بنت الہدیٰ، جابروں کے خلاف قیام کا استعارہ

بنت الہدیٰ، جابروں کے خلاف قیام کا استعارہ

ڈاکٹر شجرفاطمہ رضوی
Ph.D. in Persian literature, Associate professor
BAMM PECHS Govt College for Women

ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تاامروز
چراغ مصطفوی سے شرار بولہبی (علامہ اقبال)
بیسویں صدی عیسوی کی ایک بے نظیر اور قابل احترام شخصیت، معلمہ، مجاہدہ، مصنفہ، شاعرہ ، شہیدہ آمنہ بنت الہدیٰ عراق کے ایک معروف سادات خاندان کی چشم و چراغ اور شہید آیت اللہ باقر الصدر کی خواہر گرامی ہیں۔ آپ کے خاندان کا شجرہ، امام ہفتم حضرت موسی ابن جعفر ؑ سے منسوب ہے۔ (سایت: پژوھشگاہ آیت اللہ شھید سید محمد باقر صدر)آپ کے والد کا اسم گرامی حیدر صدر تھا اور والدہ مشہور عالم دین آیت اللہ شیخ عبد الحسین آل یاسین کی صاحبزادی تھیں۔ اس خاندان کے افراد اپنے علم و معرفت، اخلاق اور زہد و تقویٰ کی وجہ سے معاشرے میں ایک نمایاں مقام اور ممتاز درجہ رکھتے تھے۔
بنت الہدیٰ ۱۳۶۵ ھ۔ق /۱۹۳۷ ء میں عراق کے شہر کاظمین میں پیدا ہوئیں۔ (نعمانی، محمد رضا، ۱۴۳۰ھ۔ق، ص ۲۱) ان کے والدسید حیدر صدر اپنے زمانے کے عابد و زاہد ، عالم و عارف اور بہترین اخلاق و کردار کے حامل افراد میں شمار ہوتے تھے۔ بنت الہدیٰ کی ولادت سے قبل ان کے والد کا انتقال ہوگیا تھا۔(نعمانی، محمد رضا، ۱۴۳۰ھ۔ق، ص ۲۱) دوسری جگہ ملتا ہے کہ جب ان کے والد کا انتقال ہوا اس وقت ان کی عمر صرف چھ ماہ تھی۔ (سایٹ: حوزہ hawzah.net /) الد محترم کے جلد انتقال کی وجہ سے وہ ان کے سایہ ءعاطفت سے محروم ہوگئیں اور ان کی پرورش اور تعلیم و تربیت کی ذمہ داری ان کی والدہ اور بھائیوں سید اسما عیل صدر اور شہید باقر صدر نے اٹھائی۔
بنت الہدیٰ غیر معمولی ذہانت کی مالک ، علم و دانش، عفت و حیا، تقویٰ اور پرہیزگاری کے زیور سے آراستہ وہ خاتون ہیں جنہوں نے بندگی اور قرب خدا کے بلند ترین مقام کو حاصل کیا اور اپنی زندگی مسلمان اور مومن خواتین کی روحانی پرورش اور تربیت کے لئے وقف کردی۔ آپ کی خواہش تھی کہ ایسی مومن خواتین کی تربیت کریں کہ جو اسلام کی بہترین خدمت کر سکیں۔ انہوں نے نجف ، کاظمین اور بغداد کی خواتین کے لیے مدارس قائم کیے جو ’’الزہراء‘‘ کے نام سے مشہور ہیں۔ اس کے علاوہ وہ بہترین مصنفہ بھی تھیں۔ ان کی تحریریں مجلہ ’’ الضواء‘‘ میں شائع ہوتی تھیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے بہت سی کتابیں یادگار چھوڑی ہیں۔ (سایٹ: حوزہ hawzah.net/)
جابر اور طاغوتی حکمران، راہ بندگی کے حریف:
قرآن کریم میں ارشاد رب العالمین ہے:اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ وَالْجِبَالِ فَاَبَيْنَ اَنْ يَّحْمِلْنَـهَا وَاَشْفَقْنَ مِنْـهَا وَحَـمَلَـهَا الْاِنْسَانُ ۖ اِنَّه كَانَ ظَلُوْمًا جَهُوْلًا (سورہ احزاب، آیہ ۷۲)
