یہ ہیں شہیدمحمد باقرالصدر

یہ ہیں شہیدمحمد باقرالصدر

تحریر: سید محمد علی نقوی

آیت اللہ شہید محمد باقر الصدرؒ، یکم مارچ 1935ء کو عراق کے مقدّس شہر کاظمیہ میں پیدا ہوئے۔ آپؒ کی سوانح حیات پر متعدد کُتب اور تحاریر لکھی جا چکی ہیں مگر ہم آپکو شہیدؒ کے کچھ منفرد و نایاب حقائق بیان کریں گے۔ آپؒ نے صرف 46 سال پر محیط زندگی پائی کہ جس میں آپؒ نے "الأسس المنطقية، اقتصادنا، فلسفتنا، فدك في التاريخ” جیسی متعدد عظیم القدر تصنیفات لکھ کر اپنا لوہا منوایا اور نہ صرف عالَم اسلام کو حیرت میں مبتلا کر دیا بلکہ شَرق و غَرب کے فلاسفہ کو بھی اپنے علمی رُعب و دہشت تلے دبا ڈالا۔

شہید باقر الصدرؒ کے نابغہ شاگرد ہمادے استاد بزرگوار مرجع عالیقدر آیت اللہ سید کمال حیدری (حفظه الله) نے درسِ خارج کے دوران اپنی لسانِ اَقدس سے آپؒ کے کچھ نایاب واقعات نقل کیے ہیں، جنہیں ہم آپ کے گوش گزار کر رہے ہیں:
استاد بزرگوار فرماتے ہیں کہ: ایک مرتبہ میں نے سید محمد باقر الصدرؒ سے عرض کی: اگر آپؒ کو کوئی اعتراض نہ ہو تو کیا میں آپؒ سے کچھ سوال پوچھ سکتا ہوں؟ تو آپؒ نے فرمایا: جی ہاں! ضرور۔ میں نے عرض کی: آپؒ نے اپنی پہلی کتاب کتنے سال کی عمر میں لکھی؟ یہ سن کر آپؒ مسکرانے لگے، میں نے عرض کی: کیا آپؒ جواب نہیں دیں گے؟ تو فرمایا: کیوں نہیں، اس وقت میری عمر 8 سال تھی۔ میں نے عرض کی: آپؒ نے کونسی کتاب لکھی تھی؟ تو آپؒ نے فرمایا: کتاب "حياة الأئمة” جو تقریباً ایک سو صفحات پر مشتمل ہے۔

اسی طرح آپؒ نے مزید فرمایا: جب میں درسِ خارج میں گیا (کہ جہاں بڑے بڑے بزرگ علماء تشریف لے جایا کرتے ہیں) تو میری عمر سنِّ بلوغت سے بھی کم تھی۔ ایک دفعہ درس کے دوران استاد نے ایک اشکال کیا تو میں شرما رہا تھا کہ میں اسکا جواب دوں، جب درس ختم ہوا تو میں ان کے پاس چلا گیا اور کہا: اس اشکال کا جواب یہ ہے۔ تو وہ کہنے لگے: نہیں! اس طرح سے جواب دے دینا کافی نہیں، کل میں درس کے دوران کہوں گا کہ اسکا جواب محمد باقرؒ دیں گے تب آپؒ اسکا جواب دیجیے گا۔ ہمارے درس میں محمد باقر کے نام سے ایک اور بزرگ عالِم تھے جنہیں میں نہیں جانتا تھا۔ جب صبح ہوئی تو استاد نے میری طرف متوجہ ہو کر کہا: اس اشکال کا جواب محمد باقرؒ دیں گے، محمد باقرؒ جواب کدھر ہے؟ جب انہوں نے یہ کہا تو سارے افراد میرے ہمنام دوسرے عالِم کی طرف دیکھنے لگے مگر انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا، اس وقت میں نے جواب دیا جبکہ میں ابھی نابالغ تھا۔ آپؒ نے مزید فرمایا کہ: جب میں نے اجتہاد کیلئے پورے رسالہ عملیہ کا مباحثہ مکمل کیا اور فقہی آراء میں دورہ مکمل کر لیا تو میری عمر 20 سال سے بھی کم تھی۔

