شہید سید محمد باقر الصدر ؒایک درخشاں ستارہ
تحریر:شہیدسید سعید حیدر زیدی
عراق کے شہر کاظمین میں پانچ ذیقعدہ ۳۵۳۱ہجری کے دن آیت اللہ سید حیدر صدرؒ کے یہاں ایک بچے کی ولادت ہوئی‘جس کا نام سید محمد باقر الصدر رکھاگیا۔ابھی یہ بچہ تین سال کا بھی نہیں ہواتھا کہ اِس کے والدآیت اللہ سید حیدر صدر جہانِ فانی سے دار ِبقا کی جانب سِدھار گئے‘اور یوں اِس بچے کی تعلیم و تربیت کی ذمے داری اِس کی والدہ اور بڑے بھائی سید اسماعیل صدر کے کاندھوں پر آپڑی‘اِس سلسلے میں اِس کے ماموں شیخ محمد رضا آلِ یٰسین اور شیخ مرتضیٰ آلِ یٰسین کی پُر شفقت آغوش بھی اِسے میسّر رہی۔
سید محمد باقر الصدر ؒبچپنے ہی سے اپنی خداداد ذہانت کی وجہ سے اپنے اساتذہ اور ہم جماعت (classfellow)بچوں کی توجہ کامرکز تھے۔اسکول انتظامیہ کی خواہش تھی کہ اِنھیں ذہین ترین بچوں کے اسکول منتقل کردیا جائے‘جہاں اِیسے بچوں کی تعلیم کے تمام اخراجات حکومت برداشت کرتی ہے اوربعد میں اِن بچوں کو اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکی اور یورپی درسگاہوں میں بھیجاجاتاہے۔لیکن خود باقر الصدرؒ علومِ دینی کے حصول کا شوق رکھتے تھے‘نیز اِن کی والدہ اور بڑے بھائی کی خواہش بھی یہی تھی۔آخرکار اپنے ماموؤں آیت اللہ شیخ محمد رضاآلِ یٰسین اور آیت اللہ شیخ مرتضیٰ آلِ یٰسین کی رہنمائی میں باقرالصدر ؒنے دینی علوم کی تحصیل کاآغاز کیا۔
شہید صدر ؒتیرہ سال کی عمر تک کاظمین ہی میں رہے اور وہاں اپنے بھائی سید اسماعیل صدر سے دینی علوم کی تحصیل کاآغاز کیا‘اور ابتدائی کتب نہایت محنت اور شوق کے ساتھ مختصر مدّت ہی میں پڑھ ڈالیں۔اِس کے بعد اعلیٰ دینی تعلیم کے حصول کے لیے آپ اپنے بڑے بھائی سید اسماعیل صدر کے ہمراہ عازمِ نجف ِ اشرف ہوئے‘اور وہاں دوسرے علما کے ساتھ ساتھ اپنے ماموں آیت اللہ شیخ محمد رضاآلِ یٰسین اور آیت اللہ سید ابوالقاسم خوئی کے محضرِ درس سے کسب ِ فیض کیا۔
شہید صدر ؒنے سالہاسال حدیث‘رجال‘کلام‘درایہ اور تفسیرکے علوم میں مطالعہ اور تحقیق کی‘اپنی انتہائی ذہانت کے باوجود آپ روزانہ سولہ گھنٹے مطالعے اور تحقیق میں مصروف رہاکرتے تھے۔خود ہمیشہ کہاکرتے تھے کہ:”میں کئی طلبا کے برابر محنت کرتا ہوں۔“اِسی شدید محنت کی بنا پر آپ علم وفضل کے اُس بلند مقام پر پہنچے کہ بہت سے لوگوں کے بقول آپ اپنے شرعی بلوغ کے وقت ہی سے مجتہد بن چکے تھے اور کسی اور مجتہد کی تقلید نہیں کرتے تھے۔ آیت اللہ محسن الحکیم کی رحلت کے بعدآپ کاشمار مراجعین میں کیا جانے لگا تھا۔
شہید ؒکی اجتماعی وسیاسی جدوجہد
۱۔ جماعۃ العلما‘نجف ِاشرف
