شہید باقر الصدر اپنی مثال آپ تھے۔

شہید باقر الصدر اپنی مثال آپ تھے۔

اسلامی انقلاب کے اوائل میں جب آیت اللہ صدرؒ کی شہادت کی خبر ہم تک پہنچی تو بڑا صدمہ ہوا۔ اسلامی نظام اور اسلامی معاشرے کے لیے شہید صدر حقیقت میں ایک فکری ستون تھے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔

آیت اللہ العظمیٰ سید باقرالصدر ؒ کا شمار گذشتہ صدی کے عظیم فلسفیوں ،مذہبی اسکالرز،اور مفکرین میں ہوتا ہے۔ آپؒ کی تحریروں اور قیادت نے عراقی عوام سمیت دنیا بھر کے دبے ہوئے محروم طبقوں کو متاثر کیا اور حرارت دی۔ آپؒ نے نہ صرف مذہبی عناصر کو چیلنج کیا بلکہ ان نام نہاد مذہبی عناصر کو بھی چیلنج کیا جو انقلابی و اسلامی فکر کی راہ میں رکاوٹ تھے۔ یہ شہید باقر الصدرؒ ہی تھے جنہوں نے عراق میں اسلامی دعوۃ پارٹی کی بنیاد رکھی جس نے صدام کے دور میں مظلوم شیعوں کے حقوق کے لئے جدوجہد کی بلکہ آج بھی اسی تنظیم کے افراد عراق بھر میں شیعیان عراق اور مظلوم عراقی مسلمانوں کے لئے جد وجہد کر رہے ہیں۔موجودہ عراقی وزیر اعظم نوری المالکی کا تعلق بھی اسی جماعت سے ہے۔

شہید باقر الصدرؒ بغداد کے علاقے قدیمیہ میں 1مارچ 1935ء کو پیدا ہوئے ان کی عمر جب دو سال تھی تو آپؒ کے والد معروف مذہبی اسکالر سید حیدر الصدر انتقال کر گئے۔آپ ؒ نے پرائمری کی تعلیم قدیمیہ کے اسکول سے ہی حاصل کی اور پھر مرجع تقلید شہید باقر ؒ الصدر اور ان کے اہل خانہ نے 1945ء میں نجف اشرف کا رخ کیا جہاں انھوں نے اپنی باقی ماندہ زندگی گزار دی۔انھوں نے نجف اشرف میں حوزہ علمیہ میں داخلہ لیا اور انتہائی تیزی کے ساتھ حصول علم کی منازل طے کرتے چلے گئے۔آپ حیرت انگیز طور پر صرف 20سال کی عمر میں درجہ اجتہاد پر فائز ہو چکے تھے۔انہی سالوں کے دوران شہید باقر الصدر ؒ کے افکارات پر مشتمل معروف کتابیں ہمارا فلسفہ ،اسلامی اقتصادیات المعروف اقتصادنا،شائع ہوئیں جو آج بھی اسلامی اور خارجی حلقوں میں ایک سند کی حامل ہیں۔شہید باقر الصدر ؒ کی کتاب اقتصادنا اسلامی اقتصادیات کے موضوع پراب تک لکھی جانے والی سب سے مفصل کتاب ہے۔

1957ء میں شہید باقر الصدر نے اسلامی دعوۃ پارٹی یعنی حزب الدعوۃ کی بنیاد رکھی تاکہ بعث پارٹی کی جانب سے عراق میں لادینیت کے فروغ کو روکا جا سکے اور اسلامی افکارات کا احیاء کیا جا سکے،70ء کی دہائی کے آغاز میں ہی شہید باقر الصدرؒ اس بات کو جان چکے تھے کہ بعثی دہشت گرد عراق کے اسلامی تشخص کے لئے خطرہ ہیں اور خطرے کے باوجود آپؒ نے اپنی دینی اور تعلیمی سر گرمیوں کا سلسلہ جاری رکھا ۔دوسری جانب صدام کے بعثی دہشت گرد بھی شہید باقر الصدر ؒ کی اہمیت کو سمجھ چکے تھے اور وہ یہ جان چکے تھے کہ آپؒ کی شخصیت عراقی عوام کے لئے محبوب ترین ہے۔لہذٰا انہوں نے شہید باقر الصدر کی سرگرمیوں کو روکنے کے لئے ہر طرح کے امکانات بروئے کار لانا شروع کر دئیے۔حتیٰ کے آپ کو گرفتار کر لیا گیا۔