ترجمہ: بیشک ہم نے امانت کو زمین و آسمان اور پہاڑ کے سامنے پیش کیا، اور سب نے اس کو اٹھانے سے انکار کردیا اور خوف ظاہر کیا، پس انسان نے اس کو اٹھا لیا کہ انسان بہت ظالم اور نادان ہے۔
انسان اللہ کی وہ مخلوق ہے جس کو اس نے اپنی تمام مخلوقات میں اشرف اور افضل قرار دیا ہے۔ اسے با ہدف ، با ارادہ، صاحب امانت و صاحب اختیار بنایا اور اسے درجہ ء خلافت کے لئے مخصوص کیا۔ یہ سب امتیازات اس لئے عطا کیے تاکہ وہ اپنے ہدف تخلیق تک رسائی حاصل کرسکے۔ اور اس کا ہدف تخلیق یہ ہے کہ وہ اپنے اندر ودیعت شدہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر خدا کے بتائے ہوئے اصول و قوانین پر عمل پیرا ہوتے ہوئے ، محبت اور تسلیم و رضا کے ساتھ اپنے نفس کو بندگی پروردگار کے لئے آمادہ کرے،اور اس راہ بندگی پہ جو حقیقت میں راہ انسانیت ہے قدم آگے بڑھاتے ہوئےکمال انسانیت یعنی کمال بندگی کی طرف سفر کرے ۔ ہر صفت رذیلہ سے اپنے نفس کو پاک کرے اور ہر صفت حمیدہ اور کمال سے اپنے نفس کو آراستہ کرے۔ اس طرح مکمل طور پہ عبد خدا بن کر انسان ہونے کے لائق کہلائے ، اور خلافت الہٰیہ کے اعلیٰ اور اشرف مقام کو حاصل کرلے۔
کیونکہ انسان وہی ہے جو عبد خدا ہے، اور عبد خدا وہ ہے جو آزاد ہے۔ یہاں یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ آزاد کس چیز سے؟
آزاد ہے شہوتوں کے جال سے، مال و دولت، جاہ و اقتدار اور کام و دہن کی لذتوں سے، آزاد ہے انانیت و تکبر سے، غیض و غضب اور نفرتوں کی آگ سے، شیطان کے اغوا اور مکر و فریب سے، ہر طاغوت اور ظالم و جابر حکمران کی اطاعت کی ذلت سے، غرض ہر اس بند اور دام سے آزاد ہے جو اس کے لئے بندگی کی راہ میں رکاوٹ بنے۔
انسان کو کیونکہ اس عظیم مقصد اور ہدف کے لئے پیدا کیا گیا ہے اس لئے اس کا راستہ بھی سخت اور دشوار ہے۔ اسی لئے پروردگار عالمین نے انسان کو اس راہ میں آنے والی آفات اور مشکلات سے آگاہ کیا ہے۔ ان تمام مشکلات میں سے ایک مشکل جو انسان کی زندگی پر بہت گہرے اثرات مرتب کرتی ہے اور اس کو راہ بندگی وتکامل سے دور کر دیتی ہےوہ ظالم و جابر طاغوتی حکمران کی اطاعت ہے۔ ارشاد پروردگار عالمین ہے:
اللہ ولی الَّـذِيْنَ امَنُـوْا يُخْرِجُـهُـمْ مِّنَ الظُّلُمَاتِ اِلَى النُّوْرِ ۖ وَالَّـذِيْنَ كَفَرُوٓا اَوْلِيَآؤُهُـمُ الطَّاغُوْتُ يُخْرِجُوْنَـهُـمْ مِّنَ النُّـوْرِ اِلَى الظُّلُـمَاتِ ۗ اُولئِكَ اَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُـمْ فِيْـهَا خَالِـدُوْنَ (سورہ بقرہ آیہ ۲۵۷)
ترجمہ: اللہ صاحبان ایمان کا ولی ہے۔ وہ انہیں تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے آتا ہے۔ اور کفار کے ولی طاغوت ہیں جو انہیں روشنی سے نکال کر اندھیروں کی طرف لے جاتے ہیں۔ یہی لوگ جہنمی ہیں اور ہمیشہ وہاں رہنے والے ہیں۔
