوسرے کا ساتھ دیا تھا اور کبھی انہوں نے ایک دوسرے کو اکیلا نہیں چھوڑا۔ حتی کہ وہ راہ خدا میں بھی شہادت کے مرتبے پر ساتھ فائز ہوئے تھے۔
ذیقعدہ کا مہینہ تھا۔ عراق کے شہر کاظمین میں ایک علمی گھرانے میں ایک چھوٹی سی بچی "معصومہ” کی پیدائش ہوئی۔ وہ اپنے بابا کے دل کا ٹکڑا تھی اور بھائیوں کی اس میں جان بسی ہوئی تھی۔ گھر میں سب معصومہ سے بہت محبت کرتے تھے۔ جب دو سال کی ہوئی تھی تو وہ اپنے بابا کی شفقت و محبت سے محروم ہوگئی تھی۔ بعد ازاں بھائی کی زیر تربیت میں پلی بڑھی۔
بچپن سے ہی پڑھنے کا بہت شوق تھا۔جب وہ پہلی مرتبہ اسکول گئی تو وہاں کچھ بچوں نے سردی کی وجہ سے آگ جلائی تو آگ کی وجہ سے ڈر گئی اور اس نے اسکول جانے سے انکار کردیا تھا ،اس کے بعد وہ کبھی اسکول نہیں گئی۔ اپنے بھائی (جو بہت بڑے دانشور، مفکر، مصنف، مفسر، مجتہد(وہ بھی چودہ سال کی عمر میں) تھے۔ جن کو اب شہید چہارم کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔) کے پاس ہی درس پڑھنا شروع کیا۔
معصومہ اپنے بھائیوں سے بہت محبت کرتی تھی۔ اپنے بھائی کے پاس پڑھنے لگی ۔معصومہ نے بہت خوب محنت کی اور دل لگا کر پڑھتی تھی ۔ اسی محنت و لگن کے ساتھ مختلف علوم جیسے: علم فقہ، علم منطق، علم فلسفہ، علم اخلاق اور دوسری موضوعات پر مشتمل اکثر کتابیں مکمل پڑھ لی تھی۔ معصومہ کے بھائی جب چھوٹے تھے تو ان کے تمام دوست احباب اور ان کے اساتید انکے اخلاق و کردار کی وجہ سے آپ کا بہت احترام کرتے تھے۔ استاد دوسرے بچوں کے سامنے انہیں نمونہ عمل قرار دیتے تھے۔ بہت خوش اخلاق تھے ۔ سب کے ساتھ مل جل کر پیار و محبت سے رہتے تھے۔
ان کی شخصیت سے چھوٹے بڑے لوگ بہت متاثر تھے اور ان کو بہت پسند کرتے تھے۔
جب وہ کچھ بڑے ہوئے تو انہوں نے پڑھانا شروع کیا۔۔ ان کے بہت شاگرد ہوتے تھے لیکن ان سب میں خاص ان کی بہن معصومہ تھی۔ انہوں نے اپنے بھائی سے علمی اثر لیا۔وہ ہمیشہ تمام علوم، دلچسپی سے سیکھتی اور اس پر عمل کرتی تھیں۔ اسی طرح انہوں نے اپنے بھائی سے کتابوں سے محبت کرنا سیکھا۔ دونوں بہن بھائی کو جو پیسے ملتے تھے تو وہ کتابیں خرید لیا کرتے تھے اور پھر پڑھنے کے بعد فروخت کرکے دوسری کتابیں لے لیا کرتے تھے۔
دادا جان جب ان بہن بھائی کی باتیں کرتے ہوئے یہاں تک پہنچے تو مہدی نے سوال کیا۔ "دادا جان ، وہ کتابیں کیوں فروخت کرتے تھے؟” "مھدی بیٹا! ان کے گھر کے حالات کچھ ٹھیک نہیں تھے اور ان کے بابا بھی اس دنیا میں نہیں تھے۔” ” اچھا دادا جان پھر کیا ہوا ؟” مہدی نے بڑی دلچسپی سے کہا۔ "جی بیٹا! اب اس کے بچپن کا ایک واقعہ بتاتا ہوں۔
