- شہیدہ بنت الہدیٰ کی شاگرد، ام تقی موسوی کے تاثرات کاجائزہ
کنول فاطمہ
کارشناسی ارشد مجتمع آموزش بنت الہدیٰ۔قم
مقدمہ
عورت ہر معاشرے کا اتنا ہی اہم حصہ ہے جتنا کہ مرد.اس کے باوجود ترقی پذیر ممالک سے لیکر ترقی یافتہ ممالک تک عورتوں کے لئے اپنے جائز مقام اور مساوی حقوق کے لیے جدوجہد کرنا پڑی ہے۔
مشرق ہو یا مغرب، خواتین کا مقام وہاں کی معاشرتی روایات کے مطابق ہوتا ہے۔ ترقی یافتہ دور میں دونوں ہی طرح کے معاشروں میں خواتین کے روایتی کردار میں تبدیلی واقع ہوئی ہے. خواتین اب اپنی روایتی ذمہ داریاں پورا کرنے کے ساتھ مختلف شعبہ ہائے زندگی میں بھی نمایاں کردار ادا کر رہی ہیں. اس کی سب سے بڑی اور اہم وجہ خواتین میں تعلیم حاصل کرنے کا بڑھتا ہوا رجحان ہے. عورتوں کی تعلیم کی اہمیت کا شعور اب دنیا کے قدامت پسند معاشروں میں بھی اجاگر ہونے لگا ہے. اور اسی کی بدولت عورت انفرادی زندگی کے ساتھ اجتماعی زندگی میں بھی مردوں کے شانہ بشانہ دنیا کے ہر شعبے میں کام کر تی دکھائی دےرہی ہے۔
انہی عظیم اور شجاع خواتین میں سے ایک شخصیت ،شہیدہ بنت الہدی ہیں جنہوں نے اجتماعی زندگی کے ہر شعبے میں خواہ وہ سیاسی ہو یا اقتصادی یا پھر ثقافتی ۔ کبھی مردوں سے پیچھے نہیں رہیں.شہیدہ بنت الہدی اسلامی خواتین کے لئے نمونہ عمل ہونے ساتھ ان کے انسانی حقوق کی حامی تھیں۔انہوں نے ایک عورت ہونے کے باوجود تمام عراقی عورتوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کرتے ہوئے اس ضمن میں گرانقدر خدمات انجام دیں اورآپ نہ صرف اس زمانہ کی عورتوں کے لیے نمونہ عمل تھیں بلکہ آج تک ان کے اخلاقی، سیاسی اور معاشرتی اوصاف فقہا و علماء اور مختلف شخصیات کی زبان پر جاری و ساری نظر آتے ہیں.اس تحریر میں شہیدہ بنت الہدی کے مختلف اوصاف کو ان کی ایک شاگردہ ام تقی کی زبانی بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور انکی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کیا گیا ہے۔
بنت الہدی ایک نمایاں اورممتاز شخصیت
تقی موسوی کی والدہ محترمہ ،اپنی استاد شہیدہ بنت الہدیٰ کے بارے میں یوں بیان کرتی ہے : شہیدہ بنت الہدیٰ کی زندگی اس کی شاندار خصوصیات سے روشن اور نمودار ہوتی ہیں. وہ ایک عظيم دانشمند، فاضلہ ، عالمہ اور اديبہ تھيں. انہوں نے اپنے دو فاضل بھائیوں کے زیر سایہ اور عظیم و بابصیرت ماں کی گود میں پرورش پائی۔. بلند ہمت ماں نے اس کی پرورش میں ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا اور اس کی تربیت ایک خالص اور بہترین طریقے سے کی۔ ایسی تربیت جو مستقبل میں ایک مسلمان عورت کیلئے مشعل راہ بن سکتی ہے اور صحرا میں بھٹکنے والوں اور واپس آنے کا ہنر رکھنے والوں کے لیے تاریک راتوں میں روشنی کا منار و چراغ بن سکتی ہے۔
میں اس سلسلے میں ایک داستان ذکر کروں گی: جب ڈاکٹر بنت الشاطی نے نجف اشرف کے سفر کے دوران بنت الہدیٰ سے ملاقات کی تو انہوں نے ان سے پوچھا: آپ کس یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہوئی ہیں؟