سن ۸۵۹۱ء میں عراق پر عبدالکریم قاسم کی حکومت قائم ہوئی اور اُس نے وہاں کمیونسٹوں کے لیے میدان کھول دیا۔ اِ س کے نتیجے میں الحاداور اسلام مخالف لہر نے پورے عراق کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔اِن حالات نے چند باشعور اور صاحب ِایقان شیعہ علما کو حرکت اور جنبش پر ابھارا‘ اِن لوگوں نے اِس بات کی ضرورت محسوس کی کہ اسلام کو ایک اجتماعی‘ اقتصادی‘فکری اورسیاسی مکتب‘ مختصر یہ کہ ایک ”دین زندگی“ کے طور پر پیش کیاجائے۔ اِس سلسلے میں اِنھوں نے پہلا قدم ”جماعۃ العلما“ کی تشکیل کی صورت میں اٹھایا۔چوٹی کے علماو مجتہدین جیسے آیت اللہ شیخ مرتضی آلِ یٰسین‘آیت اللہ شیخ محمد رضا آلِ یٰسین‘ آیت اللہ شیخ محمد رضا المظفراور آیت اللہ شہید سید مہدی الحکیم اِس کے بنیادی اراکین تھے۔ اگرچہ شہید صدرؒ(اپنی کم عمری کی وجہ سے)”جماعۃ العلما“ کے رکن نہ تھے اوراِس کے بنیادی اراکین کی نسبت بہت کم سن تھے‘ لیکن اِس کے باوجود آپ درپردہ اِس کی قیادت اور رہنمائی کا فریضہ انجام دیتے تھے‘ اور اِس جماعت کا اوّلین اعلامیہ شہید صدرؒ ہی نے تحریر فرمایاتھا‘نیز اِس کا اکثر تحریری کام آپ ہی کے رشحات ِ قلم پر مبنی ہوتاتھا۔کیونکہ آپ کا قلم بہت قوی‘ آپ کی نثربہت مضبوط اورعصری افکار و اذہان سے ہم آہنگ تھی‘مزید یہ کہ ”جماعۃ العلما“ سے تعلق رکھنے والے دوسرے علما کی نسبت آپ زیادہ گہرے علم و آگہی کے بھی مالک تھے۔ ”جماعۃالعلما“ حکومت کی کفر آمیز حرکتوں سے مقابلے کے لیے مکتبی مؤقف کا اظہار کرتی‘ بیانات اورا علامیوں کااجرا کرتی‘ تبادلہ خیال کی محافل منعقد کرتی اور علمی‘ اعتقادی اور سیاسی جرائد شائع کرتی۔ ”جماعۃ العلما“ کی نمایاں ترین سرگرمی ۱۶۹۱ء میں ”الاضواء“ کے نام سے ایک مجلے کا اجرا تھا‘ جس کے پہلے پانچ شماروں کے اداریے ”رسالتنا“ کے عنوان سے شہیدصدرؒ نے تحریر کیے‘اِس کے بعد ”کلمتنا“ کے عنوان سے آیت اللہ سید محمد حسین فضل اللہ ؒ نے کئی برس تک اِس مجلے میں اداریے تحریر کیے۔ عراق میں کمیونسٹ افکار کی ترویج کے نتیجے میں بہت سے جوان کمیونسٹ افکار اور نعروں کے فریب میں آ کر اِس کی جانب راغب ہو گئے۔ کمیونسٹ عراق میں شیعوں کے جذبات سے فائدہ اٹھانے کی خاطر یہ پروپیگنڈا کیا کرتے تھے کہ حضرت علی ؑکمزور اور غریب عوام کے طرفدار تھے‘آپ ؑمعاشرے میں مساوات برقرار کرنا چاہتے تھے‘ ہم بھی یہی چاہتے ہیں‘ اور اِس طرح اُن کے مقاصد اور افکار کے سچے پیروکار ہم ہی ہیں۔وہ اِس فریب کے ذریعے مسلمان جوانوں کے اذہان اپنی جانب مائل کر رہے تھے۔ اِس صورتحال کے تدارک کے لیے آیت اللہ سیدمحسن الحکیم ؒنے علمی‘ تحقیقی‘ استدلالی اور جدید اسلوب میں ایک ایسی کتاب کی ضرورت محسوس کی جس میں درست اسلامی افکار پیش کرتے ہوئے کفر آمیز اور گمراہ کن کمیونزم اور سوشلزم کو مسترد کیاجائے۔ اِنھوں نے اِس کام کے لیے شہید صدرؒ کے سوا کسی اورکو موزوں نہ سمجھا‘ جبکہ اُس وقت اُن کی عمر محض ۵۲برس تھی۔ لہٰذاآیت اللہ محسن الحکیم ؒ نے اپنے فرزند شہیدآیت اللہ مہدی الحکیمؒ کے توسط سے شہید صدرؒ کو پیغام بھیجا کہ وہ اِس طرح کی ایک کتاب تحریر کریں۔ شہید صدر ؒنے اِس تجویز سے اتفاق کیا اور ”جماعۃ العلما“کی سرگرمیوں میں شدید مصروفیت کے باوجود بے مثال کتاب ”فلسفتنا“ تحریر کی۔ ”فلسفتنا“ سے فارغ ہونے کے بعد شہید صدرؒ نے مشرق و مغرب کے اقتصادی نظاموں پر تحقیق اور اُن کا علمی جائزہ لیتے ہوئے اسلام کے اقتصادی نظام کو متعارف کرایا۔ اِس مطالعے اور تحقیق کا حاصل آپ کی شہرہئ آفاق کتاب ”اقتصادنا“ کی صورت میں برآمد ہوا۔
