بنت الہدیٰ، سفیر راہ عشق

بنت الہدیٰ، سفیر راہ عشق

تحریر: سیدہ عظمیٰ شیرازی

آج 5 اپریل ہے، شہیدان راہ حق اور پیروان مکتب عشق کے سلسلے سے وابستہ لوگوں کے لئے یہ دن عہد معاصر کی ایک کربلا کی یاد آوری کا دن ہے۔ یہی وہ دن ہے، یا یوں کہوں آنے والی رات ہے کہ جب یزیدی سپاہ، ایکبار پھر تاریکی شب میں خیام حسینی پر حملہ آور ہوئی ہے۔ ابھی سرزمین عراق کے اس عالیقدر مرجع کی گرفتاری کو چوبیس گھنٹے بھی نہیں گزرے ہیں کہ دوبارہ صدام یزید کے سپاہی آیت اللہ العظمیٰ باقر الصدر کے گھر داخل ہوتے ہیں، اس بار ان کا ہدف ان کی باعظمت بہن ہیں۔۔۔۔۔ شہید صدر اور ان کی باعظمت بہن۔۔۔۔۔ جب بھی ان مظلوم بہن بھائیوں کی یاد دل پر دستک دیتی ہے تو آئینہ ذہن پر دو عکس جھلملاتے ہیں، دو تصویریں ہیں، جو دل میں ایک آگ لگا دیتی ہیں،۔۔۔ زخم زخم۔۔۔ لہو میں ڈوبی۔۔۔۔ یزیدان عصر کی وحشت و بربریت کو آشکار کرتی تصویریں۔۔۔۔ مگر در عین حال ہر جبر کے مقابل کمال صبر و استقامت کی حکایت بیان کرتی ہوئی۔۔۔۔۔ اور شاید کائنات بھر میں حق کے ورثہ دار اپنے وجود کی گہرائیوں سے صرف ایک ہی جملے کی بازگشت سن رہے ہوں گے الھم تقبل منا۔۔۔۔۔

اس طرح اسیری اور پھر ایسی المناک شہادت۔۔۔۔آخر کیوں؟ اس سیدہ کو کس جرم میں اسیر کیا گیا؟ یزید وقت اس معظمہ سے اسقدر خائف کیوں تھا؟ اس سیدہ نے کیا کیا تھا کہ صدام ملعون نے اس طرح وحشتناک تشدد کے بعد ان کو بے دردی سے شہید کر ڈالا۔؟ یقیناً یہ خاتون کوئی معمولی خاتون ہرگز نہیں ہے کہ جب قاتل سے سوال کیا گیا کہ تو نے ان کی گرفتاری اور شہادت کا حکم کیوں صادر کیا، تو کہا میں یزید والی غلطی نہیں دہرانا چاہتا کہ حسین کو قتل کر دوں، مگر حسین کی بہن کو زندہ چھوڑ دوں۔” شہید صدر اور ان کی بلند مرتبت بہن کے کردار و رفتار کے لئے یہی ایک گواہی بہت بڑی ہے۔ قاتل گواہی دے رہا ہے کہ وہ مکتب حسینی کے ورثہ دار تھے، انہوں نے حسین وار زندگی گزاری۔ اگر شہید صدر حسین علیہ السلام کے نقوش قدم کی پیروی کر رہے تھے تو ان کی بہن شریکۃ الحسین کے مکتب کی تربیت یافتہ تھیں۔۔ کون حسین
آن امام عاشقان پور بتول
سروآزادی زبستان رسول

اور یہ کوئی مبالغہ ہرگز نہیں ہے۔ اس شہادت سے چند ماہ قبل ہی کہ بات ہے، شب کا آخری پہر ہے، نجف کے لوگ ابھی اپنے بستروں پر محو خواب ہیں۔ صدامی نحس رژیم کا ملعون غنڈہ ابو سعید، آیت اللّٰہ باقر الصدر کو گرفتار کرنے آیا ہے۔ شہید صدر کمال شجاعت کے ساتھ گھر سے باہر آکر سوال کرتے ہیں، رات کے اس پہر آنے کا مقصد پوچھتے ہیں، ابو سعید سید کی ہیبت سے لرزنے لگتا ہے۔ کہتا ہے کہ ہم مجبور ہیں، حکم حاکم ہے کہ آپ کو گرفتار کر لیا جائے۔ شہید کی شیر دل بہن دروازے کی اوٹ سے سن رہیں ہیں۔ ایک دفعہ للکار کے کہتی ہیں "اے ابو سعید، کیا تم نے گمان کیا ہے کہ نجف کے لوگ سو رہے ہیں۔” شہید صدر کی گرفتاری کے بعد سیدھا حرم امیر المومنین کا رخ کرتی ہیں۔ تکبیر کی صدا بلند کرتی ہیں۔ ان کی فریاد ایک طرف دشمن کا کلیجہ دہلائے دے رہی ہے تو دوسری جانب دوستوں کے دلوں میں بھی ترازو ہوئی جاتی ہے۔ “اے نجف کے لوگو! اٹھ کھڑے ہو۔ قیام کرو۔ اے فرزندان اسلام! کہاں ہو؟ تمہارے مرجع ظالموں کے ہاتھوں گرفتار ہوگئے۔”

