شہیدہ بنت الہدی ایک مثالی خاتون

شہیدہ بنت الہدی ایک مثالی خاتون

منیرہ سجاد
فیکلٹی ممبر شعبہ اردو، شاہ عبداللطیف یونیورسٹی خیرپور، سندھ

مقدمہ
خاندان اور معاشرے کی تشکیل میں جہاں مردوں کا حصہ ہے ۔ وہیں پر خواتین کے کردار کو کسی صورت فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ معاشرے کی بنیادی اکائی گھر اور خاندان ہیں اور گھر اور خاندان کی تربیت اور آنے والی نئی نسلوں تک اعلی معاشرتی اور سماجی اقتدار کی منتقلی کا سب سے اہم فریضہ عورت انجام دیتی ہے۔ لہذا اگر عورت تربیت یافتہ اور اعلی اقدار کی حامل ہو تو پھر وہ معاشرے کی اصلاح کا فریضہ بھی بہتر انداز میں انجام دے سکتی ہے ۔تاریخ قدیم و جدید میں اس حوالے سے ہزاروں مثالیں موجود ہیں جہاں خواتین نے معاشرے کی اصلاح میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ ان خواتین میں ایک عظیم خاتون محترمہ بنت الہدی بنت سید حیدر الصدرہے۔ مقالہ ہذا میں اس عظیم خاتون کے بارے میں ایک تحقیق موجود ہے جو یقینا دور حاضر کی خواتین کے لئے ناگفتہ بہ حالات میں بھی اصلاح معاشرے میں اپنے کردار ادا کرنے کی روش سمجھاتی ہے۔شہیدہ بنت الہدی (المعروف شہیدہ صدر) نے اپنے وقت کے نمرود فرعون اور یزید کو للکارا اورشہادت جیسے عظیم منصب پر فائز ہوئیں۔
شہیدہ صدر عراق کے شہر کاظمین میں 1937 میں پیدا ہوئی آپ کا تعلق عظیم علمی و مذہبی گھرانے سے تھا۔ آپ کے والد اپنے وقت کے بڑے عالم اور آیت اللہ تھے اور والدہ کا تعلق بھی ایک علمی گھرانے سے تھا۔آپ کو سید اسماعیل صدر اور شہید باقر الصدر جیسے عظیم اکابر علماء کی بہن ہونے کا شرف حاصل رہا۔ شہیدہ صدر کم سنی میں والد محترم کے سائے سے محروم ہوئی مگر والدہ اور بھائیوں کے زیر سایہ تعلیم و تربیت حاصل کی ۔ آپ نے علم نحو ،منطق اور اصول کی تعلیم معروف و مشہور علماء کرام سے حاصل کی۔ شہید ہ صدر نے اس دور میں زندگی بسر کی جو سرزمین عراق کا تاریک ترین دور سمجھا جاتا ہے۔ جہاں ظلم و جبر اور بربریت عروج پر تھے۔ اس دور ظلمت کے خلاف آواز اٹھانے والوں پر عرصہ حیات تنگ کیا جاتا تھا۔ صدام کی بعثی حکومت 1997 ء سے 2003 قائم رہی اور اپنے دور کی سب سے ظالم اور جابر حکومت سمجھی جاتی تھی۔ جس نے اپنے مخالفین کو ہزاروں کی تعداد میں موت کے گھاٹ اتارا۔ اس نے اپنی حکومت کے خلاف اٹھنے والے ہر قیام کو شدت کے ساتھ دبانے کے لئے اپنے مخالفین کا قتل عام کیا۔ مگر اس ظلم و جبر کے دور میں بھی راہ حسینی پر چلنے والوں نے اپنے قدم نہ روکے اور اس ظلم و جور کا ثابت قدمی سے مقابلہ کرتے رہے۔ اس تاریک دور میں جہاں مردوں نے اپنے محاذ پر ذمہ داریاں انجام دیں وہی پر خواتین بھی اپنے دائرہ کار میں جدو جہد کرتی نظر آتی ہیں۔ انہیں خواتین میں شہیدہ صدر کا نام نمایاں ہے۔ جنہوں نے اپنے بھائی شہید باقر الصدر کے شانہ بشانہ اس انقلابی تحریک کا ساتھ دیا ۔شہید ہ صدر نے خواتین کی اصلاح و تربیت پر بہت زیادہ توجہ مرکوز رکھی۔ وہ معاشرے میں خواتین کے کردار کی اہمیت سے آگاہ تھیں۔ جہاں مردوں کے لئے زندگی مشکل تھی وہیں خواتین کا کردار اس کربلائی تحریک کے لئے اس قدر اہمیت رکھتا تھا کہ آپ جانتی تھیں کہ خواتین کو زینبی کردار نبھانا ہوگا اور انہیں آنے والی نسلوں کو اس ظلم و جبر کے خلاف قیام کے لئے تیار کرنا ہوگا۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ دنیا میں فرد سے خاندان اور خاندان سے معاشرہ وجود میں آتا ہے اور اگر افرادصالح اور تربیت یافتہ ہوں تو معاشرہ بھی صالح ہو گا۔