بنت الہدی میری نظر میں

بنت الہدی میری نظر میں

لاریب فاطمہ

کسی بھی ذات پر تبصرہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ نے زندگی کے مختلف تجربات کا گہرا مشاہدہ کیا ہو۔اسکول اور کالج کی زندگی بالکل ایسے ہی گزاری جیسے میں نے گھر سے تربیت پائی یعنی اسلامی طریقے سے رہنا ،اپنے حجاب کی پابندی کرنا، گانے وغیرہ نہیں سننا ،اور اس طرح رہنے پر میں کبھی تنقید کا نشانہ نہیں بنی۔وقت کی تیز رفتار گاڑی مجھے یونیورسٹی لے آئی۔ایسا ماحول جہاں شاید دم گھٹتا ہو۔ موسیقی سننا فیشن ہواور نہ سننے والے کو دقیانوسی سوچ کا حامل سمجھا جاتا ہو۔ ہاسٹل میں ویک اینڈ پر ہر طرف سے بلند گانوں کی آوازیں آپ کی روح کو بے چین و بے قرار کر تی ہوں ۔ یہ حقیقت ہے کہ ماحول کا اثر چاہتے نہ چاہتے ہوئے بھی ضرور پڑتا ہے اور اس سے بچنے کا واحد حل پاکیزہ ولایت ہے ۔ حالانکہ میں ان سب چیزوں کے لیے ذہنی طور پر آمادہ تھی اور بہت بلند عزائم لے کر یہاں آئی لیکن یہاں آکر خود کو یعنی ایک عورت کو کمزور پایا کہ بھلا فقط ایک عورت کیسے بہت بڑا حلقہ تشکیل دے سکتی ہے؟کیسے ایک عورت اس ماحول پر اپنا اثر ڈال سکتی ہے؟ جہاں شاید خواتین کا ہدف زندگی ہی "شہوت رانی” ہو اور مردوں کا مقصد "شہوت رانی "۔جہاں احکام خدا سبحانہ و تعالی کی پابندی کرنے والوں کو تنگ نظر سمجھا جاتا ہو (یہ تصویر کا ایک رخ تھا البتہ ایسے ماحول میں بہت پاک و پاکیزہ جوان بھی پائے جاتے ہیں)۔
ایسے میں ذات خداوندی مجھ پر مہربان ہوئی اور مجھے ایک ایسی ہستی پر لکھنے کا موقع ملا جس نے میری اس سوچ کا قلع قمع کیا۔،جو اپنے اندر عورت کی شخصیت کے بارے میں ہر سوال کا جواب سموئے ہوئے ہیں۔ ایسی ذات جو ایک شخصیت سے بالاتر ہوکر ایک کردار بن گئی ہیں۔ ان کے اوصاف اور مؤثر کردار کو بیان کرنے کے لیے شاید الفاظ ماند پڑ جائیں،جو ہر میدان میں ہر عورت کے لیے چراغ راہ بن سکتی ہیں۔وہ کربلائے عصر کی سورماودلیر خاتون شہیدہ آمنہ بنت الھدی ہیں۔دشمن نے ہمیشہ سرد جنگ پر زور دیا ہے یعنی آزادجسم مسلم جوانوں کی فکروں اور روحوں کو قید کرنے کے لیے منصوبہ بندی کی ہے۔ ہمیشہ مغربی ثقافت کو ترویج دینے کی کوشش کی ہے اور اسلامی عقائد اور دینی ثقافت میں رخنہ اندازی کی ہے۔
ایک عورت جوماں،بہن،بیٹی اور بیوی جیسی عظمت ومقام رکھتی ہے ، مردانہ برابری اور حقوق کی فراہمی کے نام پراس کی ذات کا مذاق بنایا ہے اور اس کی عزت نفس کو مجروح کیا ہے، اس کی عفت کو کچل کر اس کی حیا کو تار تار کیا ہے۔ مغربی ثقافت کا کردار رکھنے والی عورت کے مقابلے میں ایسی عورت پر لکھا جانا ضروری ہے جس نےنہ صرف دیندار ہو کر بلکہ دین شناس ہو کر پرواز کی ہے۔جو دینی فکر رکھنے کے ساتھ بہت مطمئن اورپراعتماد شخصیت کی مالک تھیں۔آپ نے اپنی تحریک یعنی "تحریک نسواں” سے خواتین کو ہر طرح سے متحرک رکھنے کی کوشش کی، انہیں روحانی طاقت عطا فرمائی اور علمی و عملی میدان میں بہترین پیشوا رہیں۔آپ نے کئی دینی ادارے قائم کر کے یہ ثابت کیا کہ عورت کسی بھی لحاظ سے کمزور نہیں ہے۔خواتین کی تربیت اور توانائیوں کی تعمیر کی۔عمربلوغت کو پہنچنے والی بچیوں کے لیے تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا۔ان میں تحریکی شعور اُجاگر کیا اور انہیں معاشرے میں اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ کیا۔ قنوطیت کی شکار خواتین کو رجائیت کی فکر عطا کی۔ دنیوی معاملات کو اسلام کی روح سے سمجھنے میں مدد کی۔ آج کے آزاد خیال مغربی ثقافت کے آئینہ دار لکھاریوں کے مقابلے میں ایسی تحریریں لکھیں جو خواتین کو ان کی روز مرہ کی زندگی میں درست سمت کا تعین کرنے میں بہترین مدد کرسکتی ہیں۔
عورت مارچ میں شریک ہو کر اپنے حقوق کا تقاضہ کرنے والی خواتین کے مقابلے میں ایسی گوہر جنہوں نے عملی طور پر دکھایا کہ عورت کے حقیقی حقوق کیا ہیں؟ اور ان کا تقاضا کیسے کیا جائے۔آپ اپنے بھائی شہید صدر کی تحریک کی علمبردار تھیں۔بالکل اسی طرح شہید کی دست بازو بن کر رہیں جیسے حضرت فاطمہ علیہاالسلام حضرت علی علیہ السلام کی ناصرہ تھیں۔بالکل ایسے ہی، جب حضرت علی کو قید کر کے لے جایا جا رہا تھا اور آپ نے امام کی عباء کا دامن تھام لیا تھا اور یہ ہاتھ بہت مضبوط ہاتھ تھے کیونکہ یہ وقت کے امام کی بہترین مددگار اور ناصرہ کےہاتھ تھے۔آپ بھی اپنے بھائی کی بہترین مددگار تھیں جب شہید صدر کو قید کرنے کی غرض سے سپاہی لینے آئے توآپ نے ان کو للکارا اور پھر گلیوں میں یہ استغاثہ بلند کیا کہ لوگو بیدار ہو جاؤ کہ تمہارےبزرگ کو لے جایا جا رہا ہے۔
آپ نے اپنے کردار اور تحریک سے ثابت کردیا کہ پیروان فاطمہ زھراء سلام اللہ علیہا کا علمی،عملی،معاشرتی،تربیتی،اور سیاسی کردار کیسا ہوتا ہےاور تحریک امام حسین علیہ السلام اور للکار زینبی سلام اللہ علیہا کو عملی طور پر انجام دے کر عصر حاضر کی خواتین کو اس تحریک کو سمجھنے میں آسانی پیدا کی۔تمام بحث اس بات پر منتج ہوتی ہے کہ آپ خواتین کے لئے ایک جامع کردار اور مثل مشعل ہیں۔