جب وہ بارہ سال کی تھیں تو انہیں ایک شادی میں شرکت کی دعوت ملی۔ لیکن جب انہوں نے اپنے جوتوں کی طرف دیکھا تو وہ پھٹے ہوئے تھے اور ایسے جوتے شادی میں پہن کر جانا مناسب نہیں تھا۔ ان کے پاس ایک صندوقچہ تھا جس میں وہ تھوڑا تھوڑا کرکے پیسہ جمع کرتی تھیں تاکہ ہر مہینے کے آخر میں اس سے کوئی کتاب خرید لیں۔ انہوں نے اس پیسے کو کبھی کسی اور مقصد کے لئے استعمال نہیں کیا۔ انہوں نے اس پیسے سے جوتے خریدنے کے بجائے کتاب خریدنے کو ترجیح دی اور شادی میں جانے کا ارادہ ترک کردیا۔”
"دادا جان! ہم نے کبھی اپنے علاقے میں کسی کو ایسا کرتے ہوئے نہیں دیکھا کہ کتابوں کو اتنی فوقیت دی ہو۔ تقریباً سب ہی مادیت کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔ مہدی نے کہا۔” "جی بلکل بیٹا یہی تو فرق ہے ۔ اگر ہم بھی اس طرح علم سے خود کو آراستہ کرے تو ہم بھی ان عظیم شخصیات کے ساتھ شامل ہوسکتے ہیں۔” "فرج کہنے لگی؛ "دادا جان! ہم کیسے ان کی طرح بن سکتے ہیں؟” "بیٹا اپنے کردار و گفتار کے ذریعے۔۔۔”جس طرح وہ باعمل، باتقوی اور بااخلاق تھی۔ ان کا ہر عمل ان کی عظیم شخصیت کی گواہی دیتا ہے۔ اسی طرح جب معصومہ کی ملاقات مشہور مصنفہ، دانشور ڈاکٹر بنت الشاطی سے ہوئی تو وہ آپ کے علم و عمل، کردار و گفتار سے بہت متاثر ہوئی تو آپ سے کہا؛ "آپ کسی یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہیں؟” تو آپ مسکراتے ہوئے جواب دیتی ہیں؛ "میں اپنے ہی مدرسہ سے فارغ التحصیل ہوں۔” یہ سننے کے بعد ڈاکٹر بنت الشاطی متعجب ہوئی۔ یہاں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا علم و عمل اور کردار و گفتار ہی عظیم شخصیت ہی کی علامت ہے۔
"میرے بچو!جس طرح آپ دونوں کو کہانیوں میں دلچسپی ہے اسی طرح انہیں بھی بہت زیادہ دلچسپی تھی۔” جب وہ دس سال کی تھی تب کہانیاں مجلات وغیرہ پڑھتی تھی، اگر کہیں سے کوئی تحریر مل جاتی تو اس کا مطالعہ کیا کرتی تھی۔ پھر اسی طرح اس نے خود قلم اٹھایا اور کہانیاں اور مقالات لکھنا شروع کیے۔ "دادا جان ایک دن میں بھی اسی طرح کہانیاں لکھوں گی۔” فرج نے جوشیلے انداز سے کہا۔ "ان شاءاللہ میری بیٹی تم ضرور بڑی ہوکر ایک قلمکار بنو گی”
"دادا جان معصومہ بڑی ہوکر کیا کرنا چاہتی تھی؟” "جی مہدی بیٹا! جب وہ بڑی ہوگئی تو انہوں نے تبلیغی کام سر انجام دیے ، وہ دینی معاملات میں خواتین کے کردار کی اہمیت سے واقف تھی۔ لہذا انہوں نے اپنے گھر میں اور اسی طرح سے دوسرے گھروں میں امور دینی کی تبلیغ کے لئے جلسوں کو تشکیل دیا۔ وہ "مجلہ الاضواء” میں عراقی اور عرب لڑکیوں کے لئے مضامین تحریر کیا کرتی تھی۔ اس مجلہ میں ان کی تحریر کا موضوع مسلمان خواتین کے لئے دینی امور کی پابندی اور مغربی آئیڈیل اور نعروں سے دوری ہوا کرتی تھی۔
وہ کبھی بھی عورتوں اور خاص کر ان عورتوں کو جو نئی نئی مذہبی تعلیمات میں مصروف ہوئی ہو، مذہبی احکامات میں مصروف نہیں کرتی تھیں بلکہ آہستہ آہستہ ان کو دنیا کے معاملات کو اسلام کی روح سے سمجھنے میں مدد دیتی تھی۔ وہ اس کام کے لیے عمومی دعوت کا سہارا لیتی اور جب وہ غیر مخصوص نشستوں میں بھی خواتین سے ملتی تب بھی وہ مکمل حجاب میں ہوتی تھی اور دوسری خواتین کو حجاب کی طرف مائل کرتی تھی۔