شہیدہ بنت الہدیٰ نے پرسکون مسکراہٹ کے ساتھ کہا: میں اپنے گھر کے اسکول سے فارغ التحصیل ہوں: اس کے اچانک اور غیر متوقع جواب سن کر بنت الشاطی حیران رہ گئیں جس کی اسے توقع نہیں تھی، کیونکہ اس نے اپنے آپ کو ایک ایسی مسلمان مفکرہ و مدبرہ کے سامنے پایا جو کسی بھی مکتب میں نہیں گئی۔(نعمانی، شیخ محمد رضا، سیرہ و راہ شہیدہ بنت الہدی، ص45/46)
شہید صدر کے مکتب سے واقفیت
شہیدہ بنت الہدیٰ شہید صدر کے مکتب اور ان کے افکار کی عالمہ تھیں، اصلاح و رہنمائی کے مراحل میں شہید صدر کے فکری اور مدلل کارناموں سے وہ بڑے پیمانے پر آگاہ تھیں، اور یہ معلومات و قابلیت ان کی آخری تحریروں میں واضح طور پر نظر آتی ہے۔ کیونکہ وہ کتب دو مرحلوں پر مبنی ہیں ایک سائنسی پہلو اور دوسرا معلوماتی۔مثلاً: دو عورتیں اور ایک مرد اور حق کے متلاشی جیسی کتابیں تحریر فرمائیں۔
تاریخ سے آگاہی
بنت الہدیٰ نے ایک کتاب زندگی اور نبی کے ہمراہ عورت کے نام سے کتاب لکھی ۔اس کتاب میں اسلامی تاریخ کے مسائل اور شریعت پر بہترین بحث کی ہے۔ اس کتاب کے نام سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو تاریخ اسلام کا وسیع پیمانے پر دسترسی تھی ۔ اس کتاب کے پڑھنے والے کو معلوم ہوجاتا ہے کہ بنت الہدیٰ نے کس طرح مستند طریقے سے بنت الشاطی کے قول کو رد کیا۔ کتاب پیغمبر کی بیٹیاں میں بنت الشاطی نے دعوی کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کی ایک سے زیادہ بیٹیاں تھیں، لیکن بنت الہدیٰ نے ایک تحقیقی بحث کے ذریعے درست، تنقیدی، علمی اور شاندار دلائل سے ثابت کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کی صرف ایک بیٹی تھیں اور وہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی ذات اقدس ہے۔
بچپن میں اسلامی اور جہادی تشویق
ایک ایسے وقت میں جب اس کی عمر کے دوسرے بچے کھیل کود میں مشغول و مصروف ہوتے تھے، شہیدہ بنت الہدیٰ جہادی فکر پروان چڑھنے والی بچی، پختگی اور کمال کے ایسے درجے پر پہنچ چکی تھی جو دوسرے بچوں میں نظر نہیں آتا تھا۔ چھوٹی عمر اور زندگی کے ابتدائی مراحل کا زمانہ انسان کے کھیل کود کا ہوتا ہے، لیکن آپ فضول باتوں سے پرہیز کیاکرتی تھیں۔ ایسا لگتا تھا کہ گویا بچپن سے ہی انہیں حکمت عطا کی گئی تھی: وَمَنْ يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرًا كَثِيرًا (سورہ بقرہ، آیہ ۲۶۹) اور ہر اس شخص کو جسے حکمت اور علم دیا گیا ہے، بہت ساری بھلائیاں بھی دی گئی ہیں۔
جب ہم تاریخ کے اوراق کی ورق گردانی کرتے ہیں تو وہاں ہمیں یہ دکھائی دیتا ہے کہ ایک دن اس کی والدہ نے سوچا کہ انہیں بھی دوسرے بچوں کی طرح کھلونوں کی ضرورت ہوتی ہوگی۔ تو انہوں نے انہیں ایک چھوٹی سی گڑیا لاکر دی، ان کی ماں اس وقت حیران رہ گئیں جب دیکھا کہ گڑیا کو دیکھتے ہی اسکی کیفیت ایسی ہوگئی جیسے اس کو ٹھنڈ لگ رہی ہو، یعنی جسم میں کپکپی اور کھلونے سے غیریت اور اجنبی پن محسوس کرنے لگی، اس عظیم بیٹی کی یہ کیفیت دیکھ کر ماں کو اطمینان ہوا کہ گویا بے زبانی سے یہ کہنا چاہتی ہیں کہ اسے بچہ نہ سمجھا جائے۔ اس عمر میں اس نے حکمت کی گہرائی حاصل کی اور بڑے معاملات اور اعلیٰ امور کا ادراک کیا۔ گویا اس نے یہ اعلان کیا کہ وہ ان چھوٹی چیزوں سے بالاتر ہے۔بچپن اور زندگی کے آغاز میں بیٹی کے اس غیر معمولی عمل نے جہاں ایک طرف ماں کی حیرت میں اضافہ کیا وہاں اس کی اپنی شخصیت کو دوبالا کرتے ہوئے اس پر فخر کو بڑھا دیا۔
