بنت الہدی دور حاضر میں فاطمی اسوہ
سیدہ شمائلہ رباب رضوی
ایم فل اسکالر، شاہ عبدالطیف یونیورسٹی خیر پور سندھ
انمول زہرا
بی ایس سی سٹوڈنٹ، شاہ عبدالطیف یونیورسٹی
مقدمہ
لفظ شیعہ کے حقیقی معنی دراصل اہل بیت علیہم اسلام کی زندگی پر عمل پیرا ہونا ہے ،اہل بیت علیہم اسلام کے قدموں کے نشانات پر قدم رکھ کر چلنا ہی انکو اصل میں ماننا ہے تاکہ ہم سوئی کے برابر بھی پیرویِ اہل بیت علیہم اسلام میں بھٹک نہ جائیں کیونکہ خود اہل بیت علیہم السلام ہمیں فرماتے ہیں کہ” ہماری طرح بن جاؤ "۔ بیشک یہ ممکن نہیں کہ ہم مقام و مرتبے میں ان پاک ہستیوں تک پہنچ سکیں مگر ان کےعمل کی پیروی کر کے ہم ضرور کامیا بی پاسکتے ہیں شہزادی کونین حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہ کی حیات مبارک تما م عالم کے لئے نمونہ عمل ہے۔ شہزادی کی زندگی کو اسوہ بنا کر بہت سی شخصیات نے فلاح پائی ہے۔ ان ہی میں سے ایک ہستی جن کا نام آمنہ بنت الہدی ہے جو اپنے دور کی بہترین شاعرہ، عالمہ،مولفہ اور علم فقہ و اخلاق کی معلمات میں سے ایک تھیں۔ بنت الہدی کوئی غیر معر وف ہستی نہیں ہیں کہ انکا تفصیلی تعارف پیش کیا جائے مختصراً تعارف کے طور پر رقم ہے کہ آپ عراق کے شہر کاظمین میں پیدا ہوئیں۔ آپ عراق کے مشہور و معروف مفکر محمد باقر صدر کی بہن ہیں۔ دونوں بہن بھائی کو عراق کے سابق صدر ، صدام حسین نے قید کروا کر شہید کروادیا تھا۔
شہیدہ بنت الہدی کے کردار سے مسلمان خواتین بہت سے درس سیکھ سکتی ہیں شہیدہ کی زندگی میں ہمیں معاشرتی زندگی کے لئے بہت کچھ مل سکتا ہے جو موجودہ دور کی اشد ضرورت بھی ہے کیونکہ بنت الہدی کی زندگی سے ہمیں اسوہ فاطمی کے اصل درس ملتے ہیں شہیدہ کی زندگی میں شہزادی کونین حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہ کی حیات مبارک سے مماثلت و مشابہت کے کئی پہلو موجود ہیں ۔
بنت الہدی کی تعلیم و تربیت
شہزادی کونین حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہ نے جس طرح ابتدائی تعلیم اپنے والد حضرت محمدﷺ سے حاصل کی۔ شہزادی کی حیات سے مماثلت کی پہلی مثال بنت الہدی کا تعلیم و تربیت کا عمل ہے آپ نے ایک علمی خاندان میں آنکھ کھولی شہیدہ کی تربیت آپکے بڑے بھائی آیت اللہ سید اسماعیل صدر نے شروع کی مزید حصول علم کے لئے شہیدہ اپنے بھائی سید محمد باقر صدر کے ہمراہ حوزہ علمیہ نجف اشرف آگئیں تب شہیدہ کی عمر گیارہ سال تھی اتنی کم عمری میں تحصیل علم دین کا جذبہ لئے مقدمات پڑھنے کے بعد علم صرف ،نحو ،اصول فقہ کے بعد مرحلہ جدیدہ میں شہیدہ نے سوشیالوجی بلخصوص عراق میں خواتین کی مشکلات کا جائزہ لیا اور ان کو حل کرنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا آپ کئی نایاب و نادر کتب کی مصنفہ ہیں آپ کی مشہور تالیفات کے نام درج ذیل ہیں۔
تالیفات
الباحشہ عن الحقیقہ، الفضیلہ تنقرا، صراع، تعارفی المستشفی، امراتان ورجل، الحالتہ الصائعہ، لیتنی کنت اعلم، مذاکرات الحج.