۲۔حزب الدعوۃ الاسلامیۃ کی تاسیس
شہید صدرؒ نے اُس زمانے کے سیاسی حالات کے پیش نظر ”حزب الدعوۃ الاسلامیۃ“ کے نام سے ایک سیاسی جماعت کی تشکیل کا فیصلہ کیا۔اگر اُس دور کے حوزہئ علمیہ نجف ِ اشرف کی سیاسی سطحِ فکری کوسامنے رکھا جائے‘تو شہید صدرؒ کا یہ اقدام آپ کے گہرے سیاسی شعور کا عکاس ہے۔ ربیع الاوّل ۷۷۳۱ہجری میں انتہائی مشکلات کے باوجود آیت اللہ شہید سید محمدباقر الصدر‘ شہید سید مہدی الحکیم‘شیخ مہدی سماوی‘ شیخ عبدالہادی فضلی اور سید طالب رفاعی کی ہمت و تعاون سے اِس جماعت کی بنیاد رکھی گئی۔ یہ حضرات اِس جماعت کے بنیادی اراکین تھے۔شہید صدرؒ نے اسلامی تعلیمات کی بنیاد پر اِس جماعت کا منشور تیار کیا‘اور اِس کے مقاصد اور اقدامات درجِ ذیل ۴ نکات کی صورت میں پیش کیے: ۱۔افراد ِ قوم میں فکری انقلاب پیدا کرنا‘ اور ایسے افراد کی تربیت کرنا جو فکری انقلاب کی ذمے داری اپنے کاندھوں پر اٹھا سکیں۔ ۲۔ سیاسی جدوجہدکاآغاز۔ ۳۔ مرجعیت کی قیادت میں قدرت کا حصول اور حکومت ِاسلامی کا قیام۔ ۴۔قدرت کے حصول اور حکومت ِ اسلامی کی تشکیل کے بعد اسلام اور امت ِاسلامیہ کے مفادات کا تحفظ۔
اسلام‘شہید صدرؒ کی نظر میں
شہید صدرؒ اِس بات کے معتقد تھے کہ اسلام انسانوں کی دنیا اور آخرت سنوارنے کے لیے آیاہے۔اسلام دنیا اور آخرت کو جدا جدا نہیں سمجھتا۔آپ کی نظر میں دین کا دائرہ انتہائی وسیع ہے اور یہ انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے تمام شعبوں پر محیط ہے۔آپ کاکہناہے کہ:
”مغربی فکر کے اسیر افراداپنے بد سیرت آقاؤں کی پیروی میں کہتے ہیں کہ:”اسلام انسانوں کے فقط روحانی تقاضوں کا جواب دیتا ہے‘اُن کی اجتماعی اور اقتصادی مشکلات کاحل پیش نہیں کرتا۔اسلام فقط ایک عقیدے پر مبنی ہے جو خدا اور انسان کے تعلق تک منحصرہے۔لہٰذا دستور ِ حیات کی تشکیل کے لیے ایک اور فکر کی ضرورت ہے‘ اور انقلاب کے لیے کسی اور رہنما کی پیروی درکار ہے۔“لیکن اِن کے بے بنیاد گمان کے برخلاف‘اسلام کی بنیاد ایک ایسا تحول اور انقلاب ہے جو زندگی اور عقیدے کے درمیان کسی سرحد کاقائل نہیں‘اور جو اجتماعی پہلوؤں کو فکری نظام سے جدانہیں کرتا۔“
شہید صدر ؒاسلام کو ایک ایسے نظام کاحامل سمجھتے ہیں جو انسانی حیات میں نظم ونسق کے قیام کی صلاحیت رکھتاہے۔آپ فرماتے ہیں:
”اسلام اپنی گہرائی میں ایک زندہ عقیدہ‘زندگی کے لیے ایک کامل نظام اور تربیت اور سوچ بچار کی ایک مخصوص روش ہے
ایک اور مقام پر آپ فرماتے ہیں:
”اسلام انسانی زندگی کا نظم ونسق چلانے کی صلاحیت کا حامل اور اِس کے مختلف شعبوں کی تنظیم کے لیے دائمی زندہ اور عملی منصوبوں کامالک ہے۔“
آپ احکامِ شریعت کا مقصد اجتماعی زندگی کو نظم وترتیب میں لاناقرار دیتے ہیں‘اور حکمِ شرعی کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ:
