شہیدہ بنت الہدی کے بارے میں بنت الہدیٰ یونیورسٹی (قم) کی پروفیسر سے خصوصی گفتگو
ڈاکٹر طاہرہ ماہرو زادہ
پروفیسر بنت الہدی اور جامعہ الزہرا ایران(قم)
ہم تہہ دل سے آپ (محترمہ ڈاکٹر طاہرہ ماہرو زادہ ) کے شاکر ہیں کہ آپ نے اپنے قیمتی اوقات میں سے ہمیں وقت دیا تاکہ اس عظیم شہیدہ (آمنہ بنت الہدیٰ صدر) کی شخصیت کے مختلف پہلووں کے بارے میں گفتگو کرسکیں تاکہ معاشرے کی خواتین اس عظیم شہیدہ کی زندگی اور کردارسےا ٓشنا ہوں۔
سوال نمبر۱: شہیدہ بنت کامختصر تعارف پیش کریں ؟
ڈاکٹر طاہرہ ماہرو زادہ : میں شہیدہ بنت الہدی کی نسبت اپنا فریضہ انجام دیتے ہوئے ان کے تعارف میں یہ کہہ سکتی ہوں کہ
شہیدہ بنت الہدی انتہائی ثابت قدم اور بہت ہی محنتی تھیں۔آپ نے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے زمانے کے تمام تر سختیوں کے باوجود کبھی توقف نہیں کیا ۔خاص طور پر تعلیمی اور ثقافتی سرگرمیوں کو خود انجام دیتی آپ نے چھ ماہ کی عمر میں اپنے والد کو کھو دیا ۔اسکے بعد اپنی ماں کی گود میں پرورش پائی سے اور لکھنا پڑھنا ان سے سیکھا۔ابتدائی تعلیم کے بعد آپ اپنے بھائی سید اسماعیل اور سید محمد باقر کے ساتھ نجف اشرف مدرسے میں چلی گئیں۔وہاں آپ نے اپنی اعلیٰ تعلیم ادبیات،فقہ اور علم حدیث کو جاری رکھا اور آپ فقہی، اخلاقی اور تفسیر کے مباحث میں مطالعہ کرنے کے ساتھ اجتہاد کے درجے تک پہنچی۔آپ کی یہ خصوصیت خاص طور پر مختلف معاشروں کے خواتین کے لیے ایک اچھا نمونہ ثابت ہوسکتا ہے تاکہ وہ تمام رکاوٹیں جو تحصیل علم کی راہ میں پیش آتی ہے ان سب کو دور کر سکیں ۔
سوال نمبر ۲: عراقی خواتین کے اندر شعور وآگاہی میں شہید بنت الہدیٰ کا کیاکردار ہے؟
ڈاکٹر طاہرہ ماہرو زادہ : بنت الہدی جانتی تھیں کہ دینی کاموں میں عورتوں کا کردار زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔اسی لیے مذہبی اور دینی امور کے فروغ کے لیے اپنے اور دوسروں کے گھروں میں تبلیغی کام انجام دیتی تھیں اہم نکتہ یہ ہے کہ اطراف کے گھروں میں تبلیغ کرنے کے علاوہ آپ نے تحریری شکل میں بھی تبلیغ کی ۔ آپ نے بہت سارے خو بصورت مضامین کو کہانیوں کی شکل میں لکھا تاکہ خواتین مذہبی تعلیمات سے روشناس ہو سکیں اور مغربی نمونوں اور رول ماڈل کی پیروی سے دور رہیں.
آپ نے (الاضوا) نامی میگزین میں عراق اور عرب کی خواتین کے لیے لکھا ۔ان کی یہ تحریریں خواتین کے گرد گھومتی ہے جومذہبی اور دینی تعلیمات پر عمل پیرا ہو ۔شہیدہ اپنے اشعار کے ذریعے بہت سارے لوگوں کے توجہ کا مرکز بنی، اشعار کے ذریعے آپ نے دین کو روشناس کرایا اور اسلامی اقدار کی وضاحت بھی کی۔
سوال نمبر ۳: رہبر انقلاب نے بنت الہدی کی شخصیت کو خواتین کے لیے بہترین نمونے کے طور پر متعارف کرایا ،خواتین کیسے ان کو اپنے لیے نمونہ عمل بنائیں؟
ڈاکٹر طاہرہ ماہرو زادہ : شہیدہ بنت الہدیٰ کے انفرادی اور اجتماعی زندگی کے پہلو میں خواتین ان کواپنے لیے نمونہ عمل قرار دے سکتی ہیں۔انفرادی اور خاندانی زندگی میں انکی تلاش اور کوشش، صبر و پائیداری اور استقامت نمونہ عمل ہے ۔ اسی طرح کہ بنت الہدی جس مقصد تک پہنچنے کا اردہ رکھتی تھی ۔ اس کے حصول کےلئے ایک لمحہ بھی تلاش اور کوشش کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتی تھیں اور اپنے تحصیلات کو اعلیٰ درجے تک پہنچانے میں کبھی ہمت نہیں ہارتی تھیں۔
اپنی زندگی کے اجتماعی پہلو میں بھی آپ ایک سرگرم خاتون تھیں شہید بنت الہدی صدر اپنے مجاہد بھائی آیت اللہ سید محمد باقر صدر کے ساتھ عراق میں آمرانہ حکومت کے خلاف جدوجہد میں مصروف رہی اور اس راہ میں بہت قربانیاں دی۔ وہ مذہبی سرگرمیوں میں خواتین کے کردار کی اہمیت سے واقف تھیں، اس لیے مذہبی امور کو فروغ دینے کے لیے اپنےگھر اور دوسروں کے گھروں میں جلسے رکھتی تھیں۔ آج ہماری خواتین بھی خاندان کی حفاظت کے ساتھ ساتھ ثقافتی سرگرمیوں میں بھی حصہ لے سکتی ہیں اور مذہبی امور اور اپنے ملک کو آگے بڑھانے میں کارآمد ثابت ہو سکتی ہیں۔
سوال نمبر ۴: بنت الہدی کی شخصیت کاکون سا پہلو خواتین کے لئے خاص طور پر مہم ہے؟
ڈاکٹر طاہرہ ماہرو زادہ : ان کے شاگردوں نے ا س بارے میں جو کچھ بیان کیا ہے۔ اس کے مطابق ان کی عاجزی، سادہ زندگی اور ایثار و قربانی قابل ستائش ہے، لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ جوانی سے راہِ خدا میں کام کرنا اور اپنی زندگی کو خدا کے لیے وقف کرنا ، خدا کے ساتھ رابطہ اور انتھک محنت کے ساتھ الہی راستے میں آگے بڑھنا تمام انسانوں کے لیے ایک بہترین نمونہ ہے۔خدا شہیدہ کی روح کو حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا اور حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے ساتھ محشور فرمائے ۔ (آمین)
۲ اپریل ۲۰۲۲