کوثر الکوفی سے روایت ہے کہ میں نے ایک مرتبہ ان سے کہا ” آپ گھر کے اندر حجاب کیوں پہنتی ہیں اور خاص کر اس قدر موٹی جرابیں۔ انہوں نے جواب دیا؛ "میں عورتوں کو سکھانا چاہتی ہوں کہ درست حجاب کا یہی طریقہ ہے۔” کوثر الکوفی کے مطابق ایک مرتبہ ایک خواہر نے مجھے بتایا کہ اس نے کبھی بھی مجھے کھلے کپڑے پہننے کو نہ کہا حتی کہ تین سال بعد جب انہوں نے دیکھا کہ اب وہ مجھے قائل کر سکتی ہیں تو انہوں نے اسلام میں حجاب سے متعلق احکامات مجھ پر واضح کیے۔ ہمیشہ اس نے اپنے عمل کے ذریعے دوسروں کو تعلیم دی۔
معصومہ کو اشعار بہت پسند تھے اور وہ اشعار خود بھی لکھا کرتی تھی۔ ایک دن ان کا بھائی فلسفہ اور دوسری بڑی کتب کے اہم نکات ان کے سامنے بیان کررہے تھے۔ تو آپ نے کہا ؛
*”بھائی میں کہاں آپ کہاں۔۔۔؟”*
آپ تو اتنے بڑے عالم دین، بڑے دانشور، مفسر و مفکر ہے۔ مجھے یہ فلسفہ کے نکات کہاں سمجھ آئینگے۔ تو ان کے بھائی کہنے لگے؛ "آپ مجھ سے بھی زیادہ قابل اور باصلاحیت ہو۔” تو آپ نے تعجب سے پوچھا کہ وہ کیسے؟ ان کے بھائی کہتے ہیں کہ آپ اشعار پڑھتی ہے۔ مجھے بھی اشعار سے دلچسپی ہے اس سے لذت بھی حاصل ہوتی ہے۔ لیکن میں کبھی ایک شعر بھی نہیں کہہ سکا اس لئے آپ مجھ سے زیادہ باصلاحیت ہے۔”
میرے بچو! آپ کو معلوم ہے وہ دونوں بہن بھائی ہمیشہ سے اپنے تمام کام خدا کے لئے انجام دیتے تھے ۔ وہ ظالم حکمران کے خلاف ڈٹ کر مقابلہ کرتے رہے. اس لیئے وہ ظالم حکمران ان کے بھائی کے خلاف کاروائی کرنے لگا اور انکے کارندےانہیں طرح طرح کی تکلیفیں دیتے اور کئی مرتبہ انہیں گرفتار بھی کیا گیا لیکن وہ کبھی بھی ظالم سے خوفزدہ اور مرعوب نہیں ہوئے اور اس کی بہن ہمیشه اس کی ڈھال بن کر اپنے بھائی کو رہائی دلانے کے لئے شہروں میں احتجاج کرتی جس کی وجہ سے ان کے بھائی کو رہا کر دیا جاتا پھر ایک دن ان کے بھائی کو گرفتار کرنے آئے تو اس وقت ان کی بہن نے ایسی تقریر کی کہ دشمن کو تاریخ کربلا یاد آگئی ۔
آیت اللہ سید کاظم حائری فرماتے ہیں کہ وہ تقریر کے لئے مناسب جگہ تلاش کرنے کے لئے ہم سے آگے نکل گئیں اور اس کے بعد ایک تاریخی تقریر کا آغاز کیا۔آپ کے جملے کچھ یوں تھے :
دیکھ لو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ میرا بھائی ہے یکہ و تنہا ہے اس کا کوئی مدافع نہیں ہے ،اس کے پاس کوئی ہتھیار نہیں ہے لیکن تم لوگ سیکڑوں کی تعداد میں ہو ۔ میں تم سے پوچھتی ہوں کہ اتنے ہتھیار اور اتنے افراد کس لئے لائے ہو؟ یہ جنگی ہتھیار کس سے جنگ کرنے کے لئے لائے ہو؟
