شہید سید محمد باقر الصدرؒ کی انقلابی تحریک 

شہید سید محمد باقر الصدرؒ کی انقلابی تحریک

استاد عز الدین سلیم

ترجمہ: شہید سید سعید حیدر زیدی ؒ

آیت اللہ شہید سید محمد باقر الصدر علیہ الرحمہ کے عالی ذہن میں ( دین ومذہب کی ترویج کے لیے) جو بڑے منصوبے موجود تھے‘ ان میں سب سے گرانقدر منصوبہ ’’ انقلابی تحریک‘‘ کو قرار دیا جاسکتا ہے۔بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ایسا اہم منصوبہ تھا کہ دیگر تمام منصوبے اسی کی فرع اور شاخ کی حیثیت رکھتے ہیں۔

اگر ہم انکی تصانیف‘ ان کی تقاریر اور خدا کی راہ میں ان کے جہد ِ مسلسل کا جائزہ لیں تومندرجہ ذیل نکات بالکل نمایاں ہوکر سامنے آتے ہیں:

۱۔انقلابی تحریک کی حدود اور اس کے خدوخال۔

۲۔وہ مرکز جس کے تحت یہ تحریک اپنا کام کرے گی۔

۳۔ قوم کو انقلابی تحریک سے وابستہ کرنے کے لیے ضروری شرائط۔

۴۔ اس تحریک کے لیے میدان ِ عمل میں اترنے کے منصوبے۔

۱۔انقلابی تحریک کی حدود اور اس کے خدوخال

اس سلسلے میں سب سے پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شہید صدر علیہ الرحمہ قوم کے اندر وہ کونسی تبدیلی چاہتے تھے جو پوری ملت کو اسلام کے قالب میں ڈھالنے کاسبب بن جائے۔

اس سوال کے جواب  کے لیے ایک تو یہ سمجھنا نہایت ضروری ہے کہ شہید صدرؒ امت کے لیے تہذیب ِجدید کی تباہ کاریوں کو کس قدر ہولناک سمجھتے تھے‘ اور دوسری یہ بات جاننا ضروری ہے کہ مغربی تمدن نے امت اسلامیہ کو اسلام کے قوانین‘آداب‘ احکام اور تصورات سے کس قدر دور کر دیا ہے۔

شہید صدر ؒ مغربی تہذیب کی تبا کاریوں کی تشریح کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ:

’’ اب عالم ِ اسلام یورپی انسان کی زندگی کے انداز پر آغاز ِ حیات کرنے لگا ہے اور اسکے تمدن کی چمک دمک سے سحر زدہ ہو کر ایسی حالت پر پہنچ گیا ہے کہ اپنے ایمان‘ اپنی اصلی شریعت اور حیات ِ انسانی کے بارے میں اس کی رائے کو چھوڑ کر مغربی تہذیب کو اپنا فکری رہنما اور قائد سمجھنے لگا ہے۔‘‘(۲)

عالم ِ اسلام نے مغربی تہذیب کی نقالی کرتے ہوئے یورپ کی جو تقلید شروع کی‘ وہ ترتیب وار مراحل کے اعتبار سے تین شکلوں میں ظاہر ہوئی۔یہ تین شکلیں عالمِ اسلام کے مختلف علاقوں میں تقریباً ایک ہی زمانے میں سامنے آئی ہیں۔

۱۔ سیاسی تقلید: جس کی وجہ سے اقتصادی طور سے ترقی یافتہ مغربی ممالک‘ہماری مختلف اقوام پر براہ راست حکومت کرتے نظر آرہے ہیں۔

۲۔ اقتصادی تقلید: جس کے نتیجے میں ہمارے مختلف علاقوں میں انہیں مستقل حیثیت حاصل ہے اور جو سرمایہ دارانہ اقتصادی نظام کو مزید ترقی دینے کا سبب بن رہی ہے‘ تاکہ وہ ہماری معیشت سے جیسے چاہیں کھیلیں‘یہاں سے خام مواد حاصل کریں اور پھر ہمارے بازاروں کو اپنی بر آمدات سے بھر کر اپنی تجارت کو ترقی دیں۔

۳۔ فکری تقلید: جس کے متعدد تجربات عالم ِ اسلام کے داخلی امور میں ہوچکے ہیں۔(۳)

اس کی وضاحت کرتے ہوئے شہید صدر ؒ فرماتے ہیں کہ:

’’مجرمانہ ذہنیت رکھنے والے ان حملہ آوروں نے اس قوم کے ذہنوں سے اسلامی بیداری کو ختم کرنے اور اس کی فکر کے روشن چراغوں کوگل کرنے کے لیے تمام طریقے اور وسائل اختیار کر رکھے ہیں‘ لہٰذا وہ ہر جگہ اپنے افکار ونظریات پھیلانے اور ایسے خیالات کی نشرواشاعت میں مصروف ہیں جن کے ذریعے اسلام کے روشن خدوخال کو ذہنوں سے مبہم کیا جاسکے۔نتیجے کے طور پر جتنا جتنا یہ دشمنان دین اپنے ناپاک منصوبوں کو نافذ کرنے میں کامیاب ہوتے گئے اتنا اتنا ہی مسلمان دین کے بارے میں ایک واضح ذہنیت سے محروم ہوتے گئے اور آخر کار وہ دین کو بس اتنا ہی سمجھتے ہیں جتنا سامراجی طاقتیں انہیں سمجھانا چاہتی ہیں۔‘‘(۴)

پھر فرماتے ہیں:

’’ راستہ بہت طولانی ہے کیونکہ قوم کی ذہنی پسماندگی انتہائی پستی تک پہنچ چکی ہے اور اسلامی اقدار اس کے ذہن کے لیے نہایت اجنبی ہوچکے ہیں اور عملی زندگی میں وہ شعور وادراک کے لحاظ سے اسلام سے بہت زیادہ دور ہوچکی ہے۔(دوسری طرف) ظالم سامراج کی ہولناکیاں قوم کی گھات لگائے بیٹھی ہیں اور مغربی تہذیب اپنے تمام حمایتیوں اور پشت پناہوں کے ساتھ اسلام کے راستے میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔‘‘(۵)

شہید صدر ؒ کی تصانیف اور ان کی تقاریر کے مذکورہ بالا اقتباسات سے یہ بات پوری طرح واضح ہوجاتی ہے کہ وہ مغربی تہذیب کے ہولناک نتائج سے کس قدر پریشان تھے۔ آپ کے ذہن میں جو خدشات تھے‘ہم ان کومندرجہ ذیل نکات کی صورت میں واضح کرنا چاہتے ہیں:

۱۔ مردِ مسلمان کو یہ یقین ہوجانا کہ یورپ عالمی قیادت کا اہل ہے اور اسی کو اقوام ِ عالم پر فکری اور تہذیبی حکمرانی کا حق حاصل ہے۔

۲۔ مرد ِ مسلمان کا احساس کمتری میں مبتلا ہوجانا کہ مغربی اقوام کے مقابلے میں وہ اقوام ِعالم کی قیادت سے عاجز ہے‘ اور اس کا ذہنی طور پر اس بات کو قبول کرلینا کہ( موجودہ دور میں) الٰہی قوانین کی بجائے مغربی قوانین ہی بہتر ہیں۔

