بنت الہدی تاریخ ساز قرآنی واسلامی خواتین کا تسلسل

بنت الہدی تاریخ ساز قرآنی واسلامی خواتین کا تسلسل

عنیزہ عابد

اسلام میں فرد اور انسان کی حیثیت میں تعین کے لحاظ سے جنس کا کوئی عمل دخل نہیں ہے چونکہ وہ انسان ہے اس لیے اسے خلیفہ خدا کا درجہ حاصل ہے اس سلسلے میں مرد اور عورت میں کوئی فرق نہیں وہ ایک دوسرے کے ساتھ ہیں۔ ثقافتی میدانوں کے علاؤہ عملی میدان میں بھی خواتین مردوں کے شانہ بشانہ اسلام کا پرچم بلند کرتی نظر آتی ہیں اور جہاد کے میدانوں میں اپنی موجودگی سے ثابت کر دیتی ہیں کہ وہ انسانیت کی بنیاد پر اسلام کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں۔اس کی مثالیں ہمیں تاریخ کی وہ خواتین دکھائی دیتی ہیں جنہوں نے بغیر کسی خوف و خطر جنگوں میں حصہ لیا، چنانچہ ہمیں تاریخ کے آئینے میں بہت سی ایسی خواتین بھی نظر آئیں گی جنہوں نے اسلام کی نشر و اشاعت، مظلوم کی حمایت اور ظالم کے خلاف آواز بلند کرنے میں مردوں کے ہمراہ تو کبھی تنہا بھی ظالم و جابر حکمرانوں کے خلاف ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ معاشرے میں بیداری کا بیج بو دیا جس کا ثمر ہمیں آج بھی نظر آتا ہے۔ یہاں ایک بات واضح کرنا ضروری ہے کہ جہاد/ مزاحمت کا مطلب فقط تلوار لیے میدان جنگ میں جانے کا نام نہیں ہے بلکہ جہاد کا مطلب ہے کہ اللہ کی راہ میں تمام تر توانائیوں کو بروئے کار لاتے ہوئے مبارزہ آرائی کرنا. اب انسان جس نہج اور طریقے سے بھی راہ خدا میں جدوجہد کر ے وہ جہاد شمار ہوگا ہواہ وہ جہاد بالقلم یا جہاد بالعلم، یا پھرجہاد بالعمل ہو یا جہاد بالنفس (جہاد اکبر) ۔ آج کے ماڈرن دور میں ہمیں وہ خواتین بھی میدان جہاد کا حصہ بن کرنظر آتی ہیں جو سوشل میڈیا پر اچھائیوں کا پرچار اور برائیوں کی روک تھام کیلئے اقدام کرتی ہیں۔
جناب آسیہ زوجہ فرعون تاریخ کی انہی خواتین میں شمار ہوتی ہیں جنہوں نے ظالم کے خلاف مزاحمت کی۔ فرعون جو خدائی کا دعویٰ کر چکا تھا خود کو خدا کہنے والا انتہائی ظالم و جابر بادشاہ مگر باوجود اس کے جناب آسیہ خدائے وحد ہ لا شریک پر ایمان اور اسی کی عبادت کرتی رہیں۔ فرعون نے بارہا چاہا کہ جناب آسیہ راہ حق سے ہٹ جائیں اور خدا کی بجائے اس کو خدا تسلیم کر لیں اور اس مقصد کے حصول کے لیے وہ انہیں مختلف اذیتوں سے گزارتا رہا مگر جناب آسیہ ایک قدم بھی راہ حق سے پیچھے نہیں ہٹیں اور آخری لمحے تک فرعون کی جانب سے تکیلیفیں اور اذیتیں جھیلتی رہی یہاں تک کہ فرعون کے حکم پر ان کے پیروں میں کیل ٹھونک کرزیر آفتاب ان پر بھاری بھرپتھر رکھ دیے گئے۔ اسی طرح مزاحمت کا ایک اور کردار ہمیں صدر اسلام میں جانب سمیہ ام عمار کی صورت میں نظر آتا ہے جن پر مظالم کے پہاڑ توڑے گئے۔ ابو جہل ان کے جسموں پر آہنی زرہیں پہنا کر انہیں مکہ کے صحرا میں تپتی دھوپ میں زیر آسمان باندھ دیتا تھا۔ انہوں نے بہت سی سختیاں اور تکالیف برداشت کی مگر زبان پر حق کا کلمہ اور راہ خدا سے پیچھے نہ ہٹنے کا پختہ عزم و ارادہ تھا یہاں تک کے بے دردی کے ساتھ شہید کر دی گئی۔
