حب دنیا
حوزہ علمیہ نجف اشرف کے طلاب اور فضلاء سے شہید رابع سید محمدباقر الصدر ؒکا خطاب
ترجمہ: علامہ سید افتخار حسین نقوی نجفی
دنیا کی محبت
ہم اب فکر کے دائرہ سے دل کی طرف،عقل کے دائرہ سے ضمیر اور وجدان کی طرف آتے ہیں۔ میرا مقصد یہ ہے کہ ہم کچھ دیر کے لیے اپنے دلوں کے ساتھ رہیں۔نہ اپنی عقلوں کے ساتھ،ہم اپنے ضمیر ووجدان اور دلوں کو قرآن پر پیش کرنا چاہتے ہیں۔ بجائے اس کے کہ ہم اپنی عقلوں اور اپنے افکارکو قرآن پر پیش کریں۔ہم اپنے سینوں کے اندر جھانک کر دیکھنا چاہتے ہیں کہ ان کے اندر کس کی محبت پوشیدہ ہے ،وہ کون سی محبت ہے جس نے ہمارے دلوں کو گھیر رکھا ہے اور ہمار ے دل اس محبت کا مرکز ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایک دل میں دومحبتیں پیدا نہیں کرتا اور نہ ہی ایک جگہ، دومحبتوں کا مرکز ہوسکتی ہے۔ اللہ کی محبت ہوگی یا دنیا کی محبت ۔ اگر اللہ کی محبت ہوگی تو وہاں دنیا کی محبت نہیں ہوسکتی کیونکہ یہ دونوں محبتیں ایک دل میں اکٹھی نہیں ہو سکتیں۔ہمیں اپنے دلوں کو ٹٹولنا چاہیے ،انہیں آزمانا چاہیے،ہم اپنے دلوں میں جھانک کر دیکھیں کہ ان میں اللہ تعالیٰ کی محبت جاںگزین ہے یا دنیا کی محبت؟
اگر اللہ کی محبت ہے تو ہم اسے اور بڑھائیں اور پختہ کریں ۔(خدا کی پناہ) اگر ہمارے دلوں میں دنیا کی محبت ہو تو پھر ہمیں کوشش کرنی ہوگی کہ اس مہلک بیماری سے چھٹکارہ حاصل کریں۔
کیونکہ محبت انسان کے دل کو مرکز بناتی ہے اور وہ دوصورتوں میں لازماً ایک کو اختیار کرتی ہے۔پہلی صورت یہ ہے کہ یہ محبت اس آدمی کی تمام امیدوں ،اس کے تمام جذبات واحساسات کا مرکز ہوتی ہے۔ کبھی اپنی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے،یہ آدمی مخصوص دائرہ کار میں مصروف عمل ہوجاتا ہے لیکن جلد ہی وہ اپنے مرکز پر لوٹ آتا ہے کیونکہ محبت ہی اس کامقام ہے۔کبھی وہ کسی بات میں مصروف ہوجاتا ہے، کبھی کسی کام میں،کبھی کھانے پینے لگتا ہے،کبھی تعلقات بنانے کی تگ و دو کرنے لگتاہے لیکن اس کے ان تمام کاموں میں،اس کامحور ومرکز وہی محبت رہتی ہے ۔یہ محبت کی پہلی صورت ہے ۔
دوسری صورت یہ ہے کہ محبت نے انسان کے دل ودماغ کو گھیر رکھا ہو۔اس طرح کہ وہ کسی بھی حالت میں اس سے جدا نہیں ہوتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی چیز اس کو محبت کے دائرہ سے باہر نہیں لے جاتی بلکہ وہ جس طرف رخ کرتا ہے اسے اپنا محبوب،اپناقبلہ اور اپنا کعبہ نظرا ٓتا ہے ،اور ہر مقام پر اس کے سامنے اس کامحبوب ہوتا ہے۔ یہ محبت کا دوسرا مرتبہ ہے۔ محبت کی دو سری تقسیم،اللہ کی محبت اور دنیا کی محبت دونوں پر صادق آتی ہے۔
اللہ کی محبت جو انتہائی باعظمت ہے، اس کے بھی دو مرتبے ہیں ۔اس کا پہلا مرتبہ وہ ہے۔ جو نیک وپاک مومنوں کے نفوس میں ہوتا ہے ،جنہوں نے اپنے نفوس کو اس پست دنیا کی غلاظتوں سے پاک وصاف کردیا ہے۔ یہ لوگ اپنی تمام امیدوں،اپنے جذبات واحساسات کا مرکز اللہ کی محبت کو قرار دیتے ہیں۔ جب یہ افراد کھانے میں مصروف ہوتے ہیں یاکسی فرصت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کسی دوست سے ملاقات،یاکسی تفریح گاہ وشاہراہ پر تفریح کے ذریعے لطف اندوز ہورہے ہوتے ہیں، تب بھی اس سارے عمل میں ان کامرکز ومحور خدا کی محبت ہی رہتی ہے یعنی جیسے ہی وہ ان کاموں سے فارغ ہوتے ہیں دوبارہ وہ اپنے مرکزپر پلٹ آتے ہیں جو اللہ کی محبت ہے،اور ان کی مصروفیت عارضی ہوتی ہے۔