راہ سید الشہدا امام حسین علیہ السلام کے پیرو شہید باقر الصدرؒ کو1971,1974,1977اور آخری مرتبہ1979میں گرفتار کیا گیا اور شہید باقر الصدرؒ کے کئی ساتھیوں اور رفقائے کار سمیت دعوۃ پارٹی کے اہم اراکین کو ظالم صدام ملعون کے حکم پر گرفتار کر کے پھانسی دی گئی۔

شہیدہ سیدہ آمنہ بنت الہدیٰ ؒ

یہ 1979ء کی بات ہے جب بعثی دہشت گردوں نے شہید باقر الصدر ؒ کو نجف اشرف سے گرفتار کر لیا ،اسی وقت ایک باحجاب خاتون حرم امام علی علیہ السلام میں بھاگتے ہوئے داخل ہوئی اور لوگوں سے مخاطب ہو کر کہا،اے لوگو!’’کیوں تم خاموش ہو؟جب کہ تمہارے رہنما کو گرفتار کیا جا چکا ہے،کیوں تم خاموش ہو؟جب کہ تمہارے مرجع تقلید پر بیہمانہ تشدد کیا جا رہاہے،باہر نکلو اور احتجاج کرو’’۔شہیدہ آمنہ بنت الہدیٰ ؒ کے ان ملکوتی اور الہیٰ الفاظ کا اثر تھا کہ ہزاروں کی تعداد میں لوگ گھروں سے نکل آئے اور شہید باقر الصدر ؒ کی گرفتاری کے خلاف احتجاج شروع کر دیا،جس کے سبب صدامیوں نے انھیں اسی دن مجبوراً رہا کر دیا۔اس احتجاج نے صدامی دہشت گردوں کو ایک واضح پیغام دیا کہ لوگ صدام ملعون کی شیطانی حکومت کے خلاف قیام کے لئے تیار ہیں۔

اپنی اس مختصر زندگی میں عظیم خاتون شہیدہ آمنہ بنت الہدیٰ ؒ نے صدامی دہشت گردوں کے خلاف بلا خوف و خطر عراقی غریب عوام کے بہبود اور تعلیم کی پسماندگی کی دوری اور شعور اسلامی کی بیداری کے لئے فعال ترین کردار ادا کیا ،اپنی زندگی اور فعالیت سے تمام شعبہ ہائے زندگی کو متاثر کیا۔

شہیدہ آمنہ بنت الہدیٰ جو 1937ء میں قدیمیہ بغداد میں پیدا ہوئیں اپنے گھر کی واحد خاتون تھیں۔شہیدہ آمنہ بنت الہدیٰ نے ابتدائی تعلیم اپنی والدہ سے حاصل کی اور بعد میں باقی تعلیم اپنے عظیم بھائی شہید باقر الصدرؒ ؒ سے حاصل کی تھی۔آپ ؒ اسلامی دعوہ پارٹی کی خواتین ونگ کی سربراہ تھیں،1966ء میں آپ نے الدعوۃ میگزین کا آغاز کیا تا کہ معاشرے میں شعور کی بیداری کے لئے کام کیا جا سکے ،آپ کی تحریروں نے جو خواتین میں انتہائی مقبول و معروف ہیں معاشرے کی بیداری میں اہم کردار ادا کیا۔1967ء میں آپ نے نجف اشرف ،بغداد اور دیگر مستضعف شیعہ علاقوں میں بچیوں کی تعلیم کے لئے اسکولوں کا جال بچھا دیا تھا تا کہ شیعہ بچیوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا جا سکے۔آپ نے سینکڑوں کتابیں تحریر کیں جن میں اکثر فکشنل کہانیاں ہیں جو معاشرے کے مسائل اور ان کے حل پر مشتمل ہیں۔