قرآن کریم میں خدا نے انسان کو آگاہ کردیا ہے کہ اگر وہ کسی جابر و طاغوت کی اطاعت کو اختیار کرلے تو وہ راہ بندگی و ہدایت سے دور ہو کر گمراہیوں اور پستیوں کی طرف گامزن ہو جاتا ہے۔ انسانوں کو اس عظیم خطرے سے نجات دینے کے لئے خدا نے اپنے ہادیوں کو انسان کی طرف بھیجا ۔ ان الھی نمائندوں ، انبیا ؑ، رسل اور ائمہؑ نے ہر جابر اور طاغوت کے مقابلےمیں قیام کیا اور انسانوں کو ان کی اصلیت سے آگاہ کیا ، جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت موسیٰ ؑ نے فرعون کے مقابلے میں ، حضرت ابراہیم ؑ نے نمرود کے مقابلے میں، حضرت زکریا اور حضرت یحییٰ ؑ نے اپنے زمانے کے یہودیوں کے مقابلے میں، حضرت محمد مصطفیٰ ﷺنے مشرکوں، کافروں اور یہودیوں کے مقابلے میں اور سید الشھدا ابو عبد اللہ الحسین ؑ نے یزید کے مقابلے میں قیام کیا تاکہ انسانوں کو ان کی غلامی سے نجات دلا کر شرف ِ انسانیت کی راہ پہ گامزن کر سکیں۔
ان الٰہی نمائندوں کے علاوہ ہر زمانے میں کچھ ایسے بندگان خدا موجود رہے ہیں جنہوں نے ان الٰہی نمائندوں کے نقش قدم پہ چلتے ہوئے جابروں اور طاغوتوں کے خلاف قیام کرنے کی روش کو برقرار رکھا۔ ان عظیم ہستیوں کے درمیان ایک روشن و درخشاں کردار آمنہ بنت الہدیٰ ہیں جو جابروں کے خلاف قیام کا استعارہ ہیں۔
آمنہ بنت الہدیٰ کا قیام:
بنت الہدیٰ ، عالم اسلام کی ان قدآور شخصیات میں سے ہیں جنہوں نے اپنی پوری زندگی دین اسلام کی ترویج اور خواتین کی اسلامی خطوط پر پرورش اور تربیت کرنے میں صرف کردی۔ وہ ایک پر جوش ، مبارز اورانقلابی خاتون تھیں جنہوں نے اپنی جدہ جناب فاطمہ زہر ااور بی بی زینب سلام اللہ علیھما کی پیروی کرتے ہوئے جنایتکار بعث پارٹی اور خاص طور پہ صدام جیسے جابر اور مطلق العنان حکمران کے خلاف قیام کیا۔
تاریخ عالم کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ دنیا میں جس بھی ظالم و جابر حکمران کو اقتدار ملا اس نے انسانوں پر ظلم کیا ان کا استحصال کیا ۔ لیکن کیوں، اس کی وجہ کیا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ جابر حکمران کیونکہ خود راہ بندگی خدا سے دور ہوتے ہیں اس لئے مال و دولت کے پجاری، شہوتوں کے اسیر اور طاقت و اقتدار کی ہوس میں گرفتار ہوتے ہیں۔ لہذا ہر ممکن طریقے سے حکومت ،طاقت اور وسائل پر قبضہ کر کے انسانوں کو اپنی اطاعت پہ مجبور کرتے ہیں اور اس سے ان کا مقصد اپنی خواہشات کی تکمیل کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔
ان جابر و مستبد حکمرانوں کے مقابل اگر کوئی آواز نہ اٹھائے تو یہ اپنے محکوم افراد کو تباہی کے گڑھے میں گرا دیتے ہیں، لیکن جب ان کے خلاف قیام کیا جائے تو یہ اپنی پوری طاقت و قوت اور وسائل کو استعمال کرکے، ظلم و استبداد کا سہارا لے کر اس اٹھنے والی آواز کو دبانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ان کے خلاف وہی لوگ قیام کر سکتے ہیں جو خود آزاد ہوں، نفس کے غلام نہ ہوں ۔ علم و معرفت اور تقویٰ و پرہیزگاری کے زیور سےآراستہ ہوں اور ساتھ ہی ہمت و حوصلہ اور شجاعت رکھنے والے بھی ہوں۔ بنت الہدیٰ میں یہ تمام صفات بدرجہ اتم موجود تھیں۔ یوں تو آپ زندگی بھر درس و تدریس اور تصنیف و تالیف کے کام میں مشغول رہیں، لیکن جب صدام نے ا ن کے برادر آیت اللہ باقر الصدر کو گرفتار کیا تو وہ خاموش نہ رہیں اور اس کی ناجائز حکومت کو اس کے ظلم و ستم کے خلاف علی الاعلان مبارزہ شروع کیا۔
آیت اللہ باقر الصدر اس زمامے میں عراق کے بزرگ عالم دین ، فقیہ اور مرجعیت کے عہدے پر فائز تھے۔ وہ انقلاب اسلامی ایران کے حامی اور امام خمینی کے ہم فکر اور ہم مکتب تھے۔ آپ حقیقی اسلامی حکومت اور نظام عدل کے نفاذ کے خواہاں تھے۔ اگرچہ شہید صدر اور ان کی ہمشیرہ بنت الہدیٰ کی جدوجہد کی داستان طولانی ہے اور اس مختصر مقالے میں اس کو بیان نہیں کیا جاسکتا ، اس لئے یہاں صرف ان موارد کی طرف اشارہ کیا جائے گا جو ظالموں کے خلاف قیام میں بنت الہدیٰ کے کردار کو واضح کرتے ہیں۔
شہیدہ بنت الہدیٰ کا کردار اس وقت زیادہ روشن اور آشکار ہو کر سامنے آتا ہے جب عراق کے سیکیورٹی اداروں کے کارندے پہلی مرتبہ ۱۳۹۲ قمری/۱۹۷۱ عیسوی میں شہید باقر صدر کو گرفتار کرنے کے لئے ان کے گھر پر یلغار کرتے ہیں۔ اس وقت شہید خود طبیعت ناساز ہونے کی وجہ سے نجف کے ہسپتال میں داخل تھے اور گھر میں آپ کی زوجہ، بہن بنت الہدیٰ اور بچوں کے علاوہ کوئی موجود نہ تھا۔ بنت الہدیٰ نے اس وقت پوری شجاعت سے اپنے بھائی کے گھر اور بچوں کا دفاع کیا۔(نعمانی، محمد رضا، ۱۴۳۰ ق، ص ۹۱) اس کے بعد بنت الہدیٰ اور شہید صدر کے خاندان کے لیے ظلم اور اذیتوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔ ۱۳۹۷ق/۱۹۷۷ء میں بعثی حکومت نے ماہ صفر میں سید الشہدا امام حسین ؑ کی زیارت کے لئے پیدل جانے پر پابندی لگانے کی کوشش کی، اس وقت شہید باقر صدر اور ان کے ساتھ دیگر علما و فقہا اور عراقی عوام نے بھرپور احتجاج کیا یہاں تک کہ حکومت اپنے اس مذموم ارادے میں کامیاب نہ ہوسکی۔ لیکن شہید باقر صدر کے خلاف حکومتی اقدامات میں اضافہ ہوگیا۔
اس کے تقریبا ًدو سال بعد، جس سال ایران میں اسلامی انقلاب رونما ہوا ، یعنی ۱۹۷۹ عیسوی میں صدام نے اس پارٹی کے سربراہ عراق کے صدر احمد حسن البکر سے جو اس کے محسن بھی تھے، زبردستی استعفا دلوا کر خود اقتدار سنبھال لیا۔ (ur.m.wikipedia.org /Vist.ir) ا س کے بعد اپنے منحرف اور گمراہ کن عقائد اور اپنے ظالمانہ اور تشدد پسندانہ مزاج کے زیر اثر عراق میں قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا۔ خاص طور پر صدام نے آیت اللہ باقر صدر کی گرفتاری کا حکم دیا ۔
