عظیم خاتون
کلثوم ایلیاء شگری
ایل ایل بی ۔ ایم اے سیاسیات ۔ ایم اے علم کلام
25 شہیدہ آمنہ بنت الہدیٰ جو 1937ء میں قدیمیہ بغداد میں پیدا ہوئیں اپنے گھر کی واحد خاتون تھیں،شہیدہ آمنہ بنت الہدیٰ نے ابتدائی تعلیم اپنی والدہ سے حاصل کی اور بعد میں باقی تعلیم اپنے عظیم بھائی شہید باقر الصدر سے حاصل کی تھی،آپ اسلامی دعوہ پارٹی کی خواتین ونگ کی سربراہ تھیں۔
اسلامی تاریخ میں جہاں مرد مسلمانوں کی بہادری کاتذکرہ ملتا ہے وہاں مسلمان خواتین کی بہادری کے بھی لاتعداد واقعات ملتے ہیں۔ بے باک، نڈر، شجاع،بہادر مسلمان خواتین جنہوں نے دین اسلام کی خاطر کوئی بھی قربانی دینے سے دقیقہ فروگذاشت نہ کیا، جنہوں نے ہر کرب وتکلیف برداشت کی یہاں تک کہ جان سے گذرگئیں لیکن اسلام پر آنچ نہ آنے دی۔
اسلام کا آغاز خاتون اول حضرت خدیجۃ الکبریٰ کی لازوال اور بے مثل قربانیوں سے ہوتا ہے ۔یہ بی بی عزم و ہمت کا کوہ گراں اورحوصلہ افزائی کا سرچشمہ بن کرنبوت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سہارا بن جاتی ہیں۔
بالکل اسی طرح 1979 بعثی دہشت گردوں نے جب شہید باقر الصدر کو نجف اشرف سے گرفتار کر لیا ،اسی وقت ایک باحجاب خاتون جس کا نام آمنہ بنت الہدیٰ تھی جو حرم امام علی علیہ السلام میں داخل ہوکر لوگوں سے مخاطب ہو کر کہتی ہیں:
اے لوگو کیوں تم خاموش ہو؟جب کہ تمہارے رہنما کو گرفتار کیا جا چکا ہے،کیوں تم خاموش ہو؟جب کہ تمہارے مرجع تقلید پر بہیمانہ تشدد کیا جا رہاہے،باہر نکلو اور احتجاج کرو۔
یہ صدا ٹھیک چودہ سو سال پہلے اعلان غدیر کے بعد جب شہادت رسول خدا ہوئی تو لوگوں نے وقت کے امام کو بھلا کر ظاہری خلافت کا ساتھ دیا تو فاطمہ الزہراسلام اللہ علیھا نے کچھ اس طرح سے بلند کی:
لوگو ابھی رسول خدا میرے بابا کی قبر کی مٹی خشک نہیں ہوئی اور تم لوگ یکسر بدل گئے؟
یہاں تک کہ آپ نے وقت کے امام کو تنہا چھوڑنے پر لوگوں کے گھروں کے دروازے کھٹکھٹائے اور انکے ضمیر کو جنھجوڑا۔ صدائے حق بلند کی۔ مگر وقت نے ساتھ نہیں دیا جسکی وجہ سے آج مسلمان ممالک در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں ۔ بس یہی کہوں گی کہ زہرا کی آواز تو اس زمانے کی لوگوں نے دبا دی۔ مگر زہرا کی یہ تحفظ امامت کے سلسلہ میں اٹھنی والی آواز ہزاروں کنیزان زہرا کی دلوں میں آج بھی گونج رہی ہے
جسکی مثال شہیدہ بنت الہدئ ہے۔ ان ملکوتی اور الہیٰ الفاظ کے اثر سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ گھروں سے نکل آئے اور شہید باقر الصدر کی گرفتاری کے خلاف احتجاج شروع کر دیا۔ جس کے سبب صدامیوں کو انہیں اسی دن مجبوراً رہا کرنا پڑا۔ اسلام میں اس عظیم خاتون نے جو تاریخ رقم کی اسکی مثال اب تک نہیں ملتی ۔خود تو شہادت کے درجہ پر فائز ہو گئیں اور ہمیں بھی جہاد کا اصل مطلب سمجھاگئیں کہ ایک خاتون کی ذمہ داری صر ف گھرتک محدود نہیں یعنی امورخانہ داری میں تمام زندگی صرف کردینا جبکہ خود جانتی ہو کہ میں امور خانہ داری کے علاوہ اموردین میں بھی کام آسکتی ہوں تو میدان اترنا فرض ہوجاتا ہے۔
مگر افسوس اس زمانہ میں خواتین دین اسلام سےبیزاری کا اظہار کرتی نظر آتی ہیں، جیسے جیسے ذرائع ابلاغ بڑھتے جارہے ہیں ،اتنے ہی فتنے بڑھتے جار ہے ہیں،ان فتنوں میں ایک فتنۂ ارتداد بھی ہے۔ اس فتنے کے زہریلے اثرات مسلم معاشرہ میں تیزی سے پھیل ر ہے ہیں ،رات دن مسلم خواتین کو مرتد بنانےکی کوششیں کی جارہی ہیں،نوجوان بچیاں اسلامی تہذیب اور اسلامی تعلیمات کو چھوڑ کر کفر والحاد کے راستہ پر چل پڑی ہیں ،غیر مسلم آسانی سے ان بچیوں کواپنی طرف کھینچنے میں کامیاب ہورہے ہیں