استاد بزرگوار آپؒ کے متعلق نقل کرتے ہوئے مزید فرماتے ہیں: شہید باقر الصدرؒ فقط ذہانت و فطانت کے بلبوتے پر اس مقام تک نہیں پہنچے بلکہ آپؒ دوگنی محنت کیا کرتے تھے۔ شہید باقر الصدرؒ کبھی بھی دن کے وقت نہیں سوئے، آپؒ ظہر کے بعد بھی آرام نہیں کیا کرتے تھے۔ جیسا کہ آپؒ کے بارے میں مشہور بھی ہے کہ آپؒ فرماتے ہیں: "میں نمازِ فجر کے بعد صندوق نما 1 یا 2 میٹر کی مساحت پر مبنی ایک انتہائی چھوٹے سے کمرے میں چلا جاتا اور پڑھتا رہتا کہ میرے والد آ کر دروازے پر دستک دیکر کہتے: آ جاؤ، آ کر دوپہر کا کھانا کھا لو”۔
بلکہ آپؒ تو اس سے بھی بڑھ کر محنتی تھے، آپؒ کی جائے ولادت کاظمیہ ہے، آپؒ نے فرمایا: "میں پانچ سال تک کاظمیہ نہیں نکلا اور جب میں کاظمیہ گیا تو دیکھ کر حیران ہو گیا کہ وہاں کی تو گلیاں ہی بدل گئی ہیں”۔ شہیدؒ اس قدر محتنی تھے۔
نجف اشرف اور کوفہ کے درمیان تقریباً 9 کلو میٹر کی مسافت ہے۔ جب آپؒ نجف اشرف میں ہوا کرتے تھے تو آپؒ نے فرمایا: "میں کبھی کوفہ نہیں گیا”۔ جبکہ بعض بزرگ علماء تو گرمیوں کی چھٹیاں بیتانے کوفہ چلے جایا کرتے تھے۔

شہید محمد باقر الصدرؒ انتہائی متواضع شخص تھے۔ جس طرح آپؒ علمی اعتبار سے بلند مرتبہ شخصیت کے مالک تھے اسی طرح آپؒ تواضع کا بھی مجسم پیکر تھے۔ استاد بزرگوار نقل کرتے ہیں: میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ ایک دفعہ شہید باقر الصدرؒ حرمِ امیرالمؤمنینؑ کے دروازے کے باہر کھڑے ہو کر زیارتِ امیرالمؤمنینؑ پڑھ رہے تھے کہ آپؒ کے پیچھے عوام الناس کی بڑی قطار لگ گئی۔ عوام میں سے ہی کسی ایک عادی شخص نے کہا کہ سیدؒ ہمیں بھی زیارت کروائیے تو آپؒ نے یہ نہیں فرمایا کہ یہ تو میری شان کے خلاف ہے، کیا میں عام عوام کو زیارت کرواؤں؟ بلکہ آپؒ بلند آواز میں زیارت پڑھنا شروع ہو گئے اور ان لوگوں کو زیارت کروائی۔

فلاسفہ کے استاد شہید محمد باقر الصدرؒ کے بارے میں رہبر معظم سید علی خامنہ ای(دامت برکاتہ) فرماتے ہیں: "شہید باقر الصدرؒ حتمی طور پر نابغہ افراد میں سے تھے”۔ اکثر لوگ شہیدؒ کی اصل شخصیت سے ناواقف ہیں مگر ان نایاب واقعات کو پڑھنے کے بعد یقیناً ہر کوئی شیّعت کے اس درخشاں ستارے پر ناز کرے گا کیونکہ دنیا میں ان جیسے گوہرِ نایاب بہت ہی کم پائے جاتے ہیں۔ شہیدؒ علمی قابلیت رکھنے کیساتھ ساتھ انقلابی فکر کے بھی حامل تھے، جنہوں نے انقلابِ اسلامی ایران کی تائید کی اور امام خمینیؒ کی جدوجہد کو سراہتے ہوئے مشہورِ زمانہ جملہ ارشاد فرمایا: "ہم تاریخ میں سنا کرتے تھے کہ کیسے ایمان تلوار پر فتح یاب ہوتا ہے، اور پھر اس پر غائبانہ ایمان رکھتے لیکن آج امام خمینیؒ نے اسے عملی طور پر مجسم شکل دے دی”۔ اسی طرح آپؒ نے فرمایا: "آج موسیؑ فرعون پر غالب آ گیا اور تمام انبیاءؑ کا خواب پورا ہو گیا۔ آج امام خمینیؒ نے شاہ کی حکومت کو گرا دیا”۔
آپؒ عراق کے وہ اکیلے مرجع تھے جنہوں نے انقلاب کی خوشی میں تین دن تک درس کی چھٹیاں دے دیں اور طلاب سے انقلاب کی حمایت میں ریلی نکالنے اور اس میں بھرپور شرکت کرنے پر زور دیا، اس ریلی میں متعدد طلاب کو گرفتار کر لیا گیا لیکن آپؒ کی مداخلت کے بعد جلد ہی رہا کر دیا گیا۔ یہ ہیں شہید محمد باقر الصدرؒ، کہ جنہوں نے نہ صرف علمی اعتبار سے باطل کو پچھاڑا بلکہ انکی اس انقلابی فکر نے بھی باطل کے وجود کو لرزا کر رکھ دیا۔ آپؒ کی یہی انقلابی سوچ اور سرگرمیاں دشمن کو ایک آنکھ نہ بھائیں، نتیجتاً آپؒ کو صدام کے حکم پر 9 اپریل 1980ء کو پھانسی دیکر شہید کیا گیا۔ لیکن آپؒ اپنی علمی تُراث کی بدولت آج بھی ہمارے دلوں میں زندہ ہیں۔

https://nhnewspak.com