بہرحال دوسرا مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ جس کی بلندیوں کو اللہ کے خاص بندے یعنی انبیاء اور ائمہ علیہم السلا م ہی پاتے ہیں۔حضرت علی علیہ السلام جن کے روضہ اطہر کی ہمسائیگی کا ہمیں شرف حاصل ہے۔یہ عظیم شخصیت جنہیں آپ سب جانتے ہیں انہوں نے کیا فرمایا؟ آپ ؑ فرماتے ہیں۔’’ بہ تحقیق میں نے کوئی چیز نہیں دیکھی مگر اللہ کو اس کے ساتھ،اس سے پہلے، اس کے بعد اور اس کے اندر دیکھا۔‘‘ کیونکہ یہ عظیم دل، ان کاضمیر اور سینہ ،محبت کے اس درجہ پر پہنچا ہوا ہے کہ جس کی بدولت وہ جسے دیکھتے ہیں، جس کام کو کرتے ہیں انہیں ہر طرف خدا ہی نظر آتا ہے۔جب وہ انسانوں کو دیکھتے ہیں تو ان میں اللہ کے بندے نظر آتے ہیں،جب وہ نعمتوں کی کثرت وفراوانی پر نظر کرتے ہیں تو ان میں اْن کو اللہ ہی کی نعمتیں نظر آتی ہیں۔ یہ معنی وحقیقت،اللہ کے ساتھ ان کا دا ئمی تعلق، ہمیشہ ان کی آنکھوں کے سامنے مجسم ہوتا ہے کیونکہ ان کامحبوب واحد و یکتا ہے، ان کامعشوق کامل واکمل ہے۔ اس لیے ان کادل،ان کی امیدیں، ان کی خواہشات، ان کے احساسات اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ وہ اپنے محبوب کے شریک کو نظر میں لائیں۔پس وہ جب بھی دیکھتے ہیں تو انہیں اللہ کی ذات ہی نظر آتی ہے۔
لیکن دوسرا مرتبہ،اس دوہری محبت کی تقسیم میں دنیا کی محبت کا سلسلہ ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس دنیوی محبت کو ہر برائی کی جڑ قرار دیا ہے۔(حب الدنیا راس کل خطیئتہ)،دنیا کی محبت کے بھی دو مرتبے ہیں پہلا مرتبہ یہ ہے کہ دنیا انسان کے لیے اس کی محبت کامرکز ہو اس کے تمام کام اس مرکز کے گرد گھومتے ہوں۔وہ اس وقت قدم اٹھا تاہو جب اسے اپنا مفاد نظر آئے اور وہاں رکتا ہو جہاں اس کے ذاتی مفاد کو خطرہ ہو۔وہاں غلامی کرتا ہو جہاں اسے ذاتی فائدہ پہنچے۔ اسی طرح دنیا ہی اس کامرکز قرار پاتی ہے۔بعض اوقات وہ دنیا سے ہٹ کر بعض کاموں میں مصروف ہوتا ہے جو پاک وطاہر ہوتے ہیں جیسے وہ اللہ کی نماز ادا کرتا ہے، اس کی ذات کی خاطر روزے رکھتا ہے لیکن بہت جلد وہ اپنے اصلی مرکز کی طرف پلٹ آتا ہے وہ شیطان کی چوکھٹ سے تھوڑی دیر باہر جاتا ہے لیکن پھر دوبارہ اسی شیطان کی چوکھٹ کی طرف پلٹ آتا ہے ۔ دنیاکی محبت کی بیماری کا یہ پہلا درجہ ہے ۔
اس مہلک بیماری کا دوسرا درجہ یہ ہے ،جو انتہائی خطرناک ہے کہ جب دنیا کی محبت اس آدمی کو اندھا کر دیتی ہے۔ بصیرت کے تمام راستے اس پر بند کردیتی ہے ۔اس کے لیے دنیا ایسی ہوتی ہے جس طرح سید الموحدین،امیر المومنین ؑ کی خدا کے ساتھ محبت یعنی جب وہ کسی چیز کو دیکھتا ہے تو اس کے ساتھ،اس کے بعد،اس سے پہلے،اس کے اندر اسے دنیا ہی نظرآتی ہے اور اس حد تک وہ دنیا کی محبت میں مدہوش ہوجاتا ہے کہ صرف دنیا کی عینک سے دیکھتا ہے اور ہر کام میں اس کے مدنظر ذاتی فائدہ ہوتا ہے ۔یہاں تک کہ نماز پڑھنے،روزہ رکھنے،درس پڑھنے،،مسئلہ پوچھنے سب پر دنیا کی چھاپ لگاتا ہے۔ یہ آدمی دنیا کے سوا کسی چیز کو نہیں دیکھتا جب وہ کسی چیز کو دیکھتا ہے یا کوئی اور کام کرتا ہے یاکسی کو(حتیٰ) سلام کرتا ہے تو ان چیزوں میں دنیا ہی اس کامرکز رہتی ہے دونوں مرتبے ہلاک کرنے والے ہیں لیکن یہ دوسرا مرتبہ انتہائی خطرناک ہے
اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے فرمایا: ۔’’دنیا کی محبت ہر برائی کی جڑ ہے۔‘‘
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:
’’دنیا کی مثال سمندر کی ہے جتنا زیادہ اس کا پانی پیتے جاؤ گے اتنی ہی پیاس بڑھتی جائے گی ۔‘‘
یہ مت کہو کہ ہم دنیا کے کچھ حصہ کو لے لیتے ہیں تاکہ کچھ دنیوی مقام بھی حاصل ہو جائے پھر اللہ کی طرف پلٹ جائیں گے!! ایسا ہر گز نہیں بلکہ جتنی مقدار دنیا کے مال سے حاصل ہوگی اور جس قدر دنیا کے زائل ہونے والے مرتبے ملیں گے تو ان کی پیاس اور ان کا حصول کا لالچ اور بڑھتا جائے گا ، ہر مرتبہ حاصل کرنے کے بعد دوسرے مرتبے کو حاصل کرنے کے لیے دل چاہے گا کیونکہ دنیا کی مثال سمندر کے پانی کی ہے اور دنیا (کے حصول کی چاہت) ہر برائی کی جڑ ہے۔
حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں: جو شخص اس حال میں صبح کرے کہ اس کی سب سے بڑی فکر،دنیا کی فکر ہوتو اللہ سے اسے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ اس کامطلب یہ ہے اس کا اللہ سے تعلق ختم ہوجاتا ہے۔ اس ساری بحث کا ماحصل یہ ہوا کہ ایک دل میں دو محبتیں اکھٹی نہیں ہوسکتیں ،جس کے دل میں دنیا کی محبت ہے اس کو اللہ کی محبت حاصل نہیں ہوسکتی ہے اور اس کا تعلق اللہ سے ختم ہوجاتا ہے کیونکہ دومحبتیں ایک دل میں اکھٹی نہیں ہوسکتی ہیں۔دنیا کی محبت ہر برائی کی جڑ ہے۔یہ دنیا کی محبت ہے جو نماز کو اس کی روح سے خالی کردیتی ہے، روزہ اپنے حقیقی معنوں سے عاری ہوجاتا ہے اورہر عبادت اپنا واقعی مفہوم کھو بیٹھتی ہے ۔ان عبادتوں کا اس وقت کیا معنی رہ جاتا ہے جب دنیا کی محبت انسان کے دل پر مکمل چھا جائے ؟
میں اور آپ ان لوگوں کو جانتے ہیں جنہوں نے امیرالمومنین علیہ السلام کے ساتھ معاندانہ رویہ اختیار کیا۔انہوں نے نماز کو نہیں چھوڑا ، وہ روزے رکھتے تھے اور شراب نزدیک نہیں جاتے تھے۔اگر ہم ان سب کے بارے میں یہ نہیں کہہ سکتے تو اْن میں سے بہت بڑی تعداد کے بارے میں ہم یہ بات یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ وہ اس قسم کے کاموں کو سر انجام دیتے تھے۔ لیکن آپ ہی بتائیے کہ ایسی نماز کی کیا قیمت، ایسے روزوں کا کیا فائدہ،اس شراب نہ پینے سے کیا حاصل،جب دل دنیا کی محبت سے پر ہو؟!
عبد الرحمن بن عوف کی نماز کی کیا قیمت ہے؟ عبد الرحمن بن عوف جلیل القدر صحابی تھے۔کافروں اور مشرکوں میں سب سے پہلے اسلام لانے والوں میں سے تھے، رسول خدا کے ہاتھوں ان کی تربیت ہوئی، وحی اور قرآن کے ساتھ انہوں نے زندگی بسر کی۔ خدائی آیات کو اترتے دیکھا ۔ لیکن کس چیز نے اْنہیں بھٹکا دیا؟
جب قیصر وکسریٰ کے ملکوں پر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو غلبہ دیا، قیصر وکسریٰ کے خزانے ان کے ہاتھ لگے۔تو انہیں کس چیز نے دھوکہ دیا؟ انہوں نے اپنے دل کو دنیا کی محبت سے پْر کر رکھا تھا۔نماز پڑھتے تھے ، روزے رکھتے تھے۔ لیکن جب یہ صاحب ،علی ؑ اور عثمان میں سے ایک کو اختیار کرنے پر مامور ہوئے ،یعنی مسلمانوں کا خلیفہ عثمان بنے یا مسلمانوں کا خلیفہ علی ؑبنیں ؟ اور وہ بخوبی جانتے بھی تھے کہ اگر خلافت ، حضرت علی ؑکے پاس چلی گئی تو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے یہ انتخاب مسلمانوں کے مفاد میں ہوگا اور اگر یہ خلافت عثمان کو دی گئی تو ہمیشہ کے لیے فتنہ وفساد کے دروازے کھل جائیں گے کیونکہ وہ خود،خلیفہ ثانی سے یہ بات سن چکے تھے۔لیکن اس انتخاب میں دنیا کی محبت نے ان کے دل کو گھیر لیا اور انہوں نے اپنا ہاتھ عثمان کے ہاتھ پر رکھ دیا اور علی ؑ کا ہاتھ بیعت کے انتظار میں کھلا ہی رہا۔ انہوں نے عثمان کو خلیفہ بنا دیا اور حضرت علی ؑ کو خلافت سے دور کر دیا۔ شاید آپ یہ کہیں کہ یہ بھی نماز نہ پڑھنے کی طرح گناہ ہے۔ کیونکہ نبی پاک نے اپنے بعد حضرت علی کو خلیفہ بنایا تھا ، ہاں یہ صحیح ہے کہ حضرت علی ابن ابی طالب کا مسلمانوں کاحاکم ہونااہم واجبات میں سے ایک ہے لیکن میں کہتا ہوں آپ یہ فرض کر لیں۔ محال کا فرض کرنامحال نہیں ہے ۔کہ اگر حضرت رسول خدا ؐ نے علی ؑ کی خلافت پرتصریح نہ کی ہوتی تو کیا عبد الرحمن ابن عوف کا یہ فیصلہ قابل برداشت ہوسکتا تھا؟کیاان کا انتخاب صحیح تھا؟
