قومی تحریک کی بنیادی شرط(1)
شہید رابع آیت اللہ العظمیٰ شہید سید محمدباقر الصدرؒ
ترجمہ: علامہ رضی جعفر نقوی
کسی بھی قوم وملت کے اندر،قومی تحریک کے لئے بنیادی شرط یہ ہے کہ اس کے پاس ایسی صالح اور معقول ومستحکم بنیاد موجود ہو جو اس کے اغراض ومقاصد کو بھی معین کرے،اس کے لئے اعلیٰ نمونے بھی پیش کرے اور اس کی زندگی کا رخ بھی واضح کرے جس کی روشنی میں وہ اپنے عقیدے کے مطابق پورے اعتماد کے ساتھ، اپنے مشن کی تکمیل کے لئے اس طرح سفر جاری رکھ سکے کہ اسے اپنے راستے کے بارے میں اطمینان بھی ہو اور، جن اغراض ومقاصد اور جن اقدار کو اس نے اپنے فکری وجود اور ایمانی ووجدانی قوت سے معین کیا ہے،ان کی طرف پیشرفت بھی کرسکے۔
اور جب ہم یہ کہتے ہیں کہ:
”قوم کے اندر ایک صالح اور مستحکم بنیاد موجود ہونی چاہیے۔“
تو ہمارا مقصد یہ ہوتا ہے کہ:
۱۔ قوم کے اندر ایک مستحکم(فکری) بنیاد موجود ہو۔
۲۔ قوم اس (فکری) بنیاد کو سمجھتی ہو۔
۳۔ اور اس پر پورا یقین بھی رکھتی ہو۔
کیونکہ اگر قوم وملت کے اندر یہ تینوں باتیں جمع ہوجائیں۔ یعنی اس کے پاس مستحکم بنیاد بھی موجود بھی ہو اور اس بنیاد کی صداقت پر یقین بھی ہو،تو یہ امکان پیدا ہوجائے گا کہ؎ وہ اپنے لئے حقیقی اور سچی تحریک ایجاد کر سکے۔
اور اس بنیاد کے پیش نظر وہ اپنی زندگی میں ایک مکمل اور ہمہ گیر انقلاب لاسکے۔
کیونکہ خدا وندعالم کسی قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک کہ وہ قوم خود کو نہ بدل ڈالے۔جیسا کہ قرآن مجید نے اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔(سورہ رعد۔آیت۔۱۱)
اور ہماری معزز اور لائق احترام امت اسلامیہ در حقیقت اپنی تعمیری بیداری کی تحریک کے ضروری عناصر میں سے صرف ایک عنصر سے محروم نظر آتی ہے۔
کیونکہ اسلام جیسے عظیم الشان،ابدی اور آفاقی دین کی شکل میں اس کے پاس ایک ایسی صحیح بنیاد موجود ہے جو رہتی دنیا تک باقی بھی رہنے والی ہے
اور اس میں فکری قیادت کی ذمہ داریاں سنبھالنے کی بھر پور صلاحیت بھی موجود ہے۔
یہ واحد دین ہے جو…..
قوم کو مثالی زندگی کی طرف توجہ دلانے…..
اس کی رہنمائی کرنے؛
اورا سے موجودہ بدحالی سے نکال کر اقوام عالم کے درمیان ترقی کے نقطہ ارتقاء تک پہنچانے کی استعداد بھی رکھتا ہے۔
اور پوری امت مسلمہ کو اس اساس وبنیاد پر یقین بھی ہے اور امت اپنے دین وعقیدہ کے طور پر اس اساس وبنیاد کا احترام بھی کرتی ہے۔
البتہ، یہ کہا جاسکتا ہے کہ،
اکثر مسلمانوں کا ایمان کمزور ہے…..
اور زیادہ تر لوگ دین کا نہایت ہی محدود تصور رکھتے ہیں۔
جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ آفاقی اور عمومی سطح پر قوم وملت کے اندر اس فکری بنیاد کا شعور نہیں ہے، اور اس لحاظ سے تین بنیادی عناصر میں تیسرا نہایت اہم عنصر یا تومفقود ہے یا نہایت ہی کمزور۔
قوم وملت،دین اسلام پر اجمالی طور سے ایمان تو رکھتی ہے لیکن اس کی آفاقیت،وسعت اور اس کے ہمہ گیر مفہوم کا ادراک نہیں رکھتی۔
یہ فکری تضاد،ابتدائی طور سے تو بہت عجیب نظر آتا ہے کہ کوئی قوم اپنے مذہب پر ایمان بھی رکھتی ہو،دین سے محبت بھی کرتی ہو، لیکن اسے صحیح طور سے سمجھتی نہ ہو۔ اور اس کے اقدار ومفاہیم اور احکام وحقائق کی بہت کم معرفت رکھتی ہو۔
لیکن تعجب خیز ہونے کے باوجود،حقیقی صورت حال یہی ہے۔
کیونکہ جب سے اسلام کے تاریخی دشمنوں…..
