آمنہ بنت الہدی کا تربیتی ، سماجی، اور سیاسی کردار
سیدہ کلثوم نقوی
مقدمہ
انسانی زندگی کے مختلف پہلو ہوتے ہیں جیسےانفرادی ، اجتماعی ، سیاسی پہلو ، جن کا تعلق مرد و عورت دونوں سے ہوتا ہے زندگی کے ان تمام پہلووں میں انسان کی کامیابی کا راز تعلیم و تربیت میں مضمر ہوتاہے جب تک انسان خود کو یا دوسروں کو تعلیم و تربیت کے زیور سے مزین نہیں کرتا تب تک ممکن ہی نہیں کہ اپنے مقصد تک رسائی حاصل کر سکے ، شہیدہ آمنہ بنت الہدی کا شمار بھی ان شخصیات میں ہوتا ہے جنہوں نے نہ فقط خود کو بلکہ دوسروں کو بھی تعلیم و تربیت کے زیور سے آراستہ کیا۔
آپ نے نجف کے حوزہ سے تعلیم حاصل کی اور اپنے بھائیوں کے ساتھ سیاسی و سماجی سرگرمیوں میں مصروف رہی ، آپ نے ظالم و جابر حکومت کے خلاف قیام، باطل قوتوں کی سازشوں کو ناکام، خواتین کے لئے تعلیم و تربیت کا انتظام، اور سماجی خدمات میں بڑا کردار ادا کیا۔
ہم ذیل میں شہیدہ بنت الہدی کی تربیتی، سماجی، سیاسی پہلو ؤں کو اختصار کے ساتھ بیان کریں گے:
1 : تعلیمی اور تبلیغی سرگرمیاں
بنت الہدی کے علمی، تربیتی،تبلیغی جہاد کے بعض مراحل ہیں جن میں سے اہم کا یہاں پر تذکرہ ہوگا
الف : الزہراء اسکول اور بعض ثقافتی مراکز کا قیام
بنت الہدی نجف، کاظمین،بغداد میں اسلامی چیریٹی فنڈ سے منسلک الزہراء اسکول کی بانی تھیں ان ابتدائی اور غیر ابتدائی تعلیمی احاطے کے قیام کا مقصد محض تعلیمی ضروریات کو پورا کرنا نہیں تھا کیونکہ عراق میں موجود گورنمنٹ اسکولز میں طالبات کو تعلیم دی جاتی تھی تاہم دیگر ضروریات باعث بنیں کہ الزہراء اسکول کا قیام عمل میں لایا جائے چنانچہ ان ضروریات میں سے صحیح اسلامی ثقافت کا وسیع پیمانے پر پھیلاؤ جس سے خواتین کی حیثیت کو ترقی حاصل ہوجائے، سر فہرست تھا، بلا شبہ ان اسکولز میں تعلیم اور تربیت کےبہترین طریقے تھے جس کی وجہ سے پڑھے لکھے افراد کو تربیتی میدان بھی فراہم کیا جاتا تھا اور یہ طریقے وقت کے تقاضوں اور طلباء کی خواہشات کے عین مطابق تھے ، اور ان اسکولز کے قیام کے لیے حکومت سےمنظوری حاصل کرنے کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ جو نصاب سرکاری اسکولوں ( پرائمری اور نان پرائمری اسکولوں میں ) میں پڑھایا جاتا ہے انہی مواد پر مشتمل نصاب ان میں بھی پڑھایا جائے تاکہ اس اسکول سے فارغ التحصیل طلباٰٰٰء کو اپنی تعلیم جاری رکھنے میں کسی طرح کی دشواری اوررکاوٹ کا سامنا کرنا نہ پڑے۔
"الزہراء اسکول کی ڈائریکٹر مسز صیدلی اس بارے میں کہتی ہے کہ اخلاقی بدعنوانی کے فروغ سے نمٹنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ لڑکیوں کوتعلیم اور ان کے تربیت پر توجہ دی جائے اور یہ تب ممکن ہے جب اسلامی اسکول قائم کیے جائیں تاکہ مسلم خاتون اپنی حقیقی شناخت تک پہنچ سکے”