یہ وہ زینبی کردار ہے کہ ہر پیر و جوان، ہر مرد و زن گھر سے نکل آتا ہے۔ مظاہرے اور ہڑتالیں نہ صرف نجف بلکہ عراق کے دوسرے شہروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں۔ بعثی حکومت شہید صدر کو آزاد کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔ مگر چند ماہ بعد، آج کے دن یعنی پانچ اپریل کو دوبارہ آیت اللہ باقر الصدر کو گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ مگر اس مرتبہ جرات زینبی کی ورثہ دار بہن کو بھی ساتھ ہی گرفتار کیا گیا ہے۔ کیونکہ اس شیر دل خاتون کے ہاتھوں دشمن ذلت اور عزیمت کا مزہ چکھ چکا ہے۔ ان  کا جرم یہ ہے کہ یہ اپنے معاشرے کو لاحق امراض کی شناخت بھی رکھتے ہیں اور اس کے درمان کی صلاحیت بھی۔ یہ ناصرف یہ کہ ہوس پرستوں کی مصاحبت پسند نہیں کرتے بلکہ جب معاشرے کو عیش پرستی، ہوس پسندی، حب مال و زر، ہوس اقتدار، مفاد پرستی اور طلب جاہ و حشم جیسی بدبختیاں گھیر لیں۔جب ریا و شرک عام ہو جائے اور کفر و الحاد کی آندھیاں چلنے لگیں، تو یہ ان فرزندان حق میں سے ہیں، جو کمال بصیرت کے ساتھ، حق کے دفاع کی خاطر، اعلائے کلمہ حق کے لئے، ظلم و جبر کی قوتوں کے مقابل، کمال شجاعت کے ساتھ میدان میں اترتے ہیں۔ پھر اس بات کی رتی برابر بھی پروا نہیں کرتے کہ موت ان پر آپڑے یا یہ موت پر جا پڑیں۔

یہ مکتب حسینی کا افتخار ہیں اور جو بھی مکتب حسینی کا تربیت یافتہ ہے، وہ عشق کے راستے کا مسافر ہے۔
یہ شہادت گہ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا
ضروری ہے کہ شہید آمنہ بنت الہدیٰ کی زندگی کو اس تناظر میں دیکھا جائے۔ رہروان راہ عشق کی زندگی گہری معرفت، خالصانہ عبادت، عمیق بصیرت، بے مثال اطاعت، حد درجہ شجاعت اور انتھک جدوجہد سے عبارت ہوتی ہے۔ شہید آمنہ بنت الہدیٰ کی شخصیت انہی تمام خصوصات سے عبارت ہے۔ معرفت کے باب میں بالا ترین معرفت خدا اور اس کی نوازشوں کی معرفت ہے۔ آیئے دیکھیں بنت الہدیٰ بارگاہ رب العزت میں کیا عرض کر رہی ہیں، "میں ان تمام خصوصی مواقع اور اوضاع و احوال پر اپنے پروردگار کا شکر ادا کرتی ہوں کہ جس کے باعث ہم معلمین اور مربین کی ایک نسل کی پرورش کر پائے۔ جو دین مبین اسلام کی بہترین انداز سے خدمت کرسکتے ہیں۔ پروردگار عالم کا بے حد و حساب شکر۔ اس کے بعد میں اپنے بھائی کی مشکور ہوں، جن کی قربت، تربیت اور رہنمائی کے باعث میری سوچ اور فکر کے افق میں وسعت پیدا ہوئی اور میں نے جانا کہ میری ذمہ داری کیا ہے اور اس اہم ذمہ داری کو کیسے انجام دوں۔ جب جب کسی مشکل سے دوچار ہوئی، میں نے ان کی طرف رجوع کیا اور انہوں نے بہترین انداز میں میری دستگیری کی، خصوصاً نظریاتی حوالے سے۔ یہ وہ نعمت عظمیٰ ہے، جس کا شکر مجھ پر واجب ہے۔”

