انقلاب کی مہم نفسِ زہراؑ میں

انقلاب کی مہم نفسِ زہراؑ میں

شہیدرابع مفکرِاسلام آیت اللہ العظمیٰ سید محمد باقر الصدر(قدس سرہ)

ترجمہ: علامہ سید ذیشان حیدر جوادی ؒ

ایک مخدرہ اس عالم میں کھڑی ہوئی ہے کہ اس کو حالات کا پورا یقین ہے اور سختی موقف اس کے پیمانہء صبر کو معمولی خوف ودہشت سے چھلکا نہیں سکتی اور اس کے حقیقی خیالات میں کسی قسم کا تردد پیدا نہیں ہوسکتا اورقلق واضطراب کے افکار اس کے راہ انقلاب میں حائل نہیں ہوسکتے۔

اس لئے کہ یہ مخّدرہ استعدادِ کامل اور ثبات قدم کی اس بلندی پر ہے جو اس کو ہر سخت اقدام اور دفاعی اسلوب پر جر أت دلا رہی ہے ۔پس مخّدرہ نے اس راستہ کو اختیار کیا ہے جس پر چلنا ایک عورت کے لئے انتہائی دشوار ہے ،اس لئے کہ عورت کی طبیعت ضعیف ہوتی ہے اور موقف انتہائی شدائد ومصائب کا حامل ہے جو ایک ادبی جرأت بیانی کا طالب ہے، اور ایک ایسی قدرت چاہتا ہے جس سے انقلابی مفاہیم الفاظ میں ڈھال دیے جائیں‘اور حالاتِ حاضرہ کی ایسی تنقید کی جائے کہ جس میں حیات کے مفاہیم اور دوام کے خطوط نمایاں ہوجائیں تاکہ ہر حرف ایک مستقل سپاہی اور ہر کلمہ تاریخ عقیدہ کی صحیح سند بن جائے،لیکن ان تمام امور کے باوجود ایمان اور راہ حق میں اقدامات کا جذبہ عورت کے کمزور نفس میں طبیعت کے خلاف قوتیں پیدا کر رہا ہے اور سست طبیعت میں ایسی طاقت ایجاد کر رہا ہے کہ جس کو کوئی ضعف وتردد روک نہیں سکتا۔

اسی لئے مخّدرہ نے اس راستہ کو اختیار کیا جو اس کی طبیعت کے موافق اور حق کی اعانت ونصرت پر کمر بستہ شخصیت کے مناسب ہو۔اس مخّدرہ کے ساتھ اس کے اقربا اور قوم کی کچھ عورتیں اور بھی تھیں جس طرح بکھرے ہوئے ستارے کہ ان کو یکجا کرنے والا کوئی نہ تھا،لیکن سب اس جذبہء دفاع وانتقام میں برابر تھیں۔

اس جماعت کی قائد وہ تمام کلمات اپنے ذہن میں لارہی ہے کہ جنہیں عدالت میں پیش کرنا ہے ،اور یہ تصور اس کے قوتِ قلب وسکون دل میں برابر اضافہ کررہاہے ،حق کی طاقت اس کے دل میں بڑھتی جارہی ہے اور ارادوں کی پختگی اور چھنے ہوئے حقوق سے دفاع کے جذبات اورسختی موقف سے مقابلہ کے لئے عزائم میں زیادتی پیدا ہوتی جارہی ہے۔

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس عورت نے اس سخت وقت میں اپنے مرد کا دل عاریۃ لے لیا ہے تاکہ ان سخت حالات کا مقابلہ کرے اور ان سخت مصائب کا سامنا کرے کہ جن سے پہاڑ ٹکڑے ہو جائیں اور سخت چٹانوں میں زلزلہ پیدا ہوجائے۔