بنت الہدی نے ان اسکولز کے قیام کے لئے سخت محنت کی اور لڑکیوں کی تربیت کے لئے دو دروس کا اضافہ کیا اور ایک شیعہ خاتون ٹیچر معین کیا جو عموما علمی میدان میں ماہر اور قابل تھیں اور شریعت اسلامی پر مبنی رسم و رواج کی پابند تھیں اس نے لڑکیوں کے لئے ایک مثال قائم کی اور اس کا نام ” الزہراء اسکول” رکھا گیا۔
سرکاری اسکولوں کے مقابلے میں ان اسکولز نے بہت سی کامیابیاں حاصل کیں جس کی وجہ سے الزہراء ا کے نام سے موسوم یہ علمی ادارہ علمی و تربیتی لحاظ سے بہت مشہور ہوا ۔ ان اسکولز میں بنت الہدی کا ایک خاص کردار تھا وہ ہفتہ میں تین دن اسکول میں حاضر ہوتی تھیں اور تین دن تعلیم کے لئے نجف جاتی تھیں ، یہ اسکولز عام طور پر خواتین کی تعلیم و تربیت کے لئے تھے کیونکہ ان میں سے کچھ لڑکیوں کو حجاب کی وجہ سے سرکاری اسکولوں میں داخلے سے روک دیا گیا تھا اسی لئے ان اسکولز نے خواتین کو مذہبی تعلیم اور عوامی ثقافت سیکھنے کا موقع فراہم کیا
اس میں کوئی شک نہیں کہ بنت الہدی نے شریعت کی راہ میں بہت کوششیں کیں اور اپنا مال، وقت اور صحت اس کام میں لگایا، شہیدہ کے خاص کاموں میں ایک کام کاظمین شہر میں ثقافتی مرکز کا قیام تھا جو ثقافتی اور اسلامی سرگرمیوں کا ذمہ دار تھا ان کی کوششوں سے دیگر ادارے قائم ہوئے جن میں طلباء، ملازمین، اور دیگر طبقات موجود تھے۔عراق کی خاتون ام احمد بنت الہدی کے بارے میں کہتی ہے کہ وہ عورتوں کے معاشرے کو بدلنا ، اور عورتوں سے جہالت اور انحراف کے مظاہر کو دور کرنا نیز مغربی ثقافت کو ختم کرنا چاہتی تھیں”
اس اسکول کی تاسیس کا مقصد عرب خواتین کی دینی ثقافت کو تقویت پہچانا تھا چنانچہ شہیدہ اپنے اس مقصد کے حصول میں کامیاب رہیں۔
ب : درس و تدریس اور دعائیہ نشستوں کا انعقاد
بنت الہدی نے درس اور تدریس میں ایک طویل سفر طے کیا درس و تدریس کا سلسلہ ان کی کاوشوں کی اعلیٰ نمونہ تھا، چنانچہ ان کے علمی سفر کے دوران انہیں کچھ مشکلات پیش آئیں ان میں سے ایک یہ کہ اسکول کی نصابی کتابیں اکثر تدریس کے لئے نہیں لکھی جاتی تھیں اور اسے سمجھنے اور سمجھانے کے لئے واضح طریقہ کی ضرورت تھی اسکول کے نصاب کی تعلیم کے ساتھ ایک اور مسئلہ ان کتابوں کی ناقص اشاعت اور تحریر تھی تاہم وہ اپنے بھائیوں سے قربت کی وجہ سے ان تمام مشکلات پر قابو پانے کی صلاحیت رکھتی تھیں ، درس و تدریس کے علاوہ شہیدہ نے ایک عوامی مذہبی ثقافت کو ڈیزائن کیا جس میں اس نے اسلامی افکار کو وقت کی ضروریات اور تقاضوں کے عین مطابق پیش کیا اور خواتین کے مختلف حلقوں میں حقیقی مذہبی ثقافت کو فروغ دینے کے لئے ہونے والی تبدیلی کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتی تھیں اور صبر و استقامت کے ساتھ اپنے مقصد میں کامیاب ہوئیں۔
2 : سیاسی جدوجہد اور کوششیں
