اسلام اور جدیدیت شہید صدرؒ کی نگاہ میں
شیخ اشرف آخونزادہ (حوزہ علمیہ نجف اشرف)
حیات بشر کی ابتدا سے ہی انسان نے ایک نظام حیات کی ضرورت کو محسوس کیا،کہ جس کے ذریعے وہ اجتماعی زندگی کے احکام و قوانین کو ترتیب دے کر نظریہ جزا و سزا کے مطابق نظام زندگی کو دوام دے سکے۔ یہ اس لئے کہ انسان ایک سماجی مخلوق ہے جس کے لیے انفرادی طور پر زندگی گزارنا ممکن نہیں ہے۔ لہذا اجتماعی زندگی انسان کی فطری ضرورت ہے،نیز اجتماع کے نتیجے میں مفادات کا ٹکراؤ اور نزاعات کا وجود میں آجانا بھی ناقابل اجتناب مسائل میں سے ہیں۔ ایسے میں قانون اور نظام ہی اس اجتماعی حیات کو برقرار رکھنے کا ضامن ہو سکتے ہیں۔ خالق کائنات نے جو کہ خود مدبر کائنات بھی ہے، انسانی زندگی کی تمام ضروریات اور ان کو پورا کرنے کے جملہ طریقوں سے واقف تنہا ذات ہونے کے اعتبار سے انسان کو نظام عطا کیا اور اس نظام کو چلانے والے بھی بھیجے۔ مگر انسان کو تکوینی طور پر اس نظام پر عمل پر مجبور خلق نہیں کیا۔ نتیجۃ تاریخ بشریت میں ایسے بہت سارے نظاموں کا تجربہ کیا گیا جسے مختلف گروہوں یا نسلوں نے اپنے لئے وضع کیا اور ان پر عمل پیرا بھی ہوئے نیز وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان میں جوہری تبدیلیاں واقع ہوئیں۔
مغرب میں جدیدیت کا آغاز کیوں اور کیسے؟
16 ویں صدی کے وسط تک یورپ میں علم کا واحد ذریعہ وحی کو سمجھا جاتا تھا۔ اس لئے کلیسا ہی علم کا والی و وارث ہوا کرتا تھا،علم، حقیقت اور سچائی صرف وہی ہوتی جسے کلیسا تسلیم کرے۔ اس وجہ سے کلیسا انتہائی طاقتور تھا اور تنگ نظر پادریوں نے قدیم یونانی فلسفہ اور عیسائی معتقدات کے امتزاج سے ایسے خود ساختہ نظریات قائم کر لئے تھے کہ جن کی مخالفت کو وہ دین اور مذہب کی مخالفت قرار دیتے۔ یوں آزاد علمی تحقیق کی کوئی گنجائش نہ تھی۔ یورپ کا انسان کلیسا کی ان بے جا قیود اور امور زندگی میں بے جا مداخلت پر انتہائی نالاں تھا۔ لہذا ۰۵۶۱کے بعد سے کلیسا کے خلاف بغاوت نے سر اٹھانا شروع کیا،یہ بغاوت اتنی شدید تھی کہ یورب نے کلیسا کی قیود سے جان چھڑاتے چھڑاتے دین اور مذہب کو ہی اپنی زندگی سے نکال دیا۔ علم کے ذرائع میں سے وحی کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور صرف حس، عقل اور تجربے کو علم کا ذریعہ قرار دیا۔ یوں علم و معرفت پر کلیسا کی ٹھیکہ داری ختم کر دی گئی اور جدیدت کا آغازہوا۔
۰۵۶۱سے پہلے کے دور کو” دورتارکی” قرار دیکر وحی کے ذریعے حاصل ہونے والی معلومات کو علم کے دائرے سے خارج کر دیا۔ مغرب میں کلیسا کی خلاف بغاوت باکل اس بچے کی مانند تھی کہ جسے اسکول ٹیچر کی نالائقی اور اختیارات سے تجاوز نے سخت ستایا ہوا ہو،وہ اس ظلم اور اندھیر نگری سے نکلنا چاہتا ہے لیکن شدت نفرت کی وجہ سے وہ ان ناجائز اور نامعقول پابندیوں سے نکلنے کے بجائے تعلیم سے ہی نفرت کرنے لگتا ہے اور اپنے آپ کو تعلیم سے دور کر دیتا ہے۔ حالانکہ مشکل تعلیم میں نہیں بلکہ معلم کا اپنے دائرہ کار سے نکلنے اوراختیارات سے تجاوز کرنے میں تھی۔ بالکل اسی طرح مغرب کی پسماندگی کی وجہ دین نہیں تھا بلکہ کلیسا کی جانب سے دین کی غلط تشریح اور اپنے اختیارات کا غلط استعمال تھا۔
مغربی جدیدت شہید صدر کی نظر میں
شہید صدر کے نزدیک مغرب میں کلیسا کے خلاف بغاوت اور علم کے ذرائع میں حس،تجربہ اور عقل ہی کو تسلیم کرنا وہاں پر علمی،دینی اور اخلاقی میدانوں میں بنیادی تبدیلیوں کا نتیجہ تھا جو کہ بعد میں سیاست اور ٹیکنالوجی کے میدانوں میں زبردست تبدیلیوں کا مقدمہ بنا۔
مغربی جدیدیت کی اصل خرابی
مغربی جدیدیت کی اصل خرابی یہ ہے کہ اس کا تعلق غیب اور آخرت سے مکمل منقطع کر دیا گیا ہے، جس کے نتیجے میں یہ نظام روحانی اور اخلاقی اقدار سے عاری ہو گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مغرب نے ترقی اور پیشرفت کو وسیلہ بنا کر دیگر اقوام کا استحصال کیا، ان کے خلاف سنگین جرائم کا ارتکاب کیا، ملکوں کو تاراج کیا اور مختلف اقلیتوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کیا اور یہ سب آزادی،عدالت، مساوات اور ترقی کے نام پر کیا گیا۔
