عظیم فلسفی باقرالصدر شہید، مرجعیت کی قربانیاں اور آج کا عراق

عظیم فلسفی باقرالصدر شہید، مرجعیت کی قربانیاں اور آج کا عراق

تحریر: ارشاد حسین ناصر

آج جب میں دنیا بھر میں اسلام حقیقی بالخصوص تشیع کے خلاف عالمی سازشوں کا شکار مسلمانوں اور مکتب جعفری کے پیروان کو دیکھتا ہوں اور اس مکتب کی حفاظت و نگہبانی، تبلیغ و اشاعت اور اس کا پرچم سربلند رکھنے اور اسے کسی بھی ظالم کے سامنے جھکنے نہ دینے کی جدوجہد میں علماء، مجتھدین، مبارزین کی عظیم قربانیوں کو دیکھتا ہوں تو دل خون کے آنسو روتا ہے کہ ہم تک کس قدر قربانیوں اور زحمات کے بعد یہ دین پہنچا ہے، ہم اس کے ساتھ کیا سلوک کر رہے ہیں، دین کے نام پر کیسی کیسی بدعات ایجاد کی جا رہی ہیں اور کیسے کیسے کامون کو دین سے منسوب کیا جا رہا ہے، جو لوگ ایسا کر رہے ہیں ان کا اس پر کچھ بھی خرچ نہیں ہوا، ہاں جن کو معتوب ٹھہرایا جاتا ہے، جن کو گالیاں دی جاتی ہیں، جن کو مجالس و محافل اور اجتماعات میں برا بھلا کہا جاتا ہے، ان کا بہت کچھ خرچ ہوا ہے، حتٰی ان لوگوں نے پھانسیاں لی ہیں، گولیوں کی بوچھاڑ میں ان کے خاندان ختم کرنے کی کوششیں کی گئی ہیں، جیلیں ان کے صبر، استقامت اور صداقت کی گواہ ہیں، عقوبت خانے ان کی قربانیوں اور زحمات کی گواہی دیتے نوحہ کناں ہیں۔ میرا خیال ہے کہ آج کی نسل کو جس طرح گمراہ کیا جا رہا ہے، علماء و مجتھدین سے برگشت و بیزار کرنے کی سازشیں ہو رہی ہیں، ان حالات میں ضروری ہے کہ ان بزرگان و محسنین کی قربانیوں کا تذکرہ بار بار کیا جائے اور نوجوان نسل کو بتایا جائے کہ انہوں نے کس قدر زحمات اٹھائی ہیں، اس مکتب کو یہاں تک پہنچانے کیلئے۔ بالخصوص ان شخصیات کے مخصوص ایام کو شایان شان طریقہ سے برپا کرکے ہم ان مقاصد کو حاصل کرسکتے ہیں۔ ان کی جدوجہد، افکار و کردار اور شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو سامنے لایا جاسکتا ہے۔ میرا خیال ہے یہ کم سے کم حق ہوتا ہے جسے ہم ادا کرسکتے ہیں۔

سرزمین انبیاء عراق ایک طویل تاریخ کی حامل مملکت ہے، اس پر بھی مختلف ادوار میں انبیاء، آئمہ، اولیاء، علماء، مجتھدین نے دین خدا کے احیاء کی تاریخی جدوجہد اور اس راہ میں قربانیوں و ایثار کی داستانیں رقم کی ہیں، اگر ہم بہت پرانی تاریخ میں نہ جائیں اور گذشتہ صدی کے اواخر میں جھانکیں تو ہمیں اس کا بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ اسلام کے احیاء کیلئے اس قوم و ملت و مکتب کے علماء و مجتھدین نے کس قدر زحمات اٹھائی ہیں اور انہیں کس قسم کے حالات سے دوچار ہونا پڑا ہے، بعثی ٹولے کے اقتدار کے دن اہل عراق پر جس طرح گذرے ہیں، اس سے کون آگاہ نہیں ہے، آج اگر عراق میں ایک شیعہ حکومت قائم ہے تو اس کے پیچھے بلاشبہ ہزاروں علماء و مجتھدین کی ان تھک اور بے مثال جدوجہد کا نتیجہ ہے۔ اس قافلے میں سب سے نمایاں اور روشن ترین کردار خاندان صدر اور خاندان حکیم کی قربانیوں کی فہرست بہت طویل ہے، مگر اس کے سرخیل اور قافلہ سالار شہداء عظیم فلسفی، بے مثال مفکر، ان تھک مبلغ و مبارز آیت اللہ سید باقرالصدر شہید ہیں، جنہیں بعثی ظالم حکمران صدام نے 9 اپریل 1980ء کے دن ان کی بہن کے ساتھ بدترین تشدد کے بعد شہید کر دیا تھا۔