بنت الہدیٰ نے اپنی پہلی ثقافتی سرگرمی بچپن میں ہی *دیوار اخبار* سےشروع کی۔ اس اخبار میں مفید اسلامی اور ثقافتی موضوعات ہوتے تھے۔اس کے علاوہ آمنہ بنت الہدیٰ اپنی جوانی کے آغاز سے ہی اسلامی جہاد اور فکر کے میدان میں تعلیم یافتہ تھیں اور انہوں نے اس مقدس راستے میں پہلا قدم نہایت اخلاص کے ساتھ رکھا اور اسلام کا پرچم بلند کیا اور دوسروں کو راہ خدا کی طرف بلایا۔
شہیدہ بنت الہدیٰ ایک مضبوط و مستحکم ادیبہ
شہیدہ بنت الہدیٰ ادبی ذوق رکھتی تھیں۔ وہ منفرد شاعرانہ مزاج اور وسیع تخیل کی مالکہ تھیں۔ یہ ذوق انکی تحریر شدہ اسلامی کتب اور بلند پایہ مقاصد میں بخوبی نمایاں نظر آتا ہے۔
کہانی کاہنر اور طریقہ جو انہوں نے استعمال کیا وہ کسی بھی عورت کے مِشن کے اظہار کا بہترین طریقہ تھا۔ خصوصاً ایسے وقت میں جب دشمنانِ اسلام اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے ادبی طریقہ کار کو بڑے پیمانے پر استعمال کر رہے تھے۔ انہوں نے اس طریقہ سےخدمت اور اسلام میں اس کی اہمیت کو محسوس کیا۔ اس نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور فطری وجود سے اسے حس کیا کہ کس طرح ادب اور شاعری کے ذریعے لوگوں کی سماجی زندگی میں کفر و الحاد اور فکری کج روی، اخلاقی زبوں حالی، لالچ، تعصب اور برائی سے بھرپور کہانیوں نے لوگوں کی زندگیوں کو گھیر لیاہے۔ انہوں نے دیکھا کہ کس طرح کتابوں کی دکانیں ان توہمات اور الجھنوں سے بھری ہوئی ہیں جو نوجوان لڑکیوں کو الجھا کر منحرف کردیتی ہیں۔ دوسری طرف نوجوان لڑکیوں میں اسلامی اسکالرز اور مفکرین کی کتابوں کا مطالعہ کرنے کی قدرت نہیں ۔ کیونکہ مفکرین نے انہیں اس انداز میں تحریر کیا تھا جس کو سمجھنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن تھا۔ بنت الہدیٰ نے سوچا کہ اس خلاء کو پُر اور اسلامی لٹریچر کو استعمال کرکے نوجوانوں کو اسلامی مسائل کی طرف راغب کرنا چاہیے۔ شہیدہ بنت الہدیٰ نے معاشرے میں اخلاقی مسائل کو حل کرنے کی لامتناہی کوشش کی اور ایسا کرنے کے لیے ایک پرکشش طریقہ استعمال کیا۔ (نعمانی، شیخ محمد رضا، سیرہ و راہ شہیدہ بنت الہدی، ص48/49)
پاکیزہ دل
شہیدہ بنت الہدیٰ کا دل، بغض، کینہ،تکبر،خود خواہی،کجی اور نفرت سے پاک و صاف تھا۔ جب تک میں ان کے ساتھ تھی میں نے کبھی کسی کی غیبت کرتے،یا اپنی کسی شاگرد کا مذاق اڑاتے نہیں دیکھا یا نہ کسی کے سوال کو چھوٹا و حقیر سمجھا۔ سب سے اچھی چیز ان کے اندر حسد نہیں پایا جاتا تھا،کبھی کسی کی نعمت کے زوال کی آرزو نہیں کی، یا صرف اپنے لیے ہی خیر مانگی ہو۔ ہمیشہ دوسروں کے لیے دعا خیر کرتی تھی۔ اور اگر کسی کو کوئی خوشی ملتی تو ایسے خوش ہوتی جیسے خود انہیں خوشی ملی ہوں۔
