بنت الہدیٰ،زینبِ عصر

بنت الہدیٰ،زینبِ عصر

بنت الہدیٰ

اپنی بات کی ابتدا خدا کی حمد اور اس کے انبیاء اولیاء اور اس کی جانب سے مقرر کردہ ائمہ پر درود کے ذریعے کرتی ہوں۔ جب سے یہ دنیا خلق ہوئی ہے تب سے اب تک خدا کے نیک بندے خدا کے بندوں کو اس کی طرف بلانے میں مشغول ہیں اور یہ سلسلہ تا قیامت جاری رہے گا۔ اس جہان میں خیر و شر کے وارثین موجود ہیں۔ شر کے وارث یعنی ابلیس، قابیل، شداد، فرعون، یزید کے وارثین جو کہ اس دنیا سے حق و انسانیت اور اسلام کے خاتمے کے لیے مکمل جی جان سے ناکام کوشش کر رہے ہیں۔ اسی صورت یہ زمین کسی بھی لمحہ دوستانِ خدا سے خالی نہیں۔ خدا کے یہ دوستان وارثین خیر ہیں۔ ابراہیم و اسماعیل و اسحاق کے وارث، موسی و عیسی و ہارون کے وارث، انبیاء کے وارث، حسین کے وارث۔ اور یہ وارثین خدا پرمکمل توکل کے ساتھ میدان میں حاضر بھی ہیں اور باہوش اپنے کام میں مصروف بھی۔ اور یقینا خدا اپنے لشکر کے ہی ساتھ ہے۔
یہ خدا کا انتخاب ہے کہ وراثتِ خیر میں خواتین بھی وارثان خیر ہیں۔ خواتین بھی ہیں جو خیر کی وارث ہیں۔ آسیہ و مریم و ہاجرہ کی وارث، فاطمہ کی وارث۔ انہوں نے فاطمہ سے میراث پائی ہے۔ صبر، استقامت، علم، بردباری اور باطل کے مقابل اقدام کی وراثت۔ انہوں نے فاطمہ بنت محمد علیہماالسلام سے سیکھا ہے، حق کی آواز بلند کرنا۔ یہ وسیلہ ہیں حضرت فاطمہ کے عرفان کا۔
انہی میں سے ایک شہیدہ بنت الہدیٰ؛ شہید باقر الصدر کی بہن ہیں۔ جنہوں نے اپنی ولادت کے دو سال بعد ہی والد کا سایہ کھو دیا لیکن خود کو چار دیواری یا بازاروں یا حکومت کے پریشر کے سبب گم نہ ہونے دیا۔
شہیدہ بنت الہدیٰ 1937 عیسوی کو عراق میں متولد ہوئیں۔ رسول اکرم کی والدہ گرامی کے نام کی مناسبت سے آپ کا نام آمنہ رکھا گیا۔ بنت الہدیٰ آپ کا لقب ہے جو کہ آپ نے خود اپنے لئے انتخاب کیا تھا اور اپنی تمام کتب اور رسالوں پر اپنا یہی لقب درج کرتی تھیں۔ شہیدہ بنت الہدیٰ ادیبہ، خطیبہ، شاعرہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک عظیم خاتون بھی تھیں۔ عظیم عزم و ارادے کی مالک، دقیق فہم و فراست اور ناقابل فراموش حکمت سے اسلام اور انسانیت کا دفاع کرنے والی۔ یہ عرب کی عظیم خاتون تھیں کہ جب صدام لعین کے کارندوں نے آپ کے بھائی شہید صدر کو گرفتار کرلیا تو شہیدہ آمنہ بنت الہدیٰ نے اقدام کیا اور نجف کی عوام کو بیدار کیا۔ اور گلیوں میں نکل کر لوگوں کو بیدار کرنا شروع کیا۔ شہیدہ فریاد کرتیں "ظلم ہے کہ تمہارا مجتہد قید کر لیا گیا۔” آپ نے اپنے خطبوں اور فریادوں سے انقلاب برپا کیا جس کے نتیجے میں نجف کی عوام جس میں بچے، بوڑھے، خواتین، جوان سب شامل ہیں سڑکوں پر نکل آئی اور شدید مظاہروں کے ذریعے زبردست ظالم زیر دست ہوگیا اور شہید کو اسی رات آزاد کردیا گیا۔