شہید باقرالصدر اور ان کی عظیم بہن آمنہ بنت الھدیٰ کی تاریخی جدوجہد اور بے مثال قربانیاں اس بات کی گواہ ہیں کہ اسلام کے پیغام اور اس کی صحیح تصویر کشی کیلئے ہمارے عظیم مجتھدین نے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کیا ہے۔ آج اہل عراق جس خوشحالی اور آزادی میں سانس لے رہے ہیں، اس آزادی اور دینی ماحول کے احیاء میں انہی علماء و مجتھدین کا پاک لہو شامل ہے، جس کے قافلہ سالار آیت اللہ سید باقرالصدر شہید ہیں۔ ان کی زندگی اور کردار نیز حالات و واقعات، مشکلات، مصائب، اسارت اور تشدد کی داستان کو اگلی نسلوں تک منتقل کرنے کی ضرورت ہے، ہمیں کبھی بھی یہ نہیں بھولنا چاہیئے کہ عراق میں جن مقدس مقامات کی زیارات کے ہم ہر وقت مشتاق رہتے تھے اور آج بڑی آزادی کے ساتھ ان کو انجام دیتے ہیں، یہ سب انہی مجتھدین کی کاوشوں کا نتیجہ ہے، ان کاوشوں کو جاننے کی ضرورت ہے۔  اسی کے عشرے میں جب ہم تنظیمی زندگی میں داخل ہوئے تو اس وقت آیت اللہ سید باقرالصدر شہید کے دو قول تنظیمی دوستوں کی زبان سے سننے کو ضرور ملتے تھے، جنہیں اکثر پروگراموں میں ہم بھی دہراتے تھے، وہ قول جو بہت ہی معروف تھے اس طرح سے تھے۔  “امام خمینی کی ذات میں اس طرح ضم ہوجاؤ جس طرح وہ اسلام میں ضم ہوچکے ہیں” ۔۔۔۔اور دوسرا قول یہ تھا “انقلاب وسائل کو جنم دیتا ہے، وسائل انقلاب کو نہیں۔” میرا ذاتی خیال ہے کہ یہ دو اقوال اس قدر وسعت و گہرائی رکھتے ہیں کہ شخصیت اور افکار واضح و نمایاں ہوکر کتاب زندگی کو روشن کر رہے ہیں، آیت اللہ سید باقرالصدر شہید نے فلسفتنا (ہمارا فلسفہ)، اقتصادنا (ہماری اقتصاد) نامی بے مثال و لاجواب کتابیں بھی لکھی ہیں، جن کو اہل مغرب بھی تسلیم کرتے ہیں، اسلامی اقتصاد پر ان کی کتاب کا تو کوئی جواب ہی نہیں۔