۳۔ مسلمانوں کا مغربی اثر ورسوخ کے سامنے ذلت کے ساتھ سرجھکا دینا اور سامراجی طاقتوں نے عالم ِ اسلام کے مال ودولت پر جو ڈاکہ زنی شروع کر رکھی ہے اور ان کے خام مال کی لوٹ مار میں مصروف ہیں‘یہ صورتحال دیکھنے کے باوجود مسلمانوں کا خاموشی اختیار کئے رکھنا اور ان کی ہلاکت خیز اقتصادی سیاست کو قبول کر کے ساتھ ساتھ ان کے تجارتی مال کے لیے اپنی منڈیوں کو کھلا چھوڑ دینا۔

۴۔ قوم کے ذہن سے اسلامی معارف وحقائق‘ زندگی میں شرف ِ ذات کے اعلیٰ مقاصد اور اسلامی تہذیب وتمدن کے قلعے کی تعمیر کا خیال دور ہوجانا۔

۵۔ اس بات کا احساس ذہن سے مٹ جانا کہ اسلام نے ایک مرد ِ مسلمان کو کیا کیا نعمتیں عطا کی ہیں اور زندگی کے معاملات میں اسلام سے دوری کی عادت قائم کرلینا اور ممالک اسلامیہ میں سامراجی عزائم کا اثر ورسوخ پیدا کرلینا۔اسی کے ساتھ بڑے بڑے لوگوں‘ نیز سیاسی اور فکری میدانوںمیں کام کرنے والے دانشوروں کا مغربی تہذیب وتمدن کو تقویت دینا۔۔۔۔۔۔۔

یہ تمام باتیں وہ ہیں جو اسلام کی مقدس اور بابرکت تحریک کے فروغ کی راہ میں مستقل رکاوٹ بنی ہوئی ہیں۔

تہذیب جدید کے نام پر مغربی استکبار نے امت اسلامیہ کو جن مشکلات سے دوچار کر رکھا ہے‘ ان کے ادراک ہی کے سبب شہید صدرؒ نے انقلابی تحریک کے لیے مذکورہ بالا اسلوب کا نظریہ قائم کیا اور اب جو لوگ قوم کو ان مشکلات سے نجات دلانا چاہتے ہیں ان پر لازم ہے کہ اس اسلوب کو پیش نظر رکھیں۔

شہید صدرؒ نے امت ِ اسلامیہ کی موجودہ  حالت کے  بارے میں دو  تصورسامنے رکھے تھے:

۱۔ اگر قوم کی مشکلات کا خلاصہ یہ ہو کہ امت ِ اسلامیہ کے افراد اسلام سے منحرف ہو چکے ہوں‘ مثلاً وہ زندگی کے بعض معمولات میں اسلامی قوانین سے روگرداں ہوچکے ہوں اور معاشرتی سطح پر ان میں دین سے انحراف کی صورت پیدا ہوچکی ہو‘ جیسے قوم کے بہت سے لوگوں کی شراب کی عادت اختیار کر لینا۔ تو اگر امت ِ اسلامیہ نے اسلام کے فکری قوانین کی حفاظت کی ہوتی‘ اسلامی دستور کو اس کے اصل مقام پر برقرار رکھا ہوتا اور دین کے بنیادی اصولوں کی انفرادی‘ اجتماعی اور اقتصادی زندگی میں ہر طرح حفاظت کی ہوتی تو اسی ظاہری روگردانی کی کیفیت کا علاج کر دیتی۔

۲۔ لیکن اگر کبھی صورتحال یہ پیدا ہوجائے کہ مسلمان اپنے دین کے بنیادی اصول وقوانین سے دور ہوجائیں اور اسلام دشمن نظریات کو دستور حیات بنالیں( اور ان کاانحراف جزوی نہ ہو بلکہ اساسی ہو) تو پھر لوگوں کی اس کی طرف بلانے کے لیے ایک’’انقلابی تحریک‘‘ کی ضرورت ہے۔

پہلی  جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد ایسی ہی صورتحال پیدا ہوچکی تھی۔ سامرجی طاقتوں نے اسلامی ممالک کو تاراج کیا‘ ان کے اندر گھسے چلے آئے اور انہیں تقسیم کرتے چلے گئے اور جب انہوںنے ممالک اسلامیہ کے اقتدار پر قابض ہو کر‘ ان پر تسلط حاصل کر لیا تو قوم کی زندگی  کو مکمل طور پر الٹ کر رکھ دیا۔ اب  حالت یہ ہوگئی ہے کہ اسلامی عقیدہ ،جسے مرکزی حیثیت حاصل تھی اسے قوم کے دل سے مٹا دیا گیا ہے اور اکثر اسلامی ممالک میں مغربی دنیا کے سیاسی طرز فکر کے مطابق سرمایہ دارانہ جمہوریت کو رائج کردیا ہے‘یاپھر جو ممالک روس کے زیر اثر آگئے وہاں سوشلزم کو زندگی کامحور بنا دیا گیا۔(۶)

ایسی افسوسناک صورتحال  میں شہید صدرؒ یہ ضروری سمجھتے  تھے کہ بیدار مغز مسلم مفکرین کی کوشش یہ ہونی چاہیے کہ: زندگی اور کائنات کے بارے میں ان تمام بنیادی  افکار ونظریات کو بدل دیا جائے جن پر پرانے نظام حکومت اور معاشرتی زندگی کی اساس قائم ہے۔(۷)

ایک اور جگہ فرماتے ہیں

’’اس قسم کے حالات میں اسلام اصلاح نہیں بلکہ انقلاب کا مطالبہ کرتا ہے۔‘‘(۸)

ان اللہ لایغیر مابقوم حتی یغیروا ما بانفسہم۔۔۔ امت کی صورت احوال اور قوم کی ظاہری حالت اس وقت تک تبدیل نہیں ہو سکتی‘نیز قوم میں تعمیر کے اعلیٰ مدارج کا حصول اس وقت تک ممکن نہیں جب تک قوم خود اپنے اندر تبدیلی پیدا نہیں کر لے۔

لہٰذا بنیادی تبدیلی یہ ہے کہ خود اپنے آپ کو تبدیل کیا جائے اور اس تبدیلی کے نتیجے میں جو تبدیلی پیدا ہوگی وہی قوم کی تاریخی اور اجتماعی نوعیت کی تبدیلی قرار پائے گی۔ لہٰذا صرف افراد کے مزاج بدلنا کافی نہیں‘ بلکہ پوری قوم ،اجتماعی حیثیت سے جب تبدیل ہوجائے تب اسے روشن مستقبل کی بنیاد قرار دیا جاسکتا ہے اور اسے پوری تاریخی تحریک کے لیے اعلیٰ قومی مدارج کی اساس سمجھا جا سکتا ہے۔(۹)

پھر فرماتے ہیں:

’’ جومشکلات دور حاضر کی اسلامی تحریک کو درپیش ہیں‘ وہ تاریخ کے اعتبار سے ہر انقلابی تحریک کو درپیش رہی ہیں‘ لیکن اگر ان مشکلات کو غلبہ حاصل ہوجاتا تو انسانی تاریخ جمود کا شکار ہوجاتی۔‘‘