جدیدیت کو رد کرنے کا مطلب شہید کی نظر میں
شہید باقر الصدر فرماتے ہیں کہ آزادی،عدالت، مساوات اور ترقی بہترین نعرے ہیں لیکن جب یہ خدا اور دین سے جدا کر کے دیکھے جاتے ہیں تو ان کے معانی بدل جاتے ہیں،جبکہ خدا اور دین سے ملایا جائے تو ان کا مفہوم وسیع اور بلند ہو جاتا ہے۔
مثلا ترقی ہی کو لے لیں،مغرب میں ترقی سے مراد وہ حالت ہے جسے عقل نے تشکیل دیا ہے یا انسان نے اپنی زمانی و مکانی محدودیت کو دیکھتے ہوئے جسے ترقی قرار دیا ہے جبکہ دینی نقطہ نظر سے ترقی انسان کا زمین پر بطور” خلیفۃ اللہ” خدا کی صفات کا مظہر ہونا ہے۔
پس جدیدیت کو رد کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جدیدیت سے بذات خود کوئی بری چیز ہے بلکہ مقصد یہ ہے کہ جدیدیت کو اس کے اصل مقام کی طرف پلٹایا جائے۔
اسلامی معاشرے پرجدیدیت کے اثرات
مغربی جدیدیت نے پوری دنیا پر اپنے اثرات مرتب کئے۔ محیر العقول سائنسی ایجادات نے آداب و تقالید، رسوم و رواج،تہذیب و ثقافت،غرض زندگی کے ہر شعبے کو متاثر کیا۔ جدیدیت کی اس یلغار کے نتیجے میں مسلمانوں کے دو بڑے گروہ کھل کر سامنے آگئے۔ایک وہ گروہ جو جدیدیت کے ریلے میں بہتے ہوئے مغرب سے آنے والی ہر بات کو ترقی کی علامت اور شعور ادراک کی بلندی کا مظہر سمجھ کر قبول کرنے لگا، اور حد المقدور اسلام کو اس منہ زور تحریک کے ساتھ ساز گار بنانے کر پیش کرنے کی کوشش کرنے لگا اور جہاں ظاہری مطابقت پیدا کرنے میں کامیاب نہ ہوا وہاں معذرت خواہانہ توجیہیں پیش کی جانے لگیں۔
دوسری طرف ایک گروہ نے دوسری انتہا کو اختیار کیا اور مغربی جدیدیت کی مخالفت میں ہر نئی چیز کو دین سے متصادم اور مذہب کے لئے خطرہ قرار دے کراس کی مخالفت شروع کر دی۔ حقیقتا اس گروہ نے مسلمانوں میں ۰۵۶۱سے قبل کے پادریوں کا کردار ادا کیا،کیونکہ ان کی بے جا سختیوں اور غیر معقول رویوں کی وجہ سے جدید دور کا مسلم جوان وقت کے تقاضوں اور دینی اقدار میں ہم آہنگی پیدا کرنے سے قاصر ہو کر الحاد کے دامن میں پناہ ڈھونڈنے لگا۔
تیسرا اور حقیقی راستہ
ان دو انتہاؤں کے درمیان ایک قلیل تعداد ان لوگوں کی تھی جنہوں نے مغربی جدیدیت کو خوب سمجھا۔اس کی خوبیوں اور خامیوں کا زبردست تجزیہ کیا اور پھر اس سے مقابلے کا معتدل راستہ اختیارکیا۔اس گروہ میں علامہ محمد اقبال اور ڈاکٹر علی شریعتی جیسے مغرب شناس لوگ تھے،جنہوں نے مغرب کے ان دل فریب نعروں کی حقیقت اور ان کے عواقب سے مسلمانوں کو آگاہ کرنے کی مسلسل کوششیں کیں۔
اقبال نے خود اہل مغرب کو خبردار کرتے ہوئے کہا تھا:
دیارِ مغرب کے رہنے والو! خدا کی بستی دکاں نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ کل زرکم عیار ہوگا
تمہاری تہذیب خود اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائدار ہوگا
مگر ان قلیل لوگوں میں سے بھی انتہائی قلیل تعداد ایسے لوگوں کی تھی جنہوں نے جدیدیت اور اس کی کوکھ سے جنم لینے والے فلسفی،سیاسی،اقتصادی اور سماجی نظاموں کے بغور مطالعے اور گہرے جائزے کی بنیاد پر ان کی خامیوں کو طشت ازبام کیا اور پھر بشریت کے سامنے اسلام کو متبادل نظام کے طور پر پیش کیا۔
شہید باقر الصدرؒ ان لوگوں میں سرِ فہرست ہیں جنہوں نے مستحکم دلیلوں کی بنیاد پر یہ بات واضح کردی کہ اسلام ہی انسانی معاشرے کی ترقی واستحکام کابہترین نظام ثابت ہوسکتا ہے۔یوں اسلام کو معذرت خواہانہ دفاعی پوزیشن سے نکال کر بشریت کےلیے سب سے بہترین ،مناسب ترین اور کامل ترین نظام حیات کے طور پر پیش کیا۔
فلسفتنا،اقتصادنا،البنک اللاربوی فی الاسلام،الاسلام یقود الحیاۃ ،اسس المنطقیہ للاستقراء جیسی کتابیں شہید صدر کی اسی عالمانہ کوششوں کے ثمرات ہیں۔