یہ سوال ہمیشہ خواتین کو پیش آتا ہے کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ کس حد تک ہمیں آگے بڑھنا چاہیے؟ موجودہ حالات میں ہمارا کردار کیا ہو سکتا ہے؟ ہمارا دائرہ کار کیا ہو؟ جو عالمی سطح پر خواتین کے مختلف کردار دیکھ کر سوچتی ہیں کہ ہمیں بھی ان کی طرح فعال کردار ادا کرنا چاہیے، تصدیق کون کرے کہ یہ سب کیا جائے یا ہاتھ روک لیا جائے؟
ایک جھجک ہے جو ہماری مطالبات میں نظر آتی ہے۔ یا یہ سوال ہے کہ کیا میں ماحول کی خرابی کے باعث صرف علم دین پر ہی اکتفا کرلوں؟ بہت سی بہنیں ہیں جو حق وانصاف کا پورا شعور رکھتی ہیں اور سماج میں متحرک کردار ادا کرنا چاہتی ہیں، مگر کہاں جاکر ؟کیا ہر ضلع میں اسطرح کی تربیتی مراکز قائم ہیں جہاں سے ایک خاتون کی تبدیلی کی آغاز ہو؟
میں یہاں پر عام مدارس کی بات نہیں کررہی ہوں کہ جوصرف قرآن کو قرائت کی حد تک اور جامعات میں خواتین کو صرف اسلامی تعلیم کی حدتک رکھتے ہیں اور ایسےمضامین پڑھائے جاتے ہیں جو معاشرے کے لیے موثر نہیں ہیں ۔ معاشرے کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیےمناسب مضامین نہیں پڑھائے جاتے۔ جیسے کہ:
مقصد عاشورہ و اقتدار عاشورہ، تربیت اولاد، تربیت کے اصول حالات حاظرہ کی تناظر میں، مکتبی خاتون کا کردار، خودشناسی، دشمن شناسی، میڈیا اور اسکے استعمال کے طریقے، کرادر زینبی و فاطمی کالج اور یونی ورسٹی کے ماحول میں وغیرہ وغیرہ
آپ خود سوچیں اس دور میں جہاں گھر کے اندر بھی گناہ اور باہر بھی گناہ کرنے کے مواقع موجود ہوں اور اس معاشرے میں تربیت گاہ نہ ہوں تو کیا حال ہوگا؟
اوپر سے اگر کوئی خاتون اسلامی اورمروجہ تعلیم ساتھ حاصل کرنا چاہے تو بھاری بھرکم فیس ادا کرنے پڑتے ہیں۔
بہر حال میں اپنے ذاتی تجربہ سے یہ ضرورکہوں گی کہ ہمت کے ساتھ اگر ایک عورت میدان عمل میں اتر آئے تو ضرورمیدان جیت حاصل کر لیتی ہے۔ میں نے جب اس شہیدہ کی زندگی کا مطالعہ کیا تو پتاچلا کہ ایک خاتون جب خلوص نیت سے میدان میں نکلتی ہے تو خوف خود خوف کھاجاتی ہے اور خودبخود میدان صاف ہو جاتا ہے ۔
اور میری اپنی ذاتی کوشش بھی ہے کہ ایسے ادارے بلتستان میں بنائے جائیں جہاں کردار اور گفتارایک جیسے ہوں ۔
اور آخر میں یہ بات عرض کرتی چلوں جو حقیقت پر مبنی ہے کہ اس دور میں ایک عورت معاشرے میں اسوقت کامیاب ہوسکتی ہے جب معاشرے میں ان کے لئے منفرد نظام کا اہتمام ہو۔ جہاں والدیں اطمینان کے ساتھ اپنی بچیاں بھیج سکیں ۔ ہم نے بہت سی خواتین کے ساتھ ملاقاتیں کی ہیں جو بہت ہی زیادہ اثرانداز کرنے والی خواتین ہیں۔ کیونکہ معاشرہ اس حد تک بگڑ چکا ہے کہ کوئی ادارہ پاک نہیں ہے کہ جہاں ایک پاک دامن خاتون سکون سے تعلیم مکمل کرسکے۔
پاکستان میں ابھی حال ہی میں آقا سید جواد نقوی نے ام الکتاب نام سے خواتین مدرسہ اور تحریک کا آغاز کیا ہے کہ جو واقعا بے مثال ہے۔ اس طرز پرپاکستان میں بہت سے مکاتب کی ہے جو خواتین میں تحریک پیدا کری ۔ اس شہیدہ میں تحریک گھر ہی سےپیدا ہوئی کیونکہ وہ گھر پہلے ہی سے بیدار تھامگر ہر گھر اس طرح کا نہیں ہوتا کہ جو تربیت شدہ اولاد میدان میں لائے۔ اس لئے ہمارے علماء کرام پر لازم ہے کہ وہ ایسے ادارے تیار کریں کہ ہر خاتون میں شہیدہ بنت الہدی کی سی جرات پیدا کرسکیں۔