ابلاغ دین میں آمنہ بنت الہدیٰ کاانقلابی کردار
سیدہ مشعل زہرا
اسکالر،ایم اے اسلامیات وعربی
مقدمہ
ابلاغ دین انبیا واولیائے الہی کے فرائض میں سے ایک ہے جس کو ہر دور میں انہوں نے بہترین طریقہ سے انجام دیا ہے۔ انہوں نے گھٹاٹوپ تاریکی میں ڈوبے ہوئے معاشروں میں بہتر ین انداز تبلیغ اپنا کر ہدایت کے مشعل کوروشن کیا جہاں مردوں نے اسلام کے لئے آوازاٹھائی وہاں ایمان،تقوی اور حساس ذمہ ادری سے سرشار خواتین نے بھی ظالم وجابروں کے سامنے دین کی سربلندی کے لئے ڈٹ کر آواز حق بلند کی جن میں حضرت آسیہ، حضرت مریم،حضرت خدیجہ،حضرت زہر ا،حضرت زینب جیسی خواتین قابل ذکر ہیں۔ انہیں حسینی قافلے میں شامل ہونے والی خواتین میں سے ایک بنت الہدیٰ بھی ہے۔ جنہوں نے عزم زینبی کے ساتھ قلم وزبان اور عملی ا قدامات کے ذریعے عراقی خواتین میں ایساجوش اور ولولہ پیداکیا اور ان کا تبلیغی انداز ایسا تھا جو قرآنی اصولوں اور تبلیغ کے تمام شرائط پر پورا اترتا تھا۔
کسی بھی پیغام کے ابلاغ میں چار بنیادی ارکان انتہائی اہم ہیں ، چنانچہ کسی بھی مبلغ کی کامیابی میں ان چار عناصر کو مدنظر رکھنا لازم ہے۔
۱۔ مبلغ کی شخصیت اور اس کا کردار
تبلیغ کا معنی بذات خود پہنچانا ہے کہ ایک شخص اپنا پیغام دوسروں تک پہنچائے۔ قرآن کریم میں انبیا کو الہی پیغام پہنچانے والے مبلغ کے عنوان سے یاد کیا گیا ہے۔ جیسے : يا قَوْمِ لَقَدْ أَبْلَغْتُكُمْ رِسالاتِ رَبِّي۔ اس لحاظ سے مبلغ کی شخصیت، اس پیغام کو پہنچانے میں سب سے اہم کردار ادا کرتی ہے۔
۲۔ پیغام ، حقانیت پر مبنی اور انسان کی ضرورت کے عین مطابق ہو۔
دوسری چیز پیغام انسانی فطرت، عقل اور انسانی اصولوں سے ہم آہنگ ہو،اگر وہ پیغام خود حق نہ ہو اور انسان کے حقیقی مسائل کو حل نہ کرئے تو وہ پیغام کامیاب نہیں ہوگا۔
۳۔ ابلاغ کا اسلوب اور طریقہ کار
تیسری چیز اس پیغام کے ابلاغ کا اسلوب ہے اگر پیغام کو ہر دور کے تقاضوں کے عین مطابق پیش کیا جائے تو وہ پیغام اور ابلاغ کا عمل یقینا کامیاب ہوگا۔
۴۔ ابلاغ کے وسائل اور ابزار
چوتھی اہم چیز جو تبلیغ کے میدان اہمیت کی حامل ہے وہ ابلاغ کے لئے جائز اور حلال ذرئع کو بروئے کار لانا ہے، اور اس ضمن میں جتنا مقصد وہدف مقدس ہو اتنا ہی اس کا ذریعہ اور وسیلہ بھی پاک و پاکیزہ ہوناشرط ہے۔
ان چار عناصر کی روشنی میں اگر عصر حاضر میں دین کے ابلاغ کی جدوجہد کرنے والی ہستیوں کے بارے میں مطالعہ کریں تو ان کی کامیابی میں یہی عناصر نمایاں طور پر کار فرما نظر آتے ہیں۔
شہیدہ بنت الہدی عراق کے شہر کاظمین میں پیداہوئی، دوسال کی عمر میں والد کا انتقال ہو اور وہ اپنی والدہ اور دوبھائیوں کے زیر سایہ پروان چڑھی،تعلیمی مدارج بھی اپنے بھائی سید محمد باقرالصدر کے پاس سے طے کیا، اور درجہ اجتہاد تک پہنچ گئی،علم کی روشنی سے خود بھی مستفیض ہوئی اور دوسروں کو بھی منور کیا۔ حضرت زہرا علیہا السلام اور زینب کبری سلام اللہ علیہا کی سیرت پر چلتے ہوئے تبلیغ دین،امر بالمعروف اور اسلام کی نشرواشاعت کی سنگین ذمہ داری کواچھی طرح نبھایا اور شہید باقرالصدر کے دست راست کے طور پر انکے شانہ بشانہ کام کیا۔ اور شعور وبیداری کی علامت اور ظلم کے خلاف موثر اواز بن کر سامنے آگئی۔
شہیدہ آمنہ بنت الہدی وہ شخصیت ہے جس نے ابلاغ دین کے فریضہ کو کامیابی کے ساتھ انجام دیا ااور وہ اپنے اس مشن میں کامیاب بھی ہوئی اور عراق کی سرزمین پر خواتین میں شعور،آگاہی ،بیداری اور دین کے ابلاغ میں کامیابی کا سہرا اپنے سر پر سجایا چنانچہ ان کے اثرات سے مرعوب ہوکر وقت کے ظالم حکمران آپ کو بردشت نہ کرسکے۔