آیت اللہ العظمٰی سید باقرالصدر کا شمار بلاشبہ گذری صدی کے عظیم فلسفیوں، مذہبی اسکالرز اور مفکرین میں ہوتا ہے۔ آپ کی تحریروں اور قیادت نے عراقی عوام سمیت دنیا بھر کے مظلوموں و محروموں کو نہ صرف متاثر کیا اور حرارت دی، بلکہ آپ نے ایک ایسے ملک میں جہاں کے باشندے زیادہ تر اہل تشیع اور پھر اہل سنت تھے، کو اتحاد و وحدت کی لڑی میں پرونے اور باہمی اختلافات اور کدورتوں کو ختم کرنے کیلئے موثر آواز بلند کی اور اہم مواقع پر ایسے پیغامات دیئے کہ شیعہ و سنی ملکر استعمار اور اس کے زرخریدوں کے مدمقابل اٹھ کھڑے ہوں۔ انہوں نے نہ صرف حکمرانوں کو للکارا بلکہ ان نام نہاد مذہبی عناصر کو بھی چیلنج کیا جو انقلابی اسلامی فکر کی راہ میں رکاوٹ تھے۔ یہ شہید باقرالصدر ہی تھے جنہوں نے 1957ء میں عراق کی معروف اسلامی دعوہ پارٹی کی بنیاد رکھی۔ شہید باقرالصدر نے حزب الدعوہ کی بنیاد رکھی، تاکہ بعث پارٹی کی جانب سے عراق میں لادینیت و کمیونزم کے فروغ کو روکا جاسکے اور اسلامی افکار کا احیاء کیا جاسکے۔

70 کی دہائی کے آغاز میں ہی شہید باقر الصدر اس بات کو جان چکے تھے کہ بعثی دہشتگرد عراق کے اسلامی تشخص کے لئے خطرہ ہیں اور خطرے کے باوجود آپ نے اپنی دینی اور تعلیمی سرگرمیوں کا سلسلہ جاری رکھا۔ بنیادی طور پر یہی وہ سیاسی جماعت اور منظم گروہ تھا جس نے عراق میں صدام کے ظالمانہ دور میں مظلوم اہل تشیع کے حقوق کے لئے پیہم جدوجہد کی، بلکہ اسی تنظیم کے پلیٹ فارم سے دینی و سیاسی تربیت یافتہ افراد آج نئے عراق میں اہل عراق و عراقی مسلمانوں کے لئے جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ سابق عراقی وزیراعظم نوری المالکی اور ابراہیم جعفری جو وزیر خارجہ ہیں، کا تعلق بھی اسی جماعت سے بتایا جاتا ہے۔ یہاں یہ بات بتانا بھی ضروری ہے کہ اس جماعت و تنظیم سے وابستہ اراکین کی فکری و نظریاتی تربیت اگرچہ شہید صدر کے تیار کردہ نصاب کے ذریعے ہی ممکن ہوئی، مگر اس کا اعتراف بھی کرنا پڑے گا کہ صدام کے بعثی دور میں اس کا زیادہ کام جلاوطنی میں ایران میں قیام کرنے والے رہبران جن کے انقلاب اسلامی ایران سے وابستہ شخصیات سے گہرے روابط تھے، نے اس کام کو جاری رکھا۔

شہید باقرالصدر کی حیات مبارکہ کے بارے جاننا چاہیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ آپ بغداد کے علاقے قدیمیہ میں 1 مارچ 1935ء کو پیدا ہوئے، ان کی عمر جب دو سال تھی تو آپ کے والد معروف مذہبی اسکالر سید حیدرالصدر انتقال فرما گئے۔ آپ نے پرائمری کی تعلیم مقامی قدیمیہ کے اسکول سے ہی حاصل کی، شہید باقرالصدر اور ان کے اہل خانہ نے 1945ء میں نجف اشرف کا رخ کیا، جہاں انھوں نے اپنی باقی ماندہ زندگی گزار دی۔ انھوں نے نجف اشرف میں حوزہ علمیہ میں داخلہ لیا اور انتہائی سرعت کے ساتھ حصول علم کی منازل طے کرتے ہوئے آپ حیرت انگیز طور پر صرف 20سال کی عمر میں درجہ اجتہاد پر فائز ہوچکے تھے۔ انہی سالوں کے دوران شہید باقرالصدر کے افکار پر مشتمل معروف کتابیں ہمارا فلسفہ، اسلامی اقتصادیات المعروف اقتصادنا، شائع ہوئیں، جن کا ذکر ہم شروع میں کر آئے ہیں۔  صدام کے بعثی دہشت گرد بھی شہید باقرالصدر کی اہمیت کو سمجھ چکے تھے اور وہ یہ جان چکے تھے کہ آپ کی شخصیت عراقی عوام کے لئے محبوب ترین ہے۔ لہذا انہوں نے شہید باقر الصدر کی سرگرمیوں کو روکنے کے لئے ہر طرح کے امکانات بروئے کار لانا شروع کر دیئے۔ حتٰی کہ آپ کو گرفتار کر لیا گیا۔