اس ہولناک موقف میں‘  یہ مجاہدہ مخدرہ اس شان سے کھڑی ہے کہ حزن واندوہ کا بادل اس کے سر پر سایہ افگن ہیں۔اس  کے جسم ِ اطہر رنگ متغیر، چہرے پر غضب کے آثار نمودار،دل محزون،قلب بے چین،جسم نڈھال اور اعضا وجوارح ضعیف ہوچکے ہیں  لیکن نفس مطہر میں گہرے افکار کی درخشندگی اور اطمینانِ قلب کی زیادتی ہے۔یہ تمام باتیں اس لئے نہیں ہیںکہ،

اس مخدرہ کو کسی نام کی امید ہے یا کسی اچھے نتیجے کی توقع ہے بلکہ یہ نورانیت تو اپنے افکار کی پسندیدگی اور انقلاب کی مسرت سے ہے اور یہ اطمینان اپنے مقصد کی کامیابی کی امید سے ہے۔نہ اس  انداز کی کامیابی جسے دنیا سمجھتی ہے بلکہ دوسرے رنگ کی۔اس لئے کہ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ وقتی شکست بڑی کامیابی کا مقدمہ بن جاتی ہے،جیسا کہ ہوا۔چنانچہ آج ساری امت اس مقدمہ میں انقلاب کی تعریف کر رہی ہے بلکہ اس مخدّرہ کے ثبات وشجاعت سے قوت قلب کے درس حاصل کر رہی ہے اس عالم میں مخدّرہ کا نفس اپنے ماضی کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے ۔

وہ وقت،جب سعادت کی موجیں اس کی زندگی سے کھیل رہی تھیں۔۔۔۔۔

وہ وقت جب اس کا باپ زندہ تھا،اور اس کا گھر قدیمی حکومت کا مرکز اور مستقل شرافتوں کا ستونِ محکم بنا ہوا تھا۔شاید انہیں افکار میں وہ منظر بھی سامنے آگیا ہو، جب اس کا باپ اسے اپنے سینے سے لگائے ہوئے عاقلانہ محبتوں سے اس کی تربیت کر رہا تھا اور اس کے مقدس لبوں کے بوسے لے رہا تھا،جو کہ صبح و شام اس کی روحانی غذا تھی۔

پھر خیال پلٹا اور یہ نظر آیا کہ اب زمانہ دوسرا ہوچکا ہے، اب وہ گھر کہ جو فانوسِ نور وحدت اور رمزِ نبوت تھا،جس کی شعاعیں عرش سے باتیں کر رہی تھیں‘چند جماعتوں کے درمیان گھرا ہوا ہے اور اس کا وہ ابن عم کہ جو اسلام کی دوسری عظیم شخصیت ہے،جو باب علمِ نبی ؐ، وزیرِ مخلص رسول اور ہارونِ رسالت ہے،جس کی ابتدا،ابتدائے رسالتؐ  سے متحد تھی،جو ابتدا میں رسول ؐ کا ناصر اور انتہا میںاس کی امیدوں کی آماجگاہ تھا۔خلافتِ رسول ؐسے محروم ہوجاتا ہے اور اس کی وہ فضیلتیں جن کے زمین وآسمان شاہد ہیںناقابل توجہ بنا دی جاتی ہیں اور اس کے وہ اسلامی کارنامے جن میں وہ یکتا تھا درجہء اعتبار سے ساقط کر دیے جاتے ہیں۔ان بعض اقدار کی بنا پر جو اس وقت کی اصطلاح میں ڈھالے گئے تھے۔

اس وقت جتنا عورت کے مقدر میں تھا اس نے گریہ کیا۔نہ وہ گریہ جو چہرے سے نمایاں ہوجائے اور سامنے سے جس کا انداز کر لیا جائے بلکہ وہ دل کے شعلے،نفس کا اضطراب،قلب کی گہرائی میں حسرتوں کی فراوانی  اور نتیجہ میں چشمِ مقدس سے ٹپکتے ہوئے دوآنسو تھے۔