اگر چہ شہید صدرؒ ایک ایسے انقلابی عمل کی بنیاد رکھنا چا ہتے تھے جو انسان کی پوری فکری‘ نظریاتی اور اجتماعی زندگی کو اپنے دائرے میں لے لے لیکن دوسری طرف وہ اس بات پر بھی یقین رکھتے تھے کہ زندگی کا رخ بعض اوقات اندازے وتخمین کی حدود کو پھلا نگ جاتا ہے اور بعض اوقات اسلام کی راہ میں کام کرنے والوں کو اچانک ایسا عظیم موقع نصیب ہوجاتا ہے‘جس سے وہ فائدہ اٹھا کر انقلابی تحریک کے آغاز ہی میں قوم کی فکری وسیاسی قیادت کے مراکز پر چھا جاتے ہیں۔تاکہ ان وسائل سے استفادہ کر کے پوری قوم کے اندر انقلاب برپا کرنے میں کامیاب ہوسکیں۔(۱۱)

اسی بنا پر شہید صدرؒ کے نزدیک یہ لازم نہیں ہے کہ اسلام کے نکتہ نگاہ سے حکومت تک پہنچنے کے لیے پوری قوم مکمل انقلابی شعور کی مالک ہو۔

چنانچہ آپ فرماتے ہیں:

’’۔۔۔حتیٰ اگر اسلام کی حاکمیت قائم ہو بھی جائے تو اس کامطلب لازمی طور پر یہ نہیں ہوتا کہ ایک ہمہ گیرانقلاب پیدا چکا ہے‘بلکہ اس حکمرانی کا حاصل ہونا ایک ایسا جزہے جوانقلاب کی سیاسی زندگی کے ساتھ مخصوص ہے۔‘‘(۱۲)

قومی انقلابی تحریک کی شرائط

استعماری طاقتوں کے اثر ورسوخ کے بعد مسلمانوں کی حالت اور ان کی زندگی پر مغربی تہذیب کے تسلط جیسے امور پر غور وفکر کے بعد‘ عالم ِ اسلام کے اس مفکر ِعظیم ؒ نے ان بنیادی شرائط پر روشنی ڈالی ہے جوکسی بھی اساسی تحریک کے لیے ضروری ہیں۔۔۔چنانچہ اپنی اس مشہور  بحث میں جس کا عنوان ’’الشروط  الاساسی لنہضۃ الامۃ‘‘ (قومی تحریک کی بنیادی شرط) ہے‘  اور جو نجف ِاشرف کے ماہنامے ’الاضواء‘‘ کے پہلے شمارے میں ۹ جون ۱۹۶۰ء کو شائع ہوئی‘آپ نے امت ِ اسلامیہ کی حقیقی تحریک کے لیے مندرجہ ذیل تین شرائط ضروری قرار دی ہیں:

٭صحیح ایمانی بنیاد۔

٭اس پر پورا یقین

٭اس کے بارے میں فہم وفراست

اور پھر قوم کی موجودہ حالت کی روشنی میں ان شرائط کا تجزیہ کرتے ہوئے آپ نے نتیجہ اخذ کیا ہے کہ:

’’ قوم کے پاس صحیح ایمانی بنیاد بھی موجود ہے اور وہ ہے اسلام کا پیغام ِ حیات‘ اپنی اقدار کے لحاظ سے بھی‘ مبادی کے اعتبار سے  بھی اور قانون کی حیثیت سے بھی۔ یہ اور بات ہے کہ امت اسلامیہ کا دین اسلام پر جو ایمان دعقیدہ ہے اس میں اس وقت کمزوری‘ سطحیت اور ذہنی تاریکی نمایاں ہے۔جس کا بنیادی سبب دین کے بارے میں شعور وادراک کی کمی اور اس کے مقاصد سے عدم واقفیت ہے۔‘‘

چنانچہ آگے چل کر آپ تحریر فرماتے ہیں کہ:

’’ موجودہ دور میں کسی بھی اسلامی تحریک کے لیے اہم ترین بنیادی شرط دین کے حقائق ومعارف کو پوری جامعیت کے ساتھ سمجھنا ہے‘تاکہ اسے دنیا وآخرت کے تمام خزانوں کی کنجی قرار دے سکے۔‘‘

چنانچہ آپ فرماتے ہیں:

’’ جہاں تک دین کے حقائق اور اسکے مبادی کے فہم وادراک کی بات ہے ‘تو ہماری قوم کا نکتہ ضعف ہی یہ ہے کہ مخالف طاقتیں قوم کو اس کے دینی شعور سے الگ کرنے میں کامیاب ہوگئیں اور مجرمانہ ذہنیت رکھنے والے استعمار گروں نے ہر وہ طریقہ اختیار کیا جس کے ذریعے وہ قوم کے ذہن سے اسلامی بیداری کو ختم کر سکتے تھے‘ اس کی روشنی پر پردہ ڈال سکتے تھے اور اس کی چمک دمک کو لوگوں کی نگاہوں سے دور رکھ سکتے تھے۔اس مقصد کے لیے ان لوگوں نے جابجا ایسے افکار ونظریات کی بھر پور نشرواشاعت کی جن کے ذریعے وہ اسلام کے روشن چہرے کو غبار آلود ظاہر کر سکیں۔

چنانچہ ایک طرف دشمنوں کے ان شرمناک منصوبوں کا فروغ اور دوسری  طرف لوگوں کی دین کے بنیادی احکام ومعارف سے  یا دین سے اتنی سی شناسائی جتنی دشمنوں کے نزدیک قابل برداشت تھی۔۔۔۔ اس بات کا سبب بنی کہ امت کے وجود میں ایک عجیب وغریب تضاد پید ا ہوگیا‘ جس میں ایک طرف قوم دین اسلام پر باقی بھی رہی اور دوسری طرف وہ اسلام کو صحیح طور سے سمجھتی بھی نہیں۔ اور جب شعور مٹ جائے اور اسلام کی درخشاں تصویر نگاہوںسے اوجھل ہوجائے تو لازمی طور پر بھی بالکل نچلی سطح تک پہنچ جاتا ہے۔ اور اس کی پیشتر  زندہ اور موثر صلاحیتیں دب جاتی ہیں۔

اب یہ قوم‘جو ابھی تک دین پر قائم ہے اور اس پر یقین رکھتی ہے‘ اس کے لیے نہایت ضروری بات یہ ہے کہ اسلام کی معرفت حاصل کرے‘ اس کے حقائق کا ادراک حاصل کرے‘ اس کے بیش بہا خزانے کو دریافت کرے۔ تاکہ قوم کا پوراوجود اور اس کی شعوری صلاحیت اسلامی فکر سے مالامال ہوجائے اور پھر یہی اسلامی فکر اس کے لئے حقیقی محرک بنے اور ایک سچی اور ایک ہمہ گیر تحریک کے لیے امانتدار قیادت بن کر ابھرے۔لہٰذا اسلام کے اساسی افکار کی ہمہ گیر معرفت ہی قوم کی ایسی فوری اور اہم ضرورت ہے جس کے ذریعے اسلامی تحریک کی بنیادی شرط بھی پوری ہوسکتی ہے!!(۱۳)

