باعمل انسان کا کردار

باعمل انسان کا کردار

شہید اسلام سید محمد باقر الصدرؒ

ترجمہ:  محمدتقی صابری

جب بھی انسانی رجحانات مفاد عامہ سے ذاتی مفادات کی طرف منتقل ہوتے ہیں تو پھر انسان ایک پر رونق معاشرے میں زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتا ہے، جہاں پر وہ صرف اپنی ذات کیلئے سوچتاہے،  اپنی ذات کو مضبوط کرنے کے در پے ہوتاہے، جس کیلئے بعض اوقات ہم اپنی طاقت کے ۸۰ فیصد کو استعمال کرتے ہیں ، ہم ایک اندرونی جنگ میں مصروف ہوتے ہیں ،ایک کشمکش میں ہوتے ہیں، جس کے نتائج کا حصول بھی یقینی نہیں ہے۔

اس کے بجائے اگر ہم اخلاق سے اپنے آپ کو مزین کریں ، اورذاتی مفادات کو مفاد عامہ کی راہ میں قربان کریں ،اور اپنی طاقت کے مذکورہ ۸۰ فیصد کو اس راہ میں استعمال کرنا شروع کریں،  عوام کی مدد کریں،  عوام کو مضبوط کریں،  عوام کو پھلنے پھولنے دیں تو یہاں پر اگر ہم تھوڑا سا غور کریں تو معلوم ہو تاہے کہ اس کا فائدہ خو د ہمیں اپنے لئے پہنچ رہا ہوتاہے۔ اوریہ فائدہ بھی بدیر نہیں، بلکہ فوری حاصل ہو رہا ہوتاہے۔

سو ہم کب تک اپنی ذات کے اندر کشمکش میںمبتلا ہوتے ر ہیں گے جو روزبروز ہمیں فناء کی طرف لے جارہی ہے؟

ہم کبھی اپنی ذات سے نکلنے کی کوشش ہی نہیں کرتے اورکبھی ہم اپنے چھوٹے چھوٹے مفادات کو مفاد عامہ کیلئے قربان نہیں کرتے۔

لہذا ایک باعمل انسان کیلئے اخلاق کی پہلی شرط یہ ہے کہ اس کے پاس مفاد عامہ کی خاطر اپنے ذاتی مفادات کو قربان کرنے کی صلاحیت ہو۔ اس لئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے ہم اپنی ذات کی تربیت کریں۔

باعمل انسان کا کردار

شہید اسلام سید محمد باقر الصدرؒ

ترجمہ:  محمدتقی صابری

جب بھی انسانی رجحانات مفاد عامہ سے ذاتی مفادات کی طرف منتقل ہوتے ہیں تو پھر انسان ایک پر رونق معاشرے میں زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتا ہے، جہاں پر وہ صرف اپنی ذات کیلئے سوچتاہے،  اپنی ذات کو مضبوط کرنے کے در پے ہوتاہے، جس کیلئے بعض اوقات ہم اپنی طاقت کے ۸۰ فیصد کو استعمال کرتے ہیں ، ہم ایک اندرونی جنگ میں مصروف ہوتے ہیں ،ایک کشمکش میں ہوتے ہیں، جس کے نتائج کا حصول بھی یقینی نہیں ہے۔

اس کے بجائے اگر ہم اخلاق سے اپنے آپ کو مزین کریں ، اورذاتی مفادات کو مفاد عامہ کی راہ میں قربان کریں ،اور اپنی طاقت کے مذکورہ ۸۰ فیصد کو اس راہ میں استعمال کرنا شروع کریں،  عوام کی مدد کریں،  عوام کو مضبوط کریں،  عوام کو پھلنے پھولنے دیں تو یہاں پر اگر ہم تھوڑا سا غور کریں تو معلوم ہو تاہے کہ اس کا فائدہ خو د ہمیں اپنے لئے پہنچ رہا ہوتاہے۔ اوریہ فائدہ بھی بدیر نہیں، بلکہ فوری حاصل ہو رہا ہوتاہے۔

سو ہم کب تک اپنی ذات کے اندر کشمکش میںمبتلا ہوتے ر ہیں گے جو روزبروز ہمیں فناء کی طرف لے جارہی ہے؟

ہم کبھی اپنی ذات سے نکلنے کی کوشش ہی نہیں کرتے اورکبھی ہم اپنے چھوٹے چھوٹے مفادات کو مفاد عامہ کیلئے قربان نہیں کرتے۔

لہذا ایک باعمل انسان کیلئے اخلاق کی پہلی شرط یہ ہے کہ اس کے پاس مفاد عامہ کی خاطر اپنے ذاتی مفادات کو قربان کرنے کی صلاحیت ہو۔ اس لئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے ہم اپنی ذات کی تربیت کریں۔