ظلم کے خلاف احتجاج
اس قلمی جہاد کے علاؤہ آپ نے اس دور کے تقاضوں کے مطابق اپنے بھائی شہید باقر الصدر کے ہمراہ قدم باقدم جو جہاد کیا اور ظالمانہ نظام کے خلاف ڈٹ کر تحریک میں شرکت کی وہ قابل توجہ ہے۔ بالآخر دونوں بہن بھائیوں کو شہادت کا اعلی و عظیم مرتبہ حاصل ہوا۔اگر ہم بنت الہدی کے فقط اسی عمل کو ملاحظہ فرمائیں تو آپ کو نہ صرف شہزادی فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی مماثلت نظر آئے گی بلکہ ثانی زہرا سلام اللہ علیہا کی بھی مشابہت ملے گی کہ جو بھائی کی سچی جان نثار و ہم رکاب رہیں اور راہ حق میں اپنی جان تک دے دی مگر ظلم کے آگے گھٹنے ٹیکنے کی بجائے صدائے حق بلند کرتی رہیں اور دور حاضر کی عورت کو سکھا گئیں کہ ایک عام عورت جب اسوہ فاطمی پر چلتی ہے تووہ شہیدہ بنت الہدی بن جاتی ہے۔
۱۶ رجب المرجب ۱۳۹۹ ھ کی صبح کے وقت جب تمام عراقی اپنے اپنے بستروں پر سو رہے تھے، تب صدام کا نمائندہ ابو سعید ملعون اپنے غنڈوں کے ساتھ آیت اللہ العظمیٰ سید محمد باقر الصدر کو گرفتار کرنے کے لیے ان کے گھر پہنچا ۔ تب سید باقر الصدر کے دلیرانہ انداز نے ان سب کو خوفزدہ کردیا۔ لرزتے لہجے سے اپنے آنے کا مقصد بیان کیا۔ یہ سب معاملہ بنت الہدی دروازے کے پیچھے سے سن رہی تھیں ۔ اس مقام پر ایک مشابہت نظر آتی ہے کہ میری مظلوم شہزادی فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہ بھی اپنے رہبر وقت کے لئے دروازے پر آگئی تھیں ۔
بھائی کی گرفتاری دیکھ کر بنت الہدی معلونوں سے مخاطب ہوئیں”کہ اے ابوسعید آیا اتنے سویرے آکر تو یہ گمان کرتا ہے کہ نجف کے لوگ سو رہے ہیں؟”
جب دشمن شہید باقرالصدر کو گرفتار کر کے لے گئے تو شہیدہ بنت الہدی نے اسوہ فاطمی کی ردا اوڑھی اور شہزادی سلام اللہ علیہا کے نقش قدم پر چلتی ہوئی حرم امیر المومنین علیہ سلام کا رخ کیا۔ راستے میں بازاروں سے گزرتے ہوئے اللہ اکبر کے نعرے لگاتے ہوئے لوگوں کو دشمن کے ارادے سے آگاہ کیا۔ شہیدہ کی اس دلیرانہ گفتار و تقریر کی وجہ سے پورے عراق میں اس قدر مظاہرے شروع ہوگئے کہ سارے بازاروں کو بند کردیا گیا۔ مجبورا صدام کو شہید باقر الصدر کو رہا کرنا پڑا۔ یہاں ایک بات قابل غور ہے کہ ایک عام انسان کو آئمہ علیہم اسلام سے نہ ملایا جائے، تشبیہ نہ کی جائے تو اس واقعہ پر توجہ فرمائیں کہ شہزادی زہرا سلام اللہ علیہا اگر اس وقت دربار میں نہ جاتیں تو شایدشہیدہ بنت الہدی جیسی اسوہ فاطمی پر چلنے والی ہستیاں نہ مل پاتیں جو ہمیں دور حاضر میں ظلم کے خلاف لڑ مر جانے کاحوصلہ دیتی ہیں ورنہ ہم عقیدت کے پردے میں ڈری سہمی صدائیں ہی لگاتے۔ کہاں وہ پاک بی بی دختر رسول ﷺ اور کہاں ہم؟ بنت الہدی نے اس دور میں اسوہ فاطمی کو اپنا کر نہ صرف خواتین کو مضبوط کیا بلکہ پوری کی پوری ملت اسلامیہ کی خواتین کو عزم و ہمت کی نیا حوصلی دلایا۔ اسی لئے تو ایک مقام پر رہبر معظم سید علی خامنہ ائ نے شہیدہ بنت الہدی کے بارے میں فرمایا
