ہمارا پیام اور اس کے بنیادی خدوخال

از: آیت اللہ العظمی ٰٰ شہید باقر الصدر

ترجمہ:سید جعفر نقوی

ہر تحریک کے کچھ بنیادی خدوخال ہوتے ہیں جو اس کے ذاتی وجود کی حدود اربعہ بھی معین کرتے ہیں اور دوسری تحریکوں سے اسے نمایاں اور ممتاز بھی کرتے ہیں اور چونکہ ہر تحریک جن افکار و نظریات پر انحصار کرتی ہے وہ ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں اس لیے ان کے خدوخال بھی ایک دوسرے سے جدا ہوتے ہیں۔
اسلامی تحریک اور اس کے پیغام حیات کے بنیادی خدوخال کو ہم مختصر طور پر مندرجہ ذیل نکات میں بیان کرسکتے ہیں:
۱۔ حیات و کائنات کے بارے میں
عام طور سے روحانی نظریہ!
لیکن اس روحانیت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم کائنات کے مادّی پہلو کا انکار کررہے ہیں یا یہ کہ وجود کے دائرہ کو روح اور روحانیت ہی میں منحصر قرار دینا چاہتے ہیں۔ جیسا کہ بہت سے یورپی مصنفین روحانی نظریہ کی یہی تفسیر و تشریح کرتے ہیں۔
جبکہ اسلام روحانی حقائق کے ساتھ مادی حقیقتوں کو بھی تسلیم کرتا ہے اور ان تمام حقیقتوں کو ایک ایسے گہرے وسیلے سے ایک دوسرے سے مربوط کرتا ہے جو سب میں مشترک ہے اور وہ خداوند عالم کی ذات ہے۔
لہٰذا ہمارے روحانی نظریہ کا صحیح اور اصلی معنی یہ ہے کہ اس رابطہ کو سمجھ لیا جائے جو حیات و کائنات اوراللہ کے درمیان ہے۔کہ یہ زندگی اور اس کی رعنائیاں اور یہ کائنات اور اس کی گہرائیاں اور وسعتیں، سب کچھ خداوند عالم کی قدرت اور تدبیر کے کرشمے ہیں۔
اور اس نقطہئ نظر سے ہم پوری کائنات کو عام معنی میں روحانی بھی کہہ سکتے ہیں، جسمانی بھی۔ کیونکہ کارساز مطلق اور خلاقِ عالم سے اس کا یہ رشتہ کہ اُسی نے اسے خلق و ایجاد کیا ہے، اس کائنات کے مادی پہلو پر بھی محیط ہے اور روحانی پہلو پر بھی۔ اور اس رشتہ سے وابستگی پوری کائنات اور اس کی تمام حقیقتوں میں راسخ ہے۔
مذکورہ بالا روحانی نظریہ جس میں کائنات کی سب سے بڑی حقیقت جلوہ گر ہے، محض خیال آفرینی نہیں ہے بلکہ اس کا انسان کی عملی زندگی سے بھرپور تعلق ہے۔
جس دنیا میں انسان زندگی گزار رہا ہے اور جس حیات کی لذتوں سے بہرہ ور ہورہا ہے اس کے بارے میں انسان کا موقف کیا ہونا چاہئے،اسے یہی نظریہ واضح کرتا ہے اور اسی کی روشنی میں انسانی زندگی کی وہ روش معین ہوتی ہے جس کا عکس اس کے ارادہ اور کارکردگی پر پڑتا ہے۔
۲۔ غور و فکر کا عقلی طریقہ
(دنیا میں) غور و فکر کے دو طریقے پائے جاتے ہیں (جن میں سے ایک کو ”عقلی“ اور دوسرے کو ”تجرباتی“ کہا جاتا ہے)
”عقلی طریقہ“ وہ ہے جس میں عقل ہی کو آخری قوتِ حاکمہ اور بنیادی پیمانہ تسلیم کیا جاتا ہے اور ہر قسم کے افکار و خیالات اور انسانی معلومات کی صحت و واقعیت کو اسی کی روشنی میں جانچا اور پرکھا جاتا ہے۔ اس سے الگ کوئی بات تسلیم نہیں کی جاتی۔
اور ”تجرباتی طریقہ“ وہ ہے جس میں عقل کو دور رکھا جاتا ہے اور فکری زندگی میں اس کی جو بنیادی ذمہ داری ہے اس سے اسے محروم کردیا جاتا ہے۔
تجربہ کو اس کا قائم مقام بناکر یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ جن حقیقتوں تک اور نتیجوں تک بنی نوع انسان کے لیے پہنچنا ممکن ہے،اُن کا واحد راستہ صرف تجربہ ہے……!!