اصلاح معاشرہ او ر انقلابی روح کی بیداری کے لیے خواتین کی تربیت سیرت نبوی کے مطابق ہو تو معاشرے میں صالح افراد کا پیدا ہونا یقینی عمل ہوگا۔ شہیدہ صدر نہ صرف ایک مجاہدانہ کردار کی حامل خاتون تھیں بلکہ علوم دینیہ سے بھی آراستہ تھیں ۔ آپ سمجھتی تھیں کہ دین اسلام ایک جامع دین ہے جو معاشرے کو ایک مکمل نظام حیات دیتا ہے۔ خواتین کو اس دین مبین کے احکامات پر عمل پیرا ہوکراپنا مجاہدانہ کردار ادا کرنا چاہئے ۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے حجاب کی اہمیت کو اجاگر کرنے لئے خواتین کی نجی محافل و مجالس بھی سخت حجاب کی پابندی کرتی تھیں۔ جب آپ سے سوال کیا گیا کہ آپ گھر کے اندر حجاب کیوں کرتی ہیں ۔ خاص کر اتنی موٹی جرابیں پہننے کا سبب کیا ہے۔؟ تو انہوں نے جوا ب دیا "میں عورتوں کو سکھانا چاہتی ہوں کہ درست حجاب کا یہی طریقہ ہے۔” کسی بھی صالح اور انقلابی معاشرے کے قیام کے لئے ایک اہم نکتہ خوا تین کا تعلیم یافتہ ہونا ہے یہی وجہ ہے کہ سرور کائنات حضرت ﷺ نے اہل ایمان خواتین کی تعلیم وتربیت پر زور دیا اورمسلمان مردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں پر بھی طلب علم کو فرض قرار دے کر یہ بتایا کہ جہاں مردوں کے لیے تعلیم و تربیت ضروری ہے وہیں پر خواتین کے لئے بھی تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ ہونا ضروری ہے۔
ماہرین عمرانیات کی بھی یہ رائے ہے کہ اصلاح معاشرے کے لئے سب سے ضروری عمل افراد کو جہالت کے اندھیروں سے نکال کر علم کے اجالوں میں لانا ہے یعنی معاشرے کے افراد کو تعلیم یافتہ بنایا جائے اور یہ صرف اسی وقت ممکن ہے جب خواتین کو حصول علم سے محروم نہ رکھا جائے بیٹوں کی طرح بیٹیوں کو بھی تعلیم و تربیت سے بہرہ مند ہونے کا موقع فراہم کیا جائےتاکہ وہ بھی باشعور اور فعال شہری بن کر اچھی بیوی، بہن اوربیٹی بن سکیں ۔ خواتین خاص طور پر بچیوں کو تعلیم کی روشنی سے آراستہ کرکے ہی معاشرے کو تعلیم یافتہ اور انقلابی معاشرہ بنایا جا سکتا ہے اور جہالت کی بدولت معاشرے میں پیدا ہونے والی برائیوں کی بھی اصلاح کی جا سکتی ہے۔ شہیدہ صدر نے بطور معلمہ مروجہ تعلیمی اداروں اور دینی مدارس میں( مدارس الزہرہ جس میں متعدد مدارس شامل تھے جس کی آپ سربراہ رہی ہیں ) بچوں اور اساتذہ کی دینی تربیت پر تمام توجہ مرکوز کی اور اپنی تمام قوت کے ساتھ ان مدارس میں بچوں کی تعلیم و تربیت میں کردار ادا کیا۔ مگر جب یہ ادارے عراق کی بعثی حکومت کی وزارت تعلیم سے منسلک ہوئے تو آپ نے اس ذمہ داری کو یہ کہہ کر چھوڑ دیا کہ” میں خوشنودی خدا حاصل کرنے کی خاطر ان مدارس میں خدمات انجام دے رہی تھی ۔ان مدارس کے حکومت سے الحاق ہونے (بعثی حکومت )کے بعد میرے یہاں رہنے کی بھلا کیا تو جیہ ہو سکتی ہے؟“