"شہیدہ بنت الہدی خواہر شہید باقر الصدر کی تحریک ، تحریک نسواں تھی جبکہ ان خدائی بندوں کی تحریک،مردانہ تھی لیکن دونوں تحریکیں تکامل کے سفر کی تحریکیں ہیں اور شخصیت کی عظمت، انسانی ذات کے جوہر اور فطرت کی تابناکی کو نمایاں کرتی ہیں اس طرح خواتین کی تربیت و پرورش کرنا چاہیے۔”
شہیدہ بنت الہدی کی معاشرے میں خدمات
شہیدہ معاشرے کی اصلاح کے لئے ہمیشہ مصروف عمل رہتی تھیں خاص طور پر ان کی توجہ عورتوں اور بچیوں کی تربیت کی طرف ہوتی تھی کیونکہ عورت معاشرے کی اکائی ہے اگر عورت کی تربیت درست کی جائے تو تبھی یقینی طور پر معاشرے میں انقلاب برپا کیا جاسکتا ہے ۔عورت ہی وہ نکتہ حساس ہے جس کی طرف توجہ مبذول کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ عورت ہی ہے کہ جس کی گود میں نسلیں پلتی ہیں۔ یہ ماں کی گود ہی ہے جس میں شہید باقر الصدر ، شہید مرتضی مطہری، شہید عارف الحسینی، شہید قاسم سلیمانی اور رہبر معظم جیسی شخصیات پروان چڑھتی ہیں۔ یہ عورت ہی ہے جو انسان کی پہلی درسگاہ ہوتی ہے۔ پس پہلی درسگاہ اگر تربیت یافتہ نہ ہو تو کس طرح وہ اپنی گود میں بچے کی تربیت خوب کر سکتی ہے؟
پس اس عورت کی تربیت انتہائی ضروری ہے اور اسی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے شہیدہ بنت الہدی نے سیدۃ النساء العالمین کے اسوہ کو اپنی زندگی کا وظیفہ سمجھتے ہوئے بغداد و کاظمین میں عورتوں اور بچیوں کی تربیت کی خاطر مدارس کا سلسلہ شروع کیا۔ آپ کی کچھ خدمات درج ذیل ہیں:
1۔بغداد و کاظمین میں لڑکیوں کے لئے دینی مدارس کا انتظام
2۔مدارس کے لئے نصاب ،معلمات و دیگر عملے کا انتظام
3۔شہید باقر الصدر کے گھر بروز بدھ عورتوں کو کتاب شرائع السلام کا درس دیتی تھیں جس میں تقریباً پچاس عورتیں شریک ہوتی تھیں
4۔سادہ الفاظ ،سبق آموز و مفید کہانیاں لکھتی تھیں۔
شہیدہ بنت الہدی نے اسوہ فاطمی کو تاحیات دم مرگ اپنے لئے لازم و ملزوم قرار دے دیا تھا ۔آپ شہزادی کونین کی پیروی کرتے ہوئے عمر بھر اسلام کا دفاع کرتی رہیں۔ شہیدہ ہمیشہ دین اسلام کی تبلیغ کے لئے کوشاں رہتیں ،دشوار راستوں میں سختیوں کو برداشت کرتیں ،اللہ پرتوکل کرتیں،کبھی مشکلوں میں گھبراتی نہیں تھیں اور ہر وقت ذکر خدا میں مشغول رہتی تھیں۔دور حاضر میں لوگ حب و عقیدت اہل بیت علیہم اسلام کے سبب انکی شخصیات پر عمل پیرا نہ ہونے کی یہ تاویل پیش کرتے ہیں کہ کہا ں وہ بلند ہستیاں اور کہا ں ہم ۔ تو شہیدہ بنت الہدی موجودہ دور کی باعمل خواتین کے لئے مثالی نمونہ ہیں جو خدا کی راہ پر خود بھی چلتی تھیں اور دوسروں کو اس راہ پر چلانے کے لئے مناسب طریقوں سے جدوجہد کرتی تھیں وہ ہر اعتبار سے ہماری لئے رہنما ہیں شہیدہ کی شخصیت اتنی عظیم تھی کہ ہر ایک کو متاثر کر لیتی تھیں کیونکہ انکا اسوہ فاطمی ہے۔