غور سے دیکھاجائے تو نظر آتا ہے کہ شہید صدر کے افکار وخیالات‘جناب مالک نبی مرحوم کے ان تصورات کے عین مطابق ہیں جو انہوں نے ’’ شروط النہضۃ‘‘ نامی کتاب میں پیش کیے گئے ہیں‘وہ سب سے پہلے فرانسیسی زبان میں ۱۹۴۸ء میں اور پھر عربی زبان میں ۱۹۶۰ء میں شائع ہوئی۔البتہ جناب مالک بن نبی مرحوم نے قومی تحریک کے لیے دو اور شرائط کا بھی اضافہ کیا ہے اور وہ ہیں’’زمانے کی روش اور تحریک کے لیے مادی وسائل۔‘‘

لیکن جہاں تک شہید صدرؒ کے نظریات کا تعلق ہے تو میرے خیال میں وہ امت کی تمام مشکلات کا سرچشمہ لوگوں کی دین سے عدم واقفیت کو قرار دیتے ہیں۔

لہٰذا جب بھی قوم کے اندر دین کا شعور بیدار ہوگا‘ اس میں اپنی ذمہ داریوں کا احساس پیدا ہوگا‘وہ اپنے حقوق کو حاصل کرنے کی طرف متوجہ ہوگی۔ اور جب زندگی کے امور میں قوم اپنے موقف کو سمجھ سکے تو وہ یہ بات بھی سمجھ لے گی کہ وقت سے کس طرح فائدہ اٹھائے‘ کس طرح اپنی تحریک کو اس سے تقویت پہنچائے اورکس طرح خاک کو اکسیر بنا کر زندگی کو رونق اور بنی نوع انسان کی خوشحالی وسعادت کاسامان فراہم کرے۔

لہٰذا شہید صدرؒ کے نزدیک اگرچہ زمانے کی روش اور مادی وسائل بھی تحریک کی کامیابی میں حسہ لیتے ہیں لیکن یہ باتیںایسی ہیں جن کی کمی نہیں ہے‘ البتہ اگر کمی ہے تو ایسے افراد کی جو احساس ذمے داری رکھتے ہوں اور ایسی قوم کی جو تحریک کو اپنا نصب العین قرار دے۔

لہٰذا جب بھی ایسی قوم وجود میں آگئی جو دین کی گہرائیوںکواچھی طرح پہچانتی بھی ہو اور اجتماعی مسائل کے بارے میں اپنی تاریخی ذمہ داریوں کا احساس بھی رکھتی ہو‘ تو یہ امکان پیدا ہوجائے گا کہ تمام مادی وسائل کو تحریک کی تقویت‘قوم کی چھنی ہوئی عزت وشوکت کی تعمیر اور جدیداسلامی تمدن کی روش کو از سر نو مقرر کرنے کے لیے استعمال کیا جائے۔

انقلابی تحریک کی کامیابی کے نتائج

اگر چہ اس زمانے میں کسی بھی تحریک کے بارے میں لوگوں کے ذہنوں میں شکوک وشبہات اور یاس وناامیدی کے بادل چھا ئے ہوئے تھے لیکن شہید صدر  ؒنے اس بات پر اکتفا نہیں کیا کہ اسلامی انقلاب کے لئے صرف ایک فکری راستہ معین کردیں، بلکہ انہوں نے اس راستے کی مشکلات،آزمائش کی سختیوںاور مادی وسائل کی کمی کے باوجود  راہ خدا میں کام کرنے والوں کو کامیابی کے حصول کی خاطر بھر پور طریقے سے مہمیز کیا۔

چنانچہ آپ نے قرآن مجید کی درخشندہ تعلیمات،عقیدے کی طاقت اور صراط مستقیم کی ایمانی قوت کی روشنی میں اس بات کی بھر پور  وضاحت کی کہ جو لوگ دین کی راہ میں کام کرتے ہیں،ان کے پاس طاقت کے ایسے عناصر اور جہاد میں کامیابی کے ایسے وسائل موجود ہیں،جو اسلام کے علاوہ کسی مذہب کے ماننے والوں کے پاس ہوہی نہیں سکتے۔

چنانچہ یکم محرم ۱۳۸۰ ھ(۱۹۶۰ء) میں شائع ہونے والے ’’الاضواء‘‘ نامی رسالے  کے دوسرے شمارے میں آپ نے ’’ہمارا پیام ‘‘اور اس کی طرف دعوت دینے والے‘‘ کے عنوان سے افتتاحی مقالہ تحریر فرمایا‘ جس میں آپ نے کامیابی کے تمام روحانی اجزا‘اسلامی تحریک کی کامیابی کے لازمی نتائج اور بندگان خداکے جدید انداز سے الٰہی روش پر گامزن ہونے کے بارے میں قلم اٹھایا ہے۔

آپ نے ان خصوصیات کو مندرجہ ذیل نکات کے اندر سمویا ہے۔

۱۔ دین اسلام کا تقدس:

اسلامی شریعت کا جو تقدس اس کے ماننے والوں کے ذہن میں ہے‘ اس سے دوسری تمام تحریکیں محروم ہیں۔اسی وجہ سے مارکسزم اور دوسری تحریکیں اس کوشش میں مصروف ہیں کہ اپنے اوپر ایک خاص قسم کے تقدس کی نقاب چڑھالیں‘ کیونکہ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ تقدس کسی مکتب کے ماننے والوں پر اتنا اثر انداز ہوتا ہے کہ وہ اس کی خاطر ہر فکری واجتماعی معرکے میں کو دپڑنے کو تیار ہوجاتے ہیں۔

لیکن ظاہر ہے کہ مارکسزم دینی عقائد کی ہمسری تو نہیں کر سکتا‘مارکسزم اور دوسرے دنیاوی نظام ہائے زندگی ایک عام انسان کی فکر کی پیداوار سے زیادہ تو کچھ نہیں ہیں۔ جبکہ دین اسلام کے پیروکار اس یقین سے مالامال ہیں کہ وہ جس نظام زندگی کے ماننے والے ہیں‘ وہ انسانی فکر کی پیداوار سے کہیں بلند ہے اور اس ذات کی طرف سے نازل شدہ ہے جو ہمارے ظاہر وباطن سے پوری طرح باخبر اور غیب وشہود کی عالم ہے۔اور یہ ایسی بات ہے جو ہر مسلمان کے ذہن کو اسلام کے بارے میں ایک خاص تقدس عطا کرتی ہے‘ جس کی  بنا پر اسکی خاطر جدوجہد ایک پاکیزہ عمل بن جاتی ہے اور انسان دین اسلام اور تحریک اسلامی کی خاطر میدان جہاد میں کود پڑتا ہے۔

۲۔ کامیابی وکامرانی کی امید:

شہید صدر  ؒنے اس بات پر بھی خاصی گفتگو فرمائی ہے کہ اسلامی پیغام حیات ،اپنے ماننے والوں کے دل میں امید کی ایک منفرد شمع روشن کرتا ہے‘ انہیں فتح کی امید دلاتا ہے اور قرآن مجید کی تقریباً ڈیڑھ سو آیتوں کے ذریعے مقصد کی تکمیل اور کامیابی وکامرانی تک پہنچنے کے سلسلے میں ان کی ڈھارس بندھاتا ہے۔

