شہید صدر کی کتاب السنن التاریخیہ پر ایک نظر
شیخ سجاد علی ساجدی.حوزہ علمیہ نجف اشرف
کسی بھی کتاب کی اہمیت کا اندازہ اس کے موضوع سے لگایا جاسکتا ہے۔موضوع جس قدر دقیق اور انسانی ضرورت اور مسائل کے حل کرنے میں اہمیت حامل ہواسی حساب سے اس کی حیثیت زیاہ ہو گی۔ اس سے اہل علم کو اس کتاب میں دلچسپی پیدا ہوگی،البتہ ایسے اہم موضوعات کے لئے بھی عظیم مفکرین کی ضرورت ہوتی ہے جو گہرائی اور دقت نظر کے ساتھ وقت کے تقاضوں کے مطابق ان موضوعات پر روشنی دالے اور تمام پہلووں کا باریک بینی سے جائزہ لے۔
ایسی کتاب قوم کے لئےہیرے وجواہرات سے بھی قیمت ہوتی ہے جن کی حفاظت کے ساتھ استفادہ اور معاشرہ میں اس کی اہمیت کو اجاگر کرنا اور ان کو عملی جامہ پہنانان ہر صاحب فکر کاوظیفہ ہے۔ کیونکہ فکری شخصیات کاکام قوم کی رہنمائی اورانفرادی،اجتماعی،سیاسی اور دیگر میدانوں میں انسان کو ایک جاممع فکر اور سوچ عطا کرنا ہے۔
سید محمد باقر الصدر نابغہ روزگار شخصیت
سید محمد باقر الصدر نے مختلف اہم موضوعات پر قلم اٹھایا جسن میں سے ہر ایک انسانی معاشروں کی ضرورت ہے۔ ان میں سے ایک اہم موضوع” السنن التاریخیۃ فی القرآن” ہے۔ ہم اس کتاب کا تبصرہ قارئین کی خدمت میں پ پیش کریں گے۔
السنن التاریخیہ فی القرآن
سنن تاریخی سے مراد وہ قوانین ہیں جو انسانی زندگی پر حاکم ہیں جو زمانے کی تبدیلیوں کے باوجود کسی قوم کی حرکت،ترقی اور تبدیلی میں کردر ادا کرتے ہیں۔دوسرے الفاظ میں تاریخی تبدیلیاں انہی قوانین کے دائرے میں رونما ہوتی ہیں۔یعنی یہ قوانین قوموں کی ترقی وتبدیلی میں اہم کردار داکرتے ہیں۔دوسرے الفاظ میں یہ تبدیلیاں،انہی قوانین وضوابط کے دائرے میں رونما ہوتی ہیں۔ سنن تاریخ میں تاریخ سے مراد ماضی میں رونماہونے والے واقعات اور حادثات نہیں بلکہ وہ حوادث ہیں جوسنن الہی کی وجہ سے رونماہوتے ہیں۔
اس لحاظ سے سنن تاریخ سے مقصود وہ تبدیلیاں اوت تغیرات ہیں جو کسی قاعدہ یاضابطہ کے تحت واقع ہوتے ہیں ۔ یعنی سنن الہی قوموں کے ماضی،حال اور مستقبل پر مسلط وحاکم ہیں اور اللہ تعالیٰ نے یہ قوانین انسان کے اختیار میں دے دیاہے۔ قوموں میں سنن کی اہمیت کے پیش نظر شہید نے اس پر قلم اٹھانا ضروری سمجھا کیونکہ لوگوں کی سوچ تقدیر کے بارے میں یہ تھی ۔ اور یہ کہ ترقی وزوال کسی قانون کاتابع نہیں بلکہ خدا نے جو قسمت اور مقدر میں لکھا ہے وہی ہوگا اور انسان کا ارادہ وختیار کار آمد نہیں
انہی نظریات کی وجہ سے بعض دانشور دین کو افیون قراردیتے تھے جس طرح انسان افیون سے مست ہوتا ہے اسی طرح دین بھی انسان کو مست کردیا ہے جس کی وجہ سے مسلمانوں میں تحرک وتبدیلی نہیں بلکہ جمود کاشکار ہے۔شہید مرتضیٰ مطہری کے بقول غیر مسلم دانشوروں کے اس اعتراض کا اصل سبب وہ مسلمان ہیں جنہوں نے سنن کے حقیقی مفہوم کو نہیں سمجھا اور معاشرتی ترقی وزوال کو تقدیر کے حوالے کیا جس کی وجہ سے غیر مسلموں نے اسلام کو افیون سے تعبیر کیا۔
