بنت الہدیٰ،زینبیؑ کردار کی حامل نمونہ خاتون

بنت الہدیٰ،زینبیؑ کردار کی حامل نمونہ خاتون

ترجمہ وتدوین:
بختاور ظہیر شگری

بنت الہدی،اسلامی عورت کامکمل نمونہ ہے۔آپ نے جناب زینب کبری ؑکی طرح اپنے بھائی کے ساتھ قیام کیا، کسی خوف وہراس کے بغیر سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیااور اپنے مقصدکی خاطر شہید ہوگئیں۔
8اپریل شہید محمد باقر صدرؒ اور انکی بہن آمنہ بنت الہدی کی شہادت، ظلم وستم کے خلاف قیام،آزادی کی راہ میں جدوجہد اور ظلم کے ساتھ زندگی پر شہادت اور موت کو ترجیح دینے کی یاد دلاتاہے۔
سید باقر صدرؒ اور بنت الہدیؒ آزادی اور اسلامی بیداری کی مثال ہیں۔خصوصا بنت الہدیؒ نے تمام اسلامی حدود منجملہ حجاب کی رعایت کے ساتھ اجتماعی اور سیاسی سرگرمیوں کو ترک نہیں کیااور اپنے بھائی کے ساتھ ایک انقلاب برپاکیا۔

آمنہ بنت الہدیؒ کی زندگی
آمنہ سادات،المعروف بنت الہدی ،اسفند 1316کو شہر کاظمین میں پیداہوئیں۔ان کے والد اہل علم وتقوی اور عراق کے سیاسی شخصیات میں سے تھے۔صدر کاسلسلہ نسب چند واسطوں سے سید رضی جامع نہج البلاغہ تک جاپہنچتاہے۔
آمنہ نے اپنے والد کی وفات کے بعد دوبھائیوں اسماعیل اور محمد باقر کی زیر نظرتربیت پائی۔

بنت الہدی کی شخصیت کے مختلف پہلو
انتہائی عمیق عالمہ
آپ کی پہلی معلمہ اپنی ماں تھی۔جس نے ان کو پڑھنا اور لکھنا سکھایا۔ آپ گیارہ سال کی عمر میں مزید تعلیم کے حصول کی خاطر اپنے بھائیوں کے ہمراہ نجف چلی گئیں۔اس وقت عورتوں کا درس وغیرہ پڑھنا زیادہ رائج نہیں تھااس لیے انہوں نے اپنے دونوں بھائیوں سے ادبیات عرب، فقہ، اصول ،علم حدیث اور تفسیر سیکھ لی تھی۔
بنت الہدیٰ صرف حوزوی علوم تک محدود نہ رہیں، بلکہ جدید علوم پر دسترس رکھتی تھیں۔ اس کے علاوہ کہانیاں لکھنے اور شعر کہنے میں آپ کو مہارت حاصل تھی یہاں تک کہ آپ کی تحریریں مجلہ الاضواء میں (جو نجف کے علمی شخصیات سے مخصوص تھا) چھپتی تھیں۔
ذیل میں ان کے بعض آثار کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
حقیقت کی جستجو میں ۔
گمشدہ گھر۔
دوعورتیں اور ایک مرد۔
مسلمان عورت کی شخصیت۔
فضیلت کامیاب ہے۔
مکہ کی بلندیوں پر ۔
کاش!جان لیتی۔
سعادت کی تلاش میں۔
سورج کے بعد سایہ ۔
ظلم۔
پیغمبر کی زندگی میں عورت۔
عشق اور ہوس۔

تعلیم وتربیت ۔
بنت الہدی نے تعلیم مکمل کرنے کے بعد خود کو گھر میں محصور نہیں کیا۔بلکہ انسانوں خصوصا خواتین کی تربیت کے لیے اقدام کیا۔
ان حالات میں کہ جہاں عراقی معاشرے میں خواتین کی فعالیت صفر تھی۔سیدہ بنت الہدی نے مدارس الزہرا کی ذمہ داری سنبھالی جس کامقصد اسلامی تہذیب وثقافت کافروغ تھا۔یہ مدارس بصرہ،دیوانیہ،حلہ،نجف، کاظمین اور بغداد میں تاسیس کی گئی تھی۔
ان کی فعالیتیں اس پر ختم نہیں ہوتی بلکہ اپنے گھر پر تبلیغ کے لیے جلسات تشکیل دیتی۔اور اسی طرح اسلامی آئیڈیل بنانے اور مغربی طرز کی رد میں مجلہ الاضوا میں مقالات لکھتی تھی۔

بنت الہدی رہبر کی نظر میں
ہمارے اسی زمانے میں ایک جوان،بہادر،مفکر،ہنرمند خاتون،بنت الہدی شہید صدر کی بہن نے تاریخ کوتحت تاثیر قرار دیا۔مظلوم عراق میں اپنا کرار ادا کی،البتہ شہادت پرفائزبھی ہوئی۔بنت الہدی جیسی خواتین کی عظمت کسی بھی طرح بہادر اور عظیم مردوں سے کم نہیں۔ان کی تحریک،تحریک نسواں تھی۔،اور ان مردوں کی تحریک،مردانہ۔لیکن دونوں تحریکیں ذات وجوہر انسان کے تکامل ار شخصیت کے عظمت کی حکایت کرتی ہیں۔ایسی خواتین کی تربیت اور پرورش کرنی چاہیے۔(1)

زینبی کردار
بنت الہدی ، ایک نمونہ عمل خاتون ہے۔انہوں نے”طلب العلم فریضۃ” (2) کے مطابق علم کے اعلیٰ مدارج طے کیے،”ہر چیز کی زکات ہے اور علم کی زکات اس کانشر کرنا ہے”(3)اس حدیث پر علم کرتے ہوئے تعلیم وتربیت کاکام انجام دیا اور ” من امر بالمعروف” (4)کے تحت اپنی عمر کو اجتماعی، سیاسی فعالیت اور لوگوں کے پائمال ہونے والے حقوق کے تحفظ اور حصول کے لیے خرچ کیا۔
بنت الہدیؒ نے جناب زینبؑ کی طرح اپنے بھائی کے ہمراہ ظلم و ستم کا بھرپور مقابلہ کیا، موت کی پرواکئے بغیر لوگوں سامنے خطبات دئیے اور اپنے مقصد کی راہ میں شہید ہوگئیں۔
معاشرے کوجس طرح شجاع مردوں کی ضرورت ہے۔اسی طرح انقلابی خواتین کی بھی ضرورت ہے۔ ا گر کوئی مرد بہادر ہے تو اس بہادر مرد کی تربیت میں شجاع خاتون کاعمل دخل ہے۔اس لیے ضروری ہے۔ہم بچیوں کی شجاعانہ طرز پر تربیت کریں، تاکہ بنت الہدیؒ جیسی دیگر خواتین وجود میں آسکیں اور ملک کو ان جیسے پاکیزہ انسانوں کے وجود کی برکت سے ترقی کی جانب لے جائیں۔
یہاں ایک اور قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ خواتین بہادری کے راستے میں اشتباہ کا شکار نہ ہوں۔باعظمت اور اثر گزار ہونے کامطلب بے پردگی نہیں، جنسی آزادی نہیں۔بلکہ عظمت پانے کے لیے علم اور بلند اہداف کی ضرورت ہے۔
حوالہ جات:
[1] بیانات در دیدار با زنان، 30/7/1376
[2] كنزالفوائد ، ‏ ج 2 ص 107
[3] تحف العقول : 364
[4] تفسير مجمع البيان، ج 1، ص 484