ابھی کچھ دیر نہ گزری تھی کہ یہ مخدّرہ اپنی ہمجولیوں کو لئے ہوئے بھڑکتے شعلے کی طرح میدانِ جہاد تک پہنچی اور ایسا قیام کیا جو تاریخ میں دوامی حیثیت اختیار کر گیا ۔وہ جہاد کیا جس میں عورت کی جملہ امکانی قوتیں صرف کر دیں۔اور قریب تھا کہ یہ نئے انداز کا جہاد خلافت وقت کو تباہ وبرباد کردے ،اگر وقت کی شدت اور مصائب کی فراوانی حائل نہ ہوجاتی۔

یہ مخدرہ ہیں، فاطمہ زہرا صدیقہ کبریٰ بنت رسول ؐ،ریحانِ نبوت، مثال عصمت،شعاعِ نورِ وحدت اور مسلمانوں میں رسول ؐ  کی امانت کہ جو مسجد کی طرف اس عالم میں تشریف لے جارہی ہیں کہ،

اپنے ہاتھوں سے ایسا باپ کھو چکی ہیں جو تاریخِ انسانیت میں محبت وشفقت اور برکت کے اعتبار سے بے مثل وبے نظیر تھا۔

یہ حادثہ وہ ہے کہ جس سے انسان یا تو تلخی موت چکھنے پر آمادہ ہوجائے یا پھر موت اس کو انتہائی خوشگوار ،شیریں اور بہتر نظر آنے لگے۔

یہ ہیں فاطمہ زہرا ؑ کے اس وقت کے حالات جب آپ ؑ کے والد نے اس دنیا سے رحلت کی اور جوارِرحمت ِالٰہیہ میں جگہ پائی۔

حالات کی تلخی اور شعور کی پختگی

حوادث انہی سختیوں تک محدود نہ رہے بلکہ فاطمہ ؑکو ایک دوسرے حادثہ کا بھی سامنا کرنا پڑا جس کی تاثیر نفسِ طاہرہ میں باعتبار حزن والم ومصیبت واذیت پہلے حادثہ سے قطعا کم نہ تھی۔

اور وہ یہ کہ خاندانِ رسالت کی قدیمی شرافت جو ان کے پاس ابتدائے تاریخ سے تھی سلب کرلی گئی۔یعنی سیادتِ امت اور زعامت ِ ملت کا حق علی ؑ سے چھین لیاگیا۔

منشاء قدرت یہ تھا کہ آلِ محمد امت ِ رسول کے ولی ہوں، اس لئے کہ یہ اجزائے رسالت ونبوت ہیں۔لیکن افسوس کہ حالاتِ زمانہ نے ریاست کا رخ موڑ دیا،اور منصب ِحکومت کو آل رسول ؑ سے چھین کر خود ساختہ امراء ورؤساء کے حوالے کردیا۔

یہ وہ مصائب تھے کہ جن کی وجہ سے فاطمہ ؑ اپنی مقدس شرافتوں اور ابدی ریاستوں سے محروم ہو گئیںاور اس وقت ان کے مرکز آلام واحزانِ نفس نے انہیں اس اقدام پر آمادہ کیا۔

یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ اگر فاطمہ ؑ جیساکوئی دوسرا انسان اس طرح اس قسم کے مجاہدات اور شجاعتوں کا مظاہرہ کرنا چاہتا تو حکومت کا لقمہ بن کر رہ جاتا۔اس لئے کہ حالات اتنے ناگفتہ بہ ہو گئے تھے کہ اشاروں پر عتاب ،گفتگو پر حساب اور افعال پر عقاب ہورہا تھا ۔بھلا کس کی مجال تھی کہ اس عالم میں حکومت کے احکام کی خلاف ورزی کرتا۔ پھر وہ احکام جن پر حکومت کی بنیاد اور اس کی اساس قائم ہو۔

ہاں،اگر مجاہدہ بنت رسول ؐ ،  بضعۃ النبی ؐ  آئینہ جمال رسالت ہو تو بلا شک وہ بے خطر رہ سکتی ہے نہ کسی مادی طاقت کی بناپر ،بلکہ اپنی شرافتوں کی بنا پر اور اس لحاظ سے کہ عورت کے ساتھ احکامِ حکومت میں مراعات کی جاتی ہیں۔