شہیدہ صدر اس بات کی نسبت آگاہی رکھتی تھیں کہ ایک صالح معاشرے کے قیام کے لیے تعلیمی اداروں میں ابتدا ہی سے بچوں کی تربیت کر کے ایسے افراد تیار کیے جاسکتے ہیں جو آنے والے وقت میں زمانے کے یزید کے خلاف علم حق بلندکرسکیں ۔ بلکہ انہوں نے اس کے ذریعے خواتین کو بھی ایک اہم پیغام دیا جو خود کو گھروں میں محدود رکھتی ہیں اور اپنے بچوں کا مستقبل غیر تعلیم یافتہ اورغیر تربیت یافتہ افراد کے ہاتھوں میں دے دیتی ہیں کہ کوشش کرنی چاہیے کہ ہر وہ شخص جو تعلیم یافتہ و تربیت یافتہ ہو سماج میں اپنی ذمہ داریاں انجام دے۔ شہیدہ صدر نے یہ باور کرایا کہ ملت کی تعلیم و تربیت یافتہ خواتین کو بطور معلم اور رہنما بن کر اپنی ذمہ داریاں نبھانی چاہئیں اور ملک و ملت کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے ۔شہیدہ صدر جانتی تھی کہ خواتین کسی بھی معاشرے کی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔ خاص طور پر تعلیم یافتہ خواتین اگر وہ دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی شعور و آگہی بھی رکھتی ہوں تو وہ ناصرف معاشرے میں اپنا فعال کردار ادا کرسکتی ہیں بلکہ آنے والی نسلوں کی تعلیم و تربیت میں بھی اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔ آزاد اور باشعور معاشروں میں خواتین زندگی کے ہر شعبے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں جس طرح گھر کو سنبھالنے کے لیے تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ ماں کی ضرورت ہوتی ہے، اسی طرح ایک باشعور اور باعمل اور صالح معاشرے کے قیام کے لیے دینی شعور و آگہی رکھنے والی باہنر خواتین خاص طور پر ڈاکٹرز، انجینئرز، اساتذہ اور نرسز کی ضرورت ہوگی ۔ شہیدہ صدر نے خواتین میں شعور و آگہی پیدا کی تاکہ کہ وہ اپنی صلاحیتوں کے مطابق ملک و قوم اور مذہب کے لئےاپنا کردار ادا کریں تاکہ ایک باشعور قوم وجود میں آ سکے۔
شہیدہ صدر عراق میں خواتین کی اسلامی تحریک میں پیش پیش رہیں۔ انہوں نے اپنے بھائی سید محمد باقر الصدر کا بھرپور ساتھ دیا۔ صدام کی بعثی حکومت کے مظالم کے خلاف ہر پلیٹ فارم پر آواز بلند کی۔عراق کی بعثی حکومت کو آپ کی یہ انقلابی جدوجہد کسی طرح قابل قبول نہ تھی۔ اس لیے انہوں نے جب جناب باقرالصدر شہید کو گرفتار کیا تو شہیدہ بنت الہدیٰ نے حرم امام علی علیہ السلام میں جاکر عوام کے درمیان ایک پراثر خطاب کیا اور عوام کو اپنے بھائی کی گرفتاری سے آگاہ کیا۔ جس پر نجف میں عوام نے حکومت کے خلاف احتجاج کیا اور شہید صدر کو آزاد کرایا۔اس خبر کے پھیلتے ہی دوسرے ممالک میں بھی حکومت عراق کے خلاف احتجاجی مظاہرے شروع ہوئے جس پر صدر خاندان کو ان کے گھر میں نظر بند کر دیا گیا۔ یو ں پانچ اپریل کو جناب صدر اور ان کی بہن کو گرفتار کیا گیا اور پھر 8 اپریل 1980کو بعثی حکومت کے ہاتھوں آپ دونوں بہن بھائیوں کی شہادت ہوئی۔ عراق کا صدر صدام حسین جانتا تھا کہ جناب باقر الصدر کی شہادت کے بعد شہیدہ بنت الہدیٰ اس کی حکومت کے خلاف انقلاب برپا کر دیں گی۔ اس لیے اس نے جناب باقر الصدر کے ساتھ آپ کو بھی گرفتار کر کے شہید کروادیا تاکہ ایک اور یزید وقت کے خلاف زینبی تحریک برپا نہ ہو سکے۔ مگر خون ناحق کبھی رائیگاں نہیں جاتا۔ آج صدام کا نام لیوا کوئی نہیں مگر جناب باقرالصدر اور ان کی بہن شہیدہ بنت الہدیٰ کے ہزاروں چاہنے والے دنیا کے کونے کونے میں پھیلے ہوئے ہیں۔ آنے والے زمانوں میں جہاں بھی انقلاب برپا ہو گا وہاں شہیدہ بنت الہدیٰ اور ان کے بھائی کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ یزید امام حسین علیہ السلام کے مدمقابل ہو یاباقر الصدر اور شہیدہ بنت الہدیٰ کے مدمقابل، اسے ہمیشہ شکست فاش کا ہی سامنا کرنا پڑے گا۔ اور وہ ہمیشہ راندہ درگاہ ہوگا۔
شہید کی جو موت ہے
وہ قوم کی حیات ہے