جواب معلوم ہے، تم ڈرتے ہو ، خدا کی قسم تم ڈرتے ہو، کیونکہ تم جانتے ہو کہ میرا بھائی تنہا نہیں ہے بلکہ عراق کے لوگ میرے بھائی کے ساتھ ہیں۔ تم لوگ ڈرپوک ہو اور خدا کی قسم اگر ڈرپوک نہ ہوتے تو اس طرح صبح کے وقت نہ آتے کیونکہ تم لوگ اسی وقت آتے ہو جب لوگ سورہے ہوتے ہیں۔ انہیں گرفتار کرنے کے لئے تم نے اسی وقت کا انتخاب کیوں کیا ہے؟ کیا خود سے کبھی یہ پوچھا ہے ؟ کیا تمہارا یہ عمل میری بات کی سچائی کی دلیل نہیں ہے؟
اس کی تقریر کے دوران فوجی پراکندہ ہوگئے اور گلیوں میں چھپ گئے ۔ سب چپ تھے۔ کسی میں بھی اس وقت تک لب کھولنے کی ہمت نہ ہوئی جب تک زینب عصر بولتی رہی۔ لگتا تھا کے سروں پر موت کا سایہ منڈلارہا ہے۔ ان کی بہن کردار زینبی ادا کرتی رہی، جناب زینب سلام اللہ کی طرح ہر وقت اپنے بھائی کی حفاظت کرنے کی کوشش کرتی رہی۔”
"دادا جان ، پھر اس نے اپنے بھائی کو ظالموں سے بچا لیا ؟ فرج نے محزون اورغمگین لہجے میں کہا۔” "نہیں فرج بیٹی! ظالموں نے اسے گرفتار کرنے کے بعد اس پر شدید تشدد کرکے اسے شہید کردیا۔ لیکن وہ ظالم ان کے بھائی کو شہید کرنے کے بعد بھی بہت خوفزدہ تھا۔ وہ اس بات سے بخوبی واقف تھا کہ ان کے بھائی کی قیادت سنبھالنے والا کوئی نہیں ہے۔ لیکن ان کی زینبی بہن یہ ذمہ داری سنبھال سکتی تھی۔ وہ اس یزیدی حکومت کا تختہ پلٹ سکتی تھی۔ لیکن مکار بعثی ظالم حکمران (صدام) نے کہا؛ "یزید نے امام حسین علیہ السلام کو قتل کرنے کے بعد زینب سلام اللہ علیہا کو زندہ چھوڑنے کی غلطی کردی تھی جس کی وجہ سے ان کی حکومت کا خاتمہ ہوگیا لہذا اب ہم یہ غلطی نہیں دہرائیں گے۔
لہذا ان کے بھائی کی گرفتاری کے ایک دن بعد ایک پولیس آفسر گھر آکر کہنے لگا کہ آپ کے بھائی آپ سے ملنا چاہتے ہیں اس بہن نے بھائی کے لئے ہمیشہ قربانیاں دی تھیں۔ ہر مقام پر ان کا دفاع کیا تھا ان کی مشکلات ختم کرنے کی ہمیشہ کوشش کی تھی۔ اس زینب عصر کا مشہور فقرہ ہے : *”میری حیات میرے بھائی کی حیات میں ہے اور ان شاءاللہ میں تب تک قید حیات میں ہوں جب تک میرے بھائی زندہ ہیں۔”پھر اس کی بہن کو پولیس افسر اپنے ہمراہ بغداد کی طرف لے گئے اور اپنے بھائی کے ہمراہ درجہ شہادت پر فائز ہوگئیں۔”*
دادا جان رخسار سے اشک صاف کرتے ہوئے کہنے لگا؛ "میرے بچو! یہ دونوں بہن بھائی وہی عظیم شخصیات ہیں جنہیں آیت اللہ سید محمد باقر الصدر اور ان کی بہن آمنہ بنت الہدیٰ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ ان عظیم شخصیات کی زندگی سے ہمیں یہ درس ملتا ہے کہ چاہے جتنی مشکلات آجائے کبھی بھی ہم نے حق کا راستہ نہیں چھوڑنا ہے، دشمن ہمارے علم و عمل اور عورت کے حجاب سے خوفزدہ ہوتا ہے۔ اس لیے زینبی کردار ادا کرتے ہوئے اور خود کو علم کے ہتھیار سے آراستہ کریں اور دشمن کے عزائم کو خاک میں ملادیں۔ مجھے امید ہے کہ آپ دونوں بھی مل کر دشمن کا مقابلہ کرینگے۔”
"ان شاءاللہ دادا جان”