انقلابی طاقتیں

ایک مرتبہ فاطمہ ؑاپنے پاکیزہ خیالات کے ساتھ ماضی کی طرف متوجہ ہوتی ہیں اور باپ کازمانہ یاد کرتی ہیں،

جو کہ ان کے انتقال کے بعد فاطمہ ؑ کے ذہن میں بطورِ یادگار محفوظ رہ گیا،جو ہر وقت فاطمہ ؑ کے نفس میں ایک نیا شعور اور تازہ احساس پیدا کررہا ہے جس سے فاطمہ ؑ ہر وقت ایک نئی مسرت ولذت حاصل کرتی ہیں۔

فاطمہ ؑ اگر چہ روزوشب کے اعتبار سے باپ سے دور ہوگئی ہیںلیکن خیالات وافکار کی وجہ باپ کے زمانہ سے ہمیشہ متحد ہیں۔

فاطمہ ؑ کے پہلو میں قدرت کا سر چشمہ ہے جو خشک نہیں ہو سکتا۔انقلابی طاقتیں ہیں جوکم نہیں ہو سکتیں۔نبوت کی شعاعیں ہیں جو رہنمائی کررہی ہیں۔

جب فاطمہ ؑ نے دل میں انقلاب کی ٹھان لی اور ایک مرتبہ اپنے احساسات کا سہارا لے کر ماضی کی طرف متوجہ ہوئیں تاکہ اس سخت وقت میں اپنے باپ کے تذکروں سے مددحاصل کریں تو ایک مرتبہ فاطمہ ؑ نے زبانِ حال سے آواز دی:  ’’ایک نظر اس طرف اے صورت ِسعادت !  فاطمہ ؑ تجھ سے جدا ہوکر ایک ایسی شقاوت میں مبتلا ہوگئی ہے جو ناقابل برداشت ہے،

اے عزیز ترین ومحبوب ترین روح! مجھ سے باتیں کر اور اپنے نورِ الٰہی کا فیضان کر،جیسے کہ تو سابقاکیا کرتی تھی۔

اے پدر بزرگوار!اگر آپ کو میری باتیں اچھی معلوم ہوں تو میں آپ سے باتیں کروں،میں اپنے غم واندوہ کو پراکندہ کرنا چاہتی ہوں، جیسا کہ آپ کے سامنے کیا کرتی تھی،میں آپ کو بتانا چاہتی ہوں کہ آپ کا سایہ رحمت جو مجھے آتشِ دنیا سے بچاتا تھا اب باقی نہیں رہا۔

اے بابا! آپ کے بعد وہ مصائب گزرے کہ اگر آپ موجود ہوتے تو شاید اتنے مصائب ہم پر نہ پڑتے‘‘

اے ماضی کے تذکرو!  ہمارے سامنے اپنی باتیں دہراؤ تاکہ میں ان میں سے ایک جنگ کی بنیاد رکھوں ،ایسی جنگ کہ جس میں کوئی سستی نہ آنے پائے۔

ان لوگوںکے خلاف جواز خود یا بخواہش مردم میرے باپ کے منبر پر قابض ہوگئے ہیں اور حقوقِ آلِ محمد ؑ کا خیال نہیں کرتے بلکہ بیت ِ عصمت کو تباہ کرنے پر آمادہ ہیں۔مجھے میرے باپ کی جنگیں یاد دلاؤ ۔کیا میرے باپ مجھ سے بیان نہیں کرتے تھے کہ میرا بھائی میدان کا مرد ،اور جہاد کا سپاہی،ـــــ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تمام ساتھیوں سے بہتر؛ایسے سخت وقت میں جب سب میدان چھوڑ کر چلے جائیں ،ثابت قدم رہنے والا ہے۔

اے ماضی حبیب!  کیا اس کے بعد ممکن ہے کہ میں دیکھوں کی علی ؑ زیرِ منبر ہوں اور ابو بکر بالائے منبر ،واللہ؛