اپنے جد سردار کربلا، سید الشہداء امام حسین علیہ السلام کے راستے کے راہی آیت اللہ شہید باقر الصدر کو اپنی زندگی کے مختلف ادوار 1971، 1974، 1977 اور آخری مرتبہ 1979ء میں بعثی حکمرانوں نے اسیر بھی کیا، سخت ایذائیں بھی دیں اور شہید باقر الصدر کے کئی ساتھیوں اور رفقائے کار سمیت دعوہ پارٹی کے اہم اراکین کو ظالم و جابر صدام ملعون کے حکم پر گرفتار کرکے ان کو پھانسیاں بھی دی گئیں۔ شہید صدر کو جب آخری دفعہ گرفتار کیا گیا تو ان کی عظیم بہن آمنہ بنت الہدیٰ جو حزب دعوہ خواتین ونگ کی سربراہ تھیں، اس ظلم پر خاموش نہ رہیں اور نجف میں باہر نکل کر لوگوں کو قیام کی دعوت دی، اس ظلم اور حکومت کے نجس ارادوں سے آگاہ کیا۔ اس احتجاج کے بعد عارضی طور پر حکومت نے انہیں رہا کر دیا اور دونوں بہن بھائیوں کی نظر بندی کو ختم کر دیا اور انھیں 5 اپریل 1980ء کو رہا کر دیا گیا، لیکن چند دنوں بعد ہی 9 اپریل 1980ء کو ظالم و سفاک بعثیوں نے نجف اشرف شہر کی بجلی منقطع کر دی اور شہید باقر الصدر کے قریبی عزیز سید محمد الصدر کے گھر سکیوریٹی حکام کو بھیج کر ان کے اپنے ہمراہ بعثی یزیدیوں کے ہیڈ کوارٹر بلوا لیا گیا، جہاں یزیدی صفت صدامیوں نے سید محمد الصدر کو شہید باقر الصدر اور شہیدہ آمنہ بنت الہدی کی لاشیں دکھائیں، جو خون میں لت پت پڑے ہوئے تھے اور جسم پر بے انتہا تشدد کے نشانات تھے، شہید باقرالصدر اور ان کی بہن کو نجف اشرف میں واقع تاریخی قبرستان دارالسلام میں اسی رات دفن کر دیا گیا۔

کہتے ہیں کہ آج کے عراق کی تاریخ میں یہ جملہ بھی ملتا ہے کہ جو صدام ملعون نے شہید باقر الصدر کو پھانسی لگانے کے بعد کہا کہ میں یزید کی طرح غلطی نہیں کروں گا اور پھر اس نے سیدہ آمنہ بنت الہدیٰ کو بھی پھانسی دے دی، لیکن یزید لعین کی طرح صدام ملعون کی یہ بھول تھی کہ وہ اس طرح کامیاب ہوگا کہ بے گناہ خون کو چھپا لے گا اور اس کی تاثیر سے بچ جائے گا۔ آج یہ ثابت ہوچکا ہے کہ شہید صدر کا نظریہ و سوچ، افکار و کردار اور ان کے راستے کے پیروان زندہ ہیں، عراق میں بااختیار ہیں، مگر صدام ضلالت اور بذدلی کی عملی تصویر بن کر سامنے آنے کے بعد جہنم کی آگ میں جل رہا ہے، اس کا نام لیوا بھی کوئی نہیں رہا۔ ہمارا فرض بنتا ہے کہ مرجعیت کی بے انتہا قربانیوں کو فراموش اور محو نہ ہونے دیں۔

خبر کا کوڈ: 452954

(())