محمد رضا نعمانی لکھتے ہیں: جس دن صبح صدام کی حکومت کے ناپاک کارندے آیت اللہ باقر الصدر جیسی عظیم و شجاع ہستی کو گرفتار کرنے آئے تو وہ مسلح تھے اور ان کی تعداد بہت زیادہ تھی جبکہ شہید صدر تنہا تھے۔ (نعمانی، محمد رضا، ۱۴۳۰ ق، ص۹۲) ویب سایٹ ’’پژوہشگاہ‘‘ پہ ملتا ہے کہ وہ لوگ جو آپ کو گرفتار کر کے لے جارہے تھے ان کی تعداد ۳۰۰ کے قریب تھی۔ (سایت: پژوھشگاہ آیت اللہ شھید سید محمد باقر صدر)اس وقت بنت الھدیٰ انتہائی شجاعانہ انداز میں ان کے سامنے آکھڑی ہوئیں اور بغیر کسی خوف کے ان مسلح افراد کی طرف اشارہ کرکے کہنا شروع کیا:
’’ دیکھو، میرا بھائی اکیلا ہے، بغیر اسلحے کے، بغیر محافظ کے، لیکن تم سینکڑوں افراد ہو اس تمام اسلحے کے ساتھ، کیا تم نے اپنے آپ سے پوچھا ہے کہ کیوں اتنی زیادہ تعداد ہے؟ کیوں اتنا سارا اسلحہ ہے؟ پھر کہنے لگیں، میں خود جواب دیتی ہوں، خدا کی قسم یہ اس بات کی دلیل ہے کہ تم لوگ ڈرتے ہو،تمہارے دلوں پر خوف نے ڈیرہ ڈال رکھا ہے۔ تم جانتے ہو کہ میرا بھائی تنہا نہیں ہے تمام عراقی اس کے ساتھ ہیں۔ اسی طرح مزید گفتگو کی اور آخر میں کہنے لگیں۔ خدا کی قسم ہم کسی چیز سے نہیں ڈرتے ہیں،نہ تم سے اور نہ کسی دوسرے سے،نہ تمہارے کارندوں سے نہ تمہارے قید خانوں سے۔کتنی اچھی ہے موت جب وہ خدا کی راہ میں ہو۔‘‘۔( نعمانی، محمد رضا، ۱۴۳۰ ق، ص۹۴)
بنت الہدیٰ نے صرف اسی پہ اکتفا نہیں کیا بلکہ جب وہ لوگ شہید صدر کو لے گئے توآپ حرم امیرالمومنین ؑ میں گئیں لوگوں کو خطاب کر کے شہید صدر کی گرفتاری سے آگاہ کیا اور اس طرح اس جابر حکومت کے ظلم کو آشکار کیا کہ تمام لوگ احتجاج کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے اور احتجاج کا آغاز ہوگیا۔ ان مظاہروں میں بنت الہدیٰ کے مدرسے الزہرا کی خواتین نے بڑا نمایاں کردار ادا کیا، بہت سی خواتین شہید ہوئیں گرفتار ہوئیں، لیکن ان سب کا اثر یہ ہوا کہ صدام جیسا ظالم شہید صدر کو قید میں نہ رکھ سکا اور اسے شہید صدر کو آزاد کرنا پڑا۔
اس مجاہدہ کی ایمانی قوت اور جذبے کو دیکھ کر صدام حکومت نے اس خاندان پر مزید سختیاں شروع کردیں۔ محمد رضا نعمانی لکھتے ہیں کہ: شہید صدر کو آزاد کرنے کے بعد ان کے گھر کا محاصرہ کرلیا گیا۔ پانی، بجلی اور ٹیلیفون کے کنکشنزقطع کر دیئے گئے۔ لوگوں کی ان کے گھر میں آمد ورفت ممنوع قرار دے دی گئی۔ یہ دن اس خاندان پہ بہت سخت تھے لیکن سلام ہو ان عظیم ہستیوں پر کہ جنہوں نے کسی حال میں راہ خدا کو ترک نہیں کیا اور صدام جیسے طاغوت کے سامنے سر نہیں جھکایا۔ ان تمام سختیوں کے باوجود بنت الہدیٰ کو کسی قسم کا خوف لاحق نہیں تھا اسی طرح با نشاط تھیں، آخر کار ان لوگوں کی غذا پر بھی پابندی لگا دی گئی۔ لیکن بنت الہدیٰ اپنے گھر کے بچوں اور دیگر افراد کی ہمت بندھاتیں اور انہیں حالات سے نمٹنے کے لیے تیار کرتیں۔( نعمانی، محمد رضا، ۱۴۳۰ ق، ص۱۰۰)