مجھے بتا دے اے میرے باپ کے زمانے!  کیا یہ ابو بکر وہی نہیں کہ جن  پر سورہ برات کی تبلیغ کے سلسلے میں وحی الٰہی نے اعتماد نہ کیا تھا۔کیا اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ علی ؑ ہی وہ اسلامی نمائندہ ہے جس پرہر اسلامی مہم میں اعتماد ہونا چاہئے۔

مجھے باقاعدہ وہ زمانہ یاد ہے جب میرے باپ جنگ کے لئے تشریف لے گئے تھے اور علی ؑ کو اپنا نائب بنادیا تھا تو لوگوں نے اس پر بڑی بڑی باتیں کیں۔لیکن علی ؑ مثل کوہ ثابت قدم رہے اور آپ نے کوئی توجہ نہیں کی۔ میں نے چاہا کہ علی ؑ ،پیغمبرؐ سے اس کی شکایت کریں۔ یہاں تک کہ انہوںنے رسول ؐسے جاکر بیان کیا اور اس حالت میں پلٹے کہ ان کے چہرے سے آثارِ مسرت ہویدا تھے۔ اور کمالِ مسرت سے میرے پاس آکر ایک آسمانی بشارت دی اور بیان کیاکہ رسول ؐنے استقبالِ عظیم کے بعد مجھے بمنزلہ ہارون قراردیا۔ ۱؎

اے زمانے!  ہارونِ موسیٰ  ؑتو شریکِ حکومت وامامت ِامت ہوں ،لیکن ہارونِ محمد ؑ ان مناصب سے محروم کردیا جائے یہ ہرگز نہیں ہو سکتا۔

اب تصوراتِ فاطمہ ؑ پکار اٹھے۔

یہی وہ انقلاب ہے جس کی خبر قرآن نے دی ہے اے اصحابِ محمد! رسول کے بعد دین جاہلیت کی طرف پلٹ نہ جانا۔یقینا یہی وہ لوگ ہیں جو دین سے گریزاں ہیں۔ ان پر مجہول منطق نے غلبہ کر لیا ہے ۔اسی لئے سقیفہ میں ایک فریق نے اپنی کثرت و عزت کو پیش کیا اور دوسرے نے اپنی قرابت کو،اور قرآن وسنت کو درجہ اعتبار سے ساقط کردیا۔

پھر آوازدی:  اے قوانینِ محمد!کہ جو میری رگ وپے میں خون کی طرح دوڑ رہے ہیں ،یہ وہی ہے کہ جس نے مکہ میں آپ پر ہجوم کیا اور آج ہم اہل بیت ؑ کے دروازے پر آگ جلا رہا ہے۔۔

اے روح مادری!

جہادِ اسلامی کا وہ درس جو آ پ نے مجھے دیا ہے،نا قابل فراموش ہے آپ نے بابا کے شانہ بشانہ جہاد کیا،میں بھی آپ کے نقش قدم پر ہوں۔

لبیک ،لبیک اے مادر گرامی میرے دل کی گہرائیوںمیں آپ کی آوازیں ہیں جو مجھے حکام وقت کے مقابلہ پر آمادہ کر رہی ہیں۔

مادر گرامی!

میں عنقریب ابوبکر سے جاکر کہوں گی کہ تم نے بابا پر بہت بہتان باندھا ہے،میں تو دنیا سے چلی جاوں گی لیکن قیامت میں تم سے ملاقات کروں گی،اس عالم میں کہ حاکم اللہ ہوگا،رئیس وزعیم میرا باپ ہوگا۔ موقف قیامت کا ہوگا۔میں چاہتی ہوں کہ مسلمانوں کو ان کے انجام سے آگاہ کردوںاور انہیں وہ سیاہ مستقبل دکھا دوں جو کہ انہوں نے اپنے ہاتھوں تاریک بنا لیا ہے۔

میری تمنا ہے کہ میں ان سے کہہ دوں کہ تم نے خلافت کو دودھ کی خاطر حاملہ بنایا ہے ،لیکن عنقریب یہ دودھ خون کی شکل اختیار کرلے گا۔ اس میں اہل باطل گھاٹے میں رہیں گے اور سابقین کے نقشِ قدم پر چلنے والے پہچان لیں گے کہ ان کی بنیاد کیسی تھی۔

