اہل بیت سے وابستگی شہید صدر کی نظر میں
شیخ ترس علی حسینی نجفی
قال اللہ تبارک و تعالیٰ:
الذین یبلّغون رسالات اللہ و یخشونہ ولا یخشون احدا الاّ اللّہ وکفیٰ باللہ حسیبا۔(سورہ احزاب۔۹۳)
زمانے کی کشمکش اور اسکے پیچ وخم میں اکثر لوگ اپنے فرائض و مسؤلیت سے غافل ہوجاتے ہیں۔ انہیں اپنے فرائض کی طرف بلانے اور بیدار رکھنے کے لئے ہر دور میں ایسے بیدار اور اپنے زمانے کے حالات سے آگاہی رکھنے والی شخصیات کی ضرورت ہیں۔ جو ہمیشہ دین الٰہی سے وابستگی کے تقاضوں سے دنیا کو آشنا کرتے رہتے ہیں۔اس امر کی طرف حضرت امام صادق علیہ السلام اشارہ فرما رہے ہیں:
ان فینا لکل خلف عدولا ینفون عنہ تحریف الغالین و انتحال المبطلین و تاویل الجاھلین۔
ہم اہل بیت علیہم السلام سے تعلق رکھنے والے ہر دور میں ایسے عادل لوگ موجود رہے ہیں جو غالیوں کی تحریف اور باطل پرست لوگوں کی دین میں ملاوٹ اور جاہل طبقہ کی غلط سلط تاویلوں سے دین کو محفوظ رکھتے ہیں۔(تحف العقول)
اسی دین کے علمبرداروں میں سے ایک عظیم شخصیت، سیدمحمد باقر الصدر رحمۃ اللہ علیہبھی ہے جس نے صرف زندگی ہی میں نہیں بلکہ اپنے خون سے اس دین کی وہ آبیاری کی جس سے رہتی دنیا تک تشنگان حق وحقیقت سیراب ہوتے رہیں گے۔۔
شہیدصدر ؒ کےفرامین کی روشنی میں اگر اہل بیت علیہم السلام سے وابستگی کے تقاضوں کی فہرست نکالی جائے تو کئی صفحات درکار ہیں لیکن انتہائی مختصر طور ہم صرف ایک ہی تقاضے کے اوپر ان کے نورانی کلمات سے چیدہ چیدہ نکات پیش کریں گے۔
ان میں سے سب سے اہم اور عظیم تقاضہ،اطاعت اہل بیت علیہم السلام ہے۔اور اہل بیت علیہم السلام کے حق میں کیا جانے والاسنگین ظلم بھی ان کی نافرمانی ہے اگرچہ ان کے دشمنوں کے بارے میں بڑی شدومد کیساتھ اس کا تذکرہ کیا جاتا ہے مگر موضوع پرکبھی خود ان کے دوستوں،محبوں اور دردمندوں کا کردار نہیں بیان ہوتاکہ انہوں نے کس طرح اس میدان میں غفلت اور چشم پوشی سے کام لیتے ہوئے ہمیشہ ہر کام کی مکمل ذمہ داری مد مقابل فریق کو ہی قرار دیا ہے!!!!
ذرا سوچئے!!
جس کے ہزاروں لاکھوں محب ہوں، دوستداراور ہمدرد ہوں،وہ کیوں اکیلا و تنہا دشت کربلا میں مارا جاتا ہے؟!!!!
اس وقت یہ لوگ کہاں میدان سے غائب ہو گئے جب امام موسیٰ کاظم علیہ السلام طویل قید و بند کی کشمکش میں زیر عتاب رہے اورکوئی ان کا پُرسان حال تک نہیں تھا؟!!!!
بہرحال یہ ایک طویل داستان غم ہے جس میں لاکھوں ایسے رازسربستہ ہیں جنہیں دیکھنے اور اسے اپنے فہم و شعور سے محسوس کرنے والا اس میدان میں خود کواکیلا و تنہا پاتا ہے۔ اورگلوگیر پھندوں کی وجہ سے اس کاسانس تک لینا مشکل ہو جاتا ہے!!!