حقیقت یہ ہے کہ ”عقلی“ اور ”تجرباتی“ دونوں ہی طریقوں پر چلنے والوں نے بعض ایسی غلطیاں کی ہیں جن کے نہایت افسوسناک نتائج سامنے آئے۔
”عقلی طریقہ“ کو اپنانے والے، جنہوں نے عقل ہی کو حقائق کے سلسلہ میں اصل میزان قرار دیا انہوں نے عملی میدان میں اس پیمانہ کو اپنانے ہی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ انتہا پسندی کرنے لگے اور ہر مسئلہ کے تمام گوشوں کو عقل کے دائرہ میں محدود کردیا، مشاہدہ کو کالعدم قرار دے کر عقل خالص کو مجبور کرنے لگے کہ وہ ان شعبوں میں بھی حقائق و معلومات فراہم کرے جو اس کے دائرہئ کار سے باہر ہیں۔
اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ تجربات کے سرچشموں سے فائدہ نہ اُٹھاسکے اور ان سے حاصل ہونے والے حقائق اور نتائج سے محروم رہے۔
جس کی سب سے واضح مثال یہ ہے کہ صدیوں سے ”عقل پرست“ گروہ یہ جاننے کی کوشش میں لگا ہوا ہے کہ وہ ”مادّہ“ جو اجزا اور ذرّات سے بنا ہے اس کے اندر خول ہے یا اس کے اجزاء ایک دوسرے سے اس قدر پیو ست ہیں کہ ان کے درمیان کوئی خلا نہیں ہے۔
ان ”عقل پرستوں“ کا خیال تھا کہ وہ صرف عقلی طریقہ سے بحث کرکے آخری نتیجہ تک پہنچ جائیں گے لیکن عملاً نتیجہ یہ نکلا کہ دو نئے نظریے پیدا ہوگئے:
نظریہئ اتصال اور نظریہئ انفصال (۱)
دونوں نظریوں کے ماننے والے حضرات میں سے کسی نے بھی تجربہ کرنے کی کوشش نہیں کی، آپس میں سختی سے الجھے رہے۔ چنانچہ ان میں سے کوئی بھی کسی حتمی نتیجہ تک نہیں پہنچ سکا۔
ان لوگوں کی اس ناکامی کی وجہ صرف یہ تھی کہ کائنات کے تحلیلی مسائل میں عقل فطری طور پر تنہا فیصلہ کرنے سے قاصر ہے۔ وہ تجربہ کے بغیر حتمی طور پر اس نتیجہ تک نہیں پہنچ سکتی کہ یہ جسم متعدد ذرات سے مل کر بنا ہے یا نہیں۔
اب اگر ”عقلیت پسند“ حضرات تجربہ کی طرف قدم بڑھاتے اور اس سے حاصل ہونے والے ظاہری نتائج کو عقل کی کسوٹی پر پرکھتے اور آخری فیصلہ عقل کا مانتے تو بہت فائدے میں رہتے اور ان کا یہ اقدام اس بے نتیجہ جنگ وجدال سے ہزار درجہ بہتر ہوتا جس میں وہ صدیوں الجھے رہے۔ اسی کے ساتھ ان لوگوں نے یہ غلطی بھی کی کہ کم از کم عمل کے مرحلے میں یہ سمجھنے کی کوشش کرتے کہ عقل جو فکر و شعور کی بنیادی میزان ہے اس کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟
اسی طرح ”تجربہ پسند“ گروہ نے یہ غلطی کی کہ عقل پرستوں کی انتہا پسندی کے ردِ عمل کے طور پر ان کے بالکل ہی برعکس موقف اختیار کرلیااور اس با ت پر مصر ہوگئے کہ (کائنات کے) تمام اسرار و رموز اور جملہ حقائق کا صرف تجربہ سے ہی انکشاف ہوسکتا ہے اور بعض تجرباتی معلومات میں کامیابی کا نشہ ان پر اس طرح مسلط ہوا کہ وہ خود کو عقل کے تعاون اور مدد سے بالکل بے نیاز سمجھنے لگے۔ کیونکہ خود عقل کے بارے میں بھی ابھی تک ان لوگوں نے تجربہ نہیں کیا تھا۔ جس کی وجہ سے ”تجربہ پسندوں“ کا گروہ ایسے بکثرت روحانی و وجدانی حقائق سے محروم ہوگیا، جو تجرباتی رصدگاہ کے دائرہ سے باہر ہیں۔