شہید صدر نے اس کتاب میں سنن کے حوالے سے اسلام کا صحیح نظریہ بیان کیا ہے۔ اور یہ ثابت کیا کہ قوموں کے عروج وزوال میں خود انسان کا عمل دخل ہے۔کیونکہ الہی اہداف کے تحت ہی انسان اپنے مقاصد کو پاسکتا ہے۔اس سلسلے میں پہلے لازم ہے کہ سنن الہی کے بارے میں درست مفہوم کو سمجھیں۔
کتاب کاہدف
واضح الفاظ میں ٓپ نے مقصد کو ذکر نہیں کیا لیکن اس کا دقیق مطالعہ ہمیں مقصد سے آشنا کرتی ہے۔ قرآ ن تاریخی حقاٗق کو بیان کرتاہے:
شہید کے مطابق قرآن ایک کلی فکر دیتا ہے کہ ترقی وزوال کے لئے کچھ قوانین ہیں اور ترقی وزوال انہی کےدائرے میں ہیں۔ اس لیے ان ظاہری ومعنوی اسباب کا مکمل علم ہونا ضروری ہےجن کے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کرسکتی ہے۔۔چاہے علمی میدان،اقتصادی ،معاشی یاثقافتی یادیگر شعبوں میں۔
تاریخی حقائق جملہ شرطیہ کی شکل میں
آپ نے اس کتاب میں یہ بیان کرنے کی کوشش کی ہے کہ قرآنی قوانین جملہ شرطیہ کی صورت میں ہیں یعنی ہمیشہ جزا شرط پر موقوف ہے جب بھی شرط آجائے توجزا خود بخود وجود میں آئے گا۔ جیسے کہ :ان اللہ لایغیر مابقوم حتی یغیر مابانفسہم۔ یعنی قوم کی تبدیلی خود اپنے آپ کی تبدیلی سے مشروط ہے۔
انبیا ومصلحین کی کامیابی اور سنن الہی
ہمیشہ سے انبیا اور الہی تحریکوں کی کامیابی میں بھی یہی سنن وقوانین موثر ہیں۔جب بھی مذکور شرائط پوری ہوں وہاں کامیاب ہوٗے اور جہاں شرائط پورے نہیں ہوئے، ناکامی کاسامناکرنا پڑا۔
نصرت الہی سنن کے مطابق
اس کتاب میں نصرت الہی کے بارے میں گفتگو کرتے ہوٗے خدا کی نصرت کو بھی سنن الہی سے مربوط قرار دیا ہے۔ جب انسان اللہ تعالیٰ کی ان قوانین کی پیروی کریں تو کامیابی وفتح یقینی ہے۔
سنن الہی کی خصوصیات
پہلی خصوصیت یہ ہے کہ یہ کسی خاص علاقہ،جگہ یا زمانے سے مخصوص نہیں بلکہ ہر قوم اور ہر زمانے کے لیے ہے۔
دوسری خصوصیت یہ ہے کہ کامیابی اور اہداف کاحصول اسیو قت ممکن ہے جب انہی سنن کے مطابق اقدام کریں جو خدا نے وضع کیا ہے
تیسری خصوصیت یہ ہے کہ سنن الہی اور انسان کے ارادہ واختیار میں کوئی تضاد نہیں بلکہ انسان اپنے اختیار وارداہ سے ہی تاریخ کےرخ کو موڑ دیتا ہے۔اس کتاب کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ اس سے سے استفادہ کرے، دقت سے مطالعہ کرے اور شبہات کاجواب دے۔ کیونکہ اس کتاب کا مطالعہ بہت سے حقائق سے ہمیں ٓگاہ کرتی ہے۔ اور مسلمانوں کی کمزوری اور پسماندگی کا سبب بھی اس کتاب سے معلوم ہوتا ہے۔