اس سلسلے میں شہید صدر  ؒکے مفہوم کو اپنے الفاظ میں ادا کرنے کی کوشش کی بجائے، بہتر یہ ہے کہ آپ کے الفاظ کو آپ کی تقریروں اور تحریروں کے اقتباس کی شکل میں قارئین کرام کی خدمت میں پیش کردیں۔اس بارے میں آپ فرماتے ہیں:

’’ دوسری چیز امید ہے‘ کیونکہ امید روشنی کی وہ جھلک ہے جس سے کوئی بھی تحریک بے نیاز نہیں ہوسکتی۔ اس لئے کہ اگر کسی تحریک پر ناامیدی چھا جائے تو در حقیقت وہ اپنے حقیقی وجود اور معنویت سے محروم ہوجائے گی۔ایسی تحریک جس کی تکمیل کی امید نہ ہو، لغو اور لاحاصل ہے۔لہٰذا ہر قسم کی تحریکوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ امید کے پہلووں کو تلاش کریں اور حالات وماحول کے مطابق دلوں کے اندر اس امید کو پروان چڑھانے کی کوشش کریں اور ہر آن اس کے حصول کی فکر میں رہیں۔

جہاں تک اسلامی تحریک کا تعلق ہے‘ تو اگرچہ یہ اپنی توقعات کے سلسلے میں حالات وماحول کو بھی پیش نظر رکھتی ہے لیکن اس کازیادہ تر اعتماد اپنی صداقت وحقانیت پر ہے کیونکہ اسلامی شریعت لوگوں کے اندر امید ورجا کی ایک فضا پیدا کرنا چاہتی ہے اور ان کے عزائم کوقوت پہنچانے کی آرزو مند ہے۔اس کی سب سے  واضح دلیل یہ ہے کہ مبلغین اسلام حالات اور ماحول پر تکیہ کرنے کی بجائے دین کی حقانیت پر انحصار کرتے ہیں۔چنانچہ اسلام کے ابتدائی ایام میں،جب مکہ معظمہ میں اسلامی تحریک کا آغاز ہوااور تمام دشمن طاقتیں اس تحریک کے خلاف اکھٹا ہوگئیں لیکن ان حالات میں اس تحریک سے وابستہ وہ مختصر ترین جماعت‘نہ صرف پر امید تھی بلکہ یقین ر کھتی تھی کہ ظلم کے شیش محل ضرور تباہ ہوں گے‘ حتیٰ قیصر وکسریٰ کی سلطنتیں بھی برباد ہوکر رہیں گی۔اس لیے جب ہم یہ کہتے ہیں تو ہماری اس بات میں کوئی مبالغہ نہیں ہوتا کہ’’کامیابی کی امید‘‘ ہی راہ خدا کے ان مجاہدین کاوہ سب سے بڑا اثاثہ تھی جس کے ذریعے وہ صبر واستقامت کیساتھ ڈٹے رہے۔قلب انسان کوکوئی اور چیز امید ویقین سے اس طرح نہیں بھر سکتی تھی جس طرح مسلمانوں کے قلوب کو شریعت نے امید ویقین کی دولت سے مالامال کیا۔کیونکہ یہی وہ الٰہی پیغام اور یقینی وعدہ ہے جو وحی کے ذریعے لوگوں تک پہنچا ۔یہی وجہ ہے کہ مرد مومن کبھی بھی دشواریوں اور مشکلات کے سامنے سر نہیں جھکاتا‘ کیونکہ اس کے ہاتھوں میں آسمانی مشعل اور قدرت کی جانب سے فتح ونصرت اور تائید وتوفیق کا وعدہ ہوتا ہے۔اور اسلام ہی وہ برحق دین ہے جو تاریخ کے ہر دور میں ہمیشہ اپنے مبلغین کے اندر امید کی شمع روشن رکھنے میں کامیاب رہا ہے۔بلکہ قرآن مجید کی آیات اور حضور اکرم ؐ کے ارشادات میں فوز وکامرانی کے جو وعدے موجود ہیں‘ وہ دلوں کے اندر شمع امید فروزاں رکھنے میں بھر پور اثر رکھتے ہیں‘ شرط یہ ہے کہ انسان کی نیت خالص ہو اور اس کے عمل کی اساس وبنیاد اسلام پر ہو۔‘‘

۳۔پیغام اور تحریک کی خاطر میدان عمل میں قدم رکھنے کا ذاتی جذبہــ:

دین اسلام کو دوسرے نظام ہائے زندگی کے مقابلے میں یہ خصوصی امتیاز حاصل ہے کہ اس میں انسان کی انانیت کے جذبات کو دبانے اور اسے مثالی نمونہ بنانے کی بھر پور صلاحیت موجود ہے۔ کیونکہ اسلام اپنے مزاج کے اعتبار سے مرد مومن کے اندر اس یقین کو راسخ کرتا ہے کہ اس پیغام اور اس دین کے ساتھ اخلاص برتنا اور اس کی خاطر قربانیاں پیش کرنا‘خود ذاتی طور سے سعادت ہے‘ چاہے اس خلوص اور ایثار کا کوئی معاشرتی واجتماعی اثر مرتب ہو یا نہ ہو۔کیونکہ اس کے عوض ایسی نعمات خداوندی نصیب ہونے والی ہیں جن کا شمار بھی ممکن نہیں۔(۱۵)

اور یہ ایک ایسی خصوصیت ہے جو اسلام کے علاوہ کسی اور نظام زندگی میں نظر آ ہی نہیں سکتی۔اسی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سی دوسری اجتماعی اور دنیاوی تحریکوں کے مبلغین کی حالت یہ ہے کہ کامیابی حاصل ہونے کی تھوڑی یازیادہ مدت گزرنے کے بعد اپنے ذاتی مفادات میں غرق ہوجاتے ہیں۔ان کے اندر اپنی تحریک کے سلسلے میں جو مثالی جذبات ہوتے ہیں وہ رفتہ رفتہ سرد پڑ جاتے ہیں اور ان کی جگہ ذاتی مفادات لے لیتے ہیں‘ ان کی وجہ سے انکی تحریک در حقیقت ان کے شخصی فوائد کے حصول کا ذریعہ بن جاتی ہے اور مبلغین کے دلوں میں اصل پیغام کی اہمیت ختم اور اپنے مفاد کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔(۱۶)

شہید صدر علیہ الرحمہ نے اسلام کی اس امتیازی خصوصیت کو پیش کرتے ہوئے یقینا ان آیات قرآنی سے روشنی حاصل کی ہے جن میں دین کی خاطر زیادہ سے زیادہ قربانیاں پیش کرنے پر ابھارا گیاہے اور فداکار ومخلص صاحبان ایمان کو یاد دلایا گیا ہے کہ ان کی تمام کوششیں اور فداکاریاں خدا اور دین کی خاطر ہیں‘خدا ان کی قربانیاں اور ان کا ایثار دیکھ بھی رہا ہے اور انہیں ان کی پوری جزا بھی دے گا۔

لہٰذا جب قدرت کی طرف سے حقیقی فوائد کی ضما نت لی جاچکی ہے تو ایک باعمل انسان کواس بات کی فکر نہیں کرنی چاہیے کہ اس نے کیا کھویا اور کیا پایا۔کیونکہ اس کی یہ تجارت کبھی خسار ے کی تجارت نہیں ہوسکتی‘ اللہ کے نزدیک اس کا اجر محفوظ رہے گا۔جیسا کہ ارشاد قدرت ہے:

’’ اس لیے کہ انہیں کوئی پیاس،تھکن یابھوک راہ خدا میں نہیں لگتی ہے‘ اور نہ وہ کفار کے دل دکھانے والا کوئی قدم اٹھاتے ہیں‘ نہ کسی بھی دشمن سے کچھ حاصل کرتے ہیں‘ مگر یہ کہ ان کے نیک عمل کو لکھ لیاجاتا ہے کہ خدا کسی بھی نیک عمل کرنے والے کے اجر وثواب کو ضائع نہیں کرتا ہے۔اور یہ کوئی چھوٹا یابڑا خرچ راہ خدا میں نہیں کرتے ہیں اور نہ کسی وادی کو طے کرتے ہیں‘ مگر یہ کہ اسے بھی ان کے حق میں لکھ دیا جاتا ہے تاکہ خدا انہیں ان کے اعمال سے بہتر اجر عطا کر سکے۔‘‘(۱۶)

انقلابی تحریک  کے لیے جدوجہد کے منصوبے

بعض سماجی مفکرین ،اجتماعی مسائل کے حل اور اصلاح کی خواہش رکھتے ہیں‘ انسانی روش میں خامیوں کے مقامات کی طرف اشارہ کرتے ہیں‘اور جو بیماریاں اور منفی باتیں انسانی زندگی پر اثر انداز ہوتی ہیں ان کی نشاندہی بھی کرتے ہیں‘جبکہ کچھ اجتماعی مفکرین ایسے بھی ہیں جو ان مسائل کے لیے نہ صرف منصوبہ بندی کرتے ہیںبلکہ اپنے اجتماعی تصورات کے نفاذ کے لئے سماجی منصوبوں پر مسلسل عمل کرتے ہیں‘تاکہ معاشرے کی ان خامیوں پر قابو پایا جائے جو بیماریوں کی حیثیت رکھتی ہیں۔ممکن ہے جناب مالک بن نبی کو پہلی قسم کے مفکرین میں شامل سمجھا جائے‘ جنہوں نے بہت سے امور میں اجتماعی نمونے پیش کئے۔جیسا کہ ان کے شائع ہونے والے مضمون’’مشکلات الحضارۃ‘‘ سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے ۔لیکن موصوف نے صرف اجتماعی بیماریوں کے اثرات پیش کئے ہیں‘ کوئی واضح منصوبہ بندی ان کی بیخ کنی کے لیے پیش نہیں کیا۔جبکہ اسلامی جمہوریہ ایران کے بانی امام خمینی علیہ الرحمہ اس دوسری قسم کے مفکرین میں شامل ہیں‘جنہوں نے ان بیماریوں کی نشاندہی بھی کی‘ان کا علاج بھی بتایا‘خراب نظام کو بدلنے کے لئے منصوبہ بندی بھی کی اور اس پر عمل کر کے بھی دکھایا۔جس کے نتیجے میں پروردگار عالم نے انہیں فتح عظیم عطا کی اور ایران میں اسلامی حکومت قائم ہوگئی۔

شہید صدر ؒ کا شمار ان مجاہدین راہ خدا میں ہوتا ہے جن کی شدت سے تمنا تھی کہ اسلام کے اجتماعی‘سیاسی اور ثقافتی مفاہیم واقدار مسلمانوں کے اذہان میں راسخ ہوجائیں۔ آپ نجف اشرف کی سرزمین پر ایک انفرادی شان رکھنے والی شخصیت تھے۔اگر چہ علامہ شیخ محمد حسین آل کاشف الغطا (۱۸) کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کی سماجی واجتماعی فکر اور اسلامی تحریک کے بارے میں ان کی روش بہت پر مغز تھی۔لیکن ان کے افکار کی حیثیت محض ایک دینی پکار کی سی ہے‘ جس نے اسلامی تحریک کے لیے مناسب منصوبہ بندی پیش نہیں کی ۔

البتہ جہاں تک شہید صدر ؒ کا تعلق ہے ‘تو آپ نے قوم کے اندر صحیح معنوں میں اسلامی تحریک پیدا کرنے کے لئے متعدد کوششیں کیں اور اس سلسلے میں جتنی بھی تحریکیں اٹھیں، ان کی آپ نے یاتو بنفس نفیس آبیاری کی یایہ کہ ان میںآپ کا نہایت نمایاں حصہ رہا۔

آپ کے اجتماعی‘سیاسی اور فکری منصوبوں کا خلاصہ یہ ہے۔

۱۔اسلامی افکار کا فروغ

اس بات کی ضرورت شاید آج کے دور میں زندگی بسر کرنے والے افراد اس قدر محسوس نہ کر سکیں‘جس قدر ضرورت اس دور کے لوگوں کے لئے تھی جنہوں نے پچاس کے عشرے کے اختتام ا ور ساٹھ کے عشرے کے آغاز میں زندگی گزاری۔یہ وہ زمانہ تھا جب مارکسزم اور نیشنلیزم کی پر شور لہریں عراق کے باشندوں کو جھنجوڑ رہی تھیں اور نجف اشرف کے پاس فقہ واصول فقہ کی کتابوں کے علاوہ ‘ ان لہروں سے مقابلے کے لئے کوئی ایسا فکری سرمایہ موجود نہ تھا جو اسلامی فکر کو دور جدید کی زبان میں پیش کرے۔اس صورتحال کی وجہ سے لوگ مارکسزم کے سامنے ہتھیار ڈالتے نظر آرہے تھے۔

ایسی سخت آزمائش کے موقع پر سید محمد باقر الصدر ؒ جیسا عالی قدرمرد ‘  جس کی شخصیت میں ابتدائے شباب کی گرمی کے ساتھ ساتھ ایمان کی حرارت بھی پورے طور پر کارفرماتھی اور تحفظ دین کا جوش وجذبہ بھی موجزن تھا‘میدان عمل میں اتر کر مارکسزم‘سوشلزم‘کیپٹلیزم اور نیشنلزم جیسے فاسد نظریات سے ڈٹ کر مقابلہ کرتا ہے‘ ان نظریات کے نقائص کو طشت از بام کرتا ہے اور اجتماعی مشکلات کا اسلامی حل پیش کرتا ہے۔

شہید صدرؒ نے پنی گرانقدر تالیفات فلسفتنا اور اقتصادنا وغیرہ کے ذریعے مارکسزم اور کیپٹلزم کو بھر پور طریقے سے چیلنج کیااور امت اسلامیہ کے لئے عظیم فکری اور سیاسی ہتھیار فراہم کیا۔آپ کے اس کام کی گہرائی اور گیرائی کا صحیح معنوں میں ادراک وہی لوگ کر سکتے ہیں جنہوں نے اس دور میں زندگی گزاری ہو۔فلسفتنا میں آپ نے دلیل وبرہان کے ذریعے ثابت کیا ہے کہ سچا نظریہ حیات صرف اسلام کے پاس ہے‘باقی سارے نظریات باطل ہیں۔پھر کتاب اقتصادنا میں آپ نے اقتصادی نظام کے سلسلے میں سوشلزم اور کیپٹیلزم دونوں کی خرابیوں کو نمایاں کرتے ہوئے یہ واضح کیا ہے کہ موجودہ دور کے تمام معاشی مسائل کا حل صرف اسلامی تعلیمات کے اندر موجود ہے‘جو قانون ملکیت،اقتصادی آزادی‘ معاشی مشکلات ‘تقسیم کی مشکلات‘اراضی کے مسائل اور اس طرح کے تمام مسائل کا جامع ترین حل پیش کرتا ہے۔اس کتاب میں آپ نے اس بات پر بھی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے کہ مارکس ولینن وغیرہ نے عقیدے کے طور پر ’’ تاریخی مادیت‘‘ کے جس نظریے کو اپنایا ہے‘وہ سرتا سر دھوکے اور فریب کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔چنانچہ مذکورہ دونوں کتابوں نے عراق کی سرزمین پر اسلامی روش کو ایک مضبوط چٹان فراہم کردی اور لادینی افکار جو عراق کو ہضم کیا چاہتے تھے‘ ان کے آگے بند باندھ دیا۔