نتیجہ یہ ہوا کہ”عقلیت پرست“ حضرات بہت سے تجرباتی سرمایہ سے،اور”تجربہ پسندوں“ کا گروہ عظیم الشان عقلی اور روحانی دولت سے محروم رہ گئے۔
۱۔ نظریہ اتصال کے ماننے والوں کا خیال یہ تھا کہ مادّہ کے تمام اجزا اس طرح سے ایک دوسرے سے پیوست ہیں کہ درمیان میں خلا نہیں ہے جبکہ نظریہئ انفصال کے ماننے والوں کا کہنا تھا کہ سب اجزا الگ الگ ہیں اور درمیان میں خلا ہے؛لیکن اسلام نے ان دونوں انتہا پسند گروہوں کے درمیان ایک صحیح موقف اختیار کیا ہے اور فکر انسانی کے لیے ایک ایسا معتدل راستہ اپنایا ہے جو بنی نوع انسان کے لیے ہر میدان میں بہترین نتائج کا ضامن ہے۔
وہ ایک طرف عقلیت پسندوں کو اَن گنت بے نتیجہ بحثوں میں اُلجھنے سے روکتا ہے تو دوسری طرف اس تجربہ پرستی پر قدغن لگاتا ہے جس سے مادیت کی بے عقلی جنم لیتی ہے۔
اس معتدل راستہ کو مختصر لفظوں میں یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ:
عقل کو افکار و خیالات کی ایسی کسوٹی اور قوت حاکمہ تسلیم کرلیا جائے جس کے سامنے وہ تمام معلومات پیش کردی جائیں جو انسان اپنے احساسات اور عملی تجربات کے ذریعہ حاصل کرتا ہے، پھر عقل ان تمام معلومات کو نظم و ترتیب دے کر ان نتائج کو بھی اخذ کرے جن کا مادّی حقیقتوں سے تعلق ہے اور اُن حقائق تک بھی پہنچے جو مادّیت کی حدود سے باہر ہیں۔
خالق دو جہاں کا رشاد ہے کہ:
”اَفَلَمْ یَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَتَکُوْنَ لَھُمْ قُلُوبٌ یَّعْقِلُوْن بِھَآ۔“”یہ لوگ زمین میں چلتے پھرتے کیوں نہیں تاکہ ان کے دل (و دماغ) عقل سے کام لینے لگیں۔“ (سورہئ مبارکہ حج ۲۲۔ آیت ۶۴)
زمین میں چلنا پھرنا اور اس کے (اندر بکھرے ہوئے) حقائق پر انواع و اقسام کے غور و فکر کا تجربہ(انسان کو) عقل سے بے نیاز نہیں کرتا اور نہ عقل یہ کہتی ہے کہ (تم) زمین پر چلنے پھرنے اور اس کے حقائق کو مشاہدہ اور تجربہ کے ذریعہ سیکھنے سے بے نیاز ہو۔
تجربہ کرنا، اس سے فائدہ اُٹھانا اور اس سے نتائج اخذ کرنا بالکل صحیح ہے لیکن شرط یہ ہے کہ عقل کو بے کار سمجھ کر انسان خود کو تجرباتی مشاہدوں کے دائرہ میں ہی محدود نہ کرلے۔ بلکہ جس چیز کا بھی مشاہدہ کرے،یا جس چیز کا اسے تجربہ حاصل ہو……ان میں عقل ہی کو حاکم مانے…… تاکہ تجربہ کے علاوہ مسلسل طریقہ سے عقلی نتائج بھی اخذ کرتا رہے۔
۳۔ عمل کا ہمہ گیر پیمانہ