اسی رنج والم کے بارے میں شہید صدر ؒ ان کے اسباب سے پردہ اٹھاتے رہے اور اس کے علاج سے آگاہ فرماتے رہے۔ اسی لئے آپ نے ایک سبب امامت کے مفاہیم سے درست معرفت اور آگاہی کا نہ ہونا بیان فرمایا ہے۔ اس بارے میں شہیدؒ یوں فرماتے ہیں:
*ان امامۃ اہل البیت علیہم السلام والامام علی علیہ السلام تعتبر عن مرجعیتین، احدٰھما المرجعیۃ فی العمل الفکری والاخریٰ المرجعیۃ فی العمل القیادی والاجتماعی۔وکلتا المرجعیتین کانتاتتمثلان فی شخص النبی الاکرم و الامتداد الصالح لہ لتحمل کلتا المرجعتین۔لکی تقوم المرجعیۃالفکریۃ بملء الفراغات الّتیقد تواجھا ذھنیۃ المسلمین و تقدیم المفھوم المناسب من جھۃالنظر الاسلامیۃفیما یستجدّمن قضایا الفکر والحیاۃ،و تفسیر ما یشکل ویغمض من معطیات الکتاب الکریم الّذی یشکّل المصدر الاوّل للمرجعیۃ الفکریۃ فی الاسلام۔و لکی تقوم المرجعیۃالقیادیۃو الاجتماعیۃبمواصلۃالمسیرۃ و قیادۃ المسیرۃالاسلامیۃ فی خطّھاالاجتماعی۔۔۔۔۔*
*(نشاءۃ التشیع والشیعۃ ص ۸۳)*
سید فرماتے ہیں کہ:
امامت اہل بیت علیہم السلام اور امامت علی علیہ السلام دو مقامات پر ان کی مرجعیت کا نام ہے ایک معرفت و فکر کے مقام پر اور دوسرا اجتماعی اور سیاسی امور میں ان کی قیادت و رہبری ہے اور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی سیرت مبارکہ ان دونوں مرجعیتوں کی ترجمانی کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔اور آپ کی مسلسل کوشش اسی صالح مقام و مرتبہ کی محافظ رہی ہے تاکہ عالم اسلامی میں معرفت کے باب میں صالح اور معصوم اور اللہ سے واصل مرجعیت قائم ہو جائے تاکہ مسلمانوں کی ذہنیت کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیں مناسب مفہوم معرفت میسر رہے اور خصوصا کتاب خدا جو اس معرفت کا اولین مصدر ہے،اس میں مشکلات اوراشکالات کا حل پیش کیا جاتا رہے۔اور دوسری مرجعیت قیادی بھی اسی معرفت اور شعور کے سائے میں پروان چڑھے، تاکہ اسلام اپنے فطری عمل میں ان دونوں راستوں کی رہنمائی فرماتا ہوا نظرآئے۔
اس مقام پر آپ واضح طور امامت کا مفہوم، امت اسلامی اور بالخصوص تشیع کے سامنے یہی رکھ رہے ہیں کہ ان کی اطاعت اور ان سے تمسّک کا میدان وسیع اور اسلام کے تمام پہلووں کو شامل کرتا۔ہے۔خصوصا امت اسی دوسری مرجعیت وقیادت سے جب منہ موڑتی ہے تو پہلی مرجعیت سے خود بخود محروم ہوجاتی ہے۔
ایک دوسرے مقام پر آپ اہل بیت علیہم السلام کی قیادت کی مرکزیت،محوریت اور وسعت بیان کرتے ہوئے یوں بیان فرماتے ہیں:
*الحقیقۃ ان التشیع لم یکن فی یوم من الایام منذ ولادتۃمجرّد اتّجاہ روحی بحت وانّما ولد التشیع فی احضان الاسلام بوصفہ اطروحۃمواصلۃالامام علی علیہ السلام للقیادۃ بعد النبی الاکرم(ص) فکریا واجتماعیا و سیاسیا علیٰ السواء۔و لیس من الممکن ان نتصور تنازل الائمّۃعلیہم السلام عن الجانب السیاسی الاّ اذاتناذلوا عن التشیع*