شہید باقر الصدر ؒ کی گرفتاری اور شہادت

شہید باقر الصدر کو 1979ء میں گرفتار کر لیا گیا عراق میں بے پناہ مظاہرے ہوئے ،مظاہروں میں عراقی عوام کا صدام ملعون کے خلاف شدید غم وغصہ سامنے آیا جس کے سبب یزید صفت صدام نے دس ماہ سے جاری شہید باقر الصدر اور شہیدہ آمنہ بنت الہدیٰ کی نظر بندی کو ختم کر دیا اور انھیں 5اپریل 1980ء کو رہا کر دیا گیا،لیکن چند دنوں بعد ہی 9اپریل 1980ء کو سفاک صدامیوں نے نجف اشرف شہر کی بجلی منقطع کر دی اور شہید باقر الصدر کے عزیز سید محمد الصدر کے گھر سیکیوریٹی حکام کو بھیج کر ان کے اپنے ہمراہ بعثی یزیدیوں کے ہیڈ کوارٹر بلوا لیا گیا،جہاں یزیدی صفت صدامیوں نے سید محمد الصدر کو شہید باقر الصدر اور شہیدہ آمنہ بنت الہدیٰ کی لاشیں دکھائیں،جو خون میں نہائے ہوئے تھے،اور جسم پر بیہمانہ تشدد کے نشانات تھے،شہید باقر الصدر اور ان کی بہن کو نجف اشرف میں واقعہ قبرستان دارالسلام میں اسی رات دفن کر دیا گیا۔

شہید باقر الصدر اور ان کی بہن شہیدہ آمنہ بنت الہدیٰ نے راہ سید الشہداء امام حسین علیہ السلام پر چلتے ہوئے جب دیکھا کہ وقت کا یزید لعین صدام لعین اسلام حقیقی کو مٹانے کی سازشوں میں مصروف ہے اور ظلمت بڑھتی جا رہی ہے تو آپ نے اپنے جد امجد ابا عبد اللہ الحسین علیہ السلام کی سیرت پر عمل کرتے ہوئے صدام لعین کے خلاف قیام کر دیا اور اپنی جانوں کی پرواہ نہیں کی۔

تاریخ میں یہ جملہ بھی ملتا ہے کہ جب صدام لعین شہید باقر الصدرؒ کو پھانسی لگانے کے بعد کہا کہ میں یزید کی طرح غلطی نہیں کروں گا اور پھرا س نے سیدہ آمنہ بنت الہدیٰؒ کو بھی پھانسی دے دی۔لیکن یذید لعین کی طرح صدام لعین بھی یہ بات بھول چکا تھا کہ ابا عبد اللہ الحسین علیہ السلام کے خون مقدس کی طرح شہید باقر الصدرؒ اور شہیدہ آمنہ ؒ کا خون بھی اسلام کی نشو نما اور زندگی کا باعث بنے گا۔خواہ ایران میں آنے والا اسلامی انقلاب ہو یا لبنان میں ہونے والی حزب اللہ کی مقاومت ہو،یا ارض فلسطین میں چلنے والی تحریک اسلامی حماس کی جد وجہد ہو اور یا پھر عراق میں اسلامی نشاۃ ثانیہ ،یہ سب شہید وں کے خون کی برکت ہے۔

ولی امر المسلمین آیت اللہ سید علی خامنہ ای کی آیت اللہ سید محمد باقر الصدر کے اہل خانہ سے ملاقات کے موقع پر تقریر سے اقتباس (29/5/2004)