چونکہ اسلام، حیات و کائنات پر ایک ہمہ گیر نظر رکھتا ہے اسی لیے اس نے بنی نوع انسان کو عمل کے ہمہ گیر پیمانے کی بھی نوید سنائی ہے؛ کیونکہ جب انسان کا تعلق اس کے خالق سے ہے، جس نے اسے زندگی،اس کے متعلقات اور اس کے مادی و روحانی پیمانے عطا کیے تو پھر ضروری ہے کہ انسان کی زندگی میں اصل معیار ”رضائے پروردگار“ ہو اور انسان اپنی زندگی کو خدا کی خوشنودی کے سانچے میں ڈھال دے۔
جیسا کہ ارشاد قدرت ہے کہ:وَاتَّبَعُوْا رِضْوَانَ اللّٰہِ۔ وَاللّٰہُ ذُوْفَضْلٍ عَظِیْمٍ۔“”یہ لوگ رضائے پروردگار کی پیروی کرتے ہیں اور اللہ بہت زیادہ فضل و کرم کرنے والا ہے۔“ (سورہئ آل عمران ۳۔ آیت ۴۷۱)
یہ ایک ایسا عملی معیار ہے جو انسان کی انفرادی و اجتماعی زندگی کے ہر شعبہ پر محیط ہے اور سماجی زندگی کے سیاسی، اقتصادی، اخلاقی ہر میدان میں کارآمد ہے۔
اسلام ہر انسان کے لیے ضروری قرار دیتا ہے کہ وہ زندگی کے ہر میدان میں رضائے پروردگار کے مطابق ہی قدم بڑھائے۔ یہ معیار دوسرے ان تمام پیمانوں سے بلند اور ممتاز ہے جنہیں فلسفہئ اخلاق کے ترجمان پیش کرتے ہیں۔
اور اس کا یہ امتیاز بھی بنیادی ہے۔ کیونکہ یہ وقتی اور عارضی پیمانہ نہیں ہے بلکہ حیات و کائنات کے بارے میں ہمہ گیر روحانی نظریہ کے عین مطابق ہے اور یہی ایسا پیمانہ ہے جو انسان کی عملی زندگی کے ہر قسم کے تضاد کو دور کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔
اس کے برعکس جو پیمانے علمائے اخلاق پیش کرتے ہیں:مثلاً، لذّت، منفعت جیسے غیر واضح اور لامحدود تصورات؛ ان میں یہ صلاحیت نہیں ہے کہ وہ معاشرے سے اختلاف و تضاد کو دور کرسکیں۔ کیونکہ ایک معاشرہ میں زندگی گزارے والے اشخاص کے منافعے اور لذائذ کے حصول کے مواقع ایک دوسرے سے ٹکراتے ہیں۔
اسی طرح مختلف انسانی معاشروں کے مفادات بھی ایک دوسرے سے ٹکراتے ہیں۔ ایک ہی چیز ایک معاشرے کے لیے یا ایک شخص کے لیے پسندیدہ اور منفعت بخش اور دوسرے شخص کے لیے نا پسندیدہ اور غیر منفعت بخش ہوسکتی ہے۔اور بنی نوع انسان کے ان ناقص پیمانوں سے قلبی وابستگی ہی کی بنا پر گوناگوں مصائب و آلام پیش آئے اور مفادات کے حصول کی فکر میں دائمی جنگ و جدال کی نوعیت برقرار رہی؛لیکن اگر دنیائے انسانیت اس عملی پیمانہ کو اپنائے جس کی طرف ہمیں اسلام دعوت دے رہا ہے تو ہر قسم کے تنازعات بھی ختم ہوجائیں اور باہمی تصادم کی کیفیت بھی باقی نہ رہے۔
کیونکہ ”رضائے پروردگار“ ہر تضاد و اختلاف سے پاک ہے۔
اور یہی ایک ایسا پیمانہ ہے جس کے مطابق ایک پرسکون اور باہمی تعاون رکھنے والا معاشرہ ایجاد کیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ ایسے معاشرہ میں اگر کہیں مقابلہ ہو بھی تو وہ یہ ہوگا کہ کون کس حد تک رضائے پروردگار کے حصول کی کوشش کرتا ہے۔ شخصی مفادات اور مادی اغراض کا مقابلہ نہیں ہوگا۔

(بشکریہ :رسالت حوزہ)