*(نشاءۃ التشیع والشیعۃ ص ۳۹)*
حقیقت یہ ہے کہ تشیع اپنے ابتدائی ایام ہی سے کسی دن بھی فقط محض ایک عقیدہ نہیں تھا بلکہ اسلام کی آغوش میں تشیع،نبی اکرم ؐکے بعدامام علی علیہ السلام کی قیادت میں پیدا ہوئی ہے اور اس کی قیادت کی مرکزیت اور محوریت امام علیہ السلام کی فکری،سیاسی اور اجتماعی اساس پر قائم ہے۔اور یہ ممکن ہی نہیں کہ ائمہ علیہم السلام کو سیاست اور اجتماعی قیادت سے علیحدہ کیا جائے مگریہ کہ ان کو تشیع سے علیحدہ کیا جائے کیونکہ حقیقت تشیع یہی سیاسی اور اجتماعی اعتبار سے معاشرے کی تربیت کرناہے۔
لہٰذا اس ضمن میں آپ فرماتے ہیں کہ: ائمہ طاہرین علیہم السلام کی ولایت و قیادت کی وسعت کا تقاضا یہ ہےکہ امت کے تمام امورمیں ( چاہے وہ سیاسی ہوں یا انفرادی ہوں،) تربیت اصل مقصد ہے تو اس ولایت کی اتنی وسعت ہو تاکہ ولی کو تمام جہات سے امت کے اوپر سلطنت حاصل ہو اوریوں اس کی تربیت میں کسی خلل ونقص کا احتمال تک نہ ہو کیونکہ اگر مکمل سلطنت اور ولایت نہیں ہو گی تو تربیت میں خلل کا امکان موجودر ہے گا لیکن خدا وند کریم نے ان کو وسیع ولایت عطا کر کے یہ احتمال تک ختم کر دیا۔
مگر افسوس صد افسوس امت نے اس حق کی رعایت اور لاج نہیں رکھی اور جتنا اس حق ولایت کے اندر وسعت تھی اتنی جفا میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا اور مقام رہبری میں امت میں سے ایک طبقے نے راہیں ہی جدا کر لیں اور دوسرے طبقے نے بظاہر قبول تو کرلیا مگر مقام اطاعت میں لیت ولعل سے کام لیا اور یوں اہل بیت علیہم السلام تنہاکر دیے گئے اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ امت اسلام کے اصلی منبع تربیت سے دور ہو کر پھر جاہلیت سے ہمکنار ہوگئی اور بے شعوری نے ان کے معاشرے میں ایسے مضبوط ڈیرے ڈالے کہ نسل در نسل گمراہی میں جیتے رہے اورگمراہ ہو کر اس دنیا سے چل دینے کاتسلسل چلتا رہا۔ اسی کی طرف امیر المومنین علیہ السلام یوں پردہ اٹھا تے ہیں:
*اللہم اشکو الیک من معشر یعیشون جھالا ویموتون ضلالا لیس فیہم سلعۃ ابور من الکتاب اذا تلی حق تلاوتہ ولا سلعۃ انفق بیعاولا اغلی ثمنامن الکتاب اذا حرّف عن مواضعہ ولا عند ہم انکر من المعروف ولا اعرف من المنکر۔*
*(نہج لبلاغۃ خ ۷۱ ص ۸۵)*
اے میرے پروردگار میں تیری بارگاہ میں اس معاشرے کے بارے میں شکایت کرتا ہوں جس میں لوگ جہالت کی زندگی گزارتے ہیں اور گمراہی میں مر جاتے ہیں۔
اس معاشرے کی ایک علامت یہ ہے کہ ان کے درمیان سب سے زیادہ بے ارزش اور بے قیمت چیز کتاب خدا ہے۔جب مقام ہدایت پر رکھ کر اس کو پڑھا جائے اور سب سے زیادہ قیمتی اور مہنگی چیز بھی کتاب خداہے جب اس کو اپنے مقام ہدایت سے ہٹاکراسے دنیا کمانے کے لئے پڑھا جائے۔اور اس کی دوسری علامت یہ ہے کہ ان کے ہاں اچھائی سے بڑھ کوئی بڑی برائی نہیں ہے اور برائی سے زیادہ کوئی بڑی اچھائی نہیں ہے۔