شہیدہ نہ صرف خود کو برائیوں سے بچاتی تھیں بلکہ دوسروں کو بھی برائیوں سے دور رکھنے کے لئے اپنا کردار ادا کرتی تھیں۔ اس سلسلے میں خدا وند عالم نے قرآن مجید کی سورہ توبہ کی آیت ۷۱ میں ارشاد فرمایا کہ”مومنین اور مومنات ایک دوسرے کے مددگار ہیں نیکیوں کا حکم دیتے ہے اور برائیوں سے روکتے ہیں۔”
شہیدہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کیا کرتی تھیں لیکن کبھی بھی ان عورتوں کو جو نئی نئی مذہبی تعلیمات میں مصروف عمل ہوتی تھیں ،مذہبی احکامات پر عمل پیرا ہونے پر زور نہیں دیا کرتیں بلکہ آہستہ آہستہ ان کو دنیاوی معاملات کو اسلامی نکتہ نظر سے سمجھنے میں مدد کرتیں ان کا سہارا بنتیں تاکہ ایک دم سے وہ خود پر بوجھ محسوس نہ کریں بلکہ وقت کے ساتھ آگے بڑھتے ہوئے اسلام کی تعلیمات کو پھیلانے میں مدد کرسکیں۔
۱۹۷۳ء میں جب علامہ شیخ عارف حج کے لئے گئے تو اسی سال سیدہ ام حیدر القبائنچی شہیدہ بنت الہدی کے ہمراہ حج پر گئیں ان کے ساتھ چھ عورتیں بھی تھیں سیدہ ام حیدر بیان کرتی ہے کہ شہیدہ بنت الہدی ہماری سربراہ تھیں جب ہمارا طیارہ بلند ہوا تو وہ میرے برابر بیٹھیں تھیں انہوں نے مجھ سے مخاطب ہوکر کہا
"دیکھو ہم بادلوں کے اوپر پہنچ گئے ہیں سورج اور اس کے خالق کی عظمت کی طرف نظر کرو”
جب جہاز اترا تو عملہ تصویر کھینچنے لگا تو شہیدہ نے تصویر نکلوانے سے منع کیا فرمایا کہ "پروردگار نے ہماری تصویر بنالی ہے۔”
جب ہم شہر پہنچے تو ہر ایک نے بازاروں کا رخ کیا لیکن شہیدہ ذکر خدا کے ہمراہ عبادت و دعاؤں میں مصروف رہیں یہاں تک کہ مکہ مکرمہ میں داخل ہونے تک راستے بھر لبیک پڑھتی رہیں جب ہم مکہ سے واپس ہوئے تو تیز آندھی چل رہی تھی تب میں شہیدہ کے پاس تھی تو میں نے سنا وہ کہہ رہی تھیں کہ”اس وقت انسان کے پاس لاکھوں درہم بھی ہو ں تب بھی وہ مال اسے ایسے موسم سے نجات نہیں دلا سکتا” شہیدہ ہر وقت ذکر خدا میں مشغول رہتی تھیں۔
شہیدہ بنت الہدی نے شہزادی سلام اللہ علیہا کے اسوہ درس وتدریس جو آپ سلام اللہ علیہا مدینے کی خواتین کو دیا کرتی تھیں کو اپنا تے ہوئے دروس و تدریس کی ذمے داری نبھائی۔ آپ کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ آپ اپنی بات کو بخوبی شاعرانہ انداز میں منتقل کرکے دوسروں تک خوبصورت انداز میں پیش کرتی تھیں شہیدہ اپنے اس منفرد فن سے اسلام سے دور خواتین کو دین کی طرف دعوت دیتی تھیں اور ہزاروں مسلمان خواتین کو اسلام کی طرف متوجہ کرتی تھیں۔ شہیدہ نے بغداد و کاظمین میں بچیوں کی تعلیم و تربیت کے لئے مدارس الزہرہ کے نام سے مدرسوں کی بنیاد رکھی جہاں مختلف عمر کی بچیوں کی تربیت کی جاتی تھی ۔ شہیدہ بنت الہدی اپنے کردار سے لوگوں کے افعال کو تبدیل کرتی تھیں۔ عورتیں ان کے کردار سے متاثر ہوتیں تھیں۔