اگر ہم رسول پاک ؐ کی روایات سے صرف نظر کرلیں،حدیث ثقلین کو نظر انداز کردیں اور اْن سب باتوں سے چشم پوشی کریں جو رسول پاک نے فرمائیں لیکن آپ یہ بتائیں کہ اللہ اور دنیا کی محبت کے پیمانے پر دین اسلام اور مسلمانوں کے مفادات کی حفاظت کو مدنظر رکھتے ہوئے ،کیا عبد الرحمن کا یہ موقف قابل قبول ہوسکتا ہے؟ کیا یہ درست ہے کہ وہ علی ؑ کے ہاتھ کو بیعت کے لیے اسی طرح کھلا چھوڑدیں اور ایک ایسے نااہل آدمی کی بیعت کر لیں اور یہ امانت ایک آدمی کے حوالے کردیں یعنی عثمان بن عفان کی بیعت کر لیں کیونکہ یہاں پر نص کی بات نہیں! یہاں تو دنیا کی محبت اور امانت میں خیانت کا مسئلہ ہے؟دنیا کی محبت کس طرح انسان کو اندھا اور بہرہ کر دیتی ہے۔ عبد الرحمن بن عوف کی دنیا کی محبت نے نماز کے معنی کو ختم کردیا،روزے کی حقیقت جاتی رہی ، ماہ رمضان کامفہوم نظر انداز ہوگیا بلکہ ہر چیز حقیقی معانی سے ہاتھ دھو بیٹھی،شرافت کامفہوم نہ رہا۔ (واقعاـ )دنیا کی محبت ہر برائی کی جڑ ہے۔
اللہ کی محبت ہر کمال کی بنیاد ہے۔اللہ کی محبت ہی ہر انسان کو کمال،عزت،شرافت،پختگی،پاکیزگی اور تمام حالات میں کمزوری پر غلبہ کی قدرت عطا کرتی ہے۔ یہی اللہ کی محبت ہے جس نے فرعون کے دربار میں جادوگروں کو اپنا قیمتی فیصلہ سنانے کی جرات عطا کی؛ تم نے جو کچھ کرنا ہے،کر گزرو،تم تو صرف اس دنیوی زندگی کو ختم کر سکتے ہو ۔انہوں نے یہ کیوں اور کیسے کہا؟ اس لیے کہ اللہ کی محبت نے ان کے دلوں کو گھیر رکھا تھا۔اسی وجہ سے انہوں نے دلیری کے ساتھ فرعون جیسے ظالم کے سامنے اپنا تاریخ ساز جملہ کہا کہــ تجھے جو کچھ کرنا ہے کر گزر ، تو فقط اس دنیا کی زندگی کوہی ختم کر سکتا ہے۔‘‘
اللہ کی محبت ہی نے حضرت علی علیہ السلام کو ہمیشہ شجاعت اور بہادری کے کارہائے نمایاں سرکرنے کی جرات عطا کی، حضرت علی ؑکی یہ شجاعت وبہادری ، درندوں جیسی شجاعت اور بہادری نہیں اور نہ شیر کی سی سباعت ،بلکہ یہ ایمان اور محبت الٰہی کی شجاعت ہے ،ایسا کیوں؟ کیونکہ یہ شجاعت صرف میدان جنگ میں مقابلہ کرنے کی شجاعت ہی نہ تھی بلکہ مقابلہ نہ کرنے کی شجاعت بھی تھی۔کبھی صبر کی شجاعت ہے! ابوطالب کے فرزند حضرت علی ؑنے میدان جنگ میں دشمن پر بار بارجھپٹ کر مقابلہ کرنے کی شجاعت کے جو اعلیٰ نمونے ہیش کئے ہیںان کی مثال کہیں نہیں ملتی۔
جب آپ کی عمر ساٹھ سال سے زیادہ تھی۔ آپ نے تنہا خارجیوں پر حملہ کیا اور چار ہزار آدمیوں کامقابلہ کیا ۔میدان جنگ میں داد شجاعت دینے کی یہ آخری منزل ہے کیونکہ اللہ کی محبت نے آپ کو مدہوش کر رکھاتھا۔آپ نے اکیلے ہونے کے باوجود ان چار ہزار کو کچھ نہ سمجھا۔ صبر کے میدان میں آپ نے شجاعت کاوہ نمونہ پیش کیا ہے جس کی نظیر دنیائے انسانیت میں نہیں ملتی۔ اپنے حق سے خاموشی اختیار کر کے جب آپ نے ضروری سمجھا کہ وہ اپنے حق کے غصب کرنے پر صبر کریں توآپ نے صبر سے کام لیا ۔آپ ؑعین عالم شباب میں تھے، آپ کا بڑھاپا نہ تھا؟جوانی کے جوش نے ان کے ضمیر ووجدان کو پر کیا ہواتھا، لیکن اسلام نے انہیں کہا کہ خاموش ہوجائیں۔ دین کی بقا کے لیے اپنے حق کے غضب ہونے پر صبر سے کام لیں۔ جب تک یہ لوگ ظاہراً اسلام اور دین کی حفاظت کر رہے ہیں تو حضرت علی ؑنے اس وقت تک خاموشی اختیار کئے رکھی جب تک دین واسلام کے ظاہری احکام کی حفاظت ہوتی رہی ۔صبر کے میدان میں شجاعت کی یہ انتہائی منزل ہے ۔یہ شیروں کی شجاعت نہیں بلکہ یہ اس مومن کی شجاعت ہے جو اللہ کی محبت کے نشے میں مخمور ہے۔اسی طرح آپ ؑنے نامناسب چیز کو ٹھکرانے کے میدان میں شجاعت کی جومثال پیش کی ہے اس کی نظیر بھی کہیں نہیں ملتی، جب اس شخص نے ایسی شرائط پر آپ کے ہاتھ پر بیعت کرنے کا اعلان کیا جو اللہ کی کتاب اور اللہ کے رسول ؐکی سنت کے خلاف تھیں اور یہ دوسرے خلیفہ کی وفات کے بعد کی بات ہے۔ آپ جانتے ہیںکہ اس عظیم انسان نے کیا کردار ادا کیا۔یہ عظیم انسان جو اندر ہی اندر سے اپنے آپ کو کھا رہاتھا کیونکہ خلافت اس کے ہاتھ سے چلی گئی تھی۔ یہ اللہ کی خاطر کڑھ رہاتھا نہ اپنی خاطر،وہ کہتا ہے:’’ خلافت کی قمیص کو ابوقحافہ کے بیٹے نے اپنے تن پر چڑھا لیا جب کہ وہ جانتا تھا کہ خلافت میں میری مثال چکی میں قطب کی مانند ہے۔‘‘ اس انسان کا دل کباب ہو رہاتھا، تو یہ اس لیے تھا کہ خلافت اس کے ہاتھ سے چلی گی تھی۔
اگر کوئی شخص صرف حضرت کی عبارت پر عامیانہ نظر کرے تو ہوسکتا ہے کہ یہ کہے کہ اس انسان کو سلطنت وخلافت کی کتنی لالچ ہے؟! لیکن ہم دیکھتے ہیں یہی مرد،یہی انسان جب اسے اس خلافت کی پیش کش کی جاتی ہے، دنیا کی ریاست اس کے حوالے کردی جاتی ہے تو وہ اسے ٹھکر ادیتا ہے اور ٹھکرانے کی وجہ فقط اور فقط یہ تھی کہ اس میں ایسی شرط رکھی گئی تھی جو اللہ کی کتاب اور رسول خدا ؐکی سنت کے خلاف تھی ۔یہاں سے ہم یہ بات سمجھتے ہیں کہ اس انسان کامل کا درد ،اس کے دل کا کڑھنا،اپنی ذات کے لیے نہیں بلکہ اللہ کے لیے تھا۔ ایک وقت میدان جہاد میں شجاعت،مقابلہ کرنے کی شجاعت ہے۔صبرکے دن صبر کی شجاعت ہے، کسی بات کو ٹھکرانے کے دن ٹھکرانے کی شجاعت ہے۔ اس شجاعت کو حضرت علی ؑ کے دل میں آپ کی محبت خدا اور عشق الٰہی نے وجود بخشا تھا۔ یہ کیفیت، اللہ کے وجود پر(خشک) عقیدے سے وجود میں نہیں آتی، وہ عقیدہ جس میں سارے فلاسفر شریک ہیں، ارسطو، افلاطون، فارابی، یہ سب اللہ کے وجود کے معتقد تھے۔انہوں نے انسانیت کے لیے کیا کیا؟ کیا انہوںنے دین یادنیا کے لیے کوئی ایک کام انجام دیا؟ عقیدہ تنہا کچھ نہیں،عقیدے کے ساتھ اللہ کی محبت ہی ہے جس کے سبب انسان عظیم کارنامے سر کرتا ہے۔
سب لوگوں سے زیادہ ہمیں چاہییے کہ ہم دنیا سے دور بھاگیں۔ اگر دنیا کی محبت جرم ہے تو یہ ہم دینی طلبا کے لئے بڑا جرم ہے ۔یہ چیز جو ہمارے غیر کے لیے غلطی ہے، اگر وہ ہم سے سرزد ہو تو یہ بہت بڑی غلطی ہوگی۔ ہمیں چاہیے کہ ہم دوسروں سے زیادہ اس کی طرف متوجہ رہیں کیونکہ ہم نے اپنے آپ کو آخرت کا راستہ دکھانے والے راہنماؤں میں لاکھڑا کیا ہے۔ ہم نے دیکھنا ہے کہ دنیا میں ہمارا کام کیا ہے؟ دنیا میں ہماری ذمہ داری کیا ہے؟ اگر کوئی شخص آپ سے سوال کرے کہ تم کیا کام کرتے ہو؟ تمہارے وجود کا مقصدکیا ہے؟ تو کیا کہو گے؟ تم یہ جواب دوگے کہ میں چاہتا ہوں کہ لوگوں کا رشتہ آخرت سے جوڑدوں،لوگوں کی دنیا کو آخرت سے، عالم غیب اور اللہ تعالی سے جوڑدوں۔ تو پھر کس طرح تم اپنی دنیا کو آخرت سے الگ رکھ سکتے ہو؟!۔
اگرآپ کی دنیا کا رشتہ آخرت سے کٹ چکاہو تو پھر تو، آپ لوگوں کی دنیا کو اپنی دنیا کے ساتھ جوڑیںگے نہ کہ اپنے آپ کی آخرت سے،اس طرح تو آپ راستہ کے چوروں میں سے ایک چور ہوں گے لیکن کونسا کاراستہ،ایک شہر سے دوسرے شہر کا راستہ نہیں،یہ راستہ اللہ کی طرف لے جانے والا راستہ ہے۔ ہم اس راستہ کے راہنما ہیں۔ ہم نے اسی راستہ کی نشاندہی کرنی ہے۔ ہم نے لوگوں کے ہاتھوں کو پکڑ کر اس راستے پر لے جانا ہے۔ اگر ہم نے اس راستے کے دروازہ کو بند کردیا ،اگر ہم صراط مستقیم سے بھٹک کر دوسرے راستے پر چل دئیے تو ہم اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کی راہ میں مانع ہوں گے!۔یوم آخرت میں رکاوٹ ڈالنے والے ہم ہوں گے! ہر وہ آدمی جس کے دل پر دنیا کی محبت سوار ہے وہ خود ہلاک ہوگا لیکن ہم طالب علم،اگر ہمارے دلوں پر دنیا کی محبت سوار ہوگئی توہم خود بھی ہلاک ہوں گے اور دوسروں کی بھی ہلاکت کا سبب بنیں گے! کیونکہ ہم نے اپنے آپ کو ذمہ داری کے مقام پر لاکھڑا کیا ہے۔ ہم نے لوگوں کا اللہ کے ساتھ رشتہ جوڑنے کا کام سنبھالا ہوا ہے اور جب اللہ ہمارے دلوں میں رہائش پذیر نہیں ہوگا تو ہم کبھی بھی لوگوں کو اللہ کے ساتھ نہیں ملا سکتے!
تمام لوگوں سے زیادہ ہمارا حق بنتا ہے کہ ہم اس ہلاکت خیز محبت سے اجتناب کریں چونکہ ہمارا دعویٰ ہے کہ ہم انبیاء کے وارث ہیں، ہم ائمہ کے وارث ہیں!ہم محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے راستے پر چلنے والے ہیں!،حسین علیہ السلام کے نقش قدم پر چلنے والے ہیں !کیا ہماری یہ کوشش نہیں ہوتی کہ ہم اس نسبت کی شرافت سے زندہ رہیں؟ یہ نسبت ہمارے موقف کو زیادہ اہم بنا دیتی ہے کیونکہ ہم ان اقوال اور ان کے کردار کے حامل ہیں۔ ہم لوگوں سے زیادہ ان کے اقوال سے آگاہ ہیں۔ہم دوسروں سے زیادہ ان کے اعمال کو جانتے ہیں۔
کیانبی اکرمؐ نے یہ نہیں فرمایا: کہ ہم انبیا سونا چاندی اور زمین وراثت میں نہیں چھوڑتے؟بلکہ ہم علم وحکمت وراثت میں چھوڑتے ہیں۔ کیا حضرت علی ابن ابی طالب ؑ نے نہیں فرمایاکہ تحقیق تمہاری یہ حقیقت یا یہ خلافت اگر میرے نزدیک کچھ ہے تو اس لیے کہ میں حق کو قائم کروں یاباطل کو ختم کروں۔ کیا ابوطالب کے فرزند حضرت علی ؑنے یہ نہیں فرمایا؟ کیا علی ؑ نے اپنی زندگی میں اپنی پوری زندگی میں اس پر عمل کر کے نہیں دکھایا؟ علی علیہ السلام، اللہ کے لیے لڑتے تھے۔ اپنے لیے نہیں ، اپنی دنیا کی خاطر نہیں ۔ اگر علی ؑ دنیا کے لیے کچھ کرتے یا اس کے لیے لڑتے تو وہ بدترین اور بدبخت ترین لوگوں میں سے ہوتے۔حضرت علی ؑ بچپن ہی سے اپنی جان کو ہتھیلی پر رکھے ہوئے تھے۔حضرت علی ؑ رسول خدا ؐکے دشمنوں کو ان سے دور بھگاتے تھے، اللہ کے دین کا دفاع کرتے تھے، اللہ کے دین کے محافظ تھے ۔کبھی کسی قدم کے اٹھانے میں حضرت علی ؑ نے شک وتردیدسے کام نہیں لیا۔علی ؑ موت کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔علی ؑ کی جان ہمیشہ ان کی ہتھیلی پر تھی۔حضرت رسول اکرم ؐ کی زندگی میں وہ ان کے سب سے زیادہ فرمانبردار تھے ۔رسول خدا ؐکے بعد بھی ان کے سب سے زیادہ وفادار رہے۔دین کی خاطر سب سے زیادہ عمل کرنے والے تھے۔ اسلام کی خاطر سب سے زیادہ تکلیفیں اٹھانے والے تھے۔ ان سب سے علی ؑ کو اس کے سوا کیا ثمر ملا؟ کیا یہ عظیم انسان خود اپنے بارے میں نہیں بتاتا؟کیا اسے اپنے گھر میں نہیں بٹھایا گیا؟ کیا مسلمانوں کے منبروں پر پورے ہزار مہینہ اسی انسان پر سب وشتم نہیں ہوتا رہا؟۔وہ منبر جن کی بنیادیں علی ؑ کے جہاد سے،علی ؑ کے خون سے اور علی ؑ کی قربانیوں سے مضبوط ہوئیں، مسلمانوں کے منبروں پر سب وشتم؟ تعجب کی بات ہے !تو اس کامطلب یہ ہوا کہ دنیا سے علی ؑ کو کچھ نہیں ملا،مال ملا نہ منصب، لیکن اس کے باوجود جب عبد الرحمن ابن ملجم نے علی ؑ کے سر پر تلوار ماری تو آپ کے علم میں ہے کہ اس عظیم امام ؑ نے کیا فرمایا؟ آپ نے فرمایا: رب کعبہ کی قسم، میں کامیاب ہوگیا۔اگر حضرت علی ؑ نے اپنی دنیا کے لیے کام کیا ہوتا تو حضرت علی ؑ یہ فرماتے کہ میں بدبخت ترین انسان ہوں کیونکہ مجھے اس پوری زندگی کی محنت اور کوشش کا کوئی صلہ نہیں ملا،یہ ساری زندگی جہاد کی زندگی تھی،قربانی کی زندگی تھی،اللہ سے محبت کی زندگی تھی،میں نے اس کے عوض کچھ بھی تو حاصل نہیں کیا ؟!لیکن حضرت نے یہ نہیں فرمایا بلکہ یہ فرماتے ہیں: رب کعبہ کی قسم!میں کامیاب ہوگیا۔خدا کی قسم یہ شہادت ہے، کیونکہ وہ اپنی دنیا کے لیے کام نہیں کرتے تھے۔وہ اپنے رب کے لیے کام کرتے تھے۔ اب اللہ سے ملاقات کا وقت آپہنچا۔ یہی وقت وہ وقت ہے جس میں حضرت علی ؑ اپنے خالق ومالک سے ملاقات کریں گے۔ اللہ ہی انہیںاجر وثواب دے گا،اللہ ہی ان تکلیفوں کا بدلہ دے گا،جو مصیبتیں اور تکلیفیں حضرت علی ؑ نے اٹھائیں۔کیا یہ امام بہترین نمونہ نہیں ہیں؟ کیا اس امام کی زندگی سنت نہیں ہے؟ کیا قانون سازی کے مدارک میں ہمارے ہاں قرآن وسنت نہیں ہے؟کیا معصوم کی سنت،معصوم کا قول،معصوم کا فعل اور معصوم کی تقریر ہم پر حجت نہیں ہے؟ ہم پر لازم ہے کہ ہم دنیا کی محبت سے بچیں۔ ہمارے پاس نہ تو دنیا ہے کہ ہم اس سے محبت کریں،کس سے محبت کریں؟ دنیا سے محبت کریں؟ ہم طالب علم ہیں یہ دنیا کیا ہے کہ جس سے ہم محبت کریں؟! کیا ہم اپنے آپ کو اس دنیا میں ڈبو نا چاہتے ہیں؟ اور اللہ کی خوشنودی جو ایک بہت بڑا مقام ہے اسے ہم چھوڑ نا چاہتے ہیں؟ کیا ہم اسے چھوڑ دیں، جسے نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہے اور نہ کسی کان نے سنا ہے؟ میں کسی انسان کے خیال پر معترض نہیں ہوں کہ یہ دنیا کیا ہے؟ یہ دنیا،یہ ہماری دنیا جو خیالات کا مجموعہ ہے،دنیا ساری کی ساری وہم وخیال ہے لیکن ہماری دنیا دوسروں سے بڑھ کر خیال ہے۔توہمات کی ایک گٹھڑی ہے۔ہم دنیا سے کیا حاصل کریں گے۔ہم ان لوگوں میں سے نہیں ہیں جنہوں نے دونوں ہاتھوں سے دنیا کے مال کو لوٹا۔ہم ان لوگوں میں سے نہیں ہیں جن کے سامنے دنیا آکر جھکی تاکہ ہم دنیا کو آخرت پر ترجیح دیں۔ ہاں! ہارون رشید کی دنیا بہت بڑی تھی۔ہم خود کوہارون رشید پر قیاس کرتے ہیں؟ ہارون رشید نے اپنے شب وروز کو دنیا کے لیے وقف کر رکھا تھا کیونکہ وہ دنیا کی محبت میں غرق تھا،لیکن آپ جانتے ہیں کہ وہ دنیا جس میں ہارون رشید غرق ہوا،وہ محلات جن میں ہارون رشید نے زندگی گزاری، ہارون رشید کی وہ شہ خرچیاں جن میں وہ مخمور تھا۔وہ خلافت وہ سلطنت جس نے پوری دنیا کو اپنے گھیرے میں لے رکھا تھا، ہم خود کو یہ کہیں کہ ہم ہارون رشید سے افضل ہیں،ہارون رشید سے زیادہ پرہیز گار ہیں،اس سے زیادہ متقی ہیں! محض اس کے کہہ دینے سے تو بات نہیں بنتی۔حیرانگی ہے کہ ہم پر ہارون رشید کی دنیا پیش نہیں کی گئی۔
میرے بچو! میرے بھائیو! میرے پیارے عزیزو! علیؑ کے فرزندو!۔۔کیا ہمیں ہارون رشید کی دنیا پیش نہیں کی گئی؟۔نہیں نہیں ہر گز نہیں۔ہمارے لیے تو بہت ہی محدود،کمزور اور نحیف سی دنیا ہے! ایسی دنیا جو بہت جلد ختم ہوجائے گی ۔بہت ہی جلدی زائل ہوجائے گی۔ ایسی دنیا جس میں انسان اس قدر بھی نہیں رہ سکتا جس قدر ہارون رہا۔ ہارون رشید بادلوں کو دیکھ کر کہتا تھا: اے بادل! تو جہاں برسے گا میرا خراج مجھ تک پہنچے گا !اسی دنیا کی خاطر اس نے امام موسی بن جعفر ؑ کو زندان میں ڈالا۔کیا ہم نے یہ عزم کر لیا ہے کہ اگر یہ دنیا ہمارے ہاتھوں آگئی تو ہم موسی ٰ بن جعفر ؑکو جیل میں نہیں ڈالیں گے؟!کیاہم نے اپنے آپ کو آزمالیا ہے؟کیا ہم نے اپنے آپ سے سوال کر لیا ہے؟ ہم میںسے ہر ایک اپنے نفس پر اس سوال کو پیش کرے کہ اس کے اور اللہ کے درمیان حقیقت میں یہی دنیا،یہی ہارون رشید کی دنیا ہے جس نے حضرت موسی ٰ بن جعفر ؑ کو جیل میں ڈلوایا؟!کیا ہمارے سامنے ایسی دنیا پیش کی گئی ہے تاکہ ہم یہ سوچیں کہ ہم ہارون رشید سے زیادہ پرہیزگار ہیں؟! یہ ہماری دنیا کیا ہے؟ یہ تو مسخ شدہ دنیا ہے، یہ تو دنیا کے توہمات ہیں۔ان میں کوئی حقیقت نہیں۔اللہ کی رضایت حقیقت ہے۔خبردار! اللہ کی خوشنودی حقیقت ہے ،ہر طالب علم کی حقیقت یہی حالت ہے۔ اگر اس نے دنیا کے لیے کام کیا تو وہ دنیا کا بدبخت ترین انسان ہوگا کیونکہ دنیا کے دروازے کھلے ہیں ۔خاص کر ان لوگوں کے لیے جن میں دنیا حاصل کرنے کی صلاحیت موجود ہو،اگر وہ دنیا کے لیے کام کرے گا تو بدبخت ترین انسان کہلائے گا کیونکہ وہ دنیا وآخرت دونوں کو ہاتھ سے دے بیٹھے گا ! نہ دنیا ہی ملے گی نہ آخرت کو حاصل کر سکے گا۔
ہماری فکر آخرت کے لیے ہونی چاہیے۔ہم دنیا کی محبت کے بدلے میں اپنے دلوں میں اللہ کی محبت کو جگہ دیں کیونکہ ہمارے پاس تو کوئی دنیا ہی نہیں ہے جس کو اہمیت دی جائے۔ اگر ہوتی تب بھی اسے اہمیت نہیں دینا چاہیے تھی۔ ہمارے ائمہ ؑ نے ہمیں درس دیا ہے کہ ہم موت کو ہمیشہ یاد رکھیں۔ یہ دنیاوی محبت کی بیماری کے لیے سود مند علاج ہے۔ ہر آدمی کو چاہیے کہ وہ موت کو یادرکھے ۔ہم میں سے ہر ایک کا عقیدہ ہے کہ ہرشے نے فنا ہونا ہے لیکن کبھی بھی اس مسئلے کو اپنے نفس کے سامنے پیش نہیں کیا ۔یہ ایک مفید علاج ہے کہ ہم اس مسئلے کو اپنے نفس کے سامنے پیش کریں اور ہمیشہ اس خیال میں رہیں کہ ابھی موت آسکتی ہے یا تھوڑی دیر بعد۔ ہم میں سے ہر ایک کے کچھ ساتھی تھے جو مرگئے ،کچھ بھائی تھے جو اس گھر سے دوسرے گھر چلے گئے ،میرے بابانے اتنی زندگی نہیں کی جتنا میں بسر کر چکا ہوں،میرا بھائی اتنا زندہ نہیں رہا جتنا میں زندہ رہ چکا ہوں۔بس میں نے اپنی عمر پوری کر لی ،ہوسکتا ہے کہ میں اپنے بابا کی عمر میں پہنچ کر مرجاوں،ہوسکتا ہے میںاس عمر میں مر جاؤں جس عمر میں میرا بھائی مرا ہے۔ ہم میں سے ہر ایک کے لیے اس قسم کی کوئی مثال ضرور مل جاتی ہے۔ ضرور اس کے لیے کچھ دوست ہوںگے جو اس دنیا سے کوچ کر چکے ہیں، کچھ عزیز اور رشتہ دار ہوں گے جو اس دنیا میں باقی نہ رہے۔ نہ ان کی خواہشات باقی رہیں نہ ان کی امیدیں بر آئیں۔ اگر تو انہوں نے آخرت کے لئے کام کیا تھاتو ایک صاحب اقتدار بادشاہ کے پاس پہنچ چکے ہیں جو اپنے وعدے کا سچا ہے۔ اگر انہوں نے دنیا کے لیے کام کیاتھا تو ان کے بارے میں سب کچھ ختم ہوچکا ہے۔یہ عبرتیں ہیں جن کی ہمیں ائمہ علیہم السلام نے تعلیم دی ہے کہ انہیں ہم ہمیشہ اپنے سامنے رکھیں اور اس طرح دنیا کی محبت کے شر سے خود کوبچائیں۔ ہوسکتا ہے یہ زندگی چند دن کی ہو۔ ہوسکتا ہے چند مہینوں کی ہو۔ہوسکتا ہے چند سالوں پر محیط ہو۔ہمیں چاہیے کہ ہمیشہ عمل کریں اور اس بنیاد پر عمل کریں کہ یہ ایک لمبی زندگی ہے تاکہ ہم اسے دس دن سمجھ کر یاایک مہینہ سمجھ کر یادو مہینے سمجھ کر عمل میں سست نہ پڑ جائیں۔ ہم نہیں جانتے کہ ہم کس کادفاع کریں،ہم نہیں جانتے کہ ہم کس قدر گناہوں کو اٹھائے ہوئے ہیں۔گناہوں کی یہ مقدار،خدا کے سامنے اپنے دین کا دفاع کریں گے۔ اپنے سے دس دن کا دفاع کریں گے،ایک مہینے کا دفاع کریں گے یاچند مہینوں کا کریں گے یہ سامان بہت ہی مختصر ہے۔ میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ ہمارے دلوں کو طاہر اور ہماری روحوں کو پاک کردے اور ہماری زیادہ تر فکر اللہ کے بارے میں ہو ۔ہمارے دل اللہ کی محبت سے پرہوں۔اللہ کا خوف ہمارے دلوں میں ہو۔اللہ کی تصدیق اور اللہ کی کتاب پر عمل نصیب ہو۔