”حکمِ شرعی ایک ایسا قانون ہے جو انسانی زندگی کے روابط وتعلقات کی تنظیم اور اُسے منظم کرنے کے لیے خدا کی طرف سے صادر ہواہے۔“
شہید صدرؒایک مسلمان کو پوری دنیا میں اسلام کی ترویج اور اعلائے کلمہئ حق کا ذمے دار قرار دیتے ہیں۔آپ کے خیال میں مرد ِ مسلماں کادل پورے عالمِ اسلام کے لیے دھڑکنا چاہیے‘اسلام کے بارے میں اُس کی آرزوئیں کسی جغرافیائی سرحد تک محدود نہیں ہونی چاہئیں۔لہٰذا فرماتے ہیں:
”میں اِس وقت انتہائی درجے کا رنج والم محسوس کررہا ہوں‘کیونکہ عراق کو کمیونزم کے خطرے کا سامناہے… لیکن اگر میرا یہ دکھ خدا کے لیے ہو‘اور میری آرزو ہو کہ زمین پر صرف خداکی عبادت کی جائے اور لوگ گروہ در گروہ دین سے خارج نہ ہوں‘تو اِس صورت میں مجھے عراق‘ایران‘پاکستان یاعالمِ اسلام کے کسی بھی ملک میں اسلام کو درپیش خطرے کے مقابل بغیر کسی فرق کے اِسی طرح غم واندوہ‘جوش وجذبے کامظاہرہ کرنا چاہیے۔“
آپ کی شہادت
شہید صدر ؒ کو اُن کی تحریکی زندگی اور سیاسی جدوجہد کے دوران کئی مرتبہ قید وبند کی صعوبتوں کا سامناکرنا پڑا۔ایک موقع پر جبکہ آپ کو اپنے ہی گھر میں نظربندکیاگیا تھا‘حکومتی ایجنسیوں کے بعض افراد آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے کہا کہ:صدام آپ کی نظربندی ختم کرنا چاہتا ہے‘ بشرطیکہ آپ اِن شرائط میں سے کم ازکم ایک پر عمل کریں‘ بصورت ِ دیگر سزائے موت کے لیے تیار ہو جائیں۔ پہلی شرط یہ ہے کہ:ایران کے اسلامی انقلاب اور امام خمینیؒ کی تائید وحمایت سے دستبرداری کااعلان کریں۔دوسری شرط یہ ہے کہ ایک بیان کے ذریعے ہمارے مؤقف کی حمایت کااعلان کریں‘اور اِس کے عوض بعث پارٹی بھی آپ کی حمایت کرے گی۔تیسری شرط یہ ہے کہ حزب الدعوۃ الاسلامیۃ کی رکنیت اختیارکرنے کو حرام قراردیں۔چوتھی شرط یہ ہے کہ بعث پارٹی کی رکنیت اختیار کرنے کے حرام ہونے کے اپنے فتوے کو واپس لیں اور بعث پارٹی کی رکنیت جائز ہونے کا فتویٰ دیں۔پانچویں شرط یہ ہے کہ ملکی اور غیرملکی ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو جمع کیجیے تاکہ وہ فقہی مسائل کے بارے میں آپ سے سوال کریں۔
لیکن آپ نے اِن تمام شرائط کو مسترد کردیا‘اور اِن میں سے کسی ایک پر بھی عمل پرتیارنہ ہوئے۔اِس واقعے کے کچھ دن بعد ۹۱جمادی الاوّل سن ۰۰۴۱ہجری کے دن آپ کو گرفتارکرکے بغداد منتقل کردیاگیا۔وہاں عراقی خفیہ پولیس کے سربراہ اور صدام کے سوتیلے بھائی برزن ابراہیم‘جو برزن تکریتی کے نام سے مشہور تھانے خود شہید صدرؒ سے باز پُرس کی‘ اُنھیں مار ڈالنے کی دھمکی دی اور شہید صدرؒ سے کہاکہ اگروہ امام خمینیؒ اور ایران کے اسلامی انقلاب کے خلاف فقط چند کلمات لکھ دیں‘تو یقینی موت سے بچ سکتے ہیں۔لیکن شہید صدر ؒنے دوٹوک الفاظ میں اُس کا یہ مطالبہ ماننے سے انکار کردیا۔اور آخرکار تین دن تک مسلسل بے رحمانہ اذیتیں جھیلنے کے بعد ۲۲جمادی الاوّل مطابق ۹اپریل۰۸۹۱ء کے دن آپ نے جامِ شادت نوش کیا۔