بنت الہدیٰ کا صدام حکومت کے خلاف یہ سخت موقف کسی تکبر ، انانیت یا ہٹ دھرمی کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ یہ باطل حکمرانوں کے چہروں سے نقاب اٹھانے کے لئے تھا تاکہ تمام انسانوں کو ان کی پہچان کروائی جا سکے ۔ یہ وہی موقف تھا جو بی بی زینب سلام اللہ علیھا نے یزید و ابن زیاد لعین کے مقابل اختیار کیا تھا۔
آخر کار ۵ اپریل ۱۹۸۰ ء کو شہید صدر کو صدام کے حکم پر دوبارہ گرفتار کرلیا گیا۔ اس دفعہ بنت الہدیٰ کو احتجاج کا موقع نہیں دیا گیا اور انہیں بھی دھوکے سے گرفتار کرلیا گیا۔ شہید صدر کی گرفتاری کے اگلے دن عراق کے سیکیورٹی ادارے کے مدیر کا معاون آپ کے گھر آیا اور کہا آپ کو شہید صدر نے طلب کیا ہے۔ بنت الہدیٰ سمجھ گئیں کہ یہ جھوٹ بول رہا ہے۔ آپ نے اس کو جواب دیا:
’’ اگر میرے بھائی نے مجھے بلایا ہے۔ میں دل و جان سے ان کی مطیع ہوں۔لیکن یہ گمان نہ کرنا کہ میں اعدام (پھانسی) سے ڈرتی ہوں۔خدا کی قسم اعدام میرے لئے مبارک اور سعادت ہے، اس لیے کہ یہ میرے آباو اجداد کی روش ہے‘‘۔( نعمانی، محمد رضا، ۱۴۳۰ ق، ص۱۱۴۔۱۱۳)
بنت الہدیٰ اپنے آپ کو شہادت کے لئے آمادہ کر چکی تھیں۔ آپ کو آپ کے بھائی آیت اللہ باقر الصدر کے ہمراہ ۲۳ جمادی الاول ۱۴۰۰ قمری/۱۹۸۰ء کو سخت ترین اذیتیں دینے کے بعد شہید کردیا گیا۔ (سائٹ، دانشنامہ اسلامی /wiki.ahlolbait.com) آپ کی شہادت اگرچہ ایک دردناک واقعہ ہےلیکن راہ حق پہ چلنے والوں کے لئے نہ صرف مشعل راہ ہے بلکہ نشان منزل بھی ہے۔
نتیجہ :
شہیدہ آمنہ بنت اللہ الھدیٰ کی سیرت، کردار، آپ کا قیام اور جہاد، آپ کی انتھک کوشش اور جدوجہد سب اس بات کے گواہ ہیں کہ راہ بندگی خدا وہ عظیم اور روشن راستہ ہے کہ کسی گمراہ ، ظالم و جابر کاسیاہ اور مکروہ چہرہ اس راہ کی تابناکیوں کو کم نہیں کرسکتا۔ اگر کوئی انسان اعلیٰ علیین میں اپنے پروردگار سے ملاقات کرنا چاہتا ہے تو اسے یہی راستہ اختیار کرنا ہوگا۔ اگر کوئی اپنے زمانے کے امام سے حقیقی معنوں میں متصل ہو سکتا ہے تو اسی راستے کے ذریعے، وقت اور زمانے کی گرد بنت الہدیٰ جیسے کرداروں کو دھندلا نہیں سکتی بلکہ ان کی تابندگی میں اور اضافہ کرتی ہے۔
نور خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
منابع:
۱۔ قرآن مجید
۲۔ سیرہ و راہ شھیدہ بنت الہدیٰ، محمد رضا نعمانی، ترجمہ ءفارسی نجیب اللہ نوری، ناشر، انتشارات جامعہ المصطفیٰ العالمیہ، چاپ اول ۱۳۸۸ش/۱۴۳۰ق
۳۔ سایٹ ,حوزہ hawzah.net/ http (فارسی)
۴۔ سایٹ ،پژوھشگاہ آیت اللہ شھید سید محمد باقر صدر (فارسی) http/mbsadar,ir
۵۔سائٹ، ur.m.wikipedia.org
۶۔ سائٹ، http;//vista.ir (فارسی)
۷۔ سائٹ، دانشنامہ اسلامی /wiki.ahlolbait.com(فارسی)