یہاں پر ایک نمونہ ذکر کروں گی جب بھی اس مثال کو یاد کرتی ہوں تو بنت الہدی کا اخلاق پھر سے میرے دل میں زندہ ہوجاتا ہے ان کا نفس ہر طرح کی حسادت سے پاک تھا وہ دوسرے لوگوں کی طرح نہیں تھا کہ جو عموما اس فکر میں رہتے ہیں کہ ہر قسم کا فائدہ اورامتیاز صرف انهیں ملے دوسروں کو نہ پہنچے، بنت الہدیٰ ہر لحاظ سے پاک و با اخلاص تهیں.وہ عراق میں تنہا ایسی خاتون تهیں جو عورتوں کےلئے اسلامی مطالب لکھ رہی تھیں اور یہ ان کے لئے بہت بڑا اعزازتها لیکن آپ اپنی پاک فطرت کی وجہ سے جو بھی نئے لکھنے والے ہوتے، آپ ان کی حمایت کرتی تهیں اور اصرار کرتیں کہ اپنے کام کو جاری رکھیں۔ ان کے دل کو مطمئن کرنے کےلیے اپنی پوری کوشش کرتی کہ مقدمہ لکھیں اور کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔ وہ ان سے تحریری سرگرمی کے بارے میں پوچھتی رہتی اور اصرار کرتیں تاکہ مولف اپنی پوری صلاحیت کے ساتھ لکھیں ، اور خواتین کے میدان میں اسلامی تحریر کی حمایت کی پوری کوشش کریں،آپ نے ان احساسات پر کوئی توجہ نہیں دی جن کو لوگ ان معاملات میں اہمیت دیتے ہیں جیسے کہ نظربد اور حسد وغیرہ بلکہ اس کے برعکس اگر کوئی کتاب شائع ہوتی تو آپ بہت خوش ہوتی اور دوسروں کو بھی اسے پڑھنے کی ترغیب دلاتی۔اور اسے اپنی مدد اور ہدف میں حمایت کا ذریعہ سمجھتی، وہ ہدف جس کے لئے آپ نے اپنی جوانی قربان کر دی۔
حکیمانہ طریقہ کار
شہیده بنت الہدی اپنی تربیت کرنے اور ہدف تک پہنچے کے لیے ہمیشہ حکمت آمیز روش اور طریقہ کار سے استفادہ کرتی تھی،خدا نے انہیں تدبیر اور عقل و شعور سے نوازا تھا ایسی عقل کہ انکے ہدف تک پہنچنے میں مدد کرتی تھی ۔ ایسی بہت سی مثالیں ملتی ہیں۔
یہاں ہم نمونے کے طور پر صرف ایک مثال کی جانب اشارہ کرتے ہیں ، چنانچہ ایک کالج کی لڑکی کہ جسے صحیح راستے کی پہچان نہیں تھی کبھی جب بنت الہدی سے ملاقات ہوتی تو آپ چاہتی کہ اس میں حجاب کا عقیدہ پیدا ہو لیکن وہ اس چیز سے منع کرتی کیونکہ اس کی نظر میں اورمعاشرہ کی نظر میں حجاب سے مراد عربی چادر کا اوڑھنا تھا۔ آپ اس سے کہتی تھی ضروری نہیں ہے کہ تم چادر ہی پہنو بلکہ بدن کا چھپانا ضروری ہے اگر اسکارف اور لمبی قمیص پہنو تو کافی ہے۔شہیدہ بنت الہدی نے اس بات کو اس وقت کہا جب لمبی قمیص حجاب کا عنوان نہیں رکھتی تھی چنانچہ وہ جوان لڑکی اسی بات سے ہدایت پاگئی ۔ کچھ دن بعد اس کا ایمان اور مضبوط ہوا تو وہ چادر بھی پہنے لگی اس کے بعد اس نے اپنی بہت سی ناپسندیدہ عادتوں کو بدل ڈالا یہاں تک کہ بہت سے چادر پہننے والی خواتین سے بھی زیادہ بہتر ہوگئی۔
نتیجہ
تاریخ اسلام میں بہت ساری عظیم عورتیں گزری ہیں جنہوں نے احکام الہی کے تحفظ اور اس کی اشاعت کی خاطر اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا ان میں سے ایک عظیم شخصیت، بنت الہدی تھی۔ آپ کی شخصیت کے پیچھے ایک با ہمت، عظیم اور پاک دامن ماں کا کردار تھا جنہوں نے آپ کی ایسی تربیت کی جو مستقبل میں ایک مسلمان عورت کی رہنمائی کر سکے اور ضلالت کے تاریک صحرا میں بھٹکنے والوں کے لیے افراد کیلئے روشنی کا مینارہ و چراغ بن سکے۔اور اسی تربیت کا نتیجہ تھا کہ آپ اپنی عمر کے اس حصے میں جہاں آپ کی عمر کے دوسرے بچے کھیل کود میں مشغول و مصروف ہوتے تھے، پختگی اور کمال کی چوٹی کو سر کیا جو عموما دوسرے بچوں کیلئے سر کرنا مشکل تھا۔ آپ مستحکم ادبی ذوق رکھتی تھیں۔ وہ منفرد شاعرانہ، ہنر اور وسیع تخیل کی مالکہ تھیں۔ یہ ذوق ان کی تحریر شدہ اسلامی کتب اور بلند پایہ مقاصد میں بخوبی نظر آتا ہے۔