یعنی صلیبی سامراجیوں (اور صہیونیوں وغیرہ) نے کبھی مخفی طور سے اور کبھی ظاہربظاہر،امت مسلمہ کے خلاف مجرمانہ سازشیں شروع کی ہیں اور اپنے تمام وسائل اس مقصد کے لئے استعمال کرنا شروع کئے ہیں کہ مسلمانوں کو اس کے دین ومذہب سے دور رکھا جائے اس وقت سے امت،دین کے اجتماعی شعور سے محروم ہوتی جارہی ہے۔
اور درحقیقت یہ وہ ہولناک سازش تھی جس نے امت مسلمہ کے وجود پر یلغار کردی اور آخر میں سامراجی طاقتوں نے اسلامی ممالک پر مسلح حملے کر کے ان کی قوت و شوکت کا جنازہ نکال دیا۔
ان حملہ آوروں کے نزدیک اسلامی سلطنت کو ختم کرنے کے بعد صرف یہی مقصد باقی رہ گیا تھا کہ….
قوم کو اس کے دینی و مذہبی تصورات سے دور کردیا جائے۔
چنانچہ قوم و ملت کومذہبی شعور سے دور کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا گیا.۔۔تاکہ:
- نہ ایمانی حرارت باقی رہے نہ دین کی فہم۔
کیونکہ مذہبی شعور و احساس کو کمزور کر دینے کے بعد مغربی سامراج کے لئے اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل آسان ہوجاتی ہے۔
چونکہ اسلام کی حقانیت پر ایمان اور اس سے جذباتی وابستگی (مسلمانوں کے ذہنوں میں) سامراجی طاقتوں کے اندازوں کی بہ نسبت زیادہ قوی تھی، اس لئے عقیدہ تو باقی رہ گیا اور مغربی یلغار (مسلمانوں سے کفر و الحاد کا اعلان کرانے میں) زیادہ کامیاب نہ ہوسکی۔
البتہ قوم کے اندر چونکہ مذہبی شعور ناپختہ اور دین کے تصورات و حقائق کا ادراک کمزور تھا اس لئے سامراجی طاقتیں امت مسلمہ کو…
دینی شعور و احساس سے محروم کرنے میں کامیاب ہوگئیں۔
چنانچہ ان طاقتوں نے امت کے ذہن سے اسلامی بیداری کو ختم کرنے او اس کی ایمانی روشنی پر پردہ ڈالنے کے لئے ہر ممکن طریقہ اختیار کیا اور ہر وسیلہ اپنا یا اسلام کے عظیم الشان روشن و درخشندہ چہرے پر گردو غبار ڈالنے کے لئے سامراجی طاقتوں نے جا بجا اپنے افکار و نظریات کے بیج بوئے۔
اس طرح امت اسلامیہ جس کے ذہن میں اسلامی تعلیمات کی واضح معرفت موجود نہیں تھی یا جو اسلام کو صرف اتنا ہی پہچانتی تھی جتنا سامراجی طاقتوں نے اسے توڑ مروڑ کر پیش کیا تھا (وہ اس پروپیگنڈے سے بری طرح متاثر ہوئی) جس کے نتیجے میں ہمارے قومی و ملی وجود میں حیرت انگیز تناقض و تضاد پیدا ہوگیا۔
کہ مسلمان اسلام کی حقانیت پر یقین تو رکھتے ہیں….
لیکن اسے مکمل اور صحیح طریقے سے سمجھتے نہیں ہیں!
یہ فطری بات ہے کہ جب مذہبی بیداری کمزور ہوجائے اور اسلام کی سچی اور روشن تصویر نگاہوں سے اوجھل ہو تو ایمان کے روحانی اور وجدانی مراتب بھی (دل میں) کم ہوجائیں گے اور بہت سی پرجوش ایمانی حرارتوں سے محرومی بھی پیدا ہوجائے گی۔
لہٰذا وہ قوم جس کے پاس ایک صحیح دین بھی موجود ہے جس پر وہ ایمان بھی رکھتی ہے۔ اس کے لئے آج کی بنیادی ضرورت یہ ہے کہ….
وہ اپنے دین کو صحیح طور پر سمجھنے کی کوشش کرے….
اسلامی حقائق کے ذریعہ ذہن کو بیدار کرے….
اور اس کے لازوال خزانوں سے اپنی فکر کو مزین کرے تاکہ اسلامی تصورات قوم کے وجود اور اس کے افکار و خیالات پر حاوی ہوجائیں اور اس کے بنیادی و حقیقی محرک بن جائیں۔ جب ہی وہ ایک سچی ہمہ گیر تحریک کی طرف امانتداری سے رہنمائی کر سکیں گے۔
اس بنا پر (ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ) اسلامی مقاصد کو ہمہ گیر سطح پر سمجھنا، اس کے لئے جد و جہد کرنا، پوری قوم کے لئے ایک ایسی بنیادی ضرورت ہے کہ اس کے بغیر ملت اپنی تحریک (اور اپنے وجود) کی بنیادی شرط کو پورا نہیں کر سکتی!![simple_tooltip content=’This is the content for the tooltip bubble’]This triggers the tooltip[/simple_tooltip]
بشکریہ: رسالت حوزہ شمارہ:۱: محرم۔ربیو الاول ۵۳۴۱ھ