بنت الہدی
سیدہ گل فروا نقوی
بنت الھدی’ ہیں بنت ِعلی کی جو پیروکار
زینب کی طرح اپنے برادر کی جاں نثار
وہ خاندان ِصدر کا روشن چراغ ہیں
یہ ملک و قوم کے لیے روشن دماغ ہیں
فکر و عمل سے دین کے ڈنکے بجا دیے
فکر ِیزیدیت کے الاؤ بجھا دیے
بتلایا آبرو ہے فقط دیں کی آبرو
کرنا ہمیشہ اس کی حفاظت کی جستجو
عورت کو حریت کے مطالب بتا دیے
صبر و رضا کے ذات میں پیکر دکھا دیے
شعر و ادب کو اک نیا مقصد عطا کیا
تشہیر کربلا کا ذریعہ بنادیا
عزم و عمل کی اک یہی تازہ مثال ہے
باطل کے آگے سینہ سپر باکمال ہے
جاں سے عزیز بھائی کی نصرت کے واسطے
روکے تمام اہل ِ شقاوت کے راستے
نعرے بلند کر کے کلیجے ہلا دیے
اس دور کے یزید کے گھٹنے ٹکا دیے
بھائی کو مشکلات میں چھوڑا کبھی نہیں
منہ زینبی ثبات سے موڑا کبھی نہیں
یہ جوش دیکھ کر عدو گھبرا کے رہ گیا
خاتون باوقار سے تھرا کے رہ گیا
زچ ہو کے اپنے آپ کو اسفل( سب سے گرا ہوا) بنا گیا
لفظوں کے انتخاب میں وہ ڈگمگا گیا
خود کو یزید ِنحس کا استاد کہہ گیا
اپنی زباں سے اک نئی روداد کہ گیا
بولا وہ پیروی میں کروں گا ہزید کی
ڈالوں گا داغ بیل میں ظلم ِ شدید کی
باقر کے ساتھ آمنہ کو مارا جائے گا
ورنہ لہو شہید کا پھر رنگ لائے گا
بھائی کے َبعد بچتی نہ زینب جو نوحہ گر
رہتا نہ انقلاب کا فوج ِ شقی کو ڈر
کوتاہی ءِ یزید نہ دہراؤں گا کبھی
ماروں گا ساتھ بھائی کے خواہر کومیں ابھی
ظالم نے جو کہا تھا وہ کر کے دکھا دیا
بھائی کے ساتھ خون بہن کا بہا دیا
باطل پرست آج بھی کب حق شناس ہے
فروا خدا پرستوں کو مہدی کی آس ہے