ام صادق کا کہنا ہے کہ بنت الہدی نے عراق میں 8 جولائی 1958 کی بغاوت کے بعد اپنی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کیا اور بعض رسائل اور اخبارات میں مضامین شائع کرنا شروع کئے عراق میں اپنے بھائی کے ساتھ مل کر ایک تحریک وجود میں لائی اور یونیورسٹیز کی لڑکیوں کے حجاب کے میدان میں نمایاں سرگرمیاں انجام دیں اور جب پہلی بار آیت اللہ باقرالصدر کو گرفتار کیا گیا تو اس کے بعد شہیدہ نے ایک تقریر کی جس نے سب کو حیران کردیا آپ نے فرمایا آپ کو یہ گمان ہے کہ رات کے اندھیرے میں جس وقت نجف کے لوگ سورہے ہیں تھے کیوں آئے ہو ؟ کس چیز نے آپ کو ڈرایا ہے؟ اس گھر میں کس چیز کا مشاہدہ کیا ہے؟ کیا آپ نے اسلحہ اور دھماکہ خیز مواد دیکھا ہے؟ ایک غیر مسلح آدمی جس کے پاس فقط ایمان اور یقین ہے اس کیلئے ساری طاقت کی کیا ضرورت ہے ؟ سب لوگ جاگ چکے ہیں تیری وحدانیت کب تک سوتی رہے گی ؟ بھائی کو دیکھ کر فرمایا کہ ہم واپس نہیں جائینگے ہم آپ کے ساتھ رہیں گے جیسے سیدہ زینب سلام اللہ علیہا اپنے بھائی حسین علیہ السلام کے ساتھ رہیں اور اس آیت کی تلاوت کے ساتھ تقریر کو ختم کیا ” و سیعلم الذین ظلموا ای منقلب ینقلبون”
آیت اللہ صدر کو گرفتار کرکے لے گئے بنت الہدیٰ حرم مقدس کی طرف بڑھیں اور لوگوںسے مخاطب ہوکر کہا آپ لوگ کیوں خاموش ہیں ؟ آپ کے مرجع کو گرفتار کیا جا چکا ہے آئیں احتجاج کریں بنت الہدیٰ کی اس ملکوتی تقریر کا اثر تھا کہ لوگوں نے احتجاج کیا جس کے سبب صدامیوں نے اسی دن مجبورا اسے رہا کردیا اس احتجاج نے بعثی دہشتگردوں کو ایک واضح پیغام دیا کہ ہم صدام ملعون کی سرپرستی میں چلنے والی شیطانی حکومت کے خلاف قیام کے لئے آمادہ ہیں۔شہیدہ سیاسی کردار میں بھی ایک با اثر خاتون تھیں جس کےمختلف سیاسی عمل سے بعثی حکومت کو بڑا دھچکا لگا۔
3 : اسلامی معاشرے کی تشکیل کے لئے خواتین کے قوت ارادی کو استحکام بخشنا
ان کا ایک خاص عمل یہ تھا کہ خواتین کی توانائیوں کو اجاگر کرکے انہیں اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے کا حوصلہ پیدا کرتی اور ان کی فکری صلاحیتوں کو استحکام بخشتی تاکہ معاشرہ میں اسلامی اقدار قائم ہو ، اسی لئے آپ خواتین کو خصوصی درس دیتیں، اپنے گھر میں سیمینار منعقد کرتی اور اکثر اوقات دوسروں کے گھروں میں جاتی تاکہ ان پر گہرے اثرات مرتب ہوں اور معاشرے میں بہترین لوگ ملے اسی طرح انہوں نے نیک خواتین کو جمع کیا جنہوں نے اپنے اپنے اسلوب اور طریقہ سے معاشرے پر اثر مرتب کیا۔
4 : خواتین کے لئے سماجی کہانیاں لکھنا:
بنت الہدی ایک مفکر ہ خاتون تھیں اس نے خواتین کے لئے سماجی و مذہبی کہانیاں لکھنا شروع کیں عرب ممالک کی بہت سی خواتین ان کہانیوں کے ذریعے سے اسلامی افکار سے مانوس ہوئیں۔ اس نقطہ نظر سے انہیں خواتین کی رہنما کہا جا سکتا ہے وہ ایسی کہانیاں لکھتی جو اسلامی قوانین سے مربوط تھیں جیسے گھریلو مسائل ، حجاب، عقائد،اسلام میں خواتین کا مقام،حقیقت کی تلاش وغیرہ یہ کہانیاں ایسی تھیں جو خواتین کی اجتماعی و معاشرتی زندگی کے مسائل کو حل کرنے میں معاون و مددگار ثابت ہوسکتی تھیں شہیدہ کی یہ خدمت اس حقیقت کی تصدیق کرتی ہے کہ اس کا مقصد اسلام کی زیادہ سے زیادہ خدمت کرنا اور اسلامی بیداری کے لئے جدوجہد کرنا ہے، انہوں نے اپنی زندگی کے آخری ایام تک مختلف طریقوں سے اسلام کی تبلیغ کی جن میں لیکچر دینا،کہانیاں لکھنا،اور شاعری وغیرہ شامل ہے۔
5 : دوران حج خواتین کی تعلیم و تربیت
بنت الہدی نے حج کے موقع کو ایک طاقتور مذہب کی آبیاری کے لئے ایک زمینہ کے طور پر دیکھا اس نے مسلم خواتین کی مذہبی بیداری کی سطح کو بلند کرنے، مذہب کے اہم پہلوؤں سے واقف کرانے ، غلط اور منفی پروپیگنڈوں کے اثرات کو ختم کرنے کے لئے اس سنہرے موقع سے فائدہ اٹھایا ۔ ان کا یہ عمل اس وقت خاص اہمیت کا حامل تھا کیونکہ حجاج کرام بغیر کسی علمی یا ثقافتی تعاون کے سرزمین وحی کو چھوڑ گئے تھے جب کہ حجاج کرام کے خیالات کو ناکام بنانے کے لئے بے شمار سازشیں کی گئی تھیں مثال کے طور پر سعودی حکومت ، حج کے موقع کو وہابی نظریات کی ترویج اور شکوک و شبہات پیدا کرنے کے لئے استعمال کر رہی تھی اس کے علاوہ سعودی حکام مختلف سازشوں سے اسلامی افکار کو مٹانے کی کوشش میں تھے ان حالات میں بھی شہیدہ کی سرگرمیوں کا دائرہ مسلم خواتین کی مذہبی بیداری کی سطح کو بلند کرنے تک محدود نہیں ہوتا تھا بلکہ اس کے ساتھ آپ ،خواتین کو حج کے مسائل ، فقہی احکام سکھانے کے ساتھ وقت کے مرجع عالی قدر سید محمد باقر صدر اور ان کی تقلید کرنے والی خواتین کے درمیان رابطہ قائم کرنے میں بڑا کردار ادا کیا چنانچہ خواتین کے مخصوص فقہی مسائل کے جوابات اپنے بھائی شہید باقر صدر سے دریافت کر کے ان کو آگاہ کرتی، اور حج میں وہ خواتین کے پاس جاتی تھیں جن کے پاس سفر حج سے پہلے پختہ ایمان ، تقوی نہیں ہوتا تھا لیکن شہیدہ کی تعلیم و تربیت کےنتیجے میں مکمل طور پر ایمان و تقوی کی دولت کے ساتھ واپس پلٹ آتیں۔
بنت الہدی نے اپنی ثقافتی اور تعلیمی سرگرمیوں کا دائرہ اپنے ساتھیوں تک محدود نہیں رکھا جہاں تک ممکن ہوا دوسرے مسلم ممالک کی خواتین سے وابستہ رہ کر ان کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری بھی اپنے کاندھوں پر اٹھائی۔
6 : تجزیہ و تحلیل
اسلامی معاشرہ مرد و عورت دونوں کی صلاحیتوں، ایثار و قربانی اور خدمات سے تشکیل پاتا ہے ان میں سے کسی ایک کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا نہ ہی کسی کی اہمیت کو کم کیا جا سکتا ہے چنانچہ ایک مہذب اور ترقی یافتہ معاشرے کے لیے لازم ہے کہ اس کے افراد مہذب، اور تعلیم یافتہ ہوں۔ جب ہم تاریخ پر غور و فکر کرتے ہیں تو معاشرے کو مہذب، با وقار،اور ترقی یافتہ معاشرہ بنانے میں مردوں کے شانہ بشانہ خواتین نے بھی بے شمار قربانیاں دی ہیں انہی خواتین میں سے ایک با عمل، با کردار، شخصیت شہیدہ آمنہ بنت الہدیٰ ہیں جنہوں نے اپنے فرائض میں سے سب سے اہم فریضہ سیدہ فاطمہ بنت محمد ﷺ اور سیدہ زینب سلا م اللہ علیھا کی سیرت پر عمل کرنا سمجھا۔