چنانچہ تاریخ کے آئینے میں دیکھا جائے تو ہمیں تاریخ میں بہت سی خواتین مختلف طریقوں سے جہاد کا حصہ بنتی دکھائی دیتی ہیں اور اس کی بہترین مثالیں ہمیں اہل بیت علیہم السلام کے گھرانے سے ملتی ہے۔جناب خدیجہ رسول خدا ص پر ایمان لائیں اور اپنا سارا مال راہ خدا میں قربان کر دیا ہر لحظہ رسول ص کے ساتھ رہیں کبھی انہیں تنہا نہیں چھوڑا جناب خدیجہ اور رسول ص کے زیر سایہ تربیت پانے والی ان کی بیٹی جناب فاطمہ س جو مزاحمت کا سب سے اہم اور تاریخ کا بڑا کردار رہی ہیں آپ س نہ صرف خواتین بلکہ مردوں کے لیے بھی نمونہ عمل اور مشعل راہ ہیں۔آپ س کے بعد آپکی تربیت یافتہ بیٹی جناب زینب س بھی اسی راہ پر گامزن رہی اور خواتین اور بچیوں کی تربیت کا بیڑا اٹھائے رکھا اپنے بھائی حضرت امام حسین ع کے ساتھ ہمیشہ کھڑی رہی مدینہ سے مکہ ، مکہ سے کربلا اور پھر کربلا سے شام کا سفر طے کیا کوفہ میں لوگوں سے خطاب کیا دربار یزید میں کھڑے ہو کر یزید کا اصلی چہرہ لوگوں کودکھایا اور ہر منزل پراپنے بھائی کے پیغام کولوگوں تک پہنچاتی رہی۔ جبکہ ایک مصیبت دیدہ خاتوں کیلئے یہ کام کوئی آسان نہ تھا۔
ہر دور میں خواتین کا کردار ایسا ہونا چاہیے کہ کسی بھی خوف و خطرکو خاطر میں لائے بغیر ہر دور کے یزید کے خلاف ڈٹ کر کھڑی ہوں۔ ،اور ساتھ ہی ساتھ اپنے معاشرے کی فلاح و بہبود کے لیے اپنا کردار ادا کرتی رہیں۔جس بھی گھرانے نے اپنی بیٹی کی اچھی طرح تربيت کی ہے اور وہ بیٹی ايک عظيم انسان بنی ہے۔ ” اسی زمانے ميں (اسلامی انقلاب کی کاميابی سے قبل) ايک جوان، شجاع ،عالمہ ، مفکرہ خاتون ’’بنت الہدی‘‘ (آيت اللہ سيد محمد باقر شہيد کی خواہر) نے پوری تاريخ کو ہلا کر رکھ ديا، وہ عراق ميں اپنا بھرپور کردار ادا کرنے ميں کامياب ہوئيں اوراسی راہ پر جام شہادت نوش کيا۔ بنت الہديٰ جيسی خاتون کی عظمت و شجاعت،تاریخ عظيم مردوں ميں سے کسی سے کم نہيں ہے۔ اُن کی سرگرمیاں ايک زنانہ فعاليت تھی اور ان کے برادر کی جد و جہد و فعاليت ايک مردانہ کوشش تھی ليکن دونوں کی جد و جہد و فعاليت دراصل کمال کے حصول اور ان دونوں انسانوں کي ذات اور شخصيت کے جوہر و عظمت کی عکاسی کرتی تھی۔ اس قسم کی خواتين کی تربيت و پرورش کرنی چاہيے”۔2
آمنہ بنت الہدیٰ انقلابی متقی و پرہیز گار،خوف خدا درد دین درد انسانیت اور انقلابی سوچ رکھنے والی خاتون تھیں آپ عورت کی حقیقت ، مقام و مرتبے سے واقف تھیں۔ آپکو یقین تھا کہ اہل بیت علیہم السلام کی سیرت پر عمل کرتے ہوئے آپ معاشرے میں ایسا انقلاب پربا کر سکتی ہیں جو آئندہ نسلوں کے لیے اپنے نقوش تاریخ میں چھوڑ دے گا۔ مختلف طریقوں سے آپ نے معاشرے میں بیداری کا بیج بویا ۔ خاص طور پر خواتین کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے بہت کام کیا۔ اپنی مختصر سی زندگی میں صدامی دہشت گردی کے خلاف بلا خوف و خطر عراقی غریب عوام کے بہبود اور تعلیم کی پسماندگی کو دور کرنے اور شعور اسلامی کو اجاگر کے لیے فعال ترین کردار ادا کیا اپنی زندگی اور فعالیت سے تمام شعبہ ہائے حیات کو متاثر کیا۔ آپ عراق کی صاحب تصانیف، عالمہ، شاعرہ، مؤلف ،علم فقہ اور اخلاق کی معلم خواتین میں سے تھیں۔