شہدہ بنت الہدی کی شخصیت کو دیکھ لیں تو ان میں وہ شرائط وصفات بنحو بی پائے جاتے ہیں جو اسلام نے ایک مبلغ کے لئے بیان کیا ہے، خصوصا تاریخ اسلام کے باب میں مردوں کے ساتھ بعض عورتوں کو بطور مثال پیش کرتے ہوئے جن خصوصیات ا ور صفات کی جانب قرآن نے اشارہ کیا ہے وہ شہیدہ بنت الہدی میں بطوراتم پائے جاتے تھے۔ شہیدہ بنت الہدی، اللہ پر کامل ایمان، شجاعت وبہادری میں بے مثال، بصیرت میں با کمال ،اسلامی تعلیمات سے مکمل آشنا ئی سمیت ایک داعی اور مبلغ دین کیلئے درکار تمام صفات کی حامل شخصیت تھی۔
دوسری اہم شرط جو پیغام کی حقانیت سے عبارت ہے، کے تناظر میں دیکھا جائے تو آپ کی ذات وہ ذات تھی جو اس پیغام کی جانب پورے ایمان کے ساتھ بلا رہی تھی جو انبیا وائمہ طاہرین کا شیوہ تھا اور اس دورکے مراجع،فقہا اور علما اسی مشن کو آگے بڑھارہے تھے۔ خصوصا آپ کے بھائی شہید صدر وقت کے مرجع اور اسلامی آفاقی اصولوں کی جانب انتہائی مضبوط اور مسحکم انداز میں کوشاں تھے ،آ پ بھی انہی کے نقش قدم پر گامزن تھی۔
تیسری اہم چیز آپ کا سلوب عمل تھا جو اسلام کی اصالت کی جانب دعوت کے ساتھ جدید اور وقت کے تقاضوں کے عین مطابق تھا، جن میں قلم کے ذریعے کہانی،شعر ، سیمینار،کانفرنس سے جیسے جدید اسلوب سے استفادہ وغیرہ شامل ہے۔
چوتھی اہم چیز بنت الہدی نے اپنے مقاصد کے حصول کیلئے بروئے کار لایا وہ یہ تھا کہ آپ نے کسی بھی غیر شرعی وسائل اور ذرائع سے اپنے مقاصد کے حصول کیلئے استفادہ نہیں کیا، جب مدارس الزہرا کو حکومتی کنٹرول میں لیاگیا تو انہوں نے پھر بھی کام کرنے کو اپنے اہدارف سے متصادم قرار دیتے ہوئے وہاں سے استعفیٰ دیا۔ ساتھ ہی تبلیغی راہ میں وقت کے ظالم وجابر حکمرانوں کے مقابلہ میں مضبوط موقف اپنائے رکھا۔
ابلاغ دین میں شہیدہ بنت الہدی کاجوکردارہے وہ برسہا برس گزرنےکے بعد بھی دور حاضر کی خواتین کی تبلیغی راہ میں نمونہ عمل ہے۔
شہیدہ بنت الہدی نے اپنی تبلیغی سرگرمیوں میں ان تمام حالات کو مدنظر رکھا جو امت مسلمہ کے لئے درپیش تھے، آپ کی تبلیغی سرگرمیوں میں مدارس الزہرا کی نگرانی،گھروں میں دینی جلسات کی تشکیل اور مجلہ الاضوا میں مقالہ نویسی،مذہبی کہانی اور شاعری وغیرہ شامل ہے۔
بنت الہدی اسلام میں خواتین کے کردار سے بخوبی واقف تھی۔اس لئے دین کی تبلیغ کے لئے انہوں نےمختلف اسلوب وطریقہ کاراپنایا جو اس وقت کی ضرورت تھا، الاضوا کی تحریروں کے موضوعات میں خواتین کی جانب سے اسلامی ا قدار کی پابندی کی اہمیت اور مغربی تہذیب وثقافت سے دوری کی جانب تاکید نظرآتی ہے۔
دینی تبلیغ کے لئے نیک اورصالحہ خواتین کی تربیت ان کی اولین ترجیحات میں شامل تھی یہی وجہ ہے کہ وہ خواتین کے لئے خصوصی نشستوں کا اہتمام کرتی اور ان کے گھروں میں جاتی، تاکہ ان کے پورے گھریلو ماحول پر اس کے اثرات مترتب ہوں۔ انہوں نے چار سو ایسی سرگرم طالبات کو ایک پلیٹ فارم پر یکجا کرنے میں کامیابی حاصل کی جنہوں نے ان تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے معاشرے میں اہم کردار داکیا اور ان کے ہر قدم پر ساتھ دیا اور اسلام کاپیغام پھیلانے میں بھر پور کوشش کیں۔
شہیدہ بنت الہدی خواتین کی صلاحیتوں کواجاگر کرنے،ان میں احساس ذمہ داری پیدا کرنے اور حوصلے کے ساتھ بہترین تعلیم وتربیت کے حصول کا درس دیتی اور انہیں مختلف شعبہ ہائے حیات میں آگے بڑھنے کی تشویق کرتی۔
نتیجہ:
شہید بنت الہدی نے ابلاغ دین کے سلسلے میں خواتین کے دلوں میں بلند حوصلوں اور احساس ذمہ داری کی بنیاد رکھی اوراپنی شہادت کے آخری لمحات تک اس مشن کو تمام تر مشکلات کے باوجود اپنے کاندھے پر لے کرچلتی رہی۔ چنانچہ ان کی شخصیت خواتین کے لئے رہنمائی اور ہدایت کا سرچشمہ ہے جس سے سیراب ہوکر ہماری خواتین بھی اپنے سماج اورمعاشرے میں ابلاغ دین کاکام احسن طریقے سے انجام دے سکتی ہیں۔