شہید بنت الہدیٰ کے عہد میں خصوصاً 60 کی دہائی میں کفر و الحاد، لا دینیت، غرب پرستی کا مسموم ماحول اسلامی معاشرے کی روح کو کچلنے کے درپے تھا۔ اسلامی اقدار از جملہ حجاب و عفت کے خلاف مغرب اور مغرب پرستوں کی جنگ کا دائرہ ہنر و ادب اور شعر و فن کے میدانوں تک پھیل گیا تھا۔ حتی تقریباً تمام اسلامی ممالک میں ایسا ادب وجود میں آنے لگا کہ جس میں عفت، عصمت، شرم و حیا اور خدا خوفی جیسی انسانی اقدار کا کہیں گزر نہ تھا۔ بدقسمتی سے اس صورت حال میں وہ مسلمان لکھاری خواتین جو کامل معرفت اور شعور کے ساتھ، اپنی بہترین صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اس محاذ پر مقاومت کرسکیں، نہ ہونے کے برابر تھیں۔ شہید آمنہ بنت الہدیٰ نے جبکہ مغرب کی اندھی تقلید اور نو آبادیاتی غلامانہ ذہنیت ان کے معاشرے کی روح کو دیمک کی طرح کھوکھلا کر رہی ہے تو انہوں نے اس کے خلاف عاشقانہ اور جرات مندانہ انداز میں قیام کیا۔ شعر و ادب، داستان نویسی کو اپنے الہیٰ پیغام کے ابلاغ کا وسیلہ بنایا۔

14 سال کی عمر میں، اپنے چچا (امام موسیٰ الصدر) کے والد کے جنازے پر ایک نظم پڑھی۔ دوسرے لفظوں میں مزاحمتی ادب کی تخلیق کے راستے پر قدم رکھا۔ احکام اسلامی اور ان کی روح سے آشنائی کی ترویج کے لئے اپنی شعری صلاحیتوں کا استعمال کیا۔ یزید صفت دشمن ان کے پیغام کی اثر پذیری سے اس درجہ خائف تھا کہ جیسے قبل از انقلاب امام خمینی کی کتب یا پیغام رکھنا شاہ کی افواج اور کارندوں کی نظر میں ناقابل معافی جرم تھا، عراق میں یہی ماجرا آمنہ بنت الہدی کی کتب کے ساتھ تھا۔ اس شخصیت کا اپنے مقصد سے عشق کا یہ عالم تھا کہ جب مکتب الزھراء کے نام سے تعلیمی اداروں کی بنیاد رکھی۔ ان کے نصاب کی تیاری اور معلمین کی تربیت اتنی عرق ریزی سے کی کہ ان کی ایک شاگرد اور ساتھی بیان کرتی ہیں کہ ایک رات نجف میں طوفانی آندھی اور بارش تھی۔ بجلی کا نظام درہم برہم ہوچکا تھا۔ سیدہ کو کاظمین میں ایسے ہی کسی تعلیمی ادارے میں پہنچنا تھا۔نہ کوئی خاتون تھیں، نہ ہی کوئی مرد حضرات سے، جو ان کو وہاں پہنچا سکتا۔ مگر ان کا اپنے مقصد سے عشق اور لگن تھا کہ اس عالم میں بھی، تمامتر طوفان اور تاریکی کے باوجود وہ وہاں پہنچ گئیں۔۔

کبھی ہم دیکھتے ہیں کہ خواتین کے اندر اسلامی شعور کو پروان چڑھانے کے لئے اپنی زبان و بیان کی صلاحیتوں کا بہترین استعمال کرتی ہیں۔ اپنے بھائی کے ہاں اور دیگر مومنین کے گھروں میں تربیتی نششتوں کا اہتمام کرتی ہیں اور کبھی الاضوا میگزین اور دوسرے کئی مجلات میں تحریر و مضامین کے ذریعے اپنی جدوجہد جاری رکھتی ہیں۔ یہی احساس ذمہ داری اور عشق ہے کہ عراقی مسلمانوں کو صدام کی بعثی رزیم سے نجات دلانے کی جدوجہد میں شہید صدر کی ہمقدم تھیں۔ اسلامی دعوہ پارٹی کے شعبہ خواتین کی بنیاد آپ نے رکھی۔ خواتین کے اندر اسلامی و سیاسی شعور بلند کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ 1977ء کے قیام میں اہم کردار ادا کیا۔صدام نے ان کی بصیرت کو بھی پہچان لیا اور اس بصیرت کے نفاذ کی صلاحیت کو بھی۔ سو بالآخر اس تحریک کو طاقت سے کچلنے کا ارادہ کیا۔ حسین و زینب کی اس سچی عاشق معظمہ نے جان دے دی، مگر حسینیت کے راستے سے سر مو انحراف نہیں کیا۔ ایسی ہی شخصیات ہوتی ہیں، جن کے وجود میں عشق حقیقی کی تجلی دکھائی دیتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
شہیدہ بنت الہدیٰ کا جہاد۔ موسسہ شہید باقر الصدر، ص 4
طراوت جہاد، ویژہ نامہ کنگرہ زنان شہید و ایثار گر
“بانوی نسل ہدایت، ص 69, نشریہ تیر ماہ 1391
بنت الہدی صدر، محمد ھادی کاظمزادہ، ص 68، طراوت جہاد، نشریہ تیر1391.
Who was bintul Hoda,true islamic stories,july,10,2010
Al_Ahed news,A sister in life ,companion in martyrdom,2019
Who was bint  Al huda,Batool subeiti,20th April 2019
Amina Alsadr,A biographical study,Bayan,ubayd,al,urayyed.
Al,islam.org.