جس راہ کا انتخاب کرتے ہوئے آپ جس سفر کا آغاز کر چکی تھیں یقینا وہ ایک دشوار اورکھٹن راستہ تھا جس میں طرح طرح کی مشکلات و پریشانیاں ، صعوبتیں برداشت کرنا پڑنی تھیں ، مگر چونکہ یہ حق و صداقت کی راہ ،سر بلندی کی راہ، خدا تک پہنچنے کی بہترین راہ تھی اس لیے آپ نے اس راہ کا انتخاب کر لیا اورباطل کے خلاف آخری دم تک بر سر پیکار رہیں۔ طرح طرح کی مشکلات برداشت کیں، گھر میں نظر بند کی گئیں اور جھیل کی سلاخوں کے پیچھے بھی رہنا پڑا مگر حق کی راہ کو کبھی نہیں چھوڑا۔
آپ نے اپنے بھائی شہید باقر الصدر کے ساتھ مل کر عظیم جہاد کیا. 1979 میں اپکو صدام کے حکم پر گرفتار کیا گیا تو مثل جناب زینب س ان کی کنیز آمنہ بنت الہدیٰ میدان میں اتری. اور عوام میں اس بیداری کو پیدا کیا جو بیداری چودہ سو سال پہلے جناب زینب س نے لوگوں میں پیدا کر کے حق کی شناخت کروائی تھی۔ آپ حرم امام علی ع میں گئی اور ایسی تقریر کی کہ ہر فرد اشک بار ہو گیا۔ آپ کی اس پر اثر تقریر نے لوگوں میں جذبہ حریت پیدا کر دیا عراق میں جگہ جگہ مظاہروں کی وجہ سے آخر کار صدام ، شہید باقر الصدر کو رہا کرنے مجبور ہوا۔3
آج کے دور میں ہماری خواتین کے لیے آمنہ بنت الہدیٰ کی زندگی مزاحمت کا بہترین کردار ہے جو ایک خاتون کے لیے جہاد کی حیثیت رکھتی ہے۔گھر میں شوہر کی خدمت کرنے کو عورت کا جہاد کہا گیا ہے تاہم اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ دین اسلام ایک خاتوں کسی شعبے میں جانے سے منع کرتا ہے اور نہ ہی یہ حق کسی کو دیتا ہے کہ اگر خاتون کسی دوسرے سماجی شعبے میں کسی طرح کوئی صلاحیت رکھتی ہے تو اسے گھر کی چار دیواری تک محدود کرکے رکھ دیا جائے۔ اسی کے ساتھ اپنی اولاد کی بہترین تربیت کرنا ان کو معاشرے کا بہترین فرد بنانا ایسا فرد جو معاشرے میں بہترین کردار ادا کرئے جس سے خاندان، گھر اور معاشرے میں استحکام آسکے ، بھی جہاد کے مترادف ہے ، بلا شبہ خوف خدا سے مملو ، نیک اور دین دارعورت معاشرے کو جنت کی مانند بنا دیتی ہے عورت اگر با حیا ہونے کے ساتھ علم کے زیور سے آراستہ ہوگی تو معاشرہ بھی نیک ہوگا آج کی خواتین کو چاہیے اپنے قلم کو ظالم کے خلاف تلوار اور قرطاس کو ڈھال بنائیں اور سوشل میڈیا جس کو رہبر معظم انقلاب اسلامی نے جنگ نرم کا میدان قرار دیا ہے اس میدان میں جہاد کریں۔ تا کہ حسینیت کا پیغام دنیا کو پہنچا یا جاسکے۔ اپنی اولاد کی بہترین تربیت کریں اپنی بیٹیوں کو کردار فاطمہ سے روشناس کرائیں تا کہ وہ اپنی حجاب پر مبنی چادر کے زریعے دفاع کریں اوربیٹوں کو کردار حسینی سیکھائیں تا کہ وہ باطل کے سامنے کبھی نہ جھکیں اور اسلام کا دفاع کریں ۔پروردگار عالم ہماری تمام خواتیں شہیدہ بنت الہدی کی طرح جناب زہرا اور جناب زینب س کی سیرت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے .
حوالہ جات
1. حضرت سمیہ کی شہادت، جاوید چوہدری،صفحہ اول، ۴جنوری۲۰۱۶ء
2.عورت گوہر ہستی، رہبر سید علی خامنہ ائ
3۔الحسون، اعلام النساء المؤمنات، ۱۴۱۱ق، ص۸۸-۸۹