شہیدہ کی شخصیت ہمیں حضرت زینب کے انقلاب سے آشنا کرتی ہے۔ شہیدہ نے ہمیں عملاً حضرت زینب کے کردار کی اتباع کر کے دکھایا ہے۔ حضرت فاطمہ اور حضرت زینب کی شخصیت کو ہمارے سامنے احیاء کیا ہے۔ ان کے انقلاب کا اجراء کیا ہے۔ کہ یتیمی کے باوجود خود کو اس قدر پختہ کیا کہ دشمن کو ان کے قتل کے علاوہ کوئی چارہ نظر نہ آیا۔ ہم دیکھیں کہ ایک خاتون خدا سے کیا معاملہ کرتی ہے کہ اس قدر عظیم ہو جاتی ہے۔ علمی، ثقافتی، عملی، معاشرتی، گھر داری، تعلیمی، ہر لحاظ سے یہ ایک ناقابل فراموش نمونہ عمل قرار پاتی ہے۔ شہیدہ نے سخت ترین صورتحال میں اسلام پر قائم رہ کر دکھایا اور ایک مکمل آسائش حیات پر اسلام کو ترجیح دیا۔ حکومت وقت سے دشمنی مول لی ۔بغیرخوف و خطر، احساس ذمہ داری سے سر شار قوی ترین دشمن کے مقابل آ کھڑی ہوئیں۔
شہیدہ بنت الہدیٰ کی شخصیت معاشرے کے ہر فرد خصوصا خواتین کے لیے زندگی کے ہر پہلو میں نمونہ عمل ہے۔ علمی، ثقافتی، سیاسی، معاشرتی، عملی، گھر داری، نیز بطور ایک خاتون ہر میدان میں شہیدہ ناقابل فراموش نمونہ ہیں۔ شہیدہ مظہر ہیں اس لمحے کا کہ جب یزید اسلام پر حملہ کرتا ہے اور حضرت زینب اپنے امام وقت کے ہمراہ یزید کے مدمقابل آجاتی ہیں اور اپنے بھائی، اپنے بیٹے، اور اپنے مکمل خاندان سے فقط ایک دن میں دستبردار ہو جاتی ہیں، ہر محبت پر فقط اسلام کو ترجیح دیتی ہیں اور پختہ چٹان کی صورت اسلام پر قائم رہتی ہیں۔ مظالم و صدمات بھی ان کے ارادے متزلزل کرنے میں ناکام ثابت ہوتے ہیں۔
پس شہیدہ ہمارے دور میں حضرت زینب کا مظہر ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ یہ ہمارے سامنے کی بات ہے کہ ایک خاتون ہے جو یتیم بھی ہے، مشقت بھری زندگی بھی ہے، حکومت وقت اسکی دشمن بھی ہے، اس کی زندگی ہر وقت موت کی زد میں ہے،حکومت کبھی بھی اسے اپنے راستے سے ہٹا سکتی ہے، وحشت ہے، ظلم ہے، لیکن یہ خاتون قائم ہے۔ اسلام سے ایک انچ پیچھے ہٹنے کو راضی نہیں۔ احساس ذمہ داری سے سرشار اسلام کی اشاعت کو اپنا اولین فریضہ قرار دیتی ہے۔ یہ ہمارے زمانے کی خاتون ہیں جنہوں نے جان دے کر انقلاب برپا کیا ہے۔
بس یہ ہمارے لئے نمونہ ہیں، زندگی گزارنے کا۔ وسیلہ ہیں، حضرت زینب کا عرفان حاصل کرنے کا۔ ایک مکتب ہیں حضرت زینب سے آشنائی کا۔ وسیلہ ہیں کربلا تک رسائی کا، اسلام سے عشق کا۔ یہ احساس ذمہ داری ہے جو کہ انسان کو متحرک کرتا ہے اور پھر اسے گوارا نہیں ہوتا کہ اپنے فرائض سے بے راہ روی اختیار کرے۔ شہیدہ کی ایک طالب علم ان کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ایک مرتبہ ان کو کاظمین میں موجود لڑکیوں کے مدرسوں کے معائنے کے لیے وہاں جانا تھا۔ رات کا وقت تھا، موسم خراب تھا، بارش ہو رہی تھی، تیز ہوائیں چل رہی تھیں، بجلی کے تار کٹ کٹ کر گر رہے تھے، اور ایسے میں ان کے ساتھ کوئی نہ تھا، نہ کوئی مرد نہ ہی کوئی عورت۔ پھر بھی انہوں نے اللہ پر بھروسہ کیا اور رات کے گیارہ بجے نجف سے کاظمین پہنچ گئیں۔ یقینا یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے کہ ایک خاتون اس قدر مستحکم ارادے کی مالک ہو لیکن یہ احساس ذمہ داری اور قوم و ملت کی محبت تھی جو کہ ان کے لیے بطور اسلحہ کافی تھی۔
یہ کوئی چودہ سو سال پرانا واقعہ یا سانحہ نہیں یہ ہماری آج کی خاتون ہیں جنہوں نے ہمیں بتایا کہ اسلام پر عمل اگرچہ سخت ہے لیکن عشق ہر مشکل کا حل ہے۔ انہوں نے ہم پر حضرت زینب کی شخصیت کو واضح کیا کہ جب ظلم و بے دینی اپنے عروج پر ہو اور مستضعفین کا کوئی پرسان حال نہ ہو تو ایک فاطمی اور ایک زینبی خاتون کا کیا رد عمل ہونا چاہیے، ایک عاشق خاتون کی زندگی کیسی ہوتی ہے، ذمہ دار خاتون کی حیات کیا ہوتی ہے۔
شہیدہ کی ان فعالیتوں کے سبب ظالم ان سے ڈر گئے۔ انہوں نے شہیدہ کو قید اور پھر قتل کرنے کا ارادہ کر لیا۔ اور پھر آخرا اپنے سفاکانہ ارادوں اور مجرمانہ تدبیر کے تحت 8 اپریل 1980 کو شہیدہ کو قتل کر دیا اور خفیہ طور پر شہیدہ کی لاش کو مفقود کر دیا یہاں تک کہ ابھی تک ان کا لاشہ نہ مل سکا۔ یقینا حق کا دشمن احمق ہوتا ہے۔ اس نے گمان کیا کہ قتل کے ذریعہ وہ اس مشعل کو بجھا دے گا لیکن دشمن اپنے گمان اور اندازہ میں غلط ثابت ہوا اور اس کی توقع کےبرعکس شہیدہ سرمدی ذکر اور حیات کے ذریعہ نہ صرف خود زندہ ہیں بلکہ ہزاروں لاکھوں دلوں کو زندہ کرتی ہیں۔ دشمن ذلیل و خوار ہوا اور ایک بار پھر خون نے تلوار پر فتح حاصل کی۔
شہیدہ بنت الہدیٰ کے متعلق رہبر معظم دامت برکاتہ فرماتے ہیں: ہمارے اسی زمانے میں [اسلامی انقلاب کی کامیابی سے پہلے] ایک جوان، شجاع، عالمہ، مفکرہ اور ہنر مند خاتون "بنت الہدیٰ” نے پوری تاریخ کو ہلا کر رکھ دیا۔ وہ مظلومہ عراق میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنے میں کامیاب ہوئیں اور درجہ شہادت کو حاصل کیا۔ بنت الہدیٰ جیسی خاتون کی عظمت و شجاعت عظیم مردوں میں سے کسی ایک سے بھی کم نہیں۔
شہیدہ اپنی ایک نظم میں فرماتی ہیں:
فلطالما كان المجاهد مفرداً بين الجحافل
ولطالما نصرَ الالهُ جنودَه وهم القلائل
ترجمہ: پس مجاہد ہمیشہ لشکروں میں تنہا ہوا کرتا ہے اور بےشک خدا اپنے لشکر کی ہی مدد کرتا ہے اگرچہ وہ کم ہی کیوں نہ ہو.
خدا ہم تمام کو شہداء اسلام کی قدروقیمت سے آشنا کرے اور ان کے راستے پر گامزن فرمائے۔ جب تک زندہ رکھے حق پر رکھے اور بعد از مرگ شہداء کے ساتھ محشور کرے۔ آمین