آیت اللہ العظمی شہید السید محمد باقر الصدر کی شہادت

آیت اللہ العظمی شہید السید محمد باقر الصدر کی شہادت

شیعہ نیوز(پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ)9، اپریل: آیت اللہ العظمی شہید السید محمد باقر الصدر کی شہادت کی مناسبت سے۔۔۔5، اپریل 1980ء کو بعث پارٹی کی طرف سے ان کی آخری گرفتاری سے پہلے اپنے گھر والوں سے رخصت ہونے کا غمگین واقعہ۔۔۔باسمہ تعالی(۸ اپریل ۲۰۱۷)شہید آیت ا … العظمیٰ سید محمد باقر صدر (رح) کی برسی کی مناسبت سے:”پہلی اور آخری رخصت”۵، اپریل ۱۹۸۰ء بروز ہفتہ، دوپہر اڑھائی بجے پورے نجف کی حفاظت کے ادارے کا رئیس اپنے معاون "ابو شیما” کے ساتھ شہید صدر (رح) کے گھر پہنچا اور انہیں پیغام پہنچایا: "(بعث) پارٹی کے عہدیدار چاہتے ہیں ، آپ سے بغداد میں ملاقات کریں۔”شہید صدر (رح): اگر تمہیں مجھے گرفتار کرنے کا حکم ملا ہے تو ٹھیک ہے، تم جہاں چاہو گے میں چلونگا۔ رئیس: جی ہاں، مجھے آپکو گرفتار کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ شہید صدر (رح): کچھ دیر میرا انتظار کرو، میں غسل (شہادت) کرلوں، کپڑے بدل لوں اور اپنے گھر والوں سے رخصت لے لوں۔ رئیس: ان سب چیزوں کی ضرورت نہیں ہے۔ آج یا کل ہی واپس آجاؤ گے۔شہید صدر (رح): میرے بچوں اور گھر والوں سے رخصت ہونے سے کیا تمہیں کوئی نقصان ہوگا؟رئیس: نہیں، لیکن ضروری نہیں ہے۔ جو کرنا ہے کرلو۔شہید صدر (رح) نے غسل شہادت کیا اور دو رکعت نماز پڑھی اور کپڑے بدلے۔ اپنی حیران پریشان والدہ کے پاس گئے۔ ان کے ہاتھ کو اپنے سینے سے لگایا اور پیار کیا۔ اس کے بعد ایک ایک بچے کو اپنے سینے سے لگایا اور پیار کیا۔ ان کے ان کاموں سے تمام بچے سمجھ گئے کہ وہ اپنے والد کو آخری بار الوداع کر رہے ہیں۔ وہ جب اپنی پندرہ سالہ بیٹی سے رخصت ہو رہے تھے تو ان کی بیٹی برداشت نہیں کرسکی اور منہ پھیر کر دیوار پر سر کر پھوٹ پھوٹ کے رونے لگی۔ شہید صدر نے اپنی بیٹی کو آغوش میں لیا اور کہا:”میری پیاری بیٹی! ہر انسان کو موت آنی ہے۔ موت کسی بھی وجہ سے آسکتی ہے۔ ممکن ہے انسان کسی بیماری کی وجہ یا سوتے ہوئے یا کسی اور وجہ سے مرجائے لیکن خدا کی راہ میں مرجانا بہت ہی اچھا اور شرف کا باعث ہے۔ میں اگر صدام اور اس کے ساتھیوں کے ہاتھوں نہ مارا جاؤں، تو کسی بیماری یا کسی اور وجہ سے مر جاؤنگا۔ حضرت عیسی ؑ کے اصحاب کو آری سے ٹکڑے ٹکڑے کرکے لکڑی کی صلیب پہ میخوں سے آویزاں کر دیا گیا لیکن انہوں نے اطاعت اور بندگی کی راہ میں استقامت کی۔ میری پیاری بیٹی! پریشان نہ ہو، ہم سب آج یا کل مر ہی جائیں گے۔ با شرف ترین موت، ‘شہادت’ ہے۔ میری پیاری بیٹی! میرے ساتھ جو کچھ بھی ہو رہا ہے، میں اس کے لئے راضی ہوں۔”۔۔۔ اس کے بعد اپنی اہلیہ سے رخصت لینے کی باری آئی وہ ان کے سامنے کھڑے ہوئے اور انہیں غور سے دیکھنے لگے ۔۔۔ اور انہیں تسلی دیتے ہوئے کہا: "موسیٰ (١) کی بہن! کل تمہارے بھائی کی باری تھی اور آج تمہارے ہمنشیں، شریک اور دوست کی باری ہے۔ آج میری باری ہے۔ میری جنت! تمہیں خدا کے حوالے کیا۔ صبر کرنا۔ ہم نے خدا کی بیعت کی ہے اور اس بیعت کو توڑا نہیں جاسکتا، ہم نے (خود کو) خدا کی رضا کے لئے فروخت کردیا ہے۔ اور خداوند سبحان نے (ہمیں) خرید لیا ہے۔ اے اپنے وطن اور گھر والوں سے دور! تمہاری ذمے داری سنگین ہے اور گھر والوں کی ذمے داری تمہارے کندھوں پر ہے۔ مجھے معاف کر دو۔ میں جا رہا ہوں، قیامت میں ملیں گے ۔۔ ۔ تین دن میرا انتظار کرنا، اگر واپس نہ آؤں تو میری والدہ اور بچوں کو لے کے "کاظمین” میں میرے بھائی سید اسماعیل کے گھر چلی جانا۔ "شہید صدر نے اپنی تمام گرفتاریوں میں صرف اسی دفعہ اپنے گھر والوں سے رخصت لی۔۔۔۔پہلی اور آخری دفعہ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(۱)۔ امام موسیٰ صدر، شہید صدر (رح) کے برادر نسبتی، جنہیں شہید صدر (رح) کی شہادت سے چند سال پہلے لیبیا کی حکومت نے اغوا کرلیا تھا۔ (بحوالہ: السیرۃ و المسیرۃ فی الحقائق و والوثائق، ج۴، ص ۲۷۰)
https://www.google.com/amp/s/shianews.com.pk/2019-04-08-12-54-35/