المدرسۃ القرآنیہ کا مختصر تعارف

المدرسۃ القرآنیہ کا مختصر تعارف

اسلامی علما ومفکرین نے مختلف قرآنی موضوعات کواپنی تحقیقات کا محورقرار دیا ہے ان میں سے ایک اہم موضوع”تفسیر قرآن” ہے جس کی جانب مختلف مفسرین نے زمانے کے تقاضوں اور انسانی تمام مسائل کو پیش نظر رکھ تفسیر کرنے کی کوشش کی ہے لیکن ان تفاسیر میں دو طریقہ معروف ہے۔ایک روش تفسیر ترتیبی ہے۔ جس میں آغاز قرآن سے آخر تک ترتیب سے تفسیر کی گئی ہے یا خاص سوروں کی تفسیر۔ اس لیے موضوعات میں جدید مشکلات پر آگاہ ہونے کے باوجود کوئی پائیدار حل نظر نہیں آتا،کہ قرآن کے ذریعے انسانی مسائل کو حل ڈھونڈ سکے۔ کیونکہ آج کے بشری علم مختلف میدانوں میں ایک سسٹم کی صورت میں موجود ہے،جس کا مقابلہ متفرق اور غیر منسجم افکار سے ممکن نہیں۔

اسی مشکل کے پیش نظرسید محمد باقر صدر نے مختلف دینی علوم میں سسٹم سازی پر تاکید کرنے کے ساتھ آپ نے اہم موضوعات پر اسی روش کے ذریعے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی ہے،سید کے ابتکارات میں ایک سے ایک قرآن مجید کی تفسیر میں ایک اہم طریقہ کار کا اضافہ ہے جو جدید مسائل کو حل کرنے کے سلسلے میں مفید ہے جس کو آپ نے”تفسیر موضوعی یا توحیدی” کا نام دیا ہے۔ اس تفسیری روش کے ذریعے اسلام کے نظریہ کو دیگر مکاتب اور ادیان کے مقابلہ میں بہتر طریقے سے پیش کر سکتا ہے جو کہ تفسیر ترتیبی میں ممکن نہیں۔

اس روش سے مشابہ تفسیر” موضوعی” کے عنوان سے بعض علما نے پیش کیا ہے، جس میں ایک موضوع سے مربوط آیات کو جمع کر کے ترتیب کے ساتھ ان کی تفسیر کی ہے جس کی مثال”پیام قرآن” قرآن کا دائمی منشور” جیسی تفاسیر ہیں، اور بعض محققین نے اسی طریقہ پر کتابیں بھی لکھی ہیں لیکن یہ تفاسیرنام کی حد تک ان سے مشابہ ہیں لیکن اپنی روح اور حقیقت میں ان سے جدا ہیں۔

تفسیر موضوعی کی مختلف تعاریف بیان کی گئی ہے جس میں سید کے نزدیک موضوعی سے مراد یہ ہے کہ مفسر ایک ایک آیت کی الگ تفسیر کی بجائےزندگی کے عقیدتی، معاشرتی یا کائناتی پہلو متعلق ایک موضوع کو انتخاب کرکے بحث کو شروع کرتے ہیں مثلا عقیدہ توحید قرآن میں،عقیدہ نبوت قرآن میں،اقتصاد قرآن میں،تاریخی سنتیں قرآن میں یا آسمان وزمین قرآن میں۔

اس تفسیر میں مقصد انسانی زندگی سر مربوط کسی موضوع کے بارے میں قرآنی نظریے اور موقف کو مشخص کرنا ہے جس کے نتیجہ میں زندگی یا کائنات سے متعلق اسلام کا پیغام معلوم ہوجاتا ہے۔سید کی نظر میں تفسیر ترتیبی مکمل طور پر موضوعی سے الگ طریقہ نہیں، موضوعی کے لیے بھی پہلے مرحلہ میں ترتیبی لحاظ سے تفسیر ضروری ہے، لیکن طول تاریخ میں ترتیبی تفسیر نے اتنی ترقی کی ہے اب لغوی،ادبی،معنی،حدیثی، تاریخی اور دیگرزاویےسے اتنی بحث ہوچکی ہے اور یہ طریقہ کامل ہوچکا ہے جس کے بعد کی ساری خدمات تکراری اور سابقہ روش کی تشریح کے علاوہ کوئی جدید علمی کام نہیں۔ لہٰذا اس روش کے لئے سابقہ تفاسیر کافی ہیں۔ لیکن جو اس وقت ضرورت ہے وہ موضوعی تفسیر ہے جس پر مفسرین کی توجہ نہیں گئی اور یہ قرآن کی حقانیت اور ہردور میں اس کے قابل عمل ہونے کو ثابت کرنے کے لیے ضروری ہے۔ جدید روش میں دین اسلام کو ایک مکمل نظام کے طور پر پیش کرنا ہے اور عصری مشکلات اور پیچیدہ مسائل میں اسلام کے نکتہ نظر کو دوسرے ادیان کے مقابلے میں پیش کرنا ہے۔

اس طریقہ کا نامسید نے "قرآن سے استنطاق” رکھا ہے جس کی طرف حضرت علی ابن ابی طالب نے اشارہ کیا ہے۔آپ قرآن کے بارے میں فرماتے ہے ہیں:ذالک القرآن فاستنطقوہ ولن ینطق،ولکن اخبرکم عنہ آلا ان فیہ علم مایاتی،والحدیث عن الماضی، ودوا دائکم،ونظم مابینکم۔
ترجمہ:یہی قرآن ہے۔اسے بلوا کر دیکھو اور یہ خود نہیں بولے گا۔میں اس کی طرف سے ترجمانی کروں گا۔یاددرکھو کہ اس میں مستقبل کا علم ہے اور ماضی کی داستان ہے تمہارے درد کی دوا ہے اور تمہارے امور کی تنظیم کاسامان ہے۔
یہ خوبصورت تعبیر "استنطاق”جو آپ نے ارشاد فرمایا ہے وہ تفسیر موضوعی ، قرآن سے گفتگو، مشکل مسائل کو بیان کرنا ہےتاکہ قرآن کے نکتہ نظر کے مطابق جواب حاصل کیا جاسکے۔