سب سے پہلے تو میں آپ اور دیگر خواتین خصوصا آپ کے محترم صاحبزادوں اور صاحبزادیوں کی خدمت میں خوش آمدید عرض کرتے ہوں۔ ہم شہید آیت اللہ سید محمد باقر الصدر مرحومؒ کے وجود پر ان کی علمی، جہادی اور فکری شخصیت کی وجہ سے فخر کرتے ہیں اور آپ پر بھی فخر کرتے ہیں۔ کیونکہ آپ نے گزشتہ دو عشروں سے زیادہ کے عرصے میں بہت زیادہ مشکلات اور مصائب کا سامنا کیا ہے، بہت زیادہ سختیاں اٹھائی ہیں لیکن صبر سے کام لیا ہے۔ آپ کا تعلق عظیم خاندان سے ہے، صبر، کرم اور عظمت آپ کے خاندان کی خصوصی صفات ہیں۔ آیت اللہ صدرؒ کی شہادت کے بعد آپ نے ان کٹھن حالات میں نجف میں زندگی گزاری۔ اس کے بعد آپ کی ان بچیوں کے شوہر شہید ہوئے اور آپ میں سے ہر کوئی کسی نہ کسی مصیبت میں گرفتار ہوا۔ لیکن آپ لوگوں نے ان سب کو برداشت کیا۔ حقیقت میں آپ کا صبر ہم لوگوں کے لیے بہت زیادہ قابل قدر ہے۔ آپ کو بتاؤں کہ میں ہمیشہ دور سے آپ لوگوں کے لیے دعا کرتا رہا ہوں اور میں جانتا ہوں کہ آپ لوگوں نے کیا مشکلات اور سختیاں برداشت کی ہیں۔ خداوند متعال اس عزیز شہید یعنی شہید سید محمد باقرالصدر مرحوم ؒ ، آپ کے دامادوں اور شہید صدرؒ کے بیٹوں رضوان اللہ تعالی علیہم کے درجات کو بلند فرمائے۔ ان خواتین نے بھی اس خوف اور گھٹن کے ماحول میں صبر کیا اور ان کی جوانی کے ایام میں ان کے شوہروں کو شہید کر دیا گیا اور ان کے بچے باقی رہ گئے، خدا کے نزدیک ان کی بہت قدر و منزلت ہے۔ آپ نے جو صبر کیا ہے وہ خدا کے نزدیک بہت گرانقدر ہے۔ ان شاء اللہ خداوند متعال اپنے اجر سے دنیا اور آخرت میں آپ کو نوازے گا۔
میں سنہ 1957 میں عراق گیا اور وہیں میں نے جناب سید محمد باقر الصدرؒ کو دیکھا۔ اس وقت وہ کافی جوان تھے، تقریبا پچیس سال کے تھے۔ اس وقت بھی وہ اپنے فضل و کرم کے لیے مشہور تھے۔ اس وقت میں نوجوان تھا اور میری عمر تقریبا اٹھارہ سال تھی۔ الحمد للہ آپ کے خاندان کے تمام افراد بہت زیادہ استعداد اور صلاحیت کے مالک تھے؛ جیسے مرحوم جناب رضا، جناب موسی۔

اسلامی انقلاب کے اوائل میں جب آیت اللہ صدرؒ کی شہادت کی خبر ہم تک پہنچی تو بڑا صدمہ ہوا۔ اسلامی نظام اور اسلامی معاشرے کے لیے شہید صدر حقیقت میں ایک فکری ستون تھے۔ اسلامی انقلاب سے پہلے ہی ہم ان کی کتابوں اور بڑی ہی گرانقدر سرگرمیوں سے واقف تھے۔ پھر جب اسلامی انقلاب کامیاب ہوا تو انہوں نے بہت اچھے پیغامات بھیجے۔ شہید صدر ؒ سے بہت زیادہ امیدیں وابستہ تھیں۔ خدا لعنت کرے صدام پر، الحمد للہ کے ان لوگوں(صدام اور اس کے گرگوں) کی بیخ کنی ہو گئی۔

شہید صدر ؒ حقیقی معنی میں نابغہ روزگار شخصیت کے مالک تھے۔ اسلامی اور فکری مسائل، فقہ و اصول اور دیگر علوم میں ماہرین کی تعداد بہت زیادہ ہے، لیکن نابغہ روزگار شخصیات بہت کم ہیں۔ شہید صدرؒ ان افراد میں سے تھے جو حقیقت میں نابغہ روزگار ہیں۔ ان کا ذہن اور ان کے افکار، دوسروں کی فکری رسائی سے بہت آگے تھے۔

بشکریہ نوائے اسلام

https://ur.abna24.com/urdu/cultural/archive/2014/04/13/602197/story.html