آپ نے اپنی شخصیت کو اخلاق فاضلہ کے عطر سے ایسا معطر کیاجس کے نتیجے میں صبر و استقامت، بلند ہمتی، خدا پر توکل ، حق کا ساتھ دینے جیسے اوصاف سے اپنے آپکو آراستہ کرتے ہوئے اپنے مطلوبہ ہدف تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئیں ، کوئی بھی انسان ان صفات کے بغیر اپنا مقصد حاصل نہیں کر سکتا۔
آپ کا عظیم مقصد لمحہ بہ لمحہ اسلام کی خدمت تھی۔ اس لیے خواتین کی تعلیم و تربیت کے لئے اداروں کا قیام آپ کے بنیادی مقاصد میں شامل تھا۔اس کے بعد جب سیاست کے میدان میں آپ نے قدم رکھا تو مشکل حالات میں بلند ہمتی، صبر و استقامت کے ساتھ ظالم و جابر حکومت کے خلاف قیام، باطل قوتوں کی سازشوں کو ناکام بنانے میں بڑا کردار ادا کیا۔
جب باطل حکومت نے وقت کے مرجع عالی قدر شہید سید محمد باقر صدر کے خلاف مختلف سازشیں کرتے ہوئے انہیں انکے مقاصد عالیہ سے روکنے نیز شرعی قیادت کو ختم کرنے کی کوشش کی تو ان سخت حالات میں آپ اپنے رہبر و قائد کے پیچھے چلیں اوراپنے وقت کے مرجع کے حق کا بھر پوردفاع کیا اور باطل قوتوں کی سازشوں کو خاک میں ملادیا۔
عصر حاضر میں ہم خواتین کے فرائض میں سب سے اہم فریضہ یہ ہے کہ پہلے خود کو تعلیم و تربیت سے آراستہ کریں تاکہ ہمارے وعظ و نصیحت کا دیگر مسلم خواتین پر اثر ہو، کیونکہ اسکے بغیر وعظ و نصیحت مؤثر نہیں ہوتا جس کے نتیجے میں ہمارامقصد ناقص رہتا ہے اور مکمل نہیں ہوپاتا۔
دوسرا فریضہ اپنے عظیم مقصد کے حصول کے لئے صبر و استقامت، بلند ہمتی، خدا پر توکل کے ساتھ باطل حکومتوں کا مقابلہ کرنا ہے کیونکہ اس کے بغیر ممکن نہیں کہ باطل قوتوں کا مقابلہ کیا جاسکے۔
تیسرا اہم فریضہ خواتین کی تعلیم و تربیت کے لیے تعلیمی اداروں کا قیام عمل میں لانا ہے جس کا نظام فقط تعلیم پر منحصر نہ ہوں بلکہ تعلیم و تربیت دونوں کو لازم و ملزوم سمجھا جائے۔
چوتھا فریضہ ا ہم اپنی زندگی کا ہر قدم اسلام کی خدمت کے لئے وقف کریں تاکہ آنے والی نسل بھی اس خدمت سے بھرپور فائدہ حاصل کرسکے۔
پانچواں اہم فریضہ جس طرح شہیدہ بنت الہدی نے وقت کے مرجع عالی قدر کے حق کا دفاع کیا ، اس کی حمایت کو اپنا شرعی وظیفہ سمجھا اور ان کی شرعی قیادت کی حفاظت کی اسی طرح ہمیں بھی اپنے وقت کے مرجع عالی قدر ، رہبر و قائد کےحق کا دفاع کرنے کی ضرورت ہے تاکہ جہاں شرعی قیادت کی حفاظت ممکن ہوسکیں ، وہاں دشمنان اسلام کی سازشوں کو بھی ناکام بنایا جائے ۔ اور اس طرح ہم اپنی منزل مقصود تک با آسانی پہنچ سکتے ہیں اور سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا اوروقت کے امام ،صاحب العصر و الزمان ؑ کے سامنے سرخرو ہوں گے۔