اداریہ
معصومہ جعفری
(())
اسلام کی آمد عورت کے لیے غلامی، ذلت ،ظلم اور استحصال کے بندھنوں سے آزادی کا پیغام تھا۔ اسلام نے ان تمام قبیح رسوم کا قلع و قمع کردیا جو عورت کے انسانی وقار کے منافی تھی اور عورت کو وہ تمام حقوق عطا کیے جس سے وہ معاشرے میں عزت و تکریم کی مستحق قرار پائیں جس کے مستحق مرد ہیں. اس طرح انسانیت کی تکوین میں عورت، مرد کے ساتھ ہم پلہ و ہم رتبہ قرار پائی۔ ارشاد باری تعالی ہے:يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً ۚ) النسا۔(1
اے لوگو اپنے رب سے جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا پھر اسی سے اس کا جوڑا پیدا فرمایا پھر ان دونوں میں سے کثرت مردوں اور عورتوں کی تخلیق کو پھیلا دیا۔
اسلام ایک ایسا دین ہے جو اپنے ماننے والوں کو زندگی گزارنے کا ایک نقشہ وکامل نظام عطا کرتا ہے ۔ اسلام جہاں مقام،منزلت ومنصب انسانیت کو بیان کرتا ہے وہاں ان کے حقوق اور فرائض بھی واضح الفاظ میں بیان کرتا ہے۔ قرآن کریم کامخاطب مرد ووعورت نہیں بلکہ انسان بحیثیت اشرف المخلوقات اور صاحب کرامت ہے جس میں مرد وعورت دونوں شامل ہیں۔ اگرچہ ان کے فطری وطبیعی اختلاف کے پیش نظر بعض احکام میں تفاوت بھی عدلت اور فطرت کاتقاضا ہے۔ جس کو مدنظر رکھنا اسلام جیسے کامل,آفاقی،عالمگیر نظام کی بنیادی خصوصیت ہے تاکہ کسی پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ اور ذمہ داری نہ آئے۔
عورت کا فطری تقدس اور اس کی نسوانی حرمت صرف اسلام کے قلعہ میں محفوظ ہے ۔اسلام نے عورت کو آبگینہ قرار دیا ہے اور اس آبگینہ کی حفاظت کا ہر ممکن معقول ترین انتظام کیا ہے ۔اس کی ولادت سے لے کر آخر عمر تک اسے محترم قرار دیا ہے۔اگر عورت اچھی ہے تومعاشرہ اچھا ہوگا اگر وہ خراب ہے تو پوراامعاشرہ بھی خراب ہو گا۔جس طرح ستون دیکھ کر کسی عمارت کی مضبوطی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے اسی طرح معاشرہ میں عورت کی حیثیت کو دیکھ کر قوم کی عظمت اور سر بلندی کا اندازہ باآسانی کیا جا سکتا ہے۔معاشرے کا یہ ستون مضبوط ہو تو اس پر قوم کے امن و عافیت کی چھت ڈالی جا سکتی ہے۔
عورت عظمت کا مینارہ ہے اور اسلام نے عورت کو وہ عزت عطا کی کہ جس میں بیٹی کی تربیت جنت کی ضمانت ہوئی اور ماں کی خدمت جنت کا پروانہ ہوئی ۔اور آج کے پرآشوب فتنوں سے خلق خدا کے اس گوہر کی عزت اور فضیلت کو استحصال سے محفوظ رکھنے کے لیے قرآن وپیغمبر نے انسانیت کے لئے شہزادی کونین حضرت فاطمہ زہرا کوآئیڈیل، مشعل راہ اور چراغ ہدایت بنا کر پیش کیا اور حضرت فاطمہ کی عظمت اور رفعت کو رسول خدا نے بارہا فرمایا:
إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَاكِ وَطَهَّرَكِ وَاصْطَفَاكِ عَلَىٰ نِسَاءِ الْعَالَمِينَ۔)آل عمر ا ن۔(42
بے شک خدا نے تمہیں چن لیا ہے اور پاکیزہ بنا دیا ہے اور عالمین کی عورتوں میں منتخب قرار دیا ہے۔
ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہر زمانے میں دنیا کے گوشہ وکنار میں ایسی عظیم فاطمی و زینبی خواتین موجود رہی ہیں ۔ جنہوں نے مختلف حیثیتوں سے بڑےاور عظیم کارنامے سر انجام دیے اور مختلف ملکوں و قوموں میں انقلاب لانے کا باعث بنی ہیں اور ان کی زندگی اور سیرت آج کی خواتین کے لیے بہترین نمونہ ہیں۔ ان کے دینی،اخلاقی، ،معاشرتی ، علمی اور سیاسی کارنامے نہ صرف دنیا اور آخرت دونوں میں نجات کا ذریعہ ہے بلکہ موجودہ دور کی تمام معاشرتی خطرات اور خواتین کو درپیش چیلنجز سے محفوظ رہنے کا بھی ضامن ہیں۔
انہی ہستیوں میں سے ایک عصر حاضر کافاطمی وزینبی کردار،آمنہ بنت الہدٰیٰ ہیں۔ جنہوں نے مختلف تربیتی،تبلیغی وجہادی میدانوں میں جامع کردار ادا کیا۔ اور خواتین کے لئے فکری،ثقافتی وسیاسی میدانوں اور سیرت وکردار میں ایک نونہ عمل بنی۔
مجلہ گوہرنایاب میں علمی وتربیتی محاذوں پر مصروف عمل اسکالرز،سٹوڈنٹس اور دیگر نظریاتی ودیگر فعال خواہران نے شہیدہ بنت الہدٰ یٰ کی شخصیت کے مختلف پہلووں پر مضامین،کالمز،انٹرویوز،تاثرات اور شاعری کے ذریعے ان کو متعارف کرنے کی کوشش کی ہیں،جو کہ اس وقت ہمارے معاشرے کی اہم ضروریات میں سے ہیں۔کیونکہ مغربی آٗئیڈیل اور ثقافتی یلغار نے اسلامی عورتوں کی شناخت میں بحران پیدا کیا ہے۔جس کے لیے تاریخی اسلامی خواتین کو بطور نمونہ پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ گوہر نایاب اسلامی مثالی خواتین کے تعارف اور ان کی سیرت وکردار سےآشنائی کے لئے اولین کوشش ہے۔ دیگر تاریخ کے اوراق میں گم شدہ قرآنی واسلامی مثالی خواتین کو معاشرے میں پہچنوانے اور بطور نمونہ پیش کرنے کایہ سلسلہ جاری وساری رہے گا۔
اللہ تعالیٰ اس مجلہ کی اشاعت میں حصہ لینے والی تمام خواہران کی توفیقات میں اضافہ فرمائے اور قلمی جہاد کو دین حق،اصلاح معاشرہ اور شعور وبیدری کے لئے استعمال کرنے کے ساتھ ہر سطح پر اخلاص نیت کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی توفیق دے۔ مجلہ کی بہتری اور اس میں موجود نقائص کی جانب ضرور توجہ دلانے کے ساتھ تعمیری آرا وتجاویز سے دریغ نہ کریں۔