شہیدہ بنت الہدی نے یہ ثابت کردیا کہ قول سے زیادہ کردار اثر کرتا ہے لیکن اگر اس کے برعکس ہم اپنے معاشرے پر نظر کریں تو زیادہ تر لوگ قول پرست ملیں گے ہر وقت اپنی زبان سے دوسروں کو اپنی بات منوانے کے لئے مجبور کرتے ہیں لیکن وہ بات خود ان کے کردار سے کوسوں دور نظر آتی ہے اسی لئے وہ بات دوسروں کو اثر انداز نہیں کر پاتی۔ کوشش کریں کہ اپنے عمل سے تبلیغ کریں کیونکہ یہ وہ تبلیغ ہے جو زیادہ اثر گذار ہوتی ہے۔ یہ طریقہ کار ہمیں آئمہ کی روش میں نظر آتا رہا ہے۔ وہ اپنے کردار سے لوگوں کو اسلام کی طرف متوجہ کرواتے رہتے تھے کیونکہ قول تب تک اثر نہیں کرتا جب تک خودمتکلم میں وہ بات پائی نہ جائے۔ اس لئے کوشش کریں کہ انبیاء و آئمہ اور شہداء دین کی زندگیوں سے کچھ سیکھیں اوردرس حاصل کریں کیونکہ یہ شخصیات ہماری ہدایت کے لئے بھیجی گئی ہیں۔ اگر چاہتے ہو کہ دنیا و آخرت میں کامیاب ہو جاوتو پھر ان کی زندگیوں کا مطالعہ کرنا ضروری ہے۔
نتیجہ:
شہیدہ بنت الہدی آج کے دور میں ہمارے لئے فاطمی اسوہ کا عملی نمونہ ہیں جن کی زندگی ہمیں درس دیتی ہے کہ ہم کس طرح حق کا دفاع کریں ،کس طرح دین کا دفاع کریں، کس طرح ہم خود کو کامیابی کی راہوں پر گامزن کر یں ، کس طرح ہم معاشرے کی اصلاح میں اپنا کردار ادا کریں۔
یہاں بات آج کے دور کی ضرورت ہے اور اس ضرورت میں اہم کردار ایک عورت کا تھا ،ہے اور رہے گا پس "اے خواتین اسلام، اپنے مقام کو سجھئیے؛ خدا نے آپ کو ایک اعلی مقام دیا ہے۔ خاتون اسلام آپ ہی ہیں جو باپ کے لئے رحمت ، شوہر کے لئے سکون و نصف ایمان اور جن کے قدموں تلے اولاد کی جنت رکھی گئی ہے۔پس سمجھیں اپنے مقام کو، اپنی زندگی کو ایسے ہی ضائع نہ کریں بلکہ اسلامی خاتون کی حیثیت سے اپنے مقام سے آشنائی حاصل کر کے اپنے کاندھوں پر موجود ان عظیم ذمہ داریوں کو احسن انداز میں انجام دیں۔ ان عظیم ذمہ داریوں کو نبھانے لئے خدا وند مہربان نے ہمارے لئے معصومین علیہم السلام و شہدا کی صورت میں نمونہ عمل بھیجے ہیں۔ ہمیں بس ان کی زندگی کو اپنی زندگی کا مشعل راہ بناناہوگا۔ان کی زندگیوں کا مطالعہ کرنا ہوگا اور ان کے کردار کو اپنانا ہوگا۔ تبھی ہم اپنی زندگی اور گھر کو جنت بنا سکتے ہیں۔
پس شہیدہ بنت الہدی کا کردار ہمارے لئے اس موجود دور میں اسوہ فاطمی سے کم نہیں کیونکہ وہ معصوم نہیں تھیں۔ جو اکثریت یہ کہتی ہے کہ آئمہ تو معصوم تھے، ان جیسے ہم نہیں بن سکتے ان کے لئے لکھتی چلو ں کہ یہ شہدا اسلام بھی تو معصوم نہیں تھے لیکن انہوں نے اپنی زندگیوں کو انبیاء و آئمہ علیہم ا سلام کے مطابق بسر کیا تبھی وہ اعلی مقام تک پہنچ پائے۔ پس عزیزان محترم پھر ہم کیوں اس مقام کو نہیں پاسکتے ۔جب شہدا خود کو عظیم مقام تک لے جا سکتے ہے تو ہم کیو ں نہیں؟
خواتین اپنا مقام سمجھتے ہوئے اپنی زندگیوں کو فاطمی اصولوں کے تحت گزاریں تاکہ خدا کے حضور سرخرو ہوسکیں۔
پس خدا سے دعا ہے کہ خدا وند عالم بحق شہزادی کونین حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہ ہمیں دنیا و آخرت میں کامیابی عطا فرمائے.