فاطمہ ؑ میدانِ عمل کی طرف چلیں اس عالم میںکہ ان کے دل میں محمدی قوانین ،علوی شجاعت،خدیجہ کی روحانیت اور امت کی شفقت وہدایت کاجذبہ تھا۔

فاطمی مظاہرہ کے شرکاء

روایت بتلاتی ہے کہ فاطمہ ؑکے ساتھ کچھ ہم قوم وقرابت عورتیں بھی تھیں ۔اس اجتماع اور صدر دروازے سے جانے کا مقصد صرف ایک تھا اور وہ لوگوں کو متوجہ کرنا اور ان کے التفات کو اس امر کی طرف مبذول کرنا کہ وہ مسجد میں جمع ہوکر یہ دیکھیں کہ فاطمہ ؑکا مقصد کیا ہے اوربنت ِرسول ؑکیا کہنا چاہتی ہے؟  تاکہ طرفین کے درمیان مقدمہ علی الاعلان ہو اور دنیا حق وباطل میں بآسانی امتیاز پیدا کرسکے۔

ایک منظر اور اس کا پس منظر

روایت نے یہ بتایا کہ فاطمہ ؑپیغمبر ؐ  کی رفتار سے مسجد میں تشریف لائیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ اس فلسفہ کو واضح کیا جائے۔

اس میں ایک احتمال تو یہ ہے کہ یہ  فاطمہ ؑکی عادت رہی ہو ، اس لئے کہ یہ بیٹی جملہ افعال واقوال میں باپ سے مشابہ تھی۔

اور دوسرا احتمال یہ ہے کہ  فاطمہ ؑنے قصدا یہ رفتار اختیار کی ہواور یہ چاہا ہو کہ عوام کے خیالات  اور جمہور کے احساسات کار خ ماضی قریب کی طرف موڑ دیں تاکہ وہ اس دور کو یاد کریں جب اسی مخدرہ کے باپ کے سایہ رحمت میں چین کی زندگی بسر کررہے تھے اور یہی احساس وشعور وہ ہے کہ جو  فاطمہ ؑکے بیان کی تمہید ہوجائے گااور لوگوں کو دعوت ِ فاطمہ ؑکے قبول کرنے پر آمادہ کرے گا اور  فاطمہ ؑ کو ان کے اقدامات میں کامیاب بنائے گا۔

چنانچہ ایساہی ہواکہ قلب ِ راوی متاثر ہوا اور اس نے شعوری یا لا شعوری طور پر جملہ تاریخی واقعہ کے ساتھ  فاطمہ ؑکے رفتارکا تذکرہ بھی کردیا۔

ایک کلمہ آمال وآلام انقلاب کے متعلق

یہ ایک  فاطمی فریاد تھی جس کو آسمانوں نے سنا اور اب یہی آواز حقیقت ِ مذبوحہ اور اقدام مایوس کا مرکز بن گئی ،جس کے بعد کچھ چہروں پر امیدوں کی مسکراہٹ نظر آئی لیکن آخر تک پہنچتے پہنچتے یہ مسکراہٹ بجائے قہقہہ کے سسکیوں میں بدل گئی اور مسلمانوں کو دائمی مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔

یہ وہ انقلاب تھا جس سے انقلاب کرنے والی مخدرہ کا مقصد کچھ نہ تھا سوائے اس کے کہ یہ انقلاب تاریخ کے صفحات پر ثبت ہو جائے اور دنیا پر حق وباطل نمایاں ہوجائیں۔اس اعتبار سے یہ انقلاب انتہائی کامیابی کے ساتھ ختم ہوا۔اگرچہ نگاہِ مادی اسے ناکام سمجھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎حدیث منزلت ، بخاری ومسلم ،خصائص نسائی، مستدرک حاکم، جامع ترمذی، مروج الذہب مسعودی وغیرہ میں موجود ہے۔ریاض النضرۃ ج ۲،ص ۲۱۴