ہم نے ان دونوں کتابوں کا خاص طور پر ذکر کیا ہے۔ اس کامطلب یہ نہیں کہ ہم شہید باقرالصدر ؒ کی دیگر تصانیف کی اہمیت کوکم کرنا چاہتے ہیں‘جن میں سے بعض تالیفات گراں بہا ہیں جیسے: البنک اللا ربوی فی الاسلام‘المدرسۃ الاسلامیہ‘الاسلام یقود الحیاۃ‘الفتاوی الواضحہ‘الاسس المنطقیہ للا ستقراء۔۔۔وغیرہ

ان کے علاوہ بھی آپ کی دوسری تالیفات فکر اسلامی کا عظیم سرمایہ ہیں اور ان تالیفات نے عراق میں جدید اسلامی تحریک کو آگے بڑھانے میں بڑا موثر کردار ادا کیا ہے۔ اگر یہ علمی سرمایہ نہ ہوتا تو عراق کی اسلامی تحریک فکری اٹھان اور گہرائی وگیرائی سے محروم رہ جاتی۔

۲۔اسلام کا سیاسی وجود ہی خلا کو پر کر سکتا ہے

۱۹۲۰ ء میں انقلاب کے کامیاب نہ ہونے کی وجہ سے عراق کے سیاسی اور فکری میدان میں غیر اسلامی نظریات کاتسلط قائم ہوگیا‘ جو چھٹے عشرے کے ابتدائی نصف حصے تک اثر ونفوذ پیدا کرتا گیا اور اس نے عراق کے مقدس شہروں میں بھی قدم جمانا شروع کردیے اور ۱۴ جولائی ۱۹۵۸ء کو عبد الکریم قاسم کی قیادت میں آنے والے انقلاب نے عراق کے گلی کوچوں کو ایسے سیاسی افکار سے پر کردیا جن میں اسلام  کے لئے کوئی گنجائش ہی نہیں تھی۔اس وقت تک حوزہ علمیہ کے اندر یا باہر کوئی ایسی اسلامی تحریک نہ تھی جو اسلام کے سیاسی وجود کی بنیاد ہوتی۔

صورتحال اسی ڈگر پر جاری رہی‘ اور شہید صدر ؒ اسلام کی سیاسی تحریک کو اپنے وقت کا ایک وافر حصہ دیتے رہے اور فکری محاذ پر بنفس نفیس رہنمائی فرماتے رہے‘ تاکہ عمل کی راہ  پیدا ہو۔ ہم شہید صدرؒ کے عمومی افکار کی تلخیص‘درج ذیل الفاظ میں پیش کر سکتے ہیں:

۱۔لوگوں کے افکار وخیالات اور ان کے غیر اسلامی طرز زندگی میں انقلابی تبدیلی پیدا کرنا۔

۲۔جہد مسلسل اور باطل سے پیکار کے لیے مرحلہ وار منصوبہ بندی کرنا۔

۳۔اصلاحی پروگراموں کو حالات کے مطابق مستحکم بنیادوں پر استوار کرنا‘ جو عمومی انقلابی منصوبوں ہی کا ایک حصہ تھے۔

۴۔وہ قوم جسے خاتم الانبیا ؐ نے دنیا  کے سامنے پیش کیا تھا اس کی فکری‘تہذیبی‘اجتماعی اور سیاسی آبیاری کرنا۔

۳۔حوزہ علمیہ کی فکری اصلاح کے منصوبے

بیسویں صدی کے دوسرے عشرے سے‘نجف اشرف کا حوزہ علمیہ سیاسی امور سے لاتعلق ہوگیا تھا اور اسکی عمومی توجہ خالص علمی موضوعات پر مرتکز ہوگئی تھی۔اس بات کو شہید صدر ؒ نے اوائل حیات ہی میں محسوس کر لیاتھا اور اسے تبدیل کرنے کے لئے کوششیں شروع کر دیں تھیں۔ اس سلسلے میں ٓٓ

آپ نے تین منصوبے پیش کئے:

٭تعلیمی روش کی اصلااح کا منصوبہ۔

٭فکری تربیت کا منصوبہ۔

جہاں تک ’’درسی منصوبے‘‘ کا تعلق‘ جسے دورہ علمی کے نام سے بھی یاد کیا جاسکتا ہے‘ اگرچہ اس کاآغاز آیت اللہ محسن الحکیمؒ کے عہد مرجعیت ہی میں ہو گیا تھا‘لیکن در حقیقت اس کے بانی شہید صدر علیہ الرحمہ ہی ہیں۔اس منصوبے کے تحت طالب علم کووہ درسی معلومات فراہم کی جاتی ہیں جو اس کے اندر اسلامی بیداری پیدا کریں اور اسے قوم کی ضروریات کی تکمیل کا اہل بنائیں۔ اس منصوبے کا اہم ترین حصہ جدید علوم اور اسلامی معارف کاانتخاب ہے۔

جہاں تک دوسرے منصوبے کا تعلق ہے‘ اس کا سب سے نمایاں پہلویہ ہے کہ علم اصول کی اصلاح کی جائے‘ جو ایک طویل مدت سے جناب آخوند  ؒکی کتاب کفایۃ الاصول پر منتہی ہوتاہے۔

شہیدصدرؒ نے کوشش کی کہ علم اصول کی روش کو طالب علم کی موجودہ ضروریات سے ہم آہنگ کیاجائے اور اسے پیچیدہ عبارتوں سے آزاد کرنے کی کوشش کی جائے۔ چنانچہ آپ کی کتاب ، دروس فی علم الاصول اس علمی روش کی اصلاح کی طرف ایک اہم قدم کی حیثیت رکھتی ہے۔

اور فکری تربیت کے پہلو سے آپ کی وہ تقریریں جو آپ نے نجف اشرف میں طالب علموں کی ذہنیت کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے سلسلے میں کیں، ایک علمی نمونے کی حیثیت رکھتی ہیں‘جو طالب علم کے ذہن میں اسلام کی سیاسی واجتماعی بیداری کاشعور بھی پیدا کرتی ہیں۔

چنانچہ آپ کی وہ تقاریر جو المحنۃ(اردو ترجمہ’’آزمائش‘‘ کے نام سے دستیاب ہے)‘اہل البیت ؑ تنوع الادوار و وحدۃ  ھدف(اردو ترجمہ’’ اہل بیت ؑ کی زندگی، مقاصد کی ہم آہنگی اور زمانے کی نیرنگی‘‘ کے نام سے دستیاب ہے) اور السنن التاریخیہ فی القرآن کے ناموں سے شائع ہوئی ہیں‘اس تعمیری اقدام کا بہترین مظہر ہیں۔

۴۔علما کی تنظیم کے منصوبے میں آپ کاحصہ

۱۹۵۸ء اور ۱۹۶۱ء کے درمیان جب عراق کے کوچہ وبازارکمیونسٹوں کی سرگرمیوں سے بھر گئے اور نجف اشرف کے مجاہد علما کو دین اسلام کے بارے میں اپنی موجود ذمے داریوں کا شدت کے ساتھ احساس ہوا‘ تو انہوں نے نجف اشرف میں علما کی ایک تنظیم قائم کی‘ جو صرف سن رسیدہ علما پر مشتمل تھی۔شہیدباقرالصدرؒ اگرچہ کم سنی کی وجہ سے اس تنظیم کے رکن نہیں تھے لیکن آپ کا شمار اس تنظیم کامنصوبہ بنانے والے علما میں ہوتا تھا۔البتہ آقائے شیخ مرتضیٰ آل یٰسین جو آپ کے ماموں تھے اور آپ کے بڑے بھائی آقائے سید اسماعیل صدر ؒ سن رسیدہ ہونے کی حیثیت سے اس تنظیم کے رکن تھے‘ اور ان حضرات کی وجہ سے اس تنظیم میں آپ کا بہت عمل دخل تھااور تنظیم کے بکثرت افکار ونظریات میں آپ کی بے مثال قلمی صلاحیت کار فرما تھی۔حتیٰ اس تنظیم کی طرف سے نکلنے والے’’الاضواء‘‘ نامی رسالے کے پانچویں شمارے تک افتتاحی کلمات بھی ’’رسالتنا‘‘ کے عنوان سے آپ ہی لکھتے رہے۔

۵۔ صالح مرجعیت کامنصوبہ

بیسویں صدی کے ساتویں عشرے میں(۱۹۷۰ء کے قریب) شہید سید محمد باقر الصدر ؒ کے ذہن میں المرجعیۃ الصالحۃ(صالح مرجعیت) کاخیال پیدا ہوا‘جو بظاہر آپ نے ایک ایسی اسلامی قیادت فراہم کرنے کی خاطر پیش کیا تھا جو عراق کے اندر انقلابی تحریک کو تیز کرنے اور اسے منزل کی طرف لے کر چل سکے۔

اس سلسلے میں آپ کے منصوبے کے اہم ترین نکات مندرجہ ذیل تھے۔

۱۔ ایک ایسی صالح مرجعیت کا قیام‘جوان حقیقی مقاصد کی تکمیل کرے جن پر چل کر کوئی مرجع ،دین اسلام کی خدمت کرتے ہوئے کامیابی حاصل کر سکتا ہے۔اس کے اندر اتنی قدرت ہو کہ وہ ان مقاصد کی ایک واضح تصویر اپنے ذہن میں رکھتا ہو۔ایسی مرجعیت ایک بامقصد‘ذی شعور اور بیدار مرجعیت ہوگی‘جو ظاہری اختیارات کے استعمال یاجزئی تصرفات کی بجائے ہمیشہ ان ہی اعلیٰ مقاصد کے تحت تصرفات کو عمل میں لائے۔۔۔(۱۹)

۲۔نجف اشرف کی مرجعیت کو اس انفرادی مرجعیت سے چھٹکارا دلایا جائے جس میں تمام کارکردگی ایک شخص کی ذات کے گرد گھومتی ہے۔

۳۔ مرجعیت کو ایک ایسا ادارہ بنایا جائے‘جس میں کسی مرجع تقلید کی وفات سے کوئی فرق نہ پڑے‘بلکہ جوں ہی کسی صالح مرجع دین کا انتقال ہو‘اس کے بعد جو شخص سب سے زیادہ اصلح ہو وہ خود بخود ان ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھالے۔اور کام کو سابق مرجع دین نے جہاںتک پہنچادیاتھا آنے والا مرجع دین اسے وہاں سے آگے بڑھائے‘ نہ یہ کہ از سر نو کام کا آغاز کرے۔اس طرح خود مرجعیت کو ایسا تحفظ مل سکتا ہے جس کے سائے میںوہ اعلیٰ مقاصد کے لیے اپنی کوششوں کو مسلسل آگے بڑھا سکے اور طویل منصوبہ بندی کر سکے۔ اور اس کی تکمیل مرجعیت موضوعیہ کے ذریعے ہی ہوسکتی ہے۔کیونکہ اس تصور کے تحت صرف ایک مرجع پیدا نہیں ہوگا‘ بلکہ ایک ایسا موضوع وجود میں آئے گا جو مرجعیت کے مقدس عمل کو انجام دے گااور مرجع کے انتقال کی صورت میں یہ موضوع زندہ رہنے کی وجہ سے کام کو آگے بڑھاتا رہے گا ۔

۴۔صالح مرجعیت اس اسلامی تحریک کی حمایت کرے گی جو قوم کے اندر’’لجنۃ رعایۃ العمل الاسلامی‘‘ کے ذریعے قائم اور جو عالم اسلام میں اسکے عملی زندہ نمونوں سے باخبر بھی ہے اور ہر قسم کی فکری رہنمائی‘اخلاص عمل اور وقت ضرورت اس کی مدد کرنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔

۵۔آپ کی شدید خواہش تھی کہ یہ منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچے‘لیکن نجف اشرف کی سرزمین پر اپنے اس منصوبے کو عملی جامہ پہننے سے پہلے ہی‘آپ نے شہادت کا اعلیٰ مرتبہ حاصل کرلیا۔البتہ ایران میں حضرت امام خمینی ؒ کی کامیابی نے آپ کے زخموں پر ایک حد تک مرہم رکھا۔

اختتامیہ

شہید سید محمد باقرالصدرؒ عراق کی سرزمین اور اطراف وجوانب میں جس اسلامی تحریک کی آبیاری کر رہے تھے‘ہم نے اس کے خدوخال کو اس مضمون میں پیش کرنیکی سعادت حاصل کی۔

اس مقام پر اس بات کی یاد دہانی مناسب نظر آتی ہے کہ شہید صدرؒ نے اور بھی ایسے مثبت امور انجام دئیے جن کے ذریعے قومی تحریک کو تقویت ملی‘جیسے عراق کے متعدد علاقوں میں اپنے بیدار مغز نمائندے مقرر کرنا‘جو لوگوں کے اندر اسلامی بیدار ی پیدا کرتے تھے۔

اس طرح امام خمینیؒ کی قیادت میں کامیابی سے ہمکنار ہونے والے ایران کے عظیم الشان اسلامی انقلاب کی بھر پور اور جرات مندانہ حمایت‘جس کی آپ کو بہت بڑی قیمت بھی ادا کرنی پڑی‘سرکش حکمرانوں کی عداوت کھل کر سامنے آگئی اور انہوں نے آپ سے انتقام لینے میں عجلت کامظاہرہ کیا۔ (پروردگار عالم ان ظالموںسے آپ کے مقدس خون کا انتقام لے)